
امام زین العابدینؑ کا بہترین طرز زندگی
تحریر: مولانا محمد علی صاحب۔ طالب علم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم ایران
فهرست مندرجات
امام زین العابدینؑ کا بہترین طرز زندگی
امام زین العابدینؑ کی ولادت باسعادت
ب: آپ کا طرز زندگی دوستوں کے ساتھ
ھ۔آپ کا حیوانوں کےساتھ نیک سلوک
امام زین العابدینؑ کی ولادت باسعادت
مؤرخین اور سیرت نگاروں کے درمیان امام علی بن الحسین (علیہ السلام) کی پیدائش کی تاریخ پر اختلافِ نظر ہے۔ بعض نے پانچویں شعبان، بعض نے ساتویں، بعض نے نویں شعبان اور بعض نے جمادی الاول کی پندرہویں تاریخ کو آپ کی ولادت کا دن قرار دیا ہے۔ شیخ مفید نے کتاب “مسار الشیعہ” میں جمادی الاول کی پندرہویں تاریخ کو آپ کی پیدائش کا دن بتایا ہے اور اس دن کی عظمت و بزرگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے:
«و ہو یومٌ شریفٌ، یُستحبُّ فیہ الصیامُ و التطوّعُ بالخیرات» (یعنی یہ ایک مقدس دن ہے، جس میں روزہ رکھنا اور نیکیوں کا تبرّع کرنا مستحب ہے)۔
اسی طرح بعض مؤرخین نے آپ کی پیدائش کا سال 38 ہجری، بعض نے 36 ہجری اور بعض دیگر نے 37 ہجری قمری لکھا ہے۔(مناقب آل ابیطالبؑ، ابن شهر آشوب، ج ۳، ص ۳۱۰؛ وصول الاخبار ،بهایی عاملی)، ص ۴۲؛ بحارالانوار، علامه مجلسی، ج ۶۴، ص ۱۲؛ منتهی الآمال،شیخ عباس قمی، ج ۲، ص ۱)۔ تاہم شیعہ کے درمیان مشہور و معروف رائے یہ ہے کہ آپ کی ولادت 5 شعبان 38 ہجری کو ہوئی۔
حضرت امام سجادؑ کی پیدائش کی جگہ کے بارے میں بھی اکثر شیعہ علماء، مدینہ کو آپ کی ولادت گاہ سمجھتے ہیں۔(مسند الامام السجادؑ، ج۱، ص۵-۸) لیکن شیخ باقر شریف قرشی کا خیال ہے کہ آپ کی پیدائش کوفہ میں ہوئی تھی، اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سجادؑکی پیدائش آپ کے دادا حضرت علیؑ کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی، اور اس زمانے میں امام حسینؑ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔(تحلیلى از زندگانى امام سجاد علیه السلام، ج۱، ص۵۳)۔
آپ کے والد ماجدا امام حسینؑ اور والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو تھیں، جو ایران کے آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں(الارشاد،شیخ مفید، ص۴۹۲؛ منتهی الآمال، ج ۲، ص ۳)۔ اسی طرح آپ کا نسب رسول اللہؐ سےبھی ہے۔ آپ شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔ آپ کا نام علیؑ بن الحسینؑ، کنیت ابومحمد اور مشہور القابات زین العابدین (عبادت گزاروں کی زینت) اور سید الساجدین (سجدہ کرنے والوں کے سردار) ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کے 35 سال امامت کے فرائض انجام دئیے۔
واقعہ کربلا میں شدید بیمار ہونے کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہ لے سکے، لیکن اس کے بعد آپ کو اسیر بنا کر کوفہ اور شام لے جایا گیا، جہاں آپ کے خطبات نے اہل بیتؑ کے مقام و منزلت کو لوگوں پر واضح کیا۔یہ مختصر سا آپ کا تعارف تھا ۔
آپؑ کا طرز زندگی حضرت رسول خدا ؐ کے چوتھے جانشین اورچوتھے امام ہونےکی وجہ سے ہم سب کے لئے حجت اور نمونہ عمل ہے ۔
اگر آپؑ کی زندگی کے بارے میں مفصل تحریر کیا جائے تو بہت سی کتابوں کی درکار ہوگی لیکن یہاں اس مختصرمضمون میں آپ کی زندگی کے کچھ اہم پہلوؤں کا ذکر کیا جارہا ہے:
الف: آپ کا طرززندگی خداکےساتھ
حضرت امام زین العابدینؑ کے طرز زندگی کی سب سے نمایاں خصوصیت آپ نے معرفت خدا اور عبادت خدا کے ساتھ بہترین زندگی گزاری اور اپنے عمل اور اپنے اقوال و احادیث، خاص طور پر دعاؤں کی شکل میں چاہنے والوں کے لئے بہترین سرمایہ چھوڑا۔
۱۔ خدا کی معرفت
حضرت امام سجادؑ کی معرفت اور عبادت کا اندازہ آپ کی دعاؤں کے مجموعہ صحیفہ سجادیہ سے معلوم ہوتاہے۔ یہ دعاؤں اور مناجات کا عظیم مجموعہ ہے ۔ یہ دعاؤں کا مجموعہ امام سجادؑ کے عرفانی، معرفتی اور روحانی افکار کا روشن آئینہ ہے۔ اسی وجہ سے اسے “زبورِ آلِ محمدؐ” بھی کہا جاتا ہے۔ جو شخص اس صحیفہ کا مطالعہ کرے، وہ امام سجادؑ کی بامقصد، آگاهانہ اور عمیق عبادت کی عظمت کو محسوس کر سکتا ہے۔
اسی طرح رسالہ حقوق بھی ہے جس میں آپ نے لوگوں کے آپسی حقوق اور بندوں پر خدا کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ یہاں وہ حقوق جن کے طرف تمام بندگان خدا کو متوجہ رہنا چاہئے ان کا ذکر کیا جارہا ہے۔ ان حقوق کے مطالعہ سےامام سجادؑ کی عظیم معرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امام فر ماتے ہیں:
“سب سے بڑا حق جو تم پر رکھا گیا ہے، وہ اللہ کا حق ہے۔ لازم ہے کہ تم اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو۔ اگر تم یہ عمل انجام دو تو خداوند سبحان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ تمہارے دنیاوی اور اخروی تمام امور کو سنبھال لے”۔
یہ بات ایک جملے میں کہی گئی ہے لیکن اس کا مفہوم لامحدود ہے۔ اگر بندہ شایستگی و صلاحیت پیدا کرے اور ریاکاری اور دکھاوے سے پاک نیت کے ساتھ خدا کی عبادت کرے تو خدائے علیم و قدیر اس کی پوری زندگی کی کفالت فرماتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا انجام بھلائی اور سعادت پر ہوگا”۔ (احمدی، حبیب اللہ، امام سجاد الگوی زندگی، نشرقم فاطمیا،سال ۱۳۸۲،ص۱۴۲)۔
۲۔ کثرت عبادت
حضرت امام سجادؑ کثرت عبادت کے لئے معروف و مشہور تھے، آپؑ کو “زین العابدین” اور “سید الساجدین” کے القابات بھی اسی وجہ سے ملے تھ۔ آپ کی عبادت کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے ہاتھ، گھٹنے اور پیشانی پر سجدوں کے نشان (ثفنات) پڑ گئے تھے، جو اونٹ کے گھٹنوں پر پڑنے والے نشانات سے مشابہ تھے۔آپ “زین العابدین” (عبادت کرنے والوں کی زینت) اور “سجاد”(بہت زیادہ سجدہ کرنے والے) کے لقب سے معروف تھے، آپ ایک خالص اور نیک بندۂ خدا تھے۔آپ کے لمبے سجدوں کو دیکھ کر ہر دیکھنے والا خود بخود خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے “حدیثِ لوح”— جو خدا کی طرف سے حضرت محمد مصطفی ؐ کے لیے ایک خصوصی پیغام ہے اس میں آپ کا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ:”سید العابدین و زین أولیائی الماضین”؛ “وہ میرے عبادت گزار بندوں کے سردار اور میرے گزشتہ اولیاء کی زینت ہیں”۔
یوسف بن اسباط کہتے ہیں:
میرے والد نے کہا کہ ایک رات میں آدھی رات کے وقت مسجد گیا، میں نے ایک جوان کو دیکھا جو سجدے میں گرا ہوا تھا اور خدا سے اس طرح راز و نیاز کر رہا تھا:
“سجد وجهي متعفراً في التراب لخالقي و حق له”؛ “میرا چہرہ مٹی میں جھکا ہوا ہے، میں اپنے خالق کے لیے سجدہ ریز ہوں، اور وہی سجدے کا سچا حقدار ہے”۔
میں قریب گیا تو معلوم ہوا کہ وہ جوان کوئی عام شخص نہیں بلکہ امام زین العابدین ؑ ہیں۔
میں صبر کرتا رہا یہاں تک کہ صبح کا اجالا پھیل گیا۔ پھر میں اُن (امام زین العابدینؑ) کے پاس گیا اور عرض کیا:
“اے رسولِ خداؐکے فرزند! آپ اپنے آپ کو اتنی مشقت میں کیوں ڈالتے ہیں؟ حالانکہ خدا نے آپ کو برتری عطا کی ہے اور آپ کا مقام خدا کے حضور بہت بلند ہے”۔
جب انہوں نے یہ بات سنی تو ان کا دل بھر آیا، وہ رو پڑے اور فرمایا کہ حضرت محمدؐ کا ارشادگرامی ہے:
“جب قیامت کا دن قائم ہوگا تو ہر آنکھ رو رہی ہوگی سوائے چار آنکھوں کے: ۱۔وہ آنکھ جو خوفِ خدا سے روئی ہو۔ ۲۔وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں (جہاد میں) نابینا ہو گئی ہو۔ ۳۔وہ آنکھ جو حرام چیزوں سے بچ کر بند رہی ہو۔ ۴۔وہ آنکھ جو رات بھر سجدے میں بیدار رہی ہو(بحارالانوار، ج 46، ص 99، ح 88)۔
امام سجاد علیہ السلام کی عبادت ایک بامقصد، عمیق اور باشعور عبادت تھی۔ آپ خدا کی عبادت نہ صرف خشوع کے ساتھ بلکہ شوق، محبت اور مکمل معرفت کے ساتھ کرتے تھے۔
آپ کا خدا سے تعلق ایسا گہرا اور زندہ تھا کہ روایت میں بیان ہوا ہے:
ایک رات آپ عبادت کے لیے اٹھے، وضو کرتے ہوئے آسمان کے ستاروں پر آپ کی نگاہ پڑی۔ آپ انہیں دیکھتے ہی دیکھتے خالق اور اس کی تخلیق کے بارے میں گہرے غور و فکر میں ڈوب گئے۔ آپ حیران اور مبہوت رہ گئے… اسی حالت میں ہاتھ میں پانی میں تھا اور نگاہیں آسمان کی طرف جمی ہوئی تھیں، یہاں تک کہ فجر کی اذان کی آواز سنائی دی۔
فاطمہ بنت علیؑ، جو امام علیؑ کی بیٹی تھیں انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے درخواست کی کہ وہ امام سجادؑ کے پاس جائیں اور دلسوزی کے ساتھ ان سے کہیں کہ اپنی جان کو اتنی سخت عبادتوں سے بچائیں۔کیونکہ امامؑ کثرتِ عبادت کے باعث اپنی ناک، پیشانی، ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور گھٹنوں پر شدید زخموں میں مبتلا ہو گئے تھے۔جابر امامؑ کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ اپنے آپ کو اتنی سخت مشقت اور عبادت کے بوجھ سے بچائیں، کیونکہ یہ تکلیف بہت سخت اور ناقابلِ برداشت ہے۔
امام سجادؑ نے ان کی بات سنی اورفرمایا:
اے رسولِ خداؐکے ہمنشین! میرے جد حضرت محمدؐ اس قدر عبادت کیا کرتے تھے کہ آنحضرتؐ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ کسی نے آنحضرتؐ سے عرض کیا: آپ خود کو اتنی مشقت میں کیوں ڈالتے ہیں؟
آنحضرتؐ نے فرمایا: «افلا اكون عبداً شكورا»؛ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔
جابر نے عرض کیا: آپ کی قیمتی جان خطرے میں ہے، آپ اپنے اوپر اتنا دباؤ نہ ڈالیں۔
اس پر امام زین العابدینؑ نے فرمایا:
«يا جابر لا ازال علي منهاج ابوي موتسياً بهما حتي القاهما»؛ اے جابر! میں ہمیشہ اپنے آبا و اجداد (یعنی رسولِ خداؐ اور امام علیؑ ) کے راستے پر چلتا رہوں گا، انہی کو اپنا نمونہ بناؤں گا، یہاں تک کہ اُن سے جا ملوں گا۔(مناقب ابنشهر آشوب،ج۴، ص148)۔
ب: آپ کا طرز زندگی دوستوں کے ساتھ
کربلاسے واپسی کےبعد مدینہ کےحالات بہت پر آشوب تھے ،ان حالات میں لوگوں کے ساتھ ملناجلنا بہت سخت تھا پھربھی تاریخ میں حضرت امام سجادؑ کے نیک سلوک اور دوسروں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے بہت سی مثالیں بیان ہوئی ہیں۔ یہاں کچھ اہم واقعات اور مثالوں کا ذکر کیا جارہا ہے:
۱۔دوستوں کے ساتھ نیک برتاؤ
حضرت امام سجادؑ اپنے اصحاب کے ساتھ کریمانہ اور دلسوزانہ برتاؤ رکھتے تھے۔ آپ کا برتاؤ صداقت، محبت اور سخاوت کی کامل مثال تھا اور حلم، بردباری اور جوانمردی میں آپ دنیا والوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
آپ کا ان دوستوں کے ساتھ برتاؤ کہ جن کا ثقافتی اور معاشرتی مقام بلند تھا، اس میں کوئی بحث نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ تو ہر کوئی شایستہ برتاؤ کرتا ہے؛ لیکن جو چیز اہم نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آپ نے ان دوستوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا جو کسی بھی وجہ سے معاشرے کے نچلے طبقوں سے تعلق رکھتے تھے؟
ذیل کی مثالیں آپ کے محروم دوستوں اور بے بس غریبوں کے ساتھ برتاؤ کی نوعیت کو واضح کر سکتی ہیں:
طاؤس یمانی کہتے ہیں:
“ایک بار جب ہم حج کے سفر میں تھے، مقام “صفا” پر ہم نے ایک نہایت ہی باوقار اور عظمت والے نوجوان کو دیکھا، جو کمزور اور لاغر جسم کے تھے اور ان کے جسم پر مناسب کپڑے نہیں تھے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ رہا تھااور کہہ رہا تھا:
“میں ننگا ہوں جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، بھوکا ہوں جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، پھر تو جو کچھ دیکھ رہا ہے اس میں کیا دیکھ رہا ہے؟ اے وہ جو دیکھتا ہے اور خود نہیں دیکھا جاتا”۔
اس ناشناس شخص کی خدا سے بات سن کر میں لرز گیا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک طبق (پلیٹ) اتری جس میں دو یمنی چادریں تھیں۔ اس وقت حضرت امام سجادؑ نے محبت بھری نظر سے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے طاؤس!
میں نے کہا:جی مولا
یہ دیکھ کر میری حیرت اور بڑھ گئی کہ انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا حالانکہ میں نے انہیں پہچانا نہیں تھا۔ پھر انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں بھی اس طبق میں سے کوئی چیز چاہیے؟
اور انہوں نے طبق سے پردہ ہٹا دیا۔ طبق میں کپڑوں کے علاوہ خراسان کی کچھ مٹھائیاں بھی تھیں۔ میں نے عرض کیا: اے میرے آقا! مجھے چادر یا کپڑے کی ضرورت نہیں، لیکن جو کچھ اس طبق میں ہے اس میں سے تھوڑا سا مجھے عطا فرما دیجیۓ۔
انہوں نے مجھے ایک مٹھی بھر کر دی۔ میں نے ان کا ہاتھ چوما اور ان مٹھائیوں کو اپنے احرام کے دامن سے باندھ لیا اور تھوڑی سی کھائی۔ میں نے اس ذائقہ اور لذت کی کوئی چیز پہلے نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی کھائی تھی۔
پھر اس ناشناس شخص نے طبق سے دو چادریں اٹھائیں، ایک کو لنگوٹ کے طور پر اور دوسری کو احرام کی چادر کے طور پر پہن لیا، اور جو کپڑے ان کے جسم پر تھے وہ مستحق افراد کو دے دیے۔
ہم وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ “مروہ” پہنچ گئے۔ وہاں لوگوں کے ہجوم نے انہیں میری نظر سے اوجھل کر دیا اور میں گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ کیا وہ فرشتہ تھا یا خدا کے اولیاء میں سے کوئی؟ اچانک ایک آواز آئی اور کہنے لگی:
“اے طاؤس! تم پر افسوس! کیا تم نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا؟ وہ جن و انس کے امام ہیں۔ وہ امام الساجدینؑ اور زین العابدینؑ ہیں”۔
اس کے بعد میں تیزی سے حضرتؑ کے پیچھے بھاگا یہاں تک کہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ پھر میں ان سے جدا نہیں ہوا یہاں تک کہ مجھے دنیا اور آخرت کے بہت سے فوائد ان سے حاصل ہوئے۔”(معاجز الولایۃ، کاظمینی بروجردی، ص۱۷۵)۔
ایک اور واقعہ ہے کہ جو زہری سے منقول ہے کہ ایک سرد اور برفانی رات میں، میں نے امام سجادؑ کو دیکھا کہ وہ اپنے کندھے پر آٹے کا تھیلا اور لکڑیوں کا گٹھر اٹھائے ہوئے تھے۔(مناقب آل ابی طالبؑ، ابن شہر آشوب، انتشارات علامہ قم، ۱۳۷۹، ج۴، ص۱۵۴)۔
۲۔ساتھیوں کا ادب واحترام
امام سجادؑ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ اسلامی آداب کی بلندی اور عظیم اخلاقی خوبیوں کا بہترین نمونہ تھا۔ آپ تمام ساتھیوں کا احترام کرتے اور ان کی عزت کرتے تھے، جیسا کہ خود آپ نے فرمایا:
“میرے پاس جو بھی بیٹھا، میں نے ہمیشہ اس کی عزت کی”۔
امامؑ اپنے ساتھیوں کی بہت عزت کرتے، ان پر بڑے احسانات فرماتے اور اپنے عمدہ اخلاق کے ساتھ ان سے پیش آتے۔ ایک دن نضر بن اوس آپ کے پاس آئے، امام ؑنے ان کا خیرمقدم کیا اور فرمایا:
“آپ کس قبیلے سے ہیں؟”
“قبیلہ طی سے”
فرمایا: “آپ کا خیرمقدم ہو اور اس قوم کا بھی خیرمقدم ہو جس سے آپ تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا قبیلہ بہت اچھا قبیلہ ہے!”
اس طائی شخص نے امام کی طرف دیکھ کر کہا:
“براہ کرم اپنا تعارف کرائیں؟”
“میں علیؑ بن حسینؑ ہوں”
“کیا علیؑ بن حسینؑ آپ کے والدگرامی کے ساتھ کربلا میں شہید نہیں ہوئے تھے؟”
امامؑ نے بڑی پیاری اور محبت بھری بات کہی:
“اگر وہ شہید ہو گئے ہوتے تو تم انہیں اب یہاں نہ دیکھ رہے ہوتے!”
تاریخ دان بیان کرتے ہیں:
امام سجادؑ کبھی بھی اپنے ساتھیوں کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ کسی ایسے شخص کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائیں جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہو۔ ایک دن آپ کے دشمنوں میں سے ایک شخص امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا:
“کیا آپ نماز سے واقف ہیں؟”
ابو حازم، جو امام کے اصحاب میں سے تھے، اس شخص کو ڈانٹنا چاہتے تھے، لیکن امامؑ نے انہیں روک دیا اور فرمایا:
“ابو حازم! رک جاؤ۔ بے شک علماء بردبار اور مہربان ہوتے ہیں۔”
پھر آپ نے اس شخص کی طرف رخ کرتے ہوئے محبت سے فرمایا:
“ہاں، میں نماز سے واقف ہوں۔”
اس شخص نے نماز سے متعلق کچھ سوالات پوچھے، امامؑ نے جواب دیا۔ وہ شخص شرمندہ ہوا اور معافی مانگنے لگا اور کہاکہ
“آپ نے سب پر حجت تمام کر دی۔”
(تحلیلی از زندگانی امام سجاد علیه السلام، ج۱، ص۱۰۳)۔
بے شک، امامؑ کا اپنے ساتھیوں اور دوسروں کے ساتھ رویہ ان کے دادا، رسول گرامیؐ کے جیساتھا، جو مکرم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔
ج۔ہمسایوں کے ساتھ مہربانی
امام زین العابدینؑ، ہر کسی سے زیادہ اپنے ہمسایوں پر مہربان تھے۔ آپ ہمیشہ ان کی اتنی خیرخواہی فرماتے جتنی اپنے اہلِ خانہ کی کرتے تھے۔ آپ ان کے غریبوں اور محتاجوں کی خبرگیری فرماتے، ان کے بیماروں کی عیادت کو جاتے، اور ان کے مردوں کے جنازے میں شریک ہوتے تھے ۔ کوئی بھی قسم کی بھلائی ایسی نہ تھی جو آپ اپنے ہمسایوں کے ساتھ نہ کرتے ہوں۔
امام زین العابدینؑ، ہمسایوں کے ساتھ نیکی، احسان اور محبت پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ ان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے اور اللہ سے ان کے لیے توفیق، نیکی اور تقوا طلب کرتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے آپ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے دعائیں فرماتے اور ان کے لئے اللہ سے بھلائیاں مانگتے تھے۔ اور بے شک ہمسایے امام کی توجہ کے مرکز تھے اور آپ نے اپنی دعاؤں میں خاص طور پر ان کی طرف توجہ فرماتے تھے اور ان کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ میں دعا کرتے تھے :
“یا اللہ! محمدؐ اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما، اور میرے ہمسایوں، میرے دوستوں اور ہمارے حق کو پہچاننے والوں اور ہمارے دشمنوں سے برأت رکھنے والوں کے معاملے میں اپنی بہترین ولایت کے ساتھ میری مدد فرما، اور انہیں توفیق دے :تیری سنت قائم کرنے کی، اچھے آداب اختیار کرنے کی، کمزوروں کے ساتھ نرمی کرنے کی، ان کی ضروریات پوری کرنے کی، بیماروں کی عیادت کرنے کی، راہِ راست طلب کرنے والوں کی رہنمائی کی، مشورہ مانگنے والوں کی خیرخواہی کی، آنے والوں کی خبرگیری کرنے کی، · ان کے رازوں کو محفوظ رکھنے کی، ان کے عیبوں کو ڈھانپنے کی، ان کے مظلوموں کی مدد کرنے کی، ضروریاتِ زندگی میں ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی، ان پر تازہ احسان اور فضل کرتے رہنے کی، اور انہیں مانگنے سے پہلے ہی وہ دے دینے کی جو ان کا حق ہے۔ (صحیفه سجادیه: دعاي ۲۶)۔
د۔غلام اور کنیزوں پر احسان
امام زین العابدینؑ اپنے غلاموں کے ساتھ نرمی، محبت اور احسان کا برتاؤ کرتے تھے اور ان کے ساتھ اپنے بیٹوں جیسا سلوک رکھتے تھے۔ وہ انہیں اپنی نیکی، خیرخواہی اور احسان میں شامل رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی محبت کے سایہ میں انہیں اتنی نرمی اور محبت ملتی تھی کہ انہیں اپنے والدکے سایہ میں بھی میسر نہ تھا۔ (تحلیلی از زندگانی امام سجادؑ ، ج،1ص:96)
راویوں کا بیان ہے کہ آپ نے کبھی کسی کنیز یا غلام کو سزا نہیں دی، چاہے ان سے کوئی گناہ ہی سرزد کیوں نہ ہوا ہو۔
امامؑ کا ایک غلام تھا۔ ایک دن آپ نے اسے دو بار آواز دی، لیکن اس نے جواب نہ دیا۔ تیسری بار امامؑ نے نرمی اور شفقت سے اس سے فرمایا:
“بیٹا! کیا تم نے میری آواز نہیں سنی؟”
اس نے جواب دیا: “کیوں نہیں، میں نے سنی تھی۔”
آپ نے فرمایا: “پھر تم نے جواب کیوں نہیں دیا؟”
غلام بولا: “کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں سزا سے محفوظ ہوں۔امامؑ یہ بات سن کر گھر سے باہر نکلے اور اللہ کا حمد و شکر بجا لاتے ہوئے فرمانے لگے
“اللہ کا شکر ہے جس نے میرے غلام کو مجھ سے محفوظ کر دیا”۔ (تاریخ دمشق، ص15)۔
امامؑ اس بات پر خوش تھے کہ وہ سخت دل اور ظالم نہیں ہیں کہ لوگ آپؑ سے ڈریں یا ان سے بچ کر رہیں۔
ایک دن امام سجادؑ کی ایک کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک برتن گر گیا اور آپ کے مبارک سر پر لگا، یہاں تک کہ سر زخمی ہو گیا۔ آپ نے جب کنیز کی طرف رخ کیا تو وہ کنیز پریشان اور خوفزدہ ہوگئی اور عقلمندی سے اور غصہ کو پی جانے والی یہ آیت پڑھی:
«وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ»؛ (یعنی پرہیزگار غصہ پی جاتے ہیں)۔
امام نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔
کنیز نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا:
«وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ»؛ اور لوگوں سے درگزر کرنے والے” (یعنی پرہیزگار لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرتے ہیں)۔
امام ؑنے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا۔
کنیز نے آیت کا اختتامی حصہ پڑھا:
«وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ»؛ “اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”(سورہ آل عمران، آیت134)۔
امام سجادؑ نے کنیز کے ساتھ احسان فرمایا اور کہا: “جاؤ، میں نے تمہیں اللہ کی راہ میں آزاد کر دیا”۔ (الارشاد،شیخ مفید، ج۲،ص۱۴۶۔۱۴۷)
اس قسم کی بہت سی مثالیں تاریخی اور روایات کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں جن کا ذکر یہان مطالب کے طولانی ہونے کی وجہ سے نہیں کیا جارہا ہے۔
ھ۔آپ کا حیوانوں کےساتھ نیک سلوک
مذکورہ مطالب اور موارد وہ تھے جو مختلف انسانی گروہوں کے ساتھ امام سجادؑ کے شائستہ اور مناسب برتاؤ کے بارے میں تھے؛ جو مختلف شکلوں میں آپ کے ساتھ وابستہ تھے۔ آپ کا ہمدردانہ رویہ اس وقت اور بھی حیرت انگیز لگتا ہے جب ہم آپ کا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک دیکھتے ہیں۔ آپ کا جانوروں کے ساتھ بہترین اور نیک سلوک، آپ کے ایمان، استقامت، خدا کےخوف اور آخرت کے عقیدے کی بلندی کی نشاندہی کرتا ہے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام نے بیان کرتے ہیں کہ:
میں اور کچھ لوگ میرے والد امام سجادؑ کی موجودگی میں بیٹھے تھے کہ اچانک صحرا سے ایک ہرنی آئی اور میرے والد کے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو کر رونے اور کچھ کہنے لگی۔
حاضرین نے میرے والد سے پوچھا: یہ کیا کہہ رہی ہے؟
والد نے فرمایا:کہہ رہی ہے کہ میرے بچے کو فلاں شخص نے پکڑ لیا ہے، کل سے اب تک اس نے دودھ نہیں پیا ہے، میں درخواست کرتی ہوں کہ اس سے لے کر میرے پاس لاؤ تاکہ میں اسے دودھ پلا سکوں۔
امام سجادؑ نے ایک شخص کو شکاری کے پاس بھیجا اور اسے پیغام دیا کہ وہ ہرن کے بچے کو لے آئے۔ جب وہ لے آیا، تو ہرن کی ماں نے اپنے بچے کو دیکھا، اس نے چند بار اپنے پیر زمین پر مارے اور ایک درد ناک اور غمگین آہ بھری اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔
پھر امام سجادؑ نے شکاری سے درخواست کی کہ وہ ہرن کے بچے کو آزاد کر دے، شکاری نے مان گیا۔ امام نے بچے کو اس سےلیا اور اس کی ماں کے حوالے کر دیا، ہرن نے اپنی آواز سے کچھ کہا اور اپنے بچے کے ساتھ صحرا کی طرف چل دی۔
حاضرین نے امام سجادؑ سے پوچھا کہ ہرن نے کیا کہا؟ امام نے فرمایا:
“اس نے تمہارے لیے خدا کے حضور دعا کی اور نیک اجر مانگا”۔( بحارالانوار ،ج۴۶،ص۳۰)۔
و۔دشمنوں کی ہدایت
کبھی کبھی دشمنوں کے زہریلے پروپیگنڈے اور حق بات کے بعض دوستوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے، وہ موجودہ ماحول کے زیر اثر آ جاتے ہیں اور اپنی اندرونی خواہش کے برعکس دشمن کے برے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جس لمحے ان کا دل حق کی آواز سے آشنا ہوتا ہے، وہ اپنے ماضی پر نادم ہوتے ہیں اور سچائی کے سامنے اپنا دل و جان نچھاور کر دیتے ہیں۔
حضرت امام سجادؑ کے زمانے میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ تھی۔ کچھ حق تلاش کرنے والے بنو امیہ کے ناسالم ماحول کے اثر میں آ گئے تھے۔ امام زین العابدین ؑ، جو جانتے تھے کہ یہ لوگ دشمن کے دھوکے میں آگئے ہیں لہذا آپ ایسے لوگوں سے نرم اور ہمدردانہ لہجے میں بات کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ انہیں سیدھے راستے پر لے آئیں۔
اس سلسلے کی ایک واضح مثال امام سجادؑ کا اس شامی بوڑھے کے ساتھ مہربانانہ سلوک ہے جو قیدیوں کے شام کے شہر میں داخل ہوتے وقت امام کے پاس پہنچا اور کہنے لگا:
“خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ہلاک کیا اور لوگوں کو تمہارے شر سے پاک کیا اور امیر المومنین یزید کو تم پر غالب کیا۔”
امام نے ایک نظر میں سمجھ لیا کہ یہ شخص دشمن کے دھوکے میں ہے، تو آپ نے انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ اس سے بات کی۔ آخر میں شامی بوڑھے نے اپنی باتوں پر ندامت کا اظہار کیا۔ آخرکار یزید نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔(لہوف، سید ابن طاووس، ص۱۷۶-177)۔




