
عیدِ زہراءؑ پر ایک تحقیقی جائزه
تحریر: مولانا ہلال اصغر ہندی ۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔
فہرست مندرجات
عید زہرا سلام اللہ علیہا کب سے؟
عید الزہراء سلام اللہ علیہا شیعہ نقطۂ نظر سے
عید زہرا سلام اللہ علیہا اہلسنت کی نگاہ میں
عید زہرا سلام اللہ علیہا کے اعمال
عید الزہراء سلام اللہ علیہا اور ہماری ذمہ داریاں
مقدمہ
دین اسلام اپنی اساس میں انسان کی فکری، روحانی اور عملی تربیت کے لیے آیا ہے۔ اسلام نے صرف عبادات و رسومات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک ایسے کامل نظام حیات کو پیش کیا جو انسان کو ظلم و باطل کے اندھیروں سے نکال کر عدل و ہدایت کی روشنی تک پہنچاتا ہے۔
اس دین میں ایام اللہ کی بڑی اہمیت ہے، وہ دن جن میں اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد کا مشاہدہ ہوا یا باطل قوتوں کی رسوائی سامنے آئی۔ انہی عظیم ایام میں سے ایک یوم التاسع من ربیع الاول ہے، جو تاریخ اہلبیت اطہار علیہم السلام میں (عید زہراء سلام اللہ علیہا) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ دن دراصل اس مسرت، شادمانی اور اطمینان قلب کا دن ہے جو اہل بیت عصمت و طہارت ؑاور ان کے ماننے والوں کو نصیب ہوا جب سب سے بڑا طاغوتی چہرہ، یعنی ظلم و نفاق کا بانی و مجسمہ (خلیفہ دوم کے قتل کے دن) دنیا سے رخصت ہوا۔
اہل ایمان کے نزدیک یہ دن ایک عید ہے کیونکہ یہ دن حق کے غلبے اور باطل کے زوال کی یاد دہانی ہے۔ امامیہ مکتب کے علماء نے اسے خوشی و شکر کے دن کے طور پر یاد کیا ہے، اور یہ روایت اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے ثابت ہے کہ ظالموں کے زوال پر اللہ کا شکر بجا لانا اور خوشی کا اظہار کرنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث قربت ہے۔
عید زہرا ؑکے معنی و مفہوم
عید کا معنی
لفظ (عید) عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس کا مادہ (ع و د_ عود) ہے، جس کے معنی ہیں:
بار بار لوٹ کر آنا۔ خوشی اور سرور کا لوٹنا۔
اسی وجہ سے اسلامی تہواروں کو عید کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ دن ہر سال بار بار آتے ہیں اور خوشیاں لے کر آتے ہیں۔
ابن منظور نے لسان العرب میں تحریر کیا ہیکہ:
والعِيدُ: كُلُّ يَومٍ فيه جَمعٌ، واشتُقَّ من العَودِ لأَنَّه يَعودُ كُلَّ سنةٍ بفَرَحٍ مُجَدَّدٍ ؛ عید وہ دن ہے جس میں لوگ جمع ہوں۔ اسے عود (لوٹنے) سے ماخوذ کہا گیا ہے کیونکہ یہ ہر سال خوشی کے ساتھ لوٹ آتا ہے”(لسان العرب (ابن منظور) ج٣، ص٣١٣)۔
فیروزآبادی نے القاموس المحيط میں لکھا ہے کہ:
العِيدُ: ما يَعودُ مِن هَمٍّ أو فَرَحٍ؛ “عید اس دن کو کہا جاتا ہے جو بار بار خوشی یا غم کے طور پر لوٹ آئے(القاموس المحيط (فیروزآبادی) ج ٣، ص ٢٨٣)۔
راغب اصفہانی مفردات القرآن میں رقم کرتے ہیں کہ:
العِيدُ: كلُّ يَومٍ يُحتَفَلُ به، واشتُقَّ مِن العَودِ؛ ترجمہ: عید ہر اس دن کو کہا جاتا ہے جس میں جشن منایا جائے، اور یہ عود (واپس آنے) سے ماخوذ ہے(مفردات القرآن (راغب اصفہانی) ص ٣٤١ (طبع دارالقلم دمشق)۔
عید اسلامی اصطلاح میں
عید ایک ایسا دن ہے جسے شریعت نے خوشی، اجتماع، عبادت اور مخصوص اعمال کے ساتھ مقرر کیا ہے۔
اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام میں چار بڑی عیدیں ہیں:عید الفطر (رمضان کے بعد)، عید الاضحیٰ (قربانی کے ایام)، عید ولایت و امامت (١٨ ذی الحجہ)، عید جمعہ (روز جمعہ)۔
مفہوم عید زہراؑ
لغوی اعتبار سے:
جیسا کہ پہلے بیان ہوا، لفظ عید (ع و د) سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں واپس لوٹنا، خوشی کا پلٹ کر آنا، اجتماع اور شادمانی کا دن۔ لہٰذا لغوی لحاظ سے عید الزہراءؑ کا مطلب ہواسیدہ فاطمہ زہراءؑ کی نسبت سے ایک خوشی کا دن جو بار بار لوٹ کر آتا ہے۔
اصطلاحی اعتبار سے:
شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک ۹ ربیع الاول کو (عید الزہراء ؑ) کہا جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن غاصب خلافت، دشمن آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بن خطاب واصل جہنم ہوا، اور اس دن تاریخ کربلا کے اصل دشمن اور اہل بیت علیہم السلام کے قاتلانہ رویوں کے پس پردہ کردار عمر بن سعد، عبید اللہ بن زیاد اور یزیدی نظام کے اہم ستون ختم ہو گئے تھے۔
یہ دن اہل بیت اطہار ؑکے محبین کے نزدیک ایک فتح و نصرت اور خوشی کا دن قرار پایا۔
روایات میں اس کو اہل بیت ؑ کی خوشی اور مسرت کا دن کہا گیا ہے، اور اسی نسبت سے اسے عید کہا جاتا ہے۔
پس نتیجہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ عید زہراءؑ کا مطلب ہے وہ دن جو ہر سال لوٹ کر آتا ہے اور جس میں اہل بیت اطہار ؑکی خوشی اور شیعوں کے لیے مسرت ہے۔
لغوی طور پر یہ خوشی و اجتماع کا دن ہے، اور اصطلاحی طور پر یہ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے زوال اور ولایت اہل بیت ع کی تجدید کا دن ہے۔
عید زہرا سلام اللہ علیہا کب سے؟
ایران اور عراق میں ربیع الاول کی نو تاریخ کو مسلمانوں کے خلیفۂ دوم کے قتل کی مناسبت سے خوشی کی محفلیں برپا کی جاتیں ہیں جو عید زہراء اور فرحۃ الزہراء ؑ کے نام سے معروف ہیں۔
رسول جعفریان کے مطابق، تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسی محفلوں کا انعقاد آل بویہ کے دور میں ہوتا تھا جس کے نتیجے میں مذاہب کے درمیان نزاع و کشیدگی پائی جاتی تھی۔ پھر چھٹی صدی ہجری کے بعد سے صفویوں تک اس طرح کی محفلوں کا انعقاد کم ہوا اگرچہ کاشان میں یہ محفلیں برقرا ہوتی رہیں(جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، قم، انصاریان، ١٣٨٣شمسی، ج٣، ص١٠٣٧-١٠٩٣؛صادقی کاشانی، نہم ربیع، روز امامت و مہدویت، تابستان ١٣٩١ شمسی، ص٤٣)۔
سید بن طاووس (متوفا ٦٦٤ق) نے نو ربیع الاول کے دن بعض دشمنان اہل بیت علیہم السلام کی فوتگی کے دن کے اعتقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ایرانی اس دن کی فضیلت و اہمیت کے قائل ہیں(ابنطاووس، الاقبال بالاعمال، ١٤١٥ھ، ج٣، ص١١٣)۔
ان کے اس بیان سے یوں ظاہر ہوتا ہے گویا وہ خود اس طرح کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے(جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، ١٣٩٠ شمسی، ص٨٣٥)۔
صفویہ حکومت کے قیام اور وسیع پیمانے پر تشیع کے پھیلنے کے بعد نو ربیع الاول کا دن حضرت عمر کی وفات کا قطعی دن سمجھا جانے لگا اور اس دن مراسم کا انعقاد ہونے لگا(علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج٣١، ص١١٩ و ١٢٠)۔
قاضی نوراللہ شوشتری نے اپنی کتاب میں صفویہ کے دور کے سنی عالم دین کے اعتراض کے جواب میں کہا: اس کام کی شیعہ علما نے تائید نہیں کی اور اب تو یہ متروک ہو چکا ہے(شوشتری، مصائب النواصب، تصحیح: قیس العطار، ١٣٨٤ شمسی، ج٢، ٢٤٢)۔
انقلاب اسلامی کا دور
ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور امام خمینی رہ کی رہبری کے زمانے میں خلیفۂ دوم کے قتل کی خوشی میں محفلوں کا انعقاد ممنوع قرار پایا اور اس زمانے کا وزیر محتشمی پور ایسی محفلوں کے خلاف سخت اقدام کرتا تھا۔
ایسی محفلوں کی ممانعت کی ایک وجہ فرقوں کے درمیان اختلاف، سنی اور شیعہ کے درمیان مذہبی منافرت پیدا ہونا بتائی گئی ہے۔ غیر روایتی اور بعض اوقات قبیح اور غیر مہذب ادب کا استعمال اور ایسے ڈرامے پیش کرنا کہ جو معاشرے کی عام روایات کے خلاف ہیں، اس پر پابندی کے اسباب میں سے ہے۔ ایسی محفلوں کی ممانعت کے اعلان کے بعد کاشان میں موجود ابو لؤلؤ کے مزار کو پولیس انتظامیہ کی طرف سے بند کر دیا گیا(لطفی، نہم ربیعالاول و جشن ممنوع عمرکشان، پایگاہ اینترنتی جامعہشناسی تشیع، تاریخ بازدید: ٢١-٠٩-١٣٩٥)۔
٩ ربیع الاول کے اہم واقعات
ربیع الاول کی ٩ تاریخ کو رونما ہونے والے بعض اہم واقعات درج ذیل ہیں:
١: امامت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا پہلا دن:
٩ربیعالاول شیعوں کیلئے آغاز امامت امام مہدی (عج) کی مناسبت سے عید جانا گیا ہے نیز اس روز اس مناسبت سے جشن اور خوشی کی محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ صادقی کاشانی، نہم ربیع، روز امامت و مہدویت۔
کیونکہ ٨ ربیع الاول کو عباسی خلیفہ معتمد کے ہاتھوں امام حسن عسکریؑ شہید ہوئے اور ان کے فرزند حضرت مہدی آخرالزماں(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) منصب امامت پر فائز ہوئے(مفید، الارشاد، ١٤١٤ھ، ص٥١٠)۔
٢: عمر بن سعد کا قتل:
زاد المعاد میں علامہ مجلسی کے مطابق ایک قول کی بنا پر ربیع الاول کی ٩ تاریخ کو مختار ثقفی کے ہاتھوں عمر بن سعد مارا گیا(مجلسی، زاد المعاد، ١٤٢٣ھ، ص٢٥٨)۔
عمر سعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی سعد بن ابی وقاص کا بیٹا تھا جو عبید اللہ بن زیاد کی طرف سے کوفہ کی سپاہ کا سپہ سالار مقرر ہوا جسے امام حسین علیہ السلام سے مقابلہ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی(طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ١٣٨٧ھ، ج٥، ص٤٠٩)۔
اور اس لشکر نے دہم محرم کو امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بہتر(٧٢) اصحاب و اہل بیتؑ کے اصحاب کو شہید کیا۔
٣: خلیفہ دوم کا قتل:
الف: ٩ ربیع الاول کو مسلمانوں کے خلیفہ دوم کے قتل ہونے کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جس کی تاریخ چھٹی صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے، عبدالجلیل قزوینی (وفات: چھٹی صدی ہجری) نے مآخذ سے استناد کئے بغیر اس دن کو عمر بن خطاب کے قتل ہونے کا دن قرار دیا ہے(رازی قزوینی، بعض مثالب النواصب، ١٣٥٨شمسی، ص٣٥٣)۔
سلسلہ صفویہ کے شیعہ عالم دین علامہ مجلسی کے مطابق صفویہ دور حکومت میں شیعہ کے یہاں ٩ ربیع الاول کو عید شمار کیا جاتا تھا جس کی دلیل ایک حدیث تھی(مجلسی، بحارالانوار، ١٤٠٣ھ، ج٣١، ص١١٩ و ١٢٠)۔
اس حدیث کے مطابق امام محمد تقی علیہ السلام نے ٩ ربیع الاول کو اہل بیت اطہار علیہم السلام اور ان کے محبین کے لئے عید قرار دیتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ خدا اس دن کرام الکاتبین کو تین دن تک لوگوں کے گناہوں کو نہ لکھنے کا حکم دیتا ہے(مجلسی، بحارالانوار، ١٤٠٣ھ، ج٣١، ص١٢٠-١٢٥)۔
ب: متعدد تاریخی منابع کے مطابق مسلمانوں کے خلیفہ دوم کا قتل ٢٣ھ کو ذیالحجۃ کے آخری ایام میں رونما ہوا ہے(ملاحظہ کیجیے: تاریخ خلیفہ بن خیاط، خلیفہ بن خیاط، ص١٠٩؛ اخبار الطوال، ابوحنیفہ دینوری، ص١٣٩؛ أنساب الأشراف، بلاذری، ج١٠، ص٤٣٩)۔
ان منابع کے مطابق خلیفہ دوم ٢٦ یا ٢٧ ذیالحجۃ کو مغیرۃ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ کے ہاتھوں زخمی ہوا اور ٣ دن بعد یعنی ٢٩ یا ایک قول کی بنا پر ٣٠ ذیالحجہ کو دنیا سے رخصت ہوگیا(ابنسعد، الطبقات الکبری، ١٤١٨ھ، ج٣، ص٢٧٨؛ مسعودی، مروج الذہب، ١٤٠٩ھ، ج٤، ص٣٠٢؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج٢، ص١٥٩؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ١٣٨٧ھ، ج٤، ص١٩٤؛ مفید، مسارالشریعہ، ١٤١٤ھ، ص٤٢)۔
ج: اسی طرح تاریخی شواہد کے مطابق خلیفہ دوم کے بعد خلیفہ کے عنوان سے عثمان بن عفان کی بیعت بھی ذیالحجہ کے آخر یا محرم الحرام کے اوائل میں ہوئی ہے(طبری، تاریخ الامم و الملوک، ١٣٨٧ھ، ج٤، ص١٩٤؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج٢، ص١٦٢)۔
ایران کے شہر کاشان میں بھی شروع میں عید الزہرا مراسم کو ابولؤلؤ کے مزار پر ذیالحجہ کے مہینے میں مناتے تھے(افندی اصفہانی، تحفہ فیروزیہ (گزارشی از کتاب)، ١٣٧٨شمسی، ص٨٢)۔
علامہ مجلسی کے مطابق فقہای امامیہ کے درمیان بھی یہی مشہور ہے کہ خلیفہ دوم کا قتل ذی الحجہ میں واقع ہوا ہے(مجلسی، بحارالانوار، ١٤٠٣ھ، ج٣١، ص١١٨و١١٩)۔
٤: نہم ربیع الاول کا وفات عمر سے منسوب ہونا:
بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ ایران میں آل بویہ کے دور حکومت میں ٩ ربیع الاول کو حضرت عمر کی وفات سے منسوب کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس وقت مختلف فرقوں کے درمیان موجود اختلافات مختلف مناسبتوں کی صورتوں میں نمایاں ہوتے رہتے تھے مثلا ابوبکر کا پیغمبراعظمؐ کے ساتھ غار ثور میں رہنے کا دن، اسی طرح حنابلہ کی طرف سے مصعب بن زبیر کی وفات کے عزا کا دن، شیعوں کی طرف سے عیدغدیر اور عاشورا منانے کا دن وغیرہ۔
انہی مذہبی اختلافات کے پیش نظر شیعہ حضرت عمر کے یوم وفات کی مناسبت سے خوشی منانا چاہتے تھے لیکن چونکہ ان کی وفات ذی الحجہ کے آخری ایام میں ہوئی تھی لہذا خوشی کی یہ محافل محرم الحرام میں عزاداری امام حسین علیہ السلام سے متقارن ہونے کی وجہ سے محرم و صفر کے بعد یعنی ربیع الاول میں منعقد ہونا شروع ہوئے پھر آہستہ آہستہ ٩ ربیع الاول کا دن حضرت عمر کی وفات سے منسوب ہوگیا(صادقی کاشانی، نہم ربیع؛ روز امامت و مہدویت، مشرق موعود، ١٣٩١ شمسی، ص٤٤ و ٤٥)۔
عید الزہراء سلام اللہ علیہا شیعہ نقطۂ نظر سے
١: اہل بیت علیہم السلام کی خوشی و سرور کا دن
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے کتاب بحار الانوار میں روایت کی ہے کہ: یَوْمُ التَّاسِعِ مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ هُوَ يَوْمُ الْفَرَحِ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ، وَيَوْمُ سُرُورِهِمْ؛ ربیع الاول کی نو تاریخ آل محمد علیہم السلام کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہے(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٣١، ص ١٢٠، طبع دار احیاء التراث)۔
پس شیعہ روایات میں اس دن کو یوم السرور کہا گیا ہے کیونکہ یہ دن ظالم دشمنوں کے انجام کا دن ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے لیے راحت و مسرت کا سبب ہے۔
٢: ظالموں سے براءت کا دن
شیخ مفید علیہ الرحمہ نے ۹ ربیع الاول کے اعمال کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دن اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمنوں سے تبری (براءت) کے اعلان کا دن ہے۔ هُوَ يَوْمُ الْبَرَاءَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْحَقِّ، وَيَوْمُ سُرُورِهِمْ بِهَلَاكِ أَعْدَائِهِمْ. یہ دن اہل حق کے نزدیک براءت کا دن ہے، اور ان کی خوشی کا دن ہے کیونکہ ان کے دشمن ہلاک ہوئے(شیخ مفید، مزار کبیر، ص ٥٧٣، طبع نجف)۔
اسی کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس دن شیعہ اپنے ایمان کو تجدید کرتے ہیں اور ظالموں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ پس اگر کہا جائے کہ عید الزہراء سلام اللہ علیہا ، اہل بیت رسول (ص) کے ماننے والوں کے لیے ایک سیاسی اور عقیدتی موقف ہے، جو دوستی (ولایت) اور دشمنی (براءت) کے قرآنی اصول پر مبنی ہے۔
٣: تجدید ولایت کا دن
روایت اہلبیت علیہم السلام میں کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَمَسَّكَ بِوَلَايَةِ الْأَئِمَّةِ وَتَبَرَّأَ مِنْ أَعْدَائِهِمْ.؛ کامیاب وہ ہے جو ائمہ کی ولایت کو تھامے اور ان کے دشمنوں سے براءت کرے(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٣١، ص ١٢٩)۔
پس اس دن کو عید اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ شیعوں کے لیے تجدید عہد ولایت کا دن ہے۔
٤: نسبت زہراء سلام اللہ علیہا
مفاتیح الجنان میں شیخ عباس قمی نے اس دن کو عید الزہراء سلام اللہ علیہا اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ دن حضرت زہراء و مرضیہ، صدیقہ و طاہرہ، محدثہ سیدہ فاطمہ زہراء کی خوشنودی اور مسرت کا دن ہے۔ وَسُمِّيَ هَذَا الْيَوْمُ بِيَوْمِ عِيدِ الزَّهْرَاءِ عَلَيْهَا السَّلَامُ لِأَنَّهُ يَوْمُ فَرَحِهَا وَسُرُورِهَا(شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، اعمال ۹ ربیع الاول، ص ٥١٢، طبع نجف)۔
چونکہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے دور حیات میں غاصبین اور ظالموں سے رنجیدہ رہیں، اس دن جب ان کے دشمن ذلیل و خوار ہوئے، اسے سیدہ (س) کی نسبت سے عید الزہراء کہا گیا۔
٥: اجتماعی و روحانی پہلو
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے نقل کیا ہے کہ: يَنْبَغِي لِلشِّيعَةِ فِي هَذَا الْيَوْمِ أَنْ يُظْهِرُوا السُّرُورَ وَ الْفَرَحَ، وَ يَتَوَسَّعُوا عَلَى عِيَالِهِمْ، وَيَلْبَسُوا الْجَدِيدَ. کہ شیعہ اس دن خوشی کا اظہار کریں، نئے کپڑے پہنیں، کھانے پینے میں وسعت کریں اور اہل خانہ کو خوش کریں(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٣١، ص ١٣٣)۔
تو اس کا معنی و مفہوم یہ ہوگا کہ عید صرف تاریخی یادگار نہیں بلکہ ایک اجتماعی اور روحانی جشن ہے جو شیعہ معاشرے میں امید، قوت ایمان اور اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کو تازہ کرتا ہے۔
نتیجہ
شیعہ کتب و مصادر کے مطابق عید الزہراء سلام اللہ علیہا کے اہم مفاہیم یہ ہیں:
الف: اہل بیت علیہم السلام کی خوشی و مسرت کا دن۔
ب:ظالموں اور غاصبوں سے براءت کا دن۔
ج: ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کے ساتھ تجدید عہد۔
د: حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی نسبت اور خوشنودی۔
ہ: شیعہ معاشرے کے لیے اجتماعی جشن اور روحانی بیداری۔
عید زہرا سلام اللہ علیہا اہلسنت کی نگاہ میں
اہل سنت کے ہاں ۹ربیع الاول کو عید الزہراء سلام اللہ علیہا کے نام سے کوئی تہوار یا عید موجود نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک شیعہ روایت ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کے خاتمے اور سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی خوشنودی سے منسوب ہے، لیکن سنی مصادر میں اس کی تاریخی یا شرعی حیثیت تسلیم شدہ نہیں۔
تاریخی پہلو (اہل سنت کے نزدیک)
١: عمر بن خطاب کے انتقال کی تاریخ
اہل سنت مؤرخین متفق ہیں کہ عمر بن خطاب کا انتقال آخر ذوالحجہ ٢٣ ہجری میں ہوا، نہ کہ ۹ ربیع الاول کو۔
قُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ لأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ.
عمر بن خطاب لعن۔۔۔ بدھ کے دن، ذوالحجہ کے آخری چار دن باقی تھے، ٢٣ ہجری میں قتل کیے گئے(تاریخ طبری، ج ٤، ص ١٩١۔ البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج ، ص ١٣٢)۔
پھر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک ۹ ربیع الاول کا تعلق عمر کے قتل سے جوڑنا تاریخی طور پر درست نہیں۔
٢: اہل سنت کے نزدیک صرف دو عیدیں
اہل سنت میں نبی اکرم کی حدیث پر اجماع ہے: سنن نسائی، کتاب العیدین
إن لكل قوم عيدًا وهذا عيدنا؛ ترجمہ: ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری (دو) عیدیں ہیں(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، حدیث ١١٣٤)۔
نتیجہ کے طور پر کہا جاسکتا ہیکہ اہل سنت کے نزدیک عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے علاوہ کوئی تیسری عید شرعی حیثیت نہیں رکھتی۔
٣: بدعت کا تصور
امام شاطبی نے کتاب الاعتصام میں واضح کیا ہے کہ:
كل أمر محدث في الدين بدعة؛ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے(امام شاطبی، الاعتصام، ج ١، ص ٣٧)۔
نتیجتاً اہل سنت کے نزدیک عید الزہراء سلام اللہ علیہا جیسا دن چونکہ نبی یا صحابہ کے عمل سے ثابت نہیں، اس لیے اسے بدعت سمجھا جاتا ہے۔
٤: ۹ ربیع الاول کے حوالے سے کوئی فضیلت نہیں
سنی تفاسیر و کتب تاریخ میں ۹ ربیع الاول کو نہ کسی خوشی کے دن کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور نہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے۔
اس دن کو یوم السرور یا یوم البراءۃ کے طور پر بیان کرنے کی روایات صرف شیعہ مصادر میں ہیں۔
مراجع تقلید کی نگاه میں
حضرت عمر بن خطاب کے قتل کی خوشی میں محافل کے انعقاد کی بہت سے مراجع تقلید نے مخالفت کی ہے۔ نجف کے مراجع میں سے محمد حسین کاشفالغطاء نے ایسی محفلوں کی ممنوعیت کا اعلان کیا(نظر كاشف الغطاء در مورد روز ٩ ربيع الاول، کنگرہ بینالمللی علامہ محمد حسین کاشف الغطا، تاریخ بازدید: ٢١-٠٩-١٣٩٥)۔
رہبر معظم زید عزہ
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ(ع) کو خوش کرنے کی غرض سے بعض کاموں کے انجام دینے کو حضرت فاطمہ(س) کے دشمنوں کے خوشی کا باعث اور اہداف انقلاب اسلامی ایران کے مخالف قرار دیا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی دامت برکاتہ
آیت اللہ سیستانی نے تاکید کی ہے: شیعوں کو چاہیے کہ اپنی توجہات کو مشترک نکات پر مرکوز کریں اور تصریح کی کہ اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
آیت اللہ سیستانی کے نزدیک ایسی محفلوں میں شرکت جائز نہیں ہے نیز ان کے نزدیک اختلاف آمیز ادبیات سے پرہیز لازم ہے(نہم ربیع، جہالت ہا و خسارت ہا، ص ١٠٣ – ١١٩)۔
آیت اللہ محمد تقی بہجت علیہ الرحمہ
آیت اللہ محمد تقی بہجت نے بھی حضرت زہرا(س)کے حوالے سے خوشی کی محفلوں میں توصیہ کیا: ایسے مواقع پر فضائل اہل بیتؑ اور خاص طور پر حضرت زہرا(س) کے فضائل اور حدیث ثقلین بیان کی جائے۔ ان کے بقول آیت اللہ بروجردی کی بھی یہی روش رہی ہے۔
آیت اللہ بہجت طاب ثری نے اسی طرح عید زہرا سلام اللہ علیہا کے نام سے منائی جانے والی محفلوں کے بارے میں کہا: چہ بسا کئی مرتبہ ایسے کام ان شیعوں کیلے اذیت و آزار کا موجب بنیں جو دوسرے ممالک میں اقلیتی تعداد میں زندگی گزار رہے ہیں اور اگر ایسے کاموں کی وجہ سے شیعوں کا قتل غارت ہو تو ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہونگے۔(خبرگزاری ابنا)۔
آیت اللہ میرزا جواد تبریزی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی
آیت اللہ میرزا جواد تبریزی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی کا کہنا تھا کہ جو کام سال کے دیگر ایام میں انجام دینا گناہ اور حرام ہے انہیں نو ربیع الاول کو انجام دینا بھی گناہ اور حرام ہے۔ نو ربیع الاول اور سال کے دیگر ایام میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے(صافی، جامع الأحکام صافی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی، ١٣٨٥ شمسی، ج٢، ص ١٢٨؛آیت اللہ العظمی تبریزی، استفتائات جدید، قم، سرور، ١٣٨٥ شمسی، ج٢، ص٥١٦)۔
عید زہرا سلام اللہ علیہا کے اعمال
یہاں پر آپ کے لیے مفاتیح الجنان شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ کی کتاب میں ذکر شدہ ۹ ربیع الاول (عید زہراء سلام اللہ علیہا) کے اعمال درج کر رہا ہوں:
اعمال یوم ۹ ربیع الاول مفاتیح الجنان
١: غسل
روایت میں ہے کہ اس دن غسل کرنا مستحب ہے۔
٢: روزہ
۹ ربیع الاول کے دن کا روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے، روایت میں ہے کہ:
مَنْ صَامَ يَوْمَ التَّاسِعِ مِنْ رَبِيعٍ، كُتِبَ لَهُ ثَوَابُ سِتِّينَ شَهْراً.( مصباح المتهجد، ص ۷۵۴)۔
جو شخص ۹ ربیع الاول کا روزہ رکھے، اس کے لیے ساٹھ ماہ کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا۔
٣: خوشی و شادمانی
اس دن خوش ہونا، اچھے کپڑے پہننا، اور اہل ایمان کو خوش کرنا مستحب ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
هُوَ يَوْمُ الْفَرَحِ لِأَهْلِ الْبَيْتِ؛ یہ دن اہل بیت (علیہم السلام) کی خوشی کا دن ہے(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ۳۱، ص ۱۲۰)۔
٤: صدقہ دینا اور احسان کرنا
مومن کو چاہیے کہ شکرانے کے طور پر صدقہ دے، محتاجوں کی مدد کرے، اور خوشیاں بانٹے۔
٥: لعن و براءت
اس دن دشمنان اہل بیت علیہم السلام پر لعنت کرنا اور ان سے براءت کا اظہار کرنا مستحب ہے۔
روایت میں ہے کہ:
أَكْثِرُوا فِيهِ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَالْعَنُوا أَعْدَاءَهُمْ؛ اس دن کثرت سے محمد و آل محمد پر درود بھیجو اور ان کے دشمنوں پر لعنت کرو(مزار کبیر، ص ۵۳۷)۔
٦: زیارت
الف: شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے مصباح المتهجد میں نقل کیا ہے کہ اس دن کی خاص زیارت ہے جو زیارت عاشورا کی طرح لعن و سلام پر مشتمل ہے۔
ب: علامہ مجلسی نے بھی زاد المعاد میں اسے ذکر کیا ہے۔
عید الزہراء سلام اللہ علیہا اور ہماری ذمہ داریاں
عیدالزہرا سلام اللہ علیہا ایک ایسی عید ہے جسے شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں مناتا اسے عید شجاع اورروز سرور اہلبیت علیہم السلام کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
لہذا ہماری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جسے ذیل میں قلمبند کیا جارہا ہے:
١: غسل، خوشبو اور نیا لباس
يُسْتَحَبُّ في هذا اليوم إطعامُ الإخوانِ المؤمنين، والتوسّعُ على العيال، ولبسُ الثياب الطيّبة، وشكرُ الله تعالى، وهو يومُ زوالِ الغموم والأحزان؛ اس دن مؤمن بھائیوں کو کھانا کھلانا، اہلِ خانہ کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، خوشبودار اور صاف لباس پہننا اور اللہ کا شکر ادا کرنا مستحب ہے۔یہ دن غم اور الحزن کے خاتمے کا دن ہے۔(شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص ۵۹۱)۔
٢: خوشی اور سرور کا اظہار
هذا يومُ السُّرورِ لنا أهلَ البيت، وشيعتِنا … وهو يومٌ يُسقطُ اللهُ فيه الذنوبَ عن شيعتِنا؛ یہ دن اہل بیت علیہم السلام اور شیعوں کے لیے خوشی اور سرور کا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالی اپنے شیعوں کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ۹۵، ص ۳۵۱)۔
٣: امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی امامت کی تجدید
فَلَمّا مضى أبو محمد الحسن العسكري عليه السلام… قامَ صاحبُ الزمانِ عليه السلام بالحقّ إماماً وخليفةً لله في أرضه؛ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے اللہ کے نمائندے اور امام کی حیثیت سے زمینی رہنمائی سنبھالی(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۰۸)۔
٤: توالّا و تبرّا
إنّ هذا اليوم هو يومُ البراءة من أعداء الله، ويومُ قبولِ أعمالِ الشيعة ومحبيّنا؛ یہ دن اللہ کے دشمنوں سے بیزاری (تبرّا) اور اہلِ بیت علیہم السلام سے محبت (توالّا) کا دن ہے(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ۹۵، ص ۳۵۲)۔
٥: دعا و زیارات
اللّهُمَّ رَبَّ النُّورِ الْعَظِيمِ … اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ أَنْصَارِهِ وَأَعْوَانِهِ وَالذَّابِّينَ عَنْهُ. السلامُ عليكَ يا داعِيَ اللهِ، وربّانيَّ آياتِهِ…؛ دعائے عہد میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نصرت، حمایت اور دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ زیارت آل یاسین میں امام کی سلامتی اور رہنمائی کو یاد کیا جاتا ہے(شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص ۱۰۶۵، ۱۰۸۹)۔
٦: صدقہ، خیرات اور مؤمنین کو خوش کرنا
من أحسنَ إلى إخوانِه في هذا اليومِ، وأدخلَ السرورَ عليهم، غفرَ اللهُ له ذنوبَ ستّين سنة. هذا اليوم يومُ البركة، ويومُ البِشرِ للمؤمنين، فمَن وسَّع فيه على عيالِه غُفر له.
جو شخص اس دن اپنے مؤمن بھائیوں کے لیے نیکی کرے اور انہیں خوش کرے، اللہ تعالی اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ یہ دن برکت اور خوشی کا دن ہے، اور اہلِ خانہ کی خدمت اور خیرات کا باعث ہے(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ۹۵، ص ۳۵۴؛ نور الثاقب، ص ۲۸۹)۔
٧: دینی و اجتماعی محافل
الغُسلُ في التاسع من ربيعٍ الأوّل … قد وردتْ فيه رواياتٌ معتبرةٌ، وهو من أيّامِ السُّرورِ لأئمّتنا وشيعتهم.
٩ ربیع الاول میں غسل اور دیگر مستحب اعمال کی کئی معتبر روایات وارد ہوئی ہیں۔
یہ دن اماموں اور ان کے شیعوں کے لیے خوشی اور سرور کا دن ہے(جواہر الکلام، ج ۵، ص ۴۳)۔
تتمہ
خداوند عالم کے پر وقار بندہ جناب مختار ثقفی نے کربلا کے مجرموں و قاتلوں اور خیانت کاروں کو واصل جہنم کرنا شروع کیا۔ جب کربلا کے اہم مجرم عمر بن سعد اور عبید اللہ بن زیاد کو قتل کیا تو ان کے نحس سر مدینہ منورہ میں اپنے امام زمانہ امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا۔ اس وقت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام دسترخوان پر تشریف فرما تھے اسی ہنگام یہ سر آپ کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس پر امام علیہ السلام مسکرائے، سجدہ شکر کیا اور اپنے مختار شیعہ اور مطیع کے لئے رحمت کی دعا کی۔
جس دن جناب مختار رضوان اللہ تعالی علیہ نے عمر بن سعد کو واصل جہنم کیا وہ دن ٩ ربیع الاول کا تھا۔ لہذا عید زہرا سلام اللہ علیہا کی ایک اہم مناسبت قتل عمر بن سعد ہے۔
جناب مختار رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنے عزادار اور سوگوار امام وقت کے لبوں پر تبسم کا گلاب کھلاتے ہوئے ان کی رضا و خوشنودی اور دعا حاصل کی۔ لہذا اپنے امام وقت کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا عید زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک اہم پیغام اور سبق ہے۔
یا یوں کہا جائے کہ یہ دن ایک ایسا دن ہے جب اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مظلوم دلوں کو سکون ملا، چہرہ مبارک پر ایک طویل عرصے کے بعد تبسم کے آثار نمایاں ہوئے، ظلم و دشمنی کا ایک بڑا باب ختم ہوا، اور اسی لیے اسے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عید کہا جاتا ہے۔
منابع و مآخذ
١: ابن طاووس، علی بن موسی بن طاووس، تصحیح جواد قیومی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ١٤١٤ھ۔
٢: ابنادریس، محمدبن منصور، السرائر، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، ١٤١٠ھ۔
٣: ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق: عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ١٤١٨ھ۔
٤: ابنطاووس، رضیالدین علی، الاقبال بالاعمال، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ١٤١٥ھ۔
٥: افندی اصفہانی، میرزا عبداللہ، تحفہ فیروزیہ (گزارشی از کتاب)،کوشش رسول جعفریان، قم، بیجا، ١٣٧٨شمسی، ص٨٢۔
٦: تبریزی، میرزا جواد، استفتائات جدید، قم، سرور، ١٣٨٥ہجری شمسی۔
٧: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، قم، انصاریان، ١٣٨٣ہجری شمسی۔
٨: جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، نشرعلم، تہران، ١٣٩٠ہجری شمسی۔
١٠: جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، نشر انصاریان، چاپ ششم، ١٣٨١۔
١١: حر عاملی، وسائل الشیعہ، قم، انتشارات آل البیتؑ لإحیاء التراث، چاپ دوم، ١٤١٤ھ۔
١٢: حلی، حسن بن سلیمان، المحتضر، نجف، حیدریہ، ١٣٧٠ھ۔
١٣: رازی قزوینی، عبدالجلیل، بعض مثالب النواصب فی نقض بعض فضائح الروافض، تہران، انجمن آثار ملی، ١٣٥٨ہجری شمسی۔
١٤: شوشتری، قاضی نوراللہ، مصائب النواصب، تصحیح قیس العطار، قم، دلیل ما، ١٣٨٤ہجری شمسی۔
١٥: صادقی کاشانی، مصطفی، نہم ربیع، روز امامت و مہدویت، مشرق موعود، س٦، ش٢٢، تابستان ١٣٩١ہجری شمسی۔
١٦: صافی، لطف اللہ، جامع الأحکام صافی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی، ١٣٨٥ہجری شمسی۔
١٧: طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ١٣٨٧ھ۔
١٨: عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، دارالفکر، بیروت۔
١٩: لطفی، فاطمہ، نہم ربیعالاول و جشن ممنوع عمرکشان، پایگاہ اینترنتی جامعہ شناسی تشیع، تاریخ بازدید: ٢١-٠٩-١٣٩٥۔
٢٠: مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دارالرضا، ١٤٠٣ھ۔
٢١: مجلسی، محمدباقر، زاد المعاد، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ١٤٢٣ق/ ٢٠٠٣ء۔
٢٢: مسائلی، مہدی، نہم ربیع، خسارتہا و جہالتہا، نشر وثوق، چاپ دوم، ١٣٨٧ہجری شمسی۔
٢٣: مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، تحقیق: اسعد داغر، قم، دارالہجرہ، ١٤٠٩ھ۔
٢٤: مفید، محمد بن محمد نعمان، مسارالشریعہ، بیروت، دارالمفید، ١٤١٤ھ۔
٢٥: یعقوبی، احمد بن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی تا۔
٢٦: نظر كاشف الغطاء در مورد روز ٩ ربيع الاول، کنگرہ بینالمللی علامہ محمد حسین کاشف الغطا، تاریخ بازدید: ٢١-٠٩-١٣٩٥۔