اسلامی معارف

وحی و الہام کی باتیں

تحریر: مرحوم رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپالپوری

نوٹ: مندرجہ ذیل تحریر مرحوم رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپالپوری (نوراللہ مرقدہ ) کی کتاب “وحی و الہام کی باتیں”سے اقتباس  ہے۔

 

  • فہرست مطالب

وحی والہام کی ضرورت

پیا م رسانی کے طریقے

(۱) القائے قلبی لفظی

(۲) القائے قلبی معنوی

(۳) انکشاف بر بنائے قوت قدسیہ

(ب)  أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ

(۱) طنین نحل کی سی آواز

(۲) سنگ و آہن کے تصادم جیسی آواز

(۳) شجرہ و آتش کی گویائی

(۴) حجاب نورسے آواز کا آنا

ج) أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا

(۱) آواز سننا مگر فرشتہ کو نہ دیکھنا

(۲) فرشتے کا انسانی شکل میں سامنے آنا

(۳) فرشتے کا اصلی صورت میں آنا

(۴) وحی مکتوب فرشتے کے ذریعہ

(د) رویائے صادقہ

قرآن

حدیث قدسی

ماہ ربیع الاول مطلع آفتاب رسالت ہے۔ اسی بابرکت مہینہ میں اس نورالہی کو انسانی پیکر عطا ہوا، جس کی  ہلکی سی  کرنیں شمس و قمر  بن کر  روزوشب  پر حکمراں ہیں: «لَوْلاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلاكَ»؛یہ وہ رسول  آخری  تھا جو تمام عالمین کیلئے پیام رحمت  لے کرآیا: «وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ»(انبیاء، ۱۰۷) ؛ جو تمام نوع انسانی  کیلئے سرچشمہ  ہدایت  بن کر جلوہ افروز ہوا: «بُعِثْتُ إِلَى اَلْأَحْمَرِ وَ اَلْأَسْوَدِ» (بحارالانوار، ج۱۶، ص۳۰)اور جس نے انسانیت  کو وہ عروج  بخشا کہ نفس ملکوتی بھی  منزلوں پیچھے چھوٹ  گیا۔ جس نے  سر حد امکان  کو وجوب سے اس طرح متصل کردیا کہ: «دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ»(نجم، ۸۔۹)۔

 منصب نبوت  کی مناسبت کو مد نظر  رکھتے ہوئے چاہتا ہوں کہ  آج سرسری طور  پر  “وحی والہام” کی ضرورت اور ان  طریقوں  کی فہرست بیان کردوں جن کے ذریعہ سے خداوندعالم کے احکام انبیاءکو معلوم ہوتےہیں اور وہ حضرات منشائے الہی سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔

وحی والہام کی ضرورت

“وحی و الهام” کی ضرورت کی متعلق اتنا هی کهه دینا بهت کافی هے کہ جن اسباب کی بنا پر عام انسانیت کے لئے “نبوت ” کی ضرورت محسوس کی جاتی  ہے،  انہیں کے پیش نظر “نبوت”کے لئے  “وحی والہام” کی احتیاج سمجھی جاتی ہے۔ خداوندعالم  کا انسانوں کے  پاس ارشادوہدایت کی غرض سے آنا محال ہے۔ اس لئے ایک وسیلہ کی ضرورت ہے جو”بشریت” اور “الوهیت”کے اوصاف کا مجموعہ ہو، اس کی “جسمانیت” بشریت کی دلیل هو اور”روحانیت” و “الوهیت” کا خاکه هو۔ وه جنبہ روحانیت کے ذریعہ سے عالم اعلیٰ سےمتصل ہو اور  جنبہ مادیت کے لحاظ سے ہم سے قریں ہو۔ عالم اعلیٰ سے احکام حاصل کرے اور اپنے بنی نوع تک  پہونچا دے۔ اور اسی وسیلہ کو “نبی” کہتے ہیں ۔

لیکن خدا جس طرح دوسرے انسانوں کے پاس نہیں آسکتا،اسی طرح نبی کے سامنے آنے بھی نہیں آسکتا ہے  لہذا ضرورت تھی کہ  کچھ ایسے  اشارات اور ذرائع خلق کئے جائیں جن کے وسیلہ سے منشا ءالہی  اور مقصد خداوندی انبیاءکو معلوم ہوجائے۔ اور انہیں “اشارات و ذرائع ” کو زبان شریعت  میں “وحی  والہام”  کہتے ہیں۔

پیا م رسانی کے طریقے

قرآن مجید ہمیں چند ایسے  اہم  ذرائع کا پتہ بتاتا ہے  جن سے  خدا کے برگزیدہ  بندوں کو اس کے احکام اور پیغامات  کا علم  ہوجاتا ہے۔چنانچہ  ارشاد ہوتا ہے:

1- «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ  إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ»؛ “کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے  کلام کرے مگر یہ کہ اشارات اور  القائے قلبی کے ذریعہ سے یا پس پردہ سے یا یہ کہ کسی فرشتہ کو پیام رساں بنا کر بھیجدے۔ پس وہ خدا کے حکم سے جو کچھ خدا چاہتا ہے اسے بیان کرے”(شوریٰ، آیت۵۱)۔

نوٹ: یہاں سیاق  آیت بتاتا ہے کہ ” وحی ” کا لفظ  کلام و پیام الہی کے مرادف نہیں ہے بلکہ اس سے صرف چند  مخصوص صورتیں  پیام رسانی کی مراد ہیں، اسی لئے  اس لفظ  کے لغوی  ترجمہ کو ترجیح دی ہے، صراح اللغةمیں ذکر ہے کہ: وحی اشارات و پیغام در دل افکندن و سخن پوشیده است “۔

۲۔ «يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ  سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ»؛ “(ابراہیمؑ نے اسماعیلؑ سے )کہا کہ بیٹا!  میں خواب  میں برابر دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں  ذبح کررہا ہوں ۔ پس  غور کرو  تمہاری کیا رائے ہے اسماعیلؑ نے کہا کہ بابا! آپ  کو جو کچھ “حکم”  ملا  ہے اسے انجام دیجئے، آپ مجھے انشاء اللہ صابروں میں سے  پائیں گے”۔

 ان دونوں‌ آیتوں سے ہمیں “پیام  الهی” پہنچنے کے چار طریقے  معلوم ہوتے ہیں :

(۱)اشارات اور القائے  قلبی  کے ذریعہ سے ۔

(۲)کسی حجاب کے  پیچھے سے ۔

(۳)فرشتوں کے وسیلہ سے ۔

(۴) رویائے صادقہ کے ذریعہ سے۔

احادیث نبویﷺ اور انبیاء سلفؑ کے واقعات کا مطالعہ کرنے سے ہمیں ان وسائل کی مختلف صورتیں نظر آتی ہیں ۔

الف:  «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا»

چنانچہ اشارات خفیہ کے ذریعہ پیام رسانی کی بھی چند صورتیں ملتی ہیں:

(۱) القائے قلبی لفظی

 پہلی صورت تو یہ ہے کہ قلب پیغمبرؐ پر الفاظ کا القا کردیا جائے۔ اس کی مثال  میں  یہ حدیث  پیش کی جاسکتی  ہے :

«نَفَثَ في رُوْعِي أنَّ نفْسًا لن تَمُوتَ حتى تَسْتَكْمِلَ أَجَلَهَا و رزقَهَا»؛ میرے دل میں خدا نے یہ بات ڈال دی ہے کہ کوئی نفس اس وقت تک نہیں مرےگا جب تک اپنی مدت عمر اور مقدار رزق کو پورا نہ کرے۔

(نوٹ: یاد رہے کہ حدیث کے مذکورہ جملات مندرجہ ذیل روایات سے ماخوذ ہیں جس میں پیغمبراکرمؐ نے فرمایا کہ:

«ألا و إنّ الرُّوحَ الأمينَ نَفَثَ في رُوعِي أنّهُ لَن تَمُوتَ نفسٌ حتّى تَستَكمِلَ رِزقَها، فاتَّقُوا اللّه َ و أجمِلُوا في الطَّلَبِ، و لا يَحمِلْ أحَدَكُم استِبطاءُ شَيءٍ مِنَ الرِّزقِ أن يَطلُبَهُ بغَيرِ حِلِّهِ ، فإنّهُ لا يُدرَكُ ما عِندَ اللّه ِ إلاّ بطاعَتِهِ»۔ (الكافی، 2/74/2۔  کنزالعمال، 9290)۔

یعنی “آگاہ ہوجاؤ! جبرئیل امینؑ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ کوئی  نفس اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی مقدار رزق کو پورا نہ کرلے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور رزق حلال کی تلاش کرو۔ رزق کے دیر سے ملنے کی وجہ سے تم میں سے کوئی شخص حرام کے ذریعے طلب رزق پر آمادہ نہ ہو۔ کیونکہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ صرف اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ حدیث بعض منابع، خاص طور پر اہل سنت کی کتابوں میں اس طرح نقل ہوئی ہے کہ:

«نَفَثَ رُوحُ القُدُسِ في رُوْعِي أنَّ نفْسًا لن تَخرج من الدنيا حتى تَسْتَكْمِلَ أَجَلَهَا، وتَسْتَوْعِبَ رزقَهَا، فَأَجْمِلُوا في الطلب، ولا يَحْمِلَنَّكُمِ اسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ أنْ تَطْلُبُوهُ بمعصيةِ اللهِ؛ فإنَّ الله لا يُنَالُ ما عندهُ إلا بطاعتِهِ» (طبرانی الکبیر، رقم۷۶۹۴؛ ابونعیم حلیۃ الاولیاء، ج۱۰، ص۲۷؛ سنن ابن ماجہ، رقم۲۱۴۴؛ صحیح الجامع، رقم۲۰۸۵)۔

یعنی یقیناً روح القدس (جبرئیلؑ) نے میرے دل میں ڈالا کہ کوئی جان اس وقت تک دنیا سے نہیں جائے گی جب تک اپنی مقررہ عمر پوری نہ کر لے اور اپنا رزق مکمل نہ لے لے۔ لہٰذا (رزق کی) تلاش میں خوب احتیاط کرو اور تمہیں رزق کے دیر سے ملنے پر اللہ کی نافرمانی کے ذریعے اس کی طلب پر آمادہ نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ صرف اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

دونوں نقل میں مختصر الفاظ کا اختلاف ہے لیکن معنی اور مفہوم کے لحاظ سے بہت قریب ہے۔ ممکن ہے علامہ رضوی نے معروف جملات کو شاہد مثال کے عنوان سے نقل فرما دیا ہے)۔(ادارہ)۔

(۲) القائے قلبی معنوی

 دوسری صورت یہ ہے کہ نبیؐ کے دل  میں صرف مفہومات پیدا کردئے جائیں۔ اس کی دلیل خداوند عالم یہ ارشاد گرامی ہے کہ: «وَ ما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوي‏إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحي‏»” رسولؐ اپنی خواهش نفسانی  سے   کوئی  کلام نہیں کرتے،  بلکہ  یہ تو وحی ہے جو ان پر نازل  کی جاتی  ہے ۔(نجم، آیت3 و4)۔  ظاہر ہے کہ رسالت مآب ؐنے اپنی تمام عمر میں لاکھوں کلام کئے  ہوں گے اور ہزاروں  حدیثیں بیان فرمائی ہوں گی ، مگر  کوئی روایت یہ نہیں بتاتی کہ ہر گفتگو کے وقت  جبرئیل امینؑ حاضر خدمت رہتے ہوں اور ہر جملہ  کے متعلق راہنمائی کرتے  ہوں۔ لا محالہ یہی ماننا پڑے گا کہ خداوندعالم مفہومات کو رسولؐ کے دل میں پیدا کردیتا تھا  اور رسولؐ اسے اپنے الفاظ  میں بیان کر دیتے تھے ۔

(۳) انکشاف بر بنائے قوت قدسیہ

تیسری  صورت یہ  ہے کہ پیغمبر ؐ اپنی قوت  قدسیہ کے ذریعہ  سے کسی  حقیقت کا ادراک فرمالیں  اور مبہم  و پیچیدہ نظریات ان کی نگاہوں کے سامنے واضح اور روشن  بدیہیات کی طرح منکشف   ہوجائیں۔

ان تینوں روحانی اشارت کو اہل شرع کی اصطلاح میں ” الهام ” بھی کہتے ہیں اور وجود ملائکہ کے منکرین  بھی ان ذرائع کی حقانیت کے قائل ہیں ۔

 (ب)  أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ

 پس پردہ گفتگو کی خاصیت  یہ ہے کہ آواز سنائی دیتی ہے مگر بولنے والا نظر  نہیں آتا یہاں بھی پس پردہ گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ خدا کسی  صامت شئے کو اپنی قدرت کاملہ سے ناطق کردے اور اس سے معنی خیز آوازیں پیداہوں “خدائےمتکلم” تو حجابات الوہیت میں  پنہاں  رہے مگر”محرم اسرار” نبی کو نواہائے راز کی سماعت کا شرف  مل جائے۔ اس کے بھی چند طریقے ہیں :

(۱) طنین نحل کی سی آواز

 پہلا طریقہ یہ ہے کہ فضا میں شہد کی مکھیوں کی  آواز کی طرح  باریک وپیچیدہ  مگر مطلب خیز   آواز پیدا  ہو۔ چنانچہ  کئی روایتوں  میں وحی  کی کیفیت کو انہیں الفاظ  میں بیان کیا گیا ہے ۔

(۲) سنگ و آہن کے تصادم جیسی آواز

دوسرا  طریقہ یہ ہے کہ فضا میں سنگ  و آہن کے تصادم  کی طرح  سخت وبلند آوازیں  پیدا ہوں۔

(۳) شجرہ و آتش کی گویائی

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ روشنی ظاہر ہو اس میں سے آوازیں آئیں۔ حضرت موسی ؑ کی بعثت کے وقت  یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا  اور قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے؛ یہاں پر سورہ النمل سے اقتباس پیش کرتا ہوں :

«إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ »

” جب  موسیؑ نے  اپنے اہل  و عیال سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے ذرا ٹھریں  وہاں سے کچھ راہ کی خبر لاؤں یا تمہیں ایک سلگتا ہوا انگارہ  لادوں تاکہ تم تاپو،غرض جب اس آگ کے پاس آئے  تو انہیں ندادی گئی کہ مبارک ہے  وہ  جو آگ میں اپنی تجلی دکھاتا ہے اور جو اس کے گرد  ہے اور پاک ومنزہ ہے وہ خدا جو عالمیں کا پروردگار ہے  اے موسیؑ بیشک میں زبردست حکمت والا ہوں”۔

(۴) حجاب نورسے آواز کا آنا

 چوتھا طریقہ یہ ہے کہ حجابات قدس سے آواز آئے اورپیغمبرؐ اسےسنے۔ شب معراج میں رسول ؐ سے گفتگو کرنے کے لئے یہی انداز اختیار کیا گیا تھا۔ سورہ  النجم میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

«ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ»؛ “پھر رسولؐ حجاب قدس سے قریب ہوئے۔ پھر  آگے بڑھے۔ پس ان میں اور اس پردہ میں دو کمان   کا فاصلہ  رہ گیا بلکہ اس سے قریب تر تھے۔پس خدا نے اپنے بندے کی طرف جو وحی بھیجی سوبھیجی”۔

ج) أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا

فرشتوں کے ذریعے پیام رسانی کی مخلتف صورتیں بیان کرنے سے قبل یہ ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند دہریت پسند اور بزعم خود روشن خیال افراد وحی کے اس  مخصوص نظام کو ماننے میں تامل کرتے ہیں۔اور غور کرنے  سے یہ معلوم  ہوتا ہے  کہ ان  کی دلیلیں تما م تر “انکار  وجود ملائکہ” پر مبنی هیں۔یهاں موقع نهیں  ہے کہ اس موضوع پر بحث کی جائے۔ لیکن اتنا کہتا چلوں کہ کسی بھی ممکن الوجود کو ثابت  کرنے کے لئے “مشاہدہ”یا “معتبر شاہد”کے علاوہ کوئی عقلی دلیل کبھی پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک ملائکہ کا تعلق ہے ہماری نگاہیں ان کےمشاہدہ سے یکسرقاصر ہیں۔ اب  لے دے کے “معتبر مخبر” کا بیان  ہی ایک ایسی  چیز رہ جاتی  ہے جس پر اعتماد ہوسکتا ہے  اگر  آپ   کو کسی  خبر دینے  والے  کے بیان  پر اعتماد  نہیں ہے تو خبر پر بحث کرنے سے  پہلے  اس “مخبر” کے حالات کی تفتیش اور اس کی عقل و دیانت پرتنقید کرلیجئے۔ ہمیں  انبیاءؑ نے ملائکہ کے وجود سے مطلع کیا ہے،  اس لئے ملائکہ کے وجود و عدم  پر بحث کرنے  کے بجائے ان انبیاءؑ کے صدق یا کذب کو پرکھ لینا زیادہ بہتر ہے۔ اصل  کو چھوڑ کر فرع میں الجھنا اور چاہے جو بھی ہو  روشن خیالی تو ہرگز نہیں ہے۔

بہر حال  فرشتوں  کے ذریعہ  سے تخاطب کی عملا ً چندصورتیں ہمارے سامنے موجودہیں جنہیں ذیل میں  پیش کرتا ہوں:

(۱) آواز سننا مگر فرشتہ کو نہ دیکھنا

ایک صورت تو یہ  ہے کہ فرشتہ کی آواز سنے مگر اس کی صورت نگاہوں  سے اوجھل ہو۔ اس کی  مختلف مثالیں موجود ہیں ۔

(۲) فرشتے کا انسانی شکل میں سامنے آنا

 دوسری صورت یہ ہے کہ  فرشتہ بارگاہ نبویؐ میں انسانی لباس میں آئے۔نبیؐ اس کی ملکوتی شان کوسمجھے یا وہ خود اپنا تعارف کرائے۔ اس کےبعد پیام الہی پہنچائے۔چنانچہ جبرئیلؑ امین اکثر رسالتمآبؐ کی خدمت  میں  دحیہ کلبی  کےبھیس میں حاضر ہوتے تھے۔ مندرجہ ذیل روایت  اس کی شاہد ہے:

“حسن بصری اور  ام سلمہ کا بیان  ہے کہ حسنینؑ رسالتمآبؐ   کی خدمت میں آئے۔ اس وقت جبرئیلؑ بیٹھے ہوئے تھے۔حسنین ؑ ان کو دحیہ کلبی سمجھ کر ان کےگرد گھومنےلگے۔ پس جبرئیلؑ نے اسی طرح ہاتھوں سے اشارہ کیا جیسے کچھ اتاررہے ہوں۔پس دیکھا کہ ان کے  ہاتھ میں سیب، بہی اور انار ہے، جبرئیلؑ نے یہ میوہ  ہائے جنت  ان بچوں کے حوالے  کردئیے”(مناقب ابن شہر آشوب و  بحار الانوار، جلد  عاشر )۔

ہاں! اس مخصوص صورت کے لئے تو آیات قرآنیہ بھی شہادت میں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ قوم لوط کا تختہ الٹنے والے  فرشتے جب حضرت  ابراہیمؑ کی خدمت  میں اسحق ؑو یعقوبؑ کی بشارت دینے کے لئے  گئے تھے تو اس وقت وہ انسانی شکل اختیار کئے  ہوئے تھے :

«وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا  قَالَ سَلَامٌ  فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً  قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ»؛”اور ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیمؑ کے پاس خوشخبری  لے کر آئے اور ابراہیمؑ کو سلام کیا۔ ابراہیمؑ نے جواب سلام دیا پھرفوراً ہی بلاتوقف ایک بھونا ہوا  بچھڑا لے  آئے۔ جب  دیکھا کہ ان  کا  ہاتھ اس کی طرف  نہیں  بڑھتا تو ان سے بد  گمان  ہوئے اور  دل ہی دل میں ان سے ڈر گئے۔ فرشتے کہنے لگے کہ آپ خوف نہ کریں ہم لوگ  قوم لوط کی طرف  ان کو  سزا دینے  کے لئے  بھیجے گئے ہیں”۔(ہود، آیت69-70)۔

 جب یه فرشتے حضرت لوطؑ کے پاس پہنچے  ہیں اس وقت بھی انسانی پیکر میں تھے اور کچھ دیرگذر جانے کے بعد حضرت لوطؑ سے اپنا  تعارف  کرایا تھا۔ قرآنی  آیات میں  اس کا تفصیلی تذکرہ موجود  ہے ۔

نوٹ: فرشتے کا بشری شکل میں آنا جناب مریمؑ کی داستان میں بھی بیان ہوا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے کہ:

«فَأَرْسَلْنا إِلَیْها رُوحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِیًّا»؛ “ہم نے اپنی روح(فرشتے) کو ان (مریمؑ) کے پاس انسانی شکل میں بھیجا”(مریم، آیت17)۔

(۳) فرشتے کا اصلی صورت میں آنا

تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ اپنی اصلی صورت میں پیغمبرؐ کے سامنے  آئے ۔ چنانچہ رسالتمآب  کی خدمت  میں  جبرئیلؑ کا ایک مرتبہ اپنی اصل ہیبت  میں حاضر ہونے کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ:

“روی ان جبرئیل کان یاتی  النبی(ص) بصورة  الدحیة الکلبی فقال رسول الله(ص) یا جبرئیل احب ان  اراک بصورتک الاولیه  فقال لا  تطبق یا رسول الله(ص) فقال بلی فقال اتیک غداً.( منابر الاسلام)؛  “جبرئیلؑ رسالتمآبؐ کے پاس  وحیہ کلبی کی صورت میں آیا کرتے تھے۔ ایک روز رسالت مآبؐ نے فرمایا کہ اے جبرئیلؑ میں تمہیں  تمہاری اصل  ہیئت میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔جبرئیلؑ نے عرض کی کہ یارسول اللہؐ آپ برداشت نہ کرسکیں گے۔ رسالتمآبؐ نے اصرار کیا تو جبرئیلؑ نے  کہا کہ میں  کل آپ کے  پاس آؤں گا(منابرالاسلام)۔

نوٹ: واضح رہے کہ روایات کے مطابق حضرت جبرئیلؑ ، پیغمبراکرمؐ کے سامنے اپنی اصلی اور ظاہری شکل میں دو یا تین مرتبہ آئے۔ ایک مرتبہ ابتدائے وحی کے وقت غار حرا میں اور دوسری مرتبہ جب آنحضرتؐ نے ان سے ظاہر ہونے کی جب درخواست کی تھی۔ ان کی ظاہری صورت کے بارے میں بھی بیان ہوا کہ وہ ایسے ظاہر ہوئے کہ پورے افق آسمان میں مشرق سے مغرب تک چھا گئے۔ اسی طرح تفسیری روایات کے مطابق قرآن مجید کی آیت «وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى»(نجم، آیت۷) پہلی مرتبہ ظاہر ہونے سے مربوط ہے اور آیت«وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ»(نجم، آیت۱۳) دوسری مرتبہ ظاہر ہونے سے مربوط ہے۔ (بحارالانوار، ج۵۵، ص۴۴۔۴۵؛ التمہید، ہادی معرفت، ج۱، ص۹۸۔۹۹؛ تاریخ قرآن محمود رامیار، ص۵۹)۔(ادارہ)۔

 یہاں  یہ سوال  پیدا ہوسکتا ہے  کہ آخر فرشتوں  کو وحی کی اطلاع  کیونکر ہوتی ہے، جسے  وہ پیغمبرؐ کے پاس پہونچاتے ہیں۔ اس کےمتعلق بظاہرتین طرح کی روایتیں ملتی ہیں ؛ چنانچہ مفتی محمدعباس صاحب قبلہ (اعلی اللہ مقامہ) “منابرالاسلام” میں تحریر فرماتے ہیں  کہ مجھے  اس سلسلہ  میں کئی طرح کی روایتیں ملی ہیں جس میں سے پہلی روایت یہ ہے جسے تفسیر قمی میں اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ:

« عن أبى عبد الله عليه السلام قال . بينا رسول الله صلى الله عليه و آله جالسا و عنده‌ جبرئيل إذ حانت جبرئيل نظرة قبل السماء الى أن قال. قال جبرئيل. ان هذا حاجب الرب و أقرب خلق الله منه. و اللوح بين عينيه من ياقوتة حمراء. فاذا تكلم الرب تبارك و تعالى بالوحي ضرب اللوح جبينه فينظر فيه ثم ألقاه إلينا تسعى به من في السموات و الأرض»؛  “حضرت  امام صادقؑ نے فرمایا کہ جبرئیلؑ نے  رسالتمآتؐ سے اسرافیل کے وصف میں بیان کیا کہ یہ حاجب خداہیں اور تمام مخلوقات  میں سب سے زیادہ  خدا سے قریب ہیں اورلوح یاقوت سرخ کی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے  جب خدا کو کسی کے پاس وحی کرنی ہوتی ہے  تو وہ لوح ان کی پیشانی  سے مس ہوجاتی ہے  وہ اس  کو پڑھتے ہیں پھر ہمیں  مطلع کرتے ہیں  اور ہم اس کو  لے کر آسمان و زمین میں جہاں ضرورت ہوتی ہے  بہ تعجیل(جلدی سے) پہونچا دیتے ہیں” ۔ (مزید حوالہ: تفسیر نور الثقلین، ج ۱، ص۵۷۲۔۵۷۳۔ بحارالانوار، ج۱۶، ص۲۹۳)۔

واضح رہے کہ ایک روایت کے مطابق آگے جناب جبرئیلؑ بیان کرتے ہیں کہ:

«.. إنه لادنى خلق الرحمن منه، وبينه وبينه تسعون حجابا من نور يقطع دونها الابصار ، ما يعد ولا يوصف ، و إني لاقرب الخلق منه ، وبيني وبينه مسيرة ألف عام»؛ بے شک، وہ رحمن کی مخلوق میں سے سب سے نزدیک ہے، اور اس اور اللہ کے درمیان نور کی نوے حجابیں ہیں، جو نگاہوں کو روک دیتی ہیں، نہ ان کا شمار ہو سکتا ہے اور نہ ان کی توصیف۔ اور بے شک میں تمام مخلوقات میں سے اس سے سب سے قریب ہوں لیکن میرے اور اس کے درمیان ہزار سال کی مسافت ہے”۔

دوسری حدیث اس سلسلے میں امیرالمومنین علیؑ سے منقول ہے جس میں آپ نے وحی کے متعدد ذرائع کو بیان کرتے ہوئے پیغمبراکرمؐ کی حدیث بیان فرمائی کہ:

«…قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَا جَبْرَئِيلُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ إِنَّ رَبِّي لاَ يُرَى فَقَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مِنْ أَيْنَ تَأْخُذُ اَلْوَحْيَ فَقَالَ آخُذُهُ مِنْ إِسْرَافِيلَ فَقَالَ وَ مِنْ أَيْنَ يَأْخُذُهُ إِسْرَافِيلُ قَالَ يَأْخُذُهُ مِنْ مَلَكٍ فَوْقَهُ مِنَ اَلرُّوحَانِيِّينَ قَالَ فَمِنْ أَيْنَ يَأْخُذُهُ ذَلِكَ اَلْمَلَكُ قَالَ يَقْذِفُ فِي قَلْبِهِ قَذْفاً فَهَذَا وَحْيٌ وَ هُوَ كَلاَمُ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ…»؛ “رسول اکرمؐ نے جناب جبرئیلؑ سے دریافت کیا کہ اے جبرئیلؑ! کیا تم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟  جبرئیلؑ نے کہا: میرا رب نہیں دیکھا جاتا۔ رسولؐ نے دریافت کیا کہ پھر تم وحی کہاں سے حاصل کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں اسے اسرافیل سے حاصل کرتا ہوں۔ آپ ؐنے دریافت کیا: تو اسرافیلؑ اسے کہاں سے حاصل کرتا ہے؟ جبرئیلؑ نے کہا: وہ اسے اپنے سے بالاتر  ایک فرشتے سے لیتا ہے جو “روحانیین” میں سے ہے۔ رسالتمآبؐ نے پھر دریافت کیا: اور وہ فرشتہ  کیونکر مطلع ہوتا ہے؟ جبرئیلؑ نے بتایا کہ: اس کے دل میں (براہ راست) وحی ڈال دی جاتی ہے۔ پس یہ وحی ہے اور یہ اللہ عزوجل کا کلام ہے(مزیدحوالے: بحار الانوار  ج۱۸ ص۲۵۷؛ تفسیر البرهان  ج۴ ص۸۳۴؛ تفسير نور الثقلين  ج۴ ص۵۸۸؛ تفسير كنز الدقائق، ج ۱۱ ص۵۴۱)۔

روایات کا تیسرا سلسلہ وہ ہے جو ائمہ معصومینؑ کے سلسلہ سند کے ساتھ نقل ہوا ہے جس میں ایک روایت یہ ہے کہ:

«… عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى اَلرِّضَا عَنْ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ عَنِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَنِ اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: عَنْ جَبْرَئِيلَ عَنْ مِيكَائِيلَ عَنْ إِسْرَافِيلَ عَنِ اَللَّوْحِ عَنِ اَلْقَلَمِ قَالَ يَقُولُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَلاَيَةُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي»؛

“حضرت امام رضاؑ  کوان کے والدامام موسی کاظمؑ سے خبر ملی، انہیں ان کے والدبزرگوار امام صادقؑ سے خبر ملی، انہیں ان کے والد بزرگوار امام محمد باقرؑ سے خبر ملی، انہیں ان کے والد بزرگوار امام زین العابدینؑ سے خبر ملی اور انہیں امام حسین ؑ سے خبر ملی اور انہیں امیر المومنینؑ سے خبر ملی  امیر المومنینؑ  کو جناب  رسالتمآبؐ سے خبر ملی اور رسالتمآبؐ کو جبرئیلؑ سے معلوم ہوا، جبرئیلؑ کو میکائیلؑ  سے معلوم  ہوا،  میکائیلؑ کو اسرافیلؑ سے معلوم ہوا ،اسرافیلؑ کو لوح سے معلوم ہوا، لوح کوقلم سے معلوم ہوا اورقلم کو خدائے بزرگ و برتر سے معلوم ہوا اور خدائے متعال نے فرمایا: “علیؑ ابن ابی طالبؑ  کی ولایت میرا قلعہ  ہے جو اس میں داخل ہوجائے  گا   وہ میرے  عذاب  سے محفوظ رہے گا “۔(منابرالاسلام، ج۲،ص۴۲۔ درحال ملائکه؛ مزید حوالے: عيون الاخبار، ج۲، ص۱۳۶؛ اثبات الهداة، ج۳، ص۳۴؛ بحارالانوار، ج۳۹، ص۲۴۶؛ تفسير نور الثقلين، ج۵، ص۳۹؛ تفسيركنزالدقائق ، ج۱۲، ص۲۳۶ )۔

 شیخ صدوق(رح) نے اپنی کتاب”الاعتقادات”  میں تحریر فرمایا  کہ لوح  و قلم  دو فرشتے  ہیں   اس حقیقت  کو مد نظر  رکھتے  ہوئے  ان روایات  میں کسی طرح  کا اختلاف باقی  نہیں رہتا۔ پہلی او ر تیسری روایت  میں یہ ذکر  ہے کہ اسرافیل لوح سے حاصل کرتے ہیں ۔اور دوسری   میں اسی کو ذرا واضح الفاظ میں بیان کردیا گیا کہ  “روحانین” میں سے ایک  ملک سے  حاصل کرتے  ہیں۔

دوسرا فرق بہ ظاہر اتنا ہے کہ پہلی اور آخری روایتوں میں ” لوح”کا “قلم”سے وحی حاصل کرنا بالتصریح مذکورہے  اور دوسری میں  مبہم الفاظ  میں” يَقْذِفُ فِي قَلْبِهِ قَذْفاً “کہہ دیا گیا هے کہ “اس کے دل  میں وحی ڈال دی  جاتی ہے”یہاں مجہول صیغہ استعمال کرکے ایک لطیف امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو آئندہ واضح ہوگا۔

اب  رہ گئی یہ بات کہ پہلی روایت میں روح کی تشریح مادی انداز میں” من ياقوتة حمراء “(سرخ یاقوت سے  بنی ہوئی) کہہ کر کی گئی ہے، اس لئے اسے” روحانی ملک” کیوں کرسمجھا جاسکتا ہے؟۔

اس کا  قائل ہونا تو ممکن  ہی نہیں ہے  کہ جبرئیلؑ  ایک ہی حقیقت کےمتعلق دوموقعوں پر دومختلف  بیانات دیں اور دونوں  میں ایسی قطعیت کا انداز  ہو کہ کسی ایک  بیان کو سن کر یہ خیال ہی نہ آسکے  کہ اس کے علاوہ  کوئی  دوسری صورت بھی موجود یا ممکن  ہے ۔

 رسالتمآبؐ کا ارشاد ہے  کہ: «إِنَّا مَعَاشِرَ اَلْأَنْبِيَاءِ نُكَلِّمُ اَلنَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْ»(  ہم گروہ انبیاء لوگوں سے ان کی عقل کے اندازہ کے مطابق گفتگو کرتے ہیں (المحاسن، ج۱ ،ص۱۹۵؛ تحف العقول، ج۱، ص۳۷؛ عوالي اللئالي، ج۲،ص۱۰۳) اگر جبرئیلؑ کے مخاطبین بدلتےجاتے تو ہم یہ سمجھتے  کہ انہوں نے وسعت  ظرف کا لحاظ کرتے ہوئے انداز گفتگو بد ل دیا  ہوگا مگر یہاں  تو مخاطب  بھی نہیں بدلا۔لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ جبرئیلؑ نے دونوں موقعوں پر ایک  ہی بات  کہی ہوگی، مگر رسالتمآبؐ نے مختلف سامعین کی عقل کا اندازہ کرتے ہوئے کبھی تو تشریح و توضیح کے ساتھ  بیان کردیا اورکبھی روئےحقیقت پرتمثیل کی نقاب   ڈال دی، اب  اگر آپ  کو “ذوق نظارۂ  جمال حقیقت” ہے  تو دست   تدبر سے استعارات کی نقاب  الٹ دیجئے۔ اس وقت  آپ پر ہویدا ہوجائے گا کہ “جمال حقیقت” ایک ہی ہے  جو کہیں  خلوت  میں بے حجاب اور کہیں  بزم میں زیر نقاب ہے بقول جوش ؔ

گاه بجلوت”گفته حدیثے”          گاه   بجلوت “راز نهانے”

گاه  بنورصبح ” یقینے”                 گاه به وقت  شام “گمانے”

اس  اجمال  کی پوری  تفصیل سے تو مضمون کے طویل  ہوجانے کا اندیشہ ہے اس لئے  صرف ملا محسن فیض(رح) کا ایک  ارشادگرامی پیش کرتا ہوں جس سے میرا مقصد واضح ہوجائے گا۔ وہ اراشاد فرماتے ہیں: «إن لکل معنى من المعانی حقیقة و روحا و له صورة و قالب و قد یتعدد الصور و القوالب لحقیقة واحدة و إنما وضعت الألفاظ للحقائق و الأرواح و لوجودهما فی القوالب تستعمل الألفاظ فیهما على الحقیقة لاتحاد ما بینهما، مثلا لفظ القلم إنما وضع لآلة نقش الصور فی الألواح من دون أن یعتبر فیها کونها من قصب أو حدید أو غیر ذلک بل و لا أن یکون جسماً و لا کون النقش محسوساً أو معقولًا و لا کون اللوح من قرطاس أو خشب بل مجرد کونه منقوشاً فیه و هذا حقیقة اللوح وحده و روحه فإن کان فی الوجود شی‏ء یستطر بواسطة نقش العلوم فی ألواح القلوب فأخلق به أن یکون هو القلم فان اللَّه تعالى قال: (عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسانَ ما لَمْ یَعْلَمْ) بل هو القلم الحقیقی حیث وجد فیه روح القلم و حقیقته و حدّه من دون أن یکون معه ما هو خارج عنه»؛” ہر مفہوم  کی ایک  روح  اور حقیقت ہوتی  ہے  اور ایک  صورت و قالب ہوتی ہے کبھی کبھی ایسا ہوتا  ہے کہ صورتیں اور قالب تومتعدد ہوتے ہیں مگر حقیقت  کبھی  نہیں بدلتی  الفاظ صرف  اسی حقیقت  اور روح  کو بتانے کے لئے  بنائے جاتے ہیں مگر چونکہ یہ روح اور حقیقت ہمیشہ کسی نہ کسی  قالب میں پنہاں ہوکر رہتی ہے اس لئے ان قالبوں اور صورتوں کے لئےبھی اسی اتحادکو مد نظر رکھتے ہوئے ان الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے   مثلاً لفظ “قلم” اس آلہ کیلئے بتایا گیا ہے ۔جس سے لوح پرنقوش ثبت  کئے جائیں۔ اب اس میں کوئی لحاظ نہیں ہے کہ وہ خوامخواہ جسمانی ہو اس سےبھی کوئی بحث نہیں ہےکہ وہ نقوش “محسوسات” میں داخل ہیں یا “معقولات” میں ۔ اس سے بھی  کوئی مطلب   نہیں ہے کہ “لوح ” کاغذ کی ہو یا لکڑی کی ہو بلکہ صرف یہ دیکھا جائے گا  کہ اس شئی میں نقش قبول کرنے کی صلاحیت ہو اور بس۔ اور یہی”لوح” کی حقیقت اور اس  کی تعریف  اور یہی “روح”ہے پس اگر کوئی ایسی شئی موجود ہو جس کے وسیلہ سے”نقش  علم” لوح  قلب ” پر ثبت کیا جاسکے تو اسے  “قلم” کہلانے کا سب سے زیادہ حق ہے۔  خداوندعالم نے فرمایا کہ ” اللہ نے قلم کے ذریعہ  سے تعلیم  دی  اور انسان  کو وہ باتیں  بتائیں  جنہیں  وہ نہیں  جانتا تھا” بلکہ وہی شئی”قلم حقیقی” ہے کیوں  کہ اس میں صرف “روح قلم” اورحقیقت قلم پائی جاتی ہے۔بقیہ غیرمتعلق  مادیات سے مبرا ہے”(تفسیر صافی، مقدمہ رابعہ)۔

 اس سے  یہ واضح  ہوگیا ہوگا کہ”لوح” و “قلم” نامی فرشتوں کو “لوح  وقلم” کیوں کہتے ہیں۔”قلم” نامی فرشتہ ربانی علوم و معارف کو اپنے تصرفات  روحانی کے  ذریعہ دوسرے ملک کے قلب  میں نقش  کردیتا ہے جسے” يَقْذِفُ فِي قَلْبِهِ قَذْفاً”تعبیرکیا گیا ہے  اورقلم  کی روح  وحقیقت یہی ہے کہ اس لئے اسے”قلم” کہنے لگے اور جس ملک کے دل میں یہ معارف ربانی اتار دئیے جاتے ہیں اسے “لوح” کہنے لگے  اس لئے کہ وہ حقیقت “لوح” کا حامل ہے۔ قلم اورلوح میں موثراورمتاثر کا رابطہ ہوتا ہے۔ ان فرشتوں کا رابطہ بھی کچھ  اسی قسم  کا ہے۔  مگر قلم  اپنی “موثریت” کے باوجود دست کاتب کے اشاروں کا تابع رہتا ہے؛ اسی طرح  یہ فرشتہ اپنی ” موثریت” کے باوجود منشائے باری کا تابع رہتا  ہے۔ اسرافیلؑ   پیام  الہی کے انتظار میں ہمہ وقت “لوح”  کی طرف متوجہ رہتے  ہیں اور نگاہ  جمائے رہتے ہیں اسی توجہ  کو ان الفاظ  میں بیان کیا گیا ہے کہ  “و اللوح بين عينيه” لوح ان کی آنکھوں کے درمیان  ہے   یعنی نگاہوں کے سامنے ہے۔ جب ” لوح ” کے قلب پر نقوش وحی ثبت  ہوجاتے ہیں تو فوراً اسرافیل کو روحانی اشارات کے ذریعہ سے آمد وحی کی خبر دے دیتے ہیں “ضرب اللوح جبينه” (لوح ان کی پیشانی سے مس ہوجاتی  ہے ) کا مقصد  یہی ہےاور اسرافیل اپنے روحانی اثرات سے ان علوم و معارف اور وحی ربانی کو معلوم کرلیتے ہیں اور پڑھ لیتے ہیں  اسی کو ان الفاظ  میں بیان کیا گیا ہے کہ “فينظر فيه” ( لوح  پر نظر کرتے ہیں )۔

 آئینہ کو آفتاب کے سامنے لاکر رکھئے۔ آئینہ  آفتاب کی شعاعوں کو جذب کرکے  فوراً آپ کے  مکان  کے  بعید ترین گوشوں  تک  پہنچادے گا۔ “لوح” کو بھی  آپ ایسا ہی آئینہ سمجھ لیں  جس پر قلم ” وحی  الہی”  کی تجلیاں ڈالتاہے۔ اور اس کے ذریعہ سے فوراً اسرافیل تک وحی کی تنویریں پہنچ جاتی ہیں۔

لوح  کی اسی “متاثرانہ”کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے  ” يَقْذِفُ فِي قَلْبِهِ قَذْفاً” میں مجہول کا صیغہ استعمال  کیا گیا ہے یعنی یہ کہنے  کے بجائے  کہ “وہ خود قلم سے وحی کو حاصل کرتا ہے” یہ کہا گیا کہ “اس کے دل پر وحی (کی شعاعیں) ڈالی جاتی ہیں “۔

جمادات میں “یاقوت سرخ” جس عظمت و منزلت کا  مالک ہے اور جس  طرح اس کی کم یابی اور  بیش قیمتی اسے جمادات کی صف میں ایک بلند تر درجہ پر فائز کئے ہوئے  ہے ۔اسی طرح صف ملائکہ میں لوح  ایک عظیم ترین منزلت کا مالک ہے۔ اسرافیلؑ کو جبرئیلؑ نے “أقرب خلق الله منه”(مخلوقات خدا  میں خدا سے سب زیادہ قریب ) کہا ہے ۔مگر  لوح  کا مقام ان سے بھی بلند ہے  اسی  لئے دوسری روایت میں “لوح” کو”مَلَكٍ فَوْقَهُ مِنَ الرُّوحَانِيِّينَ” (اسرافیل  سے بلند  ایک روحانی  فرشتہ) کہا ہے اور رسالتمآبؐ نے لوح  کی اسی  منزلت  کو ظاہر کرنے کے لئے  مادی تمثیل کی بنا پر “من ياقوتة حمراء”(سرخ یاقوت سے بنی ہوئی)  کی لفظیں  استعمال کی  ہیں  ۔

 اسی  قرب ومنزلت  اور توسط  وحی کو دوسرے الفاظ میں  یوں  بیان کیا گیا ہے : “اللوح المحفوظ له طرفان:طرف على يمين العرش،و طرف على جبهة  إسرافيل، فإذا تكلم الرب جل ذكره بالوحي ضرب اللوح جبين إسرافيل، فينظر في اللوح، فيوحي بما في اللوح إلى جبرئيل(عليه السلام)”.

” لوح  کے دو کنارے  ہیں ایک کنارہ یمیں عرش سے متصل ہے اور دوسرا کنارہ اسرافیل کی طرف سے جب   خدائے عزوجل وحی کے ساتھ کلا کرتا ہے تو لوح  جبین اسرافیل سے مل جاتی ہے ۔(تفسیر الصافی، سورہ البروج، آیت۲۱؛ ج5، ص۲۰۷۔ مزید حوالے: تفسیر قمی، ج۲، ص۴۱۴؛ تفسیر البرہان، ج۵، ص۶۲۷)۔ ان تمام  استعارات کی تشریح هوچکی هے۔

بہرحال اس تشریح سے یہ معلوم ہوگیا کہ  اسرافیلؑ  تک وحی  پہنچنے کے سلسلے  میں ان  روایات  میں کوئی حقیقی اختلاف  نہیں  ہے۔ اور ان سب  کا  مقصد یہ ہے کہ وحی الہی حکم خدا کے مطابق قلم نامی فرشتہ کے دل میں پیدا ہوتی ہےجسے وہ “لوح” تک پہونچا دیتا ہے اور اسرافیلؑ اس فرشتہ  سے وحی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد  تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہی ہے کہ اسرافیلؑ براہ راست جبرئیلؑ کو مطلع کر دیتے  ہیں۔ اگر چہ تیسری روایت میں اسرافیلؑ و جبرئیلؑ کے درمیان میکائیلؑ کو واسطہ قرار دیا گیا ہےمگرکوئی دوسری روایت اس کی تائید نہیں کرتی  اور نہ  میکائیلؑ کو وحی  کا واسطہ  بننے کی خدمت  سپرد کی گئ  ہے۔ ان  کےخاص فرائض منصبی “باران اور رزق” سے متعلق ہیں۔ اس لئے اس توسط کو ہر جگہ فرض  کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ممکن ہے کہ خاص اس وحی کا سلسلہ نزول یہی رہا ہو مگر اس سلسلہ کو عام نہیں سمجھا جاسکتا۔

اگر چہ  ابھی  بھی کہیں  کہیں توضیح کی احتیاج رہ گئ ہے ۔ لیکن میں اسےبافہم ناظرین پر چھوڑ دیتا ہوں اس لئے کہ مضمون طویل ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔

بہر حال  وہ تمام  صورتیں جو فرشتہ کے وحی لانے کے متعلق اوپر بیان کی جاچکی ہیں۔”وحی” ملفوظ سے متعلق  ہیں۔ یعنی فرشتہ نبی سے آکر وحی کی زبانی اطلاع کردیتا ہے۔ اسے “پیغام ربانی” کہہ سکتے ہیں۔ ہمیں قرآن  مجید میں ایک صورت اور نظر آتی ہے  جسے “وحی مکتوب  ” کہہ سکتے ہیں۔ حضرت موسی ؑ پر نزول توریت کا واقعہ ان لفظوں  میں  بیان  کیا گیا ہے ۔

(۴) وحی مکتوب فرشتے کے ذریعہ

«وَ كَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَ تَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا»؛ “؛ ہم نے موسیٰؑ کے لئے تختیوں میں ہر شئے کی نصیحت اور ہر بات کی تفصیل لکھ دی۔ اےموسیٰؑ  اسے مضبوطی سے پکڑ و اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کی اچھی اچھی با توں  کو اختیار کریں”(اعراف، آیت ۱۴۵)۔

 جب حضرت موسیؑ  ان  تختیوں کو لئے  ہوئے چالیس دن کی غیبت کے بعد اپنی قوم  میں واپس  آئے اورقوم والوں کو گوسالہ پرستی میں مبتلا دیکھا تو اس وقت کی کیفیت قرآن  ان الفاظ  میں بیان کرتا ہے  کہ: «وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ»؛ “جب موسیٰؑ اپنی قوم کی طرف غصه اور رنج کی حالت  میں پلٹے تو کہا کہ تم لوگوں نے  میرےبعد بہت بری  حرکت کی تم لوگ اپنے پروردگار کے حکم  میں کس قدر جلدی کر بیٹھے اور یہ کہہ کر توریت  کی تختیوں کو جنجھلا کر پھینک دیا(اعراف، آیت ۱۵۰)”۔

 جب تمام معاملات منشاے الہی کے  مطابق ہوگئے تو ارشاد ہوتا ہے  کہ:

«وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ »؛ “اور  جب موسیؑ  کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو تختیوں کو اٹھالیا اور اس کے نسخے میں ان  لوگوں کے  لئے  جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ہدایت  اور رحمت ہے”(اعراف، آیت154)۔

 ان تمام  آیتوں  میں صریحی طور  پر توریت  کی الواح  اور ان الواح  کے نزول کا تذکرہ موجود ہے  اور واقعہ بھی یہی ہے  کہ توریت کا نزول مکتوبی شکل میں ہوا تھا۔

(د) رویائے صادقہ

 مخفی اشارات پس پردہ گفتگو اور فرشتوں کی  پیام  رسانی  کے علاوہ  “رویائے صادقہ” کے ذریعہ بھی احکام  الہی پیغمبروں  کو معلوم ہوتے ہیں: « إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ»؛ (میں خواب میں دیکھ رہا ہوں)۔ ے جواب میں حضرت اسمعیلؑ کا « افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ »؛( آپ کو جو حکم  دیا جارہا ہے اسے پورا کردیجئے)۔(صافات، آیت۱۰۲)کہنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ انبیاءؑ کے ” خواب” بھی برحق اور منشائے الہی کے مطابق ہوتے ہیں اس کے علاوہ  حضرت اسمعیلؑ کا بلا توقف اور بغیر کوئی سوال کئے  ہوئے  « افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ »کہنا یہ بتاتا ہے  کہ خاندان نبوت ؑکے افراد اس حقیقت سے بخوبی باخبر تھے کہ نبیؑ کا خواب پیام خدا ہوتا ہے اور یہ “شہرت باخبری ” ہمارے لئے  ایک مزید دلیل بن جاتی  ہے۔

رسالتمابؐ کو فتح مکہ کی بشارت دینے کے لئے  یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا اور فتح مکہ کے قبل ہی قرآن  ان الفاظ  میں اس بشارت کا تذکرہ کررہا ہے کہ:

«لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ »؛ “بے شک  خدا نے اپنے رسول ؐکو  سچا اور مطابق واقع خواب  دکھایا کہ تم لوگ ان شا ءاللہ  مسجد الحرام  میں اپنے سرمنڈوا کر اور اپنے تھوڑے بال کٹواکر  بہت امن و اطمینان سے داخل ہوجاؤگےاور  کسی  طرح  کا خوف نہ کرو گے”(فتح، آیت27)۔

فتح  کے قبل  اس خواب  کی اتنے  پر زور  الفاظ  میں تائیداور اس تائیدکے بعد واقعات  کا اس کی تصدیق کرنا جہاں خواب کی حقانیت کو ظاہرکر رہا ہےوہاں قرآن اور رسولؐ کی حقانیت کوبھی آشکار کررہا ہے۔ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا

بنی امیہ کی سلطنت کی پیشین گوئی اور ان کے ہاتھوں دین کی بردبادی کی خبر بھی رسول ؐکو خواب  ہی کے ذریعہ  ملی۔ اور اس خواب کی صداقت کا اظہار قرآن مجید کررہا ہے  کہ:

«وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ»؛” اور ہم نے  خواب میں جو کچھ تمہیں دکھایا  ہے  اسے تو بس لوگوں  کی آزمائش کا ذریعہ قرار دیا ہے(یعنی بنی امیہ کی سلطنت میں لوگوں  کے  ایمان و نفاق کا اچھی طرح  پتہ چل جائے گا)(اسراء، آیت۶۰)۔

بعدکے واقعات  اس خواب  اور ارشاد قرآنی کی صداقت  کا زندہ ثبوت  بن کر  تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں ۔ یہ امر قابل غور  ہے کہ حضرت  ابراہیم  ؑکی طرح  رسولؐ نے بھی  اپنے  ہر خواب  کو غیر معمولی اہمیت  کا حامل سمجھا اور فتح   مکہ  والے خواب کے بعد  فتح  مکہ  کا یقین  کرلیا  اور بنی امیہ والے خواب کے بعد”حضرت ایسے غمگین ہوئے کہ اس کے بعد عمر بھر کبھی  ہنسی نہیں آئی”۔(در منثور، ج۴)۔

یہ بھی نظر  آتا ہے کہ ان تمام  آیات میں خدا نے خواب  دکھانے کا ذمہ دار  اپنے کو ٹھهرایا ہے اور یہ تمام ثبوت اس امرکو ظاہر کررہے ہیں  کہ نبی کے خواب بھی پیام الہی ہوتے ہیں۔ ان نقلی دلائل کے علاوہ  عقلی  دلائل بھی اس کی تائید میں موجود  ہیں جن کے  تذکرہ کا یہاں موقع نہیں ہے ۔

 خلاصہ کلام

خلاصہ یہ کہ پیغمبروںؑ تک خدائی پیام پہنچانے کے لئے بحیثیت مجموعی بارہ طریقے اختیار  کئے گئے ہیں، جہاں تک ذات اقدس ختمی مرتبتؐ کا تعلق ہے  ہے آپ ؐ  تک ” پیام رسانی “کے لئے  حسب  ذیل  ذرائع یقینی طور پر استعمال کئے گئے  ہیں:

۱)القائے قلبی لفظی ، ۲)القائے  قلبی معنوی، ۳) طنین نحل کی سی آواز، ۴) حجاب نور کی آواز، ۵) فرشتہ کا انسانی شکل میں آنا، ۶) فرشتہ کا اصلی صورت میں  آنا، ۷) رویائے صادقہ۔

 انہیں  پیاموں  میں سے کچھ  قرآن کی حیثیت سے ہمارے  ہاتھوں میں موجود ہیں ۔اور کچھ پیامات “حدیث قدسی”کے نام سے موسوم ہیں اور زیادہ تر “احادیث نبویہؐ” کے  دفاتر میں مندرج  ہیں ۔

اس تنوع کی وجہ یہ ہے کہ :

 جو ارشادات مفہوم کے اعتبار سے تو پیغام خدا ہیں مگر افہام وتفہیم کی منزل طے کرنے کےلئے انہیں  خاتم النبین ؐنے اپنے الفاظ کا خلعت  پہنا دیا ہے انہیں “حدیث نبویؐ ” کہتے ہیں۔

قرآن

 اوراگر جو پیغامات بارگاہ خداوندی سے مفہوم کی طرح  اپنے الفاظ بھی ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں اگر وہ مرتبہ اعجاز پر فائز ہوں اور بغرض  تحدی پیش کئے گئے  ہوں   تو “قرآن” ہیں۔

حدیث قدسی

 اور اگر  وہ بغرض  تحدی  پیش نہ کئے گئے ہوں تو حدیث  قدسی کی صنف میں داخل ہیں۔ یہ”احادیث  قدسیہ” تمام کتب احادیث میں   بکھری  پڑی ہیں ۔ان میں سے چند احادیث  کا مجموعہ بمبئی میں  ” جواہر مضیہ” کے  نام سے  شائع ہوچکا ہے۔

آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بالخصوص قرآن مجید کے نزول کے لئے  زیادہ تر صرف  دو ذریعے اختیارکئے گئے ہیں یعنی جبرئیل  امینؑ کسی انسان کی شکل میں یا کبھی کبھی اپنی اصل ہیئت میں رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن  کی آیات  کو پہنچا دیتے تھے ۔ بلکہ یہ کہنا شاید بےجا نہ ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ تنزیل قرآن  کیلئے  اختیار  ہی نہیں  کیا گیا۔

  چونکہ عموماً وحی  والہام  اور نزول  ملک کا نبوت  و رسالت کے ساتھ ہی ذکر کیا جاتا ہے۔  اس لئے  بعض سطحی نظر  رکھنے والے  افرادسمجھتے ہیں کہ انبیاءکے علاوہ  اورکسی شخص کے پاس نہ تو وحی آسکتی ہے اور  نہ ملک نازل ہوسکتے ہیں۔شیعوں کی کتابیں ایسی  روایتوں  سے بھری پڑی  ہیں۔ جن میں  فرشتوں کا ائمہؑ کے پاس حاضر ہونا منقول ہے۔ یہ افراد  ایسی روایتوں کوتیر ملالت کے لئے  نشانہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت  یہ ہے کہ وحی اور نبوت  مرادف اور ہم مصداق نہیں  یعنی نبی کے لئے تو  یقیناً لازم ہے کہ ان پر وحی  کی جائے۔وحی کے لئے ضروری نہیں ہے  کہ اس کی  منزل قلب نبوت  ہی ہو،  نزول  ملائکہ اور نبوت  میں تو اتنابھی ربط نہیں ہے۔ کچھ  انبیاء ایسے بھی گذرے  ہیں جنہوں نے  ملک کو  نہیں دیکھا اسی طرح  ملائکہ بہت سے ایسے افراد کے اس گئے ہیں جو  نبی نہیں تھے چونکہ یہ مبحث میرے موضوع سخن سے کچھ غیرمتعلق  ہے اس لئے اس مضمون میں اس کی تشریح نامناسب ہے ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button