
آئینۂ کربلا میں خوبصورتی کی علامات
ترتیب و تنظیم: سیدہ نہاں نقوی۔ طالبہ جامعۃ المصطفیٰ(ص) العالمیہ۔ قم
فہرست مندرجات
مقدمہ
کربلا والوں کے کلام و جملات میں عاشورا کی بعد ایک اہم جملہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا جملہ ہے جسے اکثر بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابن زیاد نے بازار کوفہ میں تمام جسارتوں کے ساتھ یہ جسارت کی اور طنزیہ طور پر کہا کہ دیکھا تمہارے خدا نے تم لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟
تو حضرت زینب ؑ نے فرمایا:
«مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلاً» میں خدا وندعالم کی طرف سے اچھائی و خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے(بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۱۱۶)۔
اسلام کی اس بزرگ خاتون نے معرفت نظری (خداوند و نظام کائنات پر نگاہ کرنے کے زاویہ) کا ایسا باب کھول دیا جہاں بڑے بڑے مفکرین حیران ہیں کہ ام المصائب نے کیسے ابن زیاد کو ایک مختصر سے جملے میں لاجواب کردیا اور باطل افکار و نظریوں کو خاک میں ملاکر اپنے سچے اور حقیقی عقیدے کو ظاہر کردیا اور بیان فرما دیا کہ “عظمت نگاہوں میں ہوتی ہے نہ کہ اس میں جس چیز کو آپ دیکھ رہے ہیں “۔ اور اسی طرح ثابت کردیا کہ”کبھی کبھی خوبصورتی انسان کی نگاہ و دید میں ہوتی ہے نہ کہ نظاروں میں”۔
جو شخص خداوندعالم کے بہترین نظام کائنات پر نگاہ رکھتا ہے اس کی نگاہوں سے بہت سی چیزیں دکھائی دیتی ہے اور وہ بھی خوبصورت اور بہترین شکل میں۔بس ضرورت ہوتی ہے کہ کیسا عینک آنکھ پر لگاتے ہیں اور کس زاویہ سے کائنات و واقعات پر نگاہ رکھتے ہیں۔
کائنات و زندگانی کو خوبصورت دیکھنا روح اور ضمیر کو بھی آرام واطمینان بخشتا ہے اور انسان کے وجود میں طاقت ، لچک اورتحمل پیدا کرتا ہے، اسی طرح پریشانیوں کو برداشت کرنے کی قدرت عطا کرنا ہے۔اس نگاہ سے جیسا کہ جناب زینب ؑنے فرمایا عاشورا سوائے خوبصورتی کے کچھ نہ تھا۔
جناب زینب ؑنے کربلاکے واقعات سے متعلق دشمن کے طنز و طعنوں کے جواب اپنی زبان سے «مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلاً» کا جو جملہ فرمایا تھا، وہ امام حسین ؑ کی مہم ترین آرزو تھی جس کا آپ نے اس سفر کے آغاز میں اظہار فرمایا تھا: “لأرجو أن یکون خیرا ما أراد اللّه بنا قتلنا أم ظفرنا” یعنی امید کرتا ہوں کہ اس سفر میں جو بھی پیش آئے گا وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے لئے خداوندعالم کے ارادے سے خیر و بھلائی والا ہوگا چاہے کامیابی اور فتح کی صورت یا شہادت کی شکل میں(اعیان الشیعہ، ج ۱، ص ۵۹۷)۔
واقعہ کربلا کو بھائی کا “خیر” دیکھنا اور بہن کا “خوبصورت” دیکھنا ایک دوسرے کی بات کو کامل کرتا ہے ، آئیے آئینہ کربلا میں خوبصورتی کی ان بعض علامتوں اور نشانیوں کا دیکھتے ہیں جن کے بارے میں شاید جناب زینب ؑنے اسیری کی حالت میں اشارہ فرمایا ہے:
کمال آدمیت کی تجلی
انسان کس حد تک بلندی تک پہونچتا ہے اور خدائی رنگ و روپ اپناتا ہے اور اس کی ذات میں فنا ہوجاتا ہے یہ بات “میدان عمل” میں ظاہر ہوتی ہے ، کربلانے ہمیں دکھایا کہ انسان کی بلندی کی اونچائی، رفعت روح کی دہلیز، وجود کی بزرگی، کمال طلبی و کمال جویی کس حد تک ہے۔ کربلا نے ہی بتایا کہ آدمیت کا مقام کس حد تک ہوتا ہے ۔یہ وہ نکتہ ہے جو طالبان ارزش کے لئے خوبصورت بھی ہے اور معیار۔
مرضی الہی پر رضامندی کی تجلی
عرفان اور روحانی سفر کرکے خدا وندعالم کی رضایت حاصل کرنے کی منزل تک پہونچنا بہت سخت اور مہم ہوتا ہے، اگر حضرت زینب ؑ،کربلا کے حادثہ کو خوبصورت بیان فرماتی ہیں تو یہ بات آپ کے اور امام حسین ؑکے ساتھیوں اور رشتہ داروں کے بلند روحانی اورعرفانی مقام و منزلت کو بتاتی ہے۔
واقعا حسینؑ ابن علیؑ اور حضرت زینبؑ، خداوندعالم کے ایک سچے عاشق کی مانند جس چیز کو معشوق پسند کرتا ہے انہیں بھی وہی پسند ہے۔اس لحاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کربلا در اصل مرضی الہی پر رضامندی کی تجلی گاہ ہے، امام حسین ؑ اپنے آخری لمحات میں یہی جملات گنگنا رہے تھے: “إلهى رضى بقضائک” خدایا میں تیری مرضی پر راضی ہوں۔ اسی طرح رخصتی پر اپنی بہن سے بھی فرمایا: “ارضی بقضاء اللّه” اے بہن خدا وندعالم کی رضایت و خوشنودی پر راضی رہنا۔
یہ عرفان و بلند روحانی مقام ہے کہ انسان خود کو کچھ نہ سمجھے اور خدا کے علاوہ کسی کو بھی نظر میں رکھے، خدا کی مرضی کے سامنے کسی چیز کو پسند نہ کرے ، کربلا کے سفر کے آغاز میں جب امام حسین ؑ مکہ سے کوفہ کی طرف حرکت میں تھے تو ایک خطبہ کے دوران فرمایا: “رضا اللَّه رضانا اهل البیت” خداوندا! اہم اہلبیتؑ وہی پسند کرتے ہیں جو تو پسند کرتا ہے(موسوعہ کلمات امام حسینؑ، ص ۳۲۸، فارسی)۔
راہ خدا میں امام حسینؑ کی جانبازی اور عشق تھا جس کوعزیز و محترم خاتون حضرت زینب سلام اللہ علیہا خوبصورت گردانتی ہیں اور اس منطق و فکر کی تعریف فرماتی ہیں۔
حق و باطل کی پہچان
عاشورا کی مہم ترین خوبصورت علامتوں میں سے ایک حق اور باطل میں جدائی پیدا کرنا اور “منافقین” اور فرشتہ صفت انسانوں کے میدان عمل کو واضح کرنا ہے۔
جب اچھائی اور برائی، حق اور باطل اس طرح گل مل جائے کہ باطل کا اندھیرا حق کو دھندلا ہوجاتا ہے اور حق مبہم نظر آنے لگ جاتا ہےتو اس طرح کی تاریکی میں انسانوں اور فکروں کی گمراہی طبیعی ہوتی ہے اور نقاب دار کفر سادہ لوح اور سطحی نگاہ رکھنے والے مسلمانوں کے درمیان شبہات پیدا کرتا ہے ۔
ایسے ماحول و حالات میں امام حسینؑ کے کام کی خوبصورتی یہ تھی کہ آپ نے ایک عظیم چراغ و مشعل کو روشن فرمایا جس سے راستہ روشن ہوجائے، اندھیرے چھٹ جائے، منافقت والے چہرے بے نقاب ہوجائے، فتنے اور جھوٹ نمایان ہوجائے اور لوگ پہچان لیں اور فریب و نقاب کا اثر ختم ہوجائے ۔ اس سے بڑی خوبصورتی کیا ہوسکتی ہے؟
عاشورا ایک لائن و حد فاصل تھا ، ایسی لائن جس نے حق اورباطل کو جدا کردیا ، حقیقی مسلمانوں کو دعویدار اور ڈھونگی مسلمانوں سے جدا کردیا، رحمان و شیطان کے پیروکاروں نگاہوں کے سامنے لاکر کھڑا کردیا ۔ حق واضح ہوکر باطل کے سامنے آگیا ، باطل کے مزدوروں نے کربلا میں”یَا خَیْلَ اللَّهِ ارْکَبِی وبالجنه ابشری” کا نعرہ لگا۔ یعنی ابن زیاد نے اپنے ساتھیوں سے کہا:اے خدا کے فوجیوں ! سوار ہوجاو ٔ ، میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں (بلاذری، احمد بن یحیی؛ انساب الاشراف، ص۱۸۴)۔باطل کے ایسے دھندلے سایہ کو حضرت امام حسین ؑ نے اپنی شہادت سے مٹاکر رکھ دیا اور حق کی معرفت و شناخت میں جو تھوڑی کمی بھی رہ گئی تو اس کو شام و کوفہ میں حضرت سید سجادؑ و زینبؑ و ام کلثومؑ نے اپنے خطبوں اور بیانات سے واضح و روشن کردیا۔ واقعہ کربلا کی یہ اہم ترین خوبصورتی تھی جس کا آج تک مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
خالص و حقیقی کامیابی
کربلا و عاشوراء کی خوبصورتیوں میں ایک خوبصورت “جیت و کامیابی” کا جدید مفہوم پیش کرنا ہے، بعض لوگ غلط سوچ کی بنا پر سوچتے ہیں کہ کامیابی اور جیت صرف لشکری غلبہ پیدا کرنے کا نام ہے اور مظلومیت اور شہادت کو شکست سمجھتے ہیں۔ لیکن عاشورا نے دکھا دیا کہ مظلومیت کی انتہا میں بھی فاتح بنا جاسکتا ہے۔ قتل ہوکر بھی کامیابی کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ خون سے بھی فتح کا پرچم لہرایا جاسکتا ہے۔ فاتح کربلا امام حسینؑ ہوئے اور یہ کتنی خوبصورت فتح تھی!
یہ وہی “شمشیر پر خون کی کامیابی” ہے کہ جس کے بارے میں امام خمینی رح نے بھی اسی مکتب حسینی سے درس لیتے ہوئے فرمایا کہ : جس قوم کے لئے شہادت ہی سعادت و خوشی ہے وہ ہمیشہ پیروز و کامیاب ہے ․․․ ہم چاہے قتل ہوں یا قتل کریں دونوں صورتوں میں کامیاب ہیں(صحیفہ نور، ج۱۳، ص۶۵)۔
خالص و حقیقی کامیابی کی یہ پہچان قرآنی تعلیمات “احدی الحسنیین” (توبہ، آیت۵۲)کی بنا پر ہے جو خدا کی راہ میں مقابلہ کرنے والوں کے بیان ہوئی ہے۔ جس نےاپنے فریضہ پر عمل کیا ہو وہ ہر حال میں کامیاب ہے اور وہ بھی حقیقی و خالص کامیاب۔
امام حسین ؑبھی قرآن کے اسی نظریہ پر عمل پیرا تھے ، امام سجاؑاور حضرت زینب ؑبھی۔ اس نگاہ سے کربلا اور بعد کے تمام واقعات سے چونکہ اسلام و حق کو فائدہ پہونچ رہا تھا، لہذا ان حضرات کے لئے جمیل و خوبصورت تھے ، جب حضرت امام سجاد ؑسے ابراہیم ابن طلحہ نامی شخص نے پوچھا کہ کون کامیاب ہوا؟ تو آپ نے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو اور اذان و اقامت کہا جائے تو سمجھ جاؤ گے کہ کون کامیاب ہوا ہے(امالی شیخ طوسی، ص۶۶)۔
مشیت و راہ خدا میں حرکت
خوبصورت ترین نشانی و جلوہ یہ ہے کہ انسان کے ایک عمل و حادثہ کا بستر مشیت و خواست خداوندعالم ہو، اگر شہیدوں کے سردار امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں نے شہادت کو گلے لگایا، اور حضرت زینب ؑ اور آل مصطفی ؐ نے اسیری کو قبول کیا تو یہ سب مشیت خداوند کی تختی پر لکھا جاچکا تھا ، اور اس سے بڑھ کر کیا خوبصورتی ہے کہ انسانوں کے کام مشیت الہی کے جدول کے مطابق ہوں؟
کیا امام حسین ؑ کو غیبی خطاب نہ تھاکہ “إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ یَرَاکَ قَتِیلاً”؛ اے حسینؑ! خداوند چاہتا ہے کہ تجھے اس کے دین کی زندگی کے لئے اس کی راہ میں مقتول دیکھے۔ اسی طرح “إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ یَرَاهُنَّ سَبَایَا»؛” خداوند چاہتا ہے کہ عصمت و طہارت والی خواتین کو اسلام کی حفاظت کے لئےسر برہنہ پھرایا جائے۔ پس انہیں کیا افسوس ہوگا اُس شہادت سے اور اِس اسارت سے؟
دین و حق کی بقا اور طاغوت و باطل کی نقاب کشی کے لئے شہادت و اسارت دونوں ہی کا تو فدیہ دینا ہی تھا، وہ بھی عاشقانہ وار، صبرو بہادری کے ساتھ۔
دامن وحی کی پرورش یافتہ اور مکتب علیؑ میں پروان چڑنے والی زینب کبریٰ کے لئے یہ حرکت مشیت الہی کے بستر پر تھی ، اسی میں اقدار کی بلند و خوبصورتی تھی۔ آپ شروع سے آخر تک حرکت کربلا کے تمام مراحل کو خوبصورت جانتی ہیں ، اس لئے کہ آپ تمام مناظر کو اپنے پروردگار کی چاہت و مشیت کے مطابق جانتی ہیں ۔
عاشورا کی شب قدر
عاشورا کی وہ عظیم و قدر والی شب ، کربلا کی روشن ترین خوبصورتیوں میں سے ہے۔ جو لوگ راہ فرار اور ٹھہرنے میں سے وفاداری اور ایثار کی نشانی یعنی امام حسین ؑکے ساتھ ٹھہرنے کو انتخاب کرتے ہیں اور حسین ؑ کے بغیر زندگی کو ذلت اور موت سمجھتے ہیں ، اور امام حسینؑ کے شب عاشورا کے خطبہ کے جواب میں وفاداری کا اعلان کرتے ہیں، اسی طرح جناب قاسمؑ سے امامؑ کا سوال اور آپ کاجواب، صبح تک اصحاب حسینیؑ کی شب بیداری، خیموں سے تلاوت قرآن و دعاؤں کی صدائیں، چاہنے والوں کا حضرت زینب کبریٰ ؑ کی خدمت میں اعلان وفاداری کرنا․․․ یہ سب ہر ایک کتاب کربلا کی خوبصورتی کے زرّین باب ہیں ۔ اس کے بعد کیوں حضرت زینبؑ کربلاو عاشورا کو خوبصورت نہ دیکھیں؟
جو کچھ کربلا میں رونما ہوا وہ وہ پوری تاریخ اور دنیا کے ہر مقام پر ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک بنیاد میں تبدیل ہوگیا، کیا یہ خوبصورت نہیں ہے؟
دھیرے دھیرے عاشورا ایک مکتب کی شکل میں سامنے آگیا جس نے انسان کو “آزادگی”، “وفا”، “جوانمردی”، “ایمان”، “شجاعت”، “شہادت طلبی”، “بصیرت” سکھایا، کیا یہ خوبصورت نہیں ہے؟
صحرائے کربلا میں بہنے والا پاکیزہ خون ایک سیلاب بن گیا اور اس نے ستم کی بنیاد کو ویران کردیا، کیا یہ خوبصورت نہیں ہے؟
ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہاہے :
هر بساطی را که عمری شامیان گسترده بود
نیم روزی این حسین بن علی برچید و رفت
جو چادر شامیوں نے ایک عمر میں پھیلائی تھی؛ حسینؑ ابن علی ؑ نے اسے آدھے دن میں لپیٹ دیا۔
کوفہ و شام کے مصیبت ایجاد کرنےوالے فکر کر رہے تھے کہ حق والوں کے قتل عام سے اپنے آپ کو جاویدان بنا لیں گے ، لیکن حضرت زینب ؑ کی گہری و دقیق نگاہوں وہ اپنی ہی قبر کھود رہے تھے۔
اہل بیت ؑ کا نورانی چہرہ اور روشن و واضح ہوگیا اور ان کا نام و نشان جاویدان بن گیا ، خدا کا دین زندہ ہوگیا۔ کربلا ایک علمی و اخلاقی و فقہی وعلوم انسانی کی عظیم درس گاہ بن گئی ۔
حضرت زینب ؑ کی عارفانہ نگاہیں یہ جانتی تھیں اور صدیوں بعد تک کو دیکھ رہی تھی اور کوفہ کے گورنر کے طعنوں کے جواب میں فرمایا : “مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلاً” میں نے اپنے بھائی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جو کچھ خداوندعالم کی طرف سے ہوا ہے اس کو خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔
آخر مصائب امام پر گریہ کیوں؟
یہاں پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جب کربلا کے تمام واقعات حضرت زینبؑ کی نظر پر خوبصورت و جمیل تھےتو امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت ، مظالم و مصائب اور اسی طرح اسیران کربلا کے مصائب پر گریہ کیوں کیا جاتا ہے؟
جواب:
علماء بیان فرماتے ہیں کہ کربلا کے واقعہ میں تین طرح کے چہرے تھے اور انہیں تینوں چہروں کی کارکردگی اور ان کی طرف سے انجام پانے والے کاموں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کربلا کے واقعات اور حادثات میں کونسی باتیں خوبصورت ہیں جن کی طرف جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اشارہ فرمایا ہے اور کیوں کربلا کا واقعہ گریہ اور عزاداری کا باعث ہے۔
یہاں کربلا کے تینوں چہروں اور ان کی طرف سے انجام پانے والے کاموں کےبارے میں مختصر اشارہ کرکے اصلی سوال کا جواب پیش ہے:
تقدیر الہی اورحسینیؑ کردار
مختصرا ََ امام حسین ؑ اور آپ کے تمام ساتھیوں نے کربلا میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ خوبصورت ہی خوبصورت ہے، کہیں بھی ایسی وفاداری، قربانی، عبادت، بندگی، شکر گزاری، استقامت، حفاظت دینا․․․․ وغیرہ کی مثالیں نہیں ملتی ہیں۔ خدا کے امتحان میں امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں نے جو کامیابی حاصل کی اور کربلا کے صفحات پر اپنے کردار کے جو جلوے بکھیرے ہیں وہ آج بہت زیادہ روشن ہوتے جارہے ہیں ۔کیا یہ خوبصورت نہیں ہے؟
اور اس کے بدلے میں خدا نے کربلا والوں کے لئے جو تقدیر لکھی ہے اور عظیم انعام و اکرام عطا کیے ہیں اس کی مثال انسانیت میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ خدا وندعالم کی طرف سے ملنی والی رضایت، محبت، عنایت، عزت، بزرگی،شہرت، حیات جاویدانی، شفاعت، عظیم مقامات کسے نصیب ہوئے ہیں؟ کیا خدا کی پورا کیا ہوا وعدہ خوبصورت نہیں ہے؟ کیا خدا کی عنایت و محبت خوبصورت نہیں ہے؟
گذشتہ بحث میں ان مطالب کو بیان کیا جاچکاہے لہذا یہاں صرف مختصر طور پر اصلی سوا ل کا جواب پیش ہے۔
مظالم کی انتہا
دنیائے انسانیت میں بنی امیہ کے پست و بدترین کاموں کی مثالیں نہیں ملتی ہیں، امام اور آپ کے ساتھیوں کوشہید کرنا بہت آسان طریقہ سے بھی ممکن تھا لیکن انہوں نے جنایتوں اور مظالم کے لئے جو طریقے اپنائے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ امام سجاد ؑایک مقام پر فرماتے ہیں کہ:
اگر میرے نانا رسولؐ بھی سفارش کرتے کہ میرے اہل بیت ؑ کومودت کے بجائے اذیت کرو تو بھی ممکن نہیں تھا کہ جتنی اذیتیں کربلا کے واقعہ میں دی گئی ہیں، اس سے زیادہ دی جاسکے”۔یعنی ظالموں نے صد در صد مظالم و مصائب و تکلیفیں پہونچائیں ۔ ان کے کام برائی، پستی کی انتہا تھے ، کربلا والوں پر ہمارا گریہ اور ان کے لئے عزاداری اسی لئے ہےکہ دشمنوں نے واقعہ کربلا میں برے کاموں کو نہایت برائی سے انجام دیئے تھے ، مظالم و مصائب میں ظلم و مصیبت کی انتہا کردی تھی۔ یزیدیوں کے انہیں کاموں اور مصائب و مظالم پر عزاداری ہوتی ہےاور جن لوگوں نے امام حسین ؑاور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کئے خداوندعالم کی لعنت و عذاب کے حقدار ہیں، ہم لوگ بھی ان سے دوری اختیار کرتے ہیں، ان سے تبری کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے کربلا کی دردناک داستان کو سنا اور یزیدیوں کے کاموں پر راضی رہا، قیامت تک ایسے لوگوں پر خدا، رسول ؐاور ان کے دوستوں کی لعنت ہے