
فاطمہ(س)؛ شرط ایمان و ہدایت
فاطمہ(س)؛ شرط ایمان و ہدایت
قرآن مجید سورہ بقرہ، آیت ۱۳۶ میں مسلمانوں کو خطاب کرکے ارشاد فرما رہا ہے کہ:
«قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا…»؛”کہو ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کچھ ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے…”۔ آیت کے اس حصے کی تفسیر میں حضرت امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ: «إِنَّمَا عَنَی بِذَلِکَ عَلِیّاً وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ وَ جَرَتْ بَعْدَهُمْ فِی الْأَئِمّةَ»؛ “بیشک اس سے مراد علیؑ اور فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ اور ان حضرات کے بعد آنے والے امامؑ ہیں “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱، ص ۶۸۸) ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان ذوات مقدسہؑ کے سلسلے میں جو بھی حکم دیا گیاہے اس کو ماننا اور ان حضراتؑ کی ولایت کا عقیدہ رکھتے ہوئے اسی کے مطابق عمل کرنا ایمان کا جزء قرار دیا گیا ہے۔ اور یہی حضرات ایمان و ہدایت کی تکمیل کے لئے شرط ہیں۔ کیونکہ یہی ہدایت کا راستہ ہیں اور ان حضراتؑ کی مخالفت گمراہی کا سبب ہے۔
جیسا کہ بعد والی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّما هُمْ في شِقاقٍ…»؛ اگر وہ (اہل کتاب) تملوگوں کی طرح ایمان لے آتے ہیں تو ہدایت یافتہ ہوجائیں گے اور اگر وہ مخالفت کرتے ہیں تو حق سے جدا رہیں گے ” (سورہ بقرہ، آیت ۱۳7 )۔
اس آیت کے ذیل میں حضرت امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں: «بِحَسْبِکُمْ(یحسبکم) أَنْ تَقُولُوا مَا قُلْنَا وَ تَصْمُتُوا عَمَّا صَمَتْنَا فَإِنَّکُمْ إِذًا قُلْتُمْ مَا نَقُولُ وَ سَلَّمْتُمْ لَنَا فِیمَا سَکَتْنَا عَنْهُ…»؛ “تم مومنین کے لئے یہی کافی ہے کہ تم لوگ وہی کہو جو ہم ائمہؑ کہتے ہیں اور ان باتوں کے سلسلے میں سکوت اختیار کرلو جن کے بارے میں ہم نے سکوت اختیار کیا ہے لہذا اگر تم نے وہی کہا جو ہم لوگوں نے کہا اور جن باتوں پر ہم نے سکوت کیا اس پر تم لوگ بھی خاموش رہے تو حقیقت میں صاحب ایمان رہوگے…”( مستدرک الوسایل، ج۱۲، ص۲۷۷؛ بحارالانوار، ج۲، ص۷۷)۔




