اسلامی معارف

حضرت امام حسین ؑ کی نگاہ میں: کربلا میں ظلم و تشدد کی جڑیں

تحریر :مولانا محمد علی۔ طالب علم جامعۃ المصطفیٰ (ص) العالمیہ۔ قم

فہرست مندرجات

مقدمہ

حرام خوری کے آثار

حرام خوری کے مصادیق

امام حسینؑ کی نظرمیں حرام خوری کے آثار

حق کی فراموشی اور محرمات الہی سے بے توجہی

 مقدمہ

دل کا مرنا اور پاک خدائی فطرت پر پردہ پڑ جانا اور حق کی طرف لگاؤ نہ ہونا، خدا کے دوستوں سے دشمنی و عناد کرنا؛ حرام خوری کے نتائج میں سے ہیں اور یہی حرام خوری ہے جو ظلم و ستم کے لئے آمادہ کرنے میں بہت ہی موثر ہوتی ہےاور کربلا بھی اسی وجہ سے رونما ہوئی ہے چونکہ دشمنان دین، دشمنان حسینؑ حرام خوری کے عادی تھےاور حرام مال و دولت کے حصول کا لالچ رکھتے تھے۔

اسلام میں عبادت کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ حرام خوری سے پرہیز کرنا اور پاکدامنی کا بزرگ ترین عبادتوں میں شمار ہوتا ہےاور اس کے مقابلے میں حرام خوری بہت بڑے گناہوں میں شامل ہے ۔چنانچہ امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: “خداوندعالم کے نزدیک پیٹ کو حرام سے محفوظ رکھنے اور پاک دامنی سے بڑھ کر عبادت نہیں ہے۔” (وسائل الشیعہ، ج ۱۱، ص ۱۹۷، باب ۲۲)۔

مناسب ہے کہ یہاں حرام خوری سے مربوط چند نکات کو پیش کرنے کے بعد کربلا میں ہونے والے ظلم و تشدد  میں حرام خوری کے آثار کو خود حضرت امام حسین ؑکی نگاہ سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

حرام خوری کے آثار

یہاں حرام خوری چاہے مال حرام کھانا ہو، یا مال ظاہرا حلال ہو مگر حرام طریقہ سے حاصل کرکے استفادہ کرنا ہو یا کھانے کے علاوہ دوسرے امور جیسے سکونت، بدن کے لئے استعمال وغیرہ میں ہو، ہر طرح سے حرام خوری کے زمرہ میں آتا ہے اور ان کے بہت ہی برے آثار بیان ہوئے ہیں، یہاں ان میں سے چند کو بیان کیا جا رہا ہے:

۱۔لعنت کے مستحق قرار پانا:متعدد آیات و روایات میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ حرام خوری ، لقمہ حرام  خدا اور فرشتوں کی لعنت کاسبب بنتا ہے، چنانچہ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں: “جب بندہ کے پیٹ میں حرام لقمہ جاتا ہے تو زمین و آسمان کے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں” (کتاب الدعوات، ص۲۵) اور روایت میں ہے کہ جب تک حرام لقمہ بندہ کے پیٹ میں رہتا ہے خداوندعالم اس پر اپنی نگاہ نہیں کرتا ہے اور خدا کے غضب کا شکار ہوتا ہے مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے۔(روضۃ الواعظین، ج۲،ص ۴۵۷)۔

۲۔اعمال کا قبول نہ ہونا:نبی اکرم ؐ فرماتے ہیں: “حرام خوری کے ساتھ عبادت کرنا، ریت و بالو پر گھر بنانے جیسا ہے۔” (عدۃ الداعی، ص ۱۵۳)۔ اسی طرح آیا ہے: “ایک  حرام لقمہ کی وجہ سے چالیس دن تک نہ نماز اور نہ روزہ قبول ہوتا ہے۔”(بحارالانوار، ج۶۳،ص ۳۱۴)۔

۳۔ نیک اعمال کے انجام دینے میں دشواری پیدا ہونا  اورقیامت میں ان کا تباہ و برباد ہونا۔

۴۔ مال سے برکت کا اٹھ جانا، مال کا ناحق اور غلط راہ میں خرچ ہونا۔

۵۔قساوت قلبی: حرام خوری کے اہم آثار میں سے دل کا سخت ہوجانا اور حق کی بات کو قبول نہ کرنا ہے ۔

حرام خوری کے مصادیق

مال حرام و حرام خوری چاہے بذات خود حرام ہو جیسے کتا، سور، مٹی کا کھاناوغیرہ۔ یا کسی صفت و خاصیت کی وجہ سے حرام ہوجیسے شراب خوری ؛ مستی و نشہ کی وجہ سے، زہرآلود کھانا۔ یا  مال یا چیز کو غیر شرعی طریقہ سے حاصل کیا گیا ہوجیسے : چوری کا مال وغیرہ۔یا کوئی اور شکل ہو ہر لحاظ سے حرام خوری میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہاں حرام خوری کے چند مصادیق پیش کرتے ہیں جن کو دینی و فقہی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے:

۱۔ خداو معصومینؑ کے مال میں ناحق تصرف کرنا جیسے بغیر خمس نکالے ہوئے مال کا استعمال کرنا۔

۲۔ یتیم کے مال کا کھانا، جس کوقرآن نے۷  بزرگ گناہوں میں شمار کیا ہے اور اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے سے تعبیر فرمایا ہے۔(سورہ نساء، آیت ۴ و ۱۰)۔

۳۔ دوسروں کی ملکیت و زمین کو زبردستی اپنے قبضہ میں کرنا۔

۴۔ سود خوری ، جس کو قرآن نے خدا سے جنگ کرنے جیسا بتایا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت۲۸۹)۔

۵۔ رشوت خوری۔

۶۔ قمار بازی کا مال؛ قرآن نے اس کو شیطان کا عمل اور انسانوں میں دشمنی کاسبب بتا یا ہے(سورہ مائدہ، آیت۹۰)۔

۷۔ غیر شرعی دعاؤں اور تعویذوں کے لکھنے کی اجرت ، یہ معاشرے کے مختلف افراد کے لئے مضر و اختلاف کا باعث بھی ہوتے ہیں۔

۸۔نوکروں اور مزدوروں کی اجرت روک لینا اور خود کھاجانا؛جس کے بارے میں خداوندعالم نے فرمایا  کہ میں خود ایسے ظالموں سے مواخذہ کروں گا(صحیح بخاری،۴۳۸)۔

۹۔ غیر شرعی طور پر فقیری کرکے مال کھانا، یعنی بغیر ضرورت و حاجت کے مال مانگ کر کھانا۔

۱۰۔چوری کا مال کھانا۔

۱۱۔ ناحق طریقہ سے کسی کی میراث ہڑپ لینا۔

۱۲۔حرام معاملہ سے حاصل کیا ہوا مال۔

۱۳۔ زبردستی و نارضایت والے معاملے سے حاصل مال۔

۱۴۔ حرام مشغلو ں اور کاموں سے حاصل مال وغیرہ۔

انسان کو حرام خوری سے پرہیز کرنا چاہئے اور ہر خدانخواستہ حرام خوری میں مبتلا ہوں تو اس سے توبہ کرنا چاہئے اور اس کے جبران کی کوشش کریں، مثلا نبی اکرم ؐ فرماتے ہیں: ایک دانگ(چھٹے حصے)بھر مال حرام کا اصلی مالک کے پاس دوبارہ پلٹانا خداوندعالم کے نزدیک ۷۰ ہزار مقبول حج کے برابر ہے۔(جامع الاخبار، ص۱۵۷)

امام حسینؑ کی نظرمیں حرام خوری کے آثار

جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ ظلم و ستم کرنا؛ حرام خوری کے اثرات و نتائج میں سے ہے، امام حسین ؑ نے کربلا کے سفر چاہے ابتدا ہو یا آخر۔ بنی امیہ اور یزیدیوں کے مظالم کی وجوہات اورجڑوں کو بھی لوگوں کے سامنے پیش فرمایا ہے ۔

حرام خوری سے انسان کی شناخت و معرفت کی حسّ چلی جاتی ہے اور شناخت اور حقیقتوں کو درک کرنے میں ناکامی حاصل ہوتی ہے ، قرآن کریم اور معصومینؑ کی باتوں میں اس مطلب کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اسے “دل پر تالا لگ جانے” جیسے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے انسان باطل پر اصرار کرتے ہیں اور حق کے مقابلے میں ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور ظلم وستم ، کفر ونفاق کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔چنانچہ امام حسین ؑ  عاشورا کے دن چاروں طرف سے گھیرے ہوئے لشکر کے درمیان کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا تھا ، اس میں فرماتے ہیں: “جو شخص میری اطاعت کرے گا وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائے گااور جو میرے مخالفت کرے گا وہ نابود ہونے والوں میں سے ہوگا لیکن تم سب لوگ میری مخالفت ہی کروگے اور میری بات کو نہیں سنوگے؛ اس لئے کہ تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہوئے ہیں اور تمہارے دلوں پر تالا لگا ہوا ہے۔لعنت ہو تم سب پر! کیوں خاموش نہیں ہوتے ہو، کیوں میری بات کو نہیں سنتے ہو؟” (بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۸)۔

حق کی فراموشی اور محرمات الہی سے بے توجہی

کربلا میں مظالم و تشدد کے اہم ترین عامل جو انسانیت کے تمام انحرافات کی بھی جڑ ہے ان میں”حق کو فراموش کرنا” اور “خداوندعالم سے غافل ہونا” ہے اور محرمات الہی کے سلسلے میں بے توجہی بھی شامل ہے۔

خدا کی یاد تمام سعادت و کمال و برکت کا سرچشمہ ہوتی ہے ،انسان جب خدا کی یاد میں ہوتا ہے تو خدائی عظمت و کمال و خوبصورتی کے عظیم و نامحدود سمندر سے قطرے کی مانند متصل ہوتا ہے ۔اپنے وجود کے تنگ حصار سے خارج ہوکر نور کی بے انتہا فضا میں پرواز کرتا ہے  اور “خدا سے غفلت ” کی حالت میں انسان پانی کی ایک چھوٹی سی جھیل کی مانند ہوتا ہے جو حیات کے اصلی چشمہ سے جدا ہوجائے اور فاسد ہونے سے بدبو دینا شروع کردیتی ہے۔

وہ روح و جان جو خدا کی یاد سے خالی ہوتی ہے وہ شیطان کے لئے بہترین چراگاہ بن جاتی ہے اور اس کے ساتھیوں کے حملوں کا میدان ہوجاتی ہے، ایسے زمین میں گناہ اور خطاکاری کے بیج بہت جلدی جلدی پھلتے پھولتے ہیں اور چند ہی دنوں میں انسان شیطان کی چال کا اسیرو غلام بن جاتا ہے اور اس کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے۔

امام حسینؑ دشمنوں کے لشکر کے سامنے خطبہ کے ضمن میں فرماتے ہیں:  “بیشک شیطان تم پر مسلط ہوگیا ہے اور خدا کی یاد کو تمہارے ذہنوں سے بھلا دیا ہے۔” (بحار الانوار، ج ۴۵، ص۵)۔ امامؑ کے کلام کا یہ مضمون خدائی کلام کی عکاسی کررہا ہے جہاں پروردگار فرماتا ہے:

“شیطان نے ان کو قابو میں کرلیا ہے اور خدا کی یاد ان سے بھلا دی ہے۔ یہ (جماعت) شیطان کا لشکر ہے اور یاد رکھو شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے، جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ نہایت ذلیل ہوں گے۔ خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ بےشک خدا زورآور (اور) زبردست ہے۔”(سورہ مجادلہ، آیت۱۹ تا ۲۱)

اور  یزیدیوں کے مقابلے میں وہ حسینؑ والے تھے جن کے شکم، جن کے دل و دماغ پاکیزہ تھے اور امام کی نصرف کے ہر لحاظ سے آمادہ تھے ، خدا و رسول و امام پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ ان جیسوں کے بارے میں اسی سورہ مجادلہ کی آخری آیت ہے جس میں پروردگار فرماتا ہے:

“جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ، ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) یاد  رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے۔” (سورہ مجادلہ، آیت۲۲)

امام حسین ؑکی باتیں تمام صدیوں کی پشت سے تمام انسانوں کے لئے پیغام ہے اور حقیقی کامیابی کی چابی ہے اور انحرافات،تعصبات  اور گناہوں کی تیز تلواروں کے مقابلے میں تنہا سپر و ڈھال ہیں، ہم خداکی یاد پر توجہ رکھیں،ہمیشہ خدا کو یاد رکھیں اور اللہ کے لشکر میں شامل رہیں نہ کہ شیطان کے لشکریوں میں قرار پائیں۔

والسلام

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button