اسلامی معارف

معرفت امام علیؑ، خود آپ کی زبانی

تحریر: سیدہ نہاں نقوی۔ طالبہ جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران

 فہرست مندرجات

مقدمہ:

۱۔نبوت  کے سایہ میں میرا بچپن

۲۔وحی اور نبوت کی روشنی

3۔  سچا  ساتھی

۴۔  صدیق اکبر

۵۔ رسول اللہؐ سے سوالات

۶۔مجھ سے کبھی بیزاری نہ کرنا

۷۔ ہدایت کا سرچشمہ اور مومنین کی پناہ گاہ

۸۔ میری مثال

۹۔اللہ کی عظیم نشانی و خبر

۱۰۔ظلم سے دوری

۱۱۔اللہ کی نافرمانی سے دوری

۱۲۔ اندھیرے میں روشن چراغ

۱۳-  نجات کا راستہ

۱۴-  مومنین کی شناخت کا معیار

۱۵-  مومنین کا پیشوا

۱۶- اہل بیتؑ سے نزدیک کون؟

۱۷- نجات و ہلاکت کا معیار

۱۸-   علیؑ کون؟

۱۹-   مظہر صفات الہی

۲۰-   اہل بیتؑ کی بلندی و برتری

۲۱۔ تمام علوم قرآن سے آگاہی

۲۲۔ علم الہی کا مرکز و منبع

۲۳۔ ہر آیت  قرآنی کا علم

۲۴۔ حکمت کا دروازہ

۲۵۔ علم کا سیلاب

۲۶۔ علم کی گہرائی

۲۷۔ مظہر عجائب

۲۸۔  بے نظیر شجاعت

۲۹۔الہی امام کی سیرت

۳۰۔  دنیا پرستی سے دور

۳۱۔  رہبر با عمل

۳۲-  عارفانہ عبادت

۳۳-   علیؑ کا راستہ

۳۴-   علیؑ کا طرزعمل

۳۵-   مدد کا مطالبہ

۳۶-   علیؑ اور گمراہیوں سے مقابلہ

۳۷۔ سب سے بڑا مظلوم

۳۸۔  لوگوں کا ظلم

۳۹۔  مسلسل ظلم کا شکار

۴۰-  عدالت الہی میں مقدمہ

مقدمہ:

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے فضائل و مناقب کا شمار ممکن نہیں ہے لیکن روایات کی روشنی میں کچھ فضائل کا ذکر کیا گیا ہے جن کا مطالعہ کرنا ہم سب پر لازم و ضروری ہے اس لئے کہ صحیفہ مومن کا عنوان ہی محبت امام علیؑ کو بیان کیا گیا ہے:قال النبیؐ: عُنوانُ صحيفةِ المؤمنِ حُبُّ عليِّ بنِ أبي طالبٍ؛ (كنزالعمّال، ح32900)اور آپ کا ذکر کرنا عبادت شمار ہوتا ہے(ذِكرُ عليٍّ عبادةٌ؛ (تاريخ دمشق، ج42، ص356، ح 8949)۔  اسی طرح پیغمبراکرمؐ  نے فرمایا کہ:  “اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی علیؑ ابن ابی طالبؑ کے لئے اتنے فضائل قرار دیئے ہیں جن کو خود اس کے علاوہ کوئی شمار نہیں کرسکتا ہے۔ جو شخص بھی  علیؑ کے فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو کسی جگہ پر لکھے گا تو جب تک اس تحریر کا وجود باقی رہے گا ملائکہ اس شخص کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔ اور جو شخص علیؑ کے فضائل کو اپنے کانوں سے سنے گا تو اللہ تعالیٰ، اس کے کانوں سے انجام پانے والے گناہوں کومعاف کردے گا۔ اور جوشخص فضائل علیؑ پر مشتمل تحریر کو دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ،اس کی آنکھوں سے سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف کردےگا. (بحارالانوار، ج۳۸،ص۱۹۶)۔

 مذکورہ  تاکید کے مدنظر یہاں کچھ ان اہم احادیث کا ذکر کیا جارہا ہے جن میں خود امام علیؑ کی زبانی، اپنے فضائل و مناقب کا ذکر کیا  گیاہے اور ساتھ ہی ساتھ  جن میں اپنی سیرت کے اہم نقوش کو بیان فرمایا ہے جو ہم چاہنے والوں کے لئے نشان راہ ہے :

۱۔نبوت  کے سایہ میں میرا بچپن

پیغمبراکرمؐ کے ساتھ اپنے خوبصورت بچپن کو یاد کرتے ہوئے امام علیؑ فرماتے ہیں:«وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (ص) بِالْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِيصَةِ، وَضَعَنِي فِي (حَجْرِهِ) حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلَدٌ (وَلِيدٌ) يَضُمُّنِي إِلَى صَدْرِهِ وَ يَكْنُفُنِي فِي فِرَاشِهِ وَ يُمِسُّنِي جَسَدَهُ وَ يُشِمُّنِي عَرْفَهُ وَ كَانَ يَمْضَغُ الشَّيْ‏ءَ ثُمَّ يُلْقِمُنِيهِ، وَ مَا وَجَدَ لِي كَذْبَةً فِي قَوْلٍ وَ لَا خَطْلَةً فِي فِعْلٍ، وَ لَقَدْ قَرَنَ اللَّهُ بِهِ (ص) مِنْ لَدُنْ أَنْ كَانَ فَطِيماً أَعْظَمَ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَتِهِ يَسْلُكُ بِهِ طَرِيقَ الْمَكَارِمِ وَ مَحَاسِنَ أَخْلَاقِ الْعَالَمِ لَيْلَهُ وَ نَهَارَهُ، وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ، يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً وَ يَأْمُرُنِي بِالاقْتِدَاءِ بِهِ…»؛ “تم جانتے ہو کہ رسول اکرمؐ کے نزدیک میرا کیا مقام ہے اور ان کے ساتھ میرا کتنا قریبی رشتہ ہے۔ جب میں بچہ تھا، تو انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھا، اپنے سینے سے لگاتے تھے، اور اپنے بستر پر سلاتے تھے اس طرح سے کہ میرا جسم ان کے جسم سے مل جاتا اور وہ مجھے اپنی خوشبو سے معطر فرماتے تھے، کبھی وہ لقمہ چباکر مجھے کھلاتے تھے۔آنحضرتؐ نے کبھی میری زبان سے جھوٹ نہیں سنا اور نہ ہی میرے اعمال میں کوئی خطا دیکھی۔جب شیرخواری کی عمر تمام ہوئی  تو اللہ نے اپنے فرشتوں میں سے سب سے بڑے فرشتے کو آنحضرتؐ کا ہم نشین بنایا، جو رات دن ان کے ساتھ رہتا تھاتاکہ وہ بزرگی کے راستے طے کریں اور دنیا کے بہترین اخلاق اپنائیں۔ اور میں ہر وقت آنحضرتؐ کے پیچھے پیچھے رہتا تھا چاہے سفر ہو یا حضر، جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے۔ ہر روز وہ مجھے اپنے اخلاق کی نئی خوبی نمایاں کرتے اور مجھے اس کی پیروی کی تاکید فرماتے تھے۔”(نهج البلاغه، خطبه 192)۔

۲۔وحی اور نبوت کی روشنی

«وَ لَقَدْ كَانَ يُجَاوِرُ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِحِرَاءَ فَأَرَاهُ وَ لَا يَرَاهُ غَيْرِي، وَ لَمْ يَجْمَعْ بَيْتٌ وَاحِدٌ يَوْمَئِذٍ فِي الْإِسْلَامِ غَيْرَ رَسُولِ اللَّهِ(ص) وَ خَدِيجَةَ وَ أَنَا ثَالِثُهُمَا، أَرَى نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةِ وَ أَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ، وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّيْطَانِ حِينَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْهِ (ص)، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ هَذَا الشَّيْطَانُ قَدْ أَيِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ، إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى، إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَكِنَّكَ لَوَزِيرٌ، وَ إِنَّكَ لَعَلَى خَيْرٍ»؛ “رسول اکرمؐ ہر سال غارِ حرا میں خلوت اختیار فرماتے تھے۔ میں آپؐ کو دیکھتا تھا اور میرے سوا وہاں کوئی آپؐ کو نہیں دیکھتا تھا۔ اس دوران رسول اکرمؐ  اور حضرت خدیجہؑ کے گھر کے علاوہ کسی اور گھر میں مسلمان موجود نہیں تھے۔ میں ان میں سے تیسرا فرد تھا،  میں وحی اور نبوت کی روشنی  کو دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔ جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی تھی، میں شیطان کی آواز سنتا تھا۔ میں نے عرض کیا: “یا رسول اللہؐ! یہ کس کی آواز ہے؟”۔ آپؐ نے فرمایا: “یہ شیطان ہے جو اس بات پر مایوس اور پریشان ہے کہ اس کی عبادت نہیں کی جائے گی”۔ بے شک تم وہی سنتے ہوجو میں سنتا ہوں اور وہی دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں، سوائے اس کے کہ تم نبی نہیں ہو، بلکہ میرے وزیر ہو اور خیر کے راستے پر ہو۔(نهج البلاغه، خطبه 192)۔

3۔  سچا  ساتھی

«أنا صِنْوُ رسولِ اللّه، والسّابقُ إلَى الإسلامِ، وکاسِرُ الأصنامِ، و مُجاهِدُ الکُفّارِ، وقامِعُ الأضدادِ»؛ “میں رسول اللہ ؐ کا سچا ساتھی اورمہربان بھائی ہوں، میں اسلام لانے میں سبقت کرنے والا ہوں، میں بتوں کو توڑنے والا اور کافروں سے جہاد کرنے والا ہوں اور میں دشمنانِ دین کو کچلنے والا ہوں”(غررالحکم، ح۳۷۶۱ )۔

۴۔  صدیق اکبر

«أنا عبدُ اللّه ِ و أخو رسولِهِ، و أنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ، لا يقولُها بَعدي إلاّ كذّابٌ مُفْتَرٍ»؛ میں اللہ کا بندہ ہوں اور رسول اکرمؐ کا بھائی ہوں۔ میں صدیق اکبر(سب سے بڑا سچا گواہ)  ہوں اور میرے بعد جو بھی میرے بعد اس بات کا دعویٰ کرے وہ سب سے بڑا جھوٹا  تہمت باز ہے۔(كنز العمّال، ح36389)

۵۔ رسول اللہؐ سے سوالات

« وَ لَيْسَ كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) مَنْ كَانَ يَسْأَلُهُ وَ يَسْتَفْهِمُهُ، حَتَّى إِنْ كَانُوا لَيُحِبُّونَ أَنْ يَجِيءَ الْأَعْرَابِيُّ وَ الطَّارِئُ فَيَسْأَلَهُ حَتَّى يَسْمَعُوا، وَ كَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ وَ حَفِظْتُهُ»؛ “پیغمبر اکرمؐ کے تمام صحابہ اس طرح نہ تھے کہ وہ آپ سے کوئی بات پوچھتے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے بلکہ وہ لوگ چاہتے تھے کہ کوئی دیہاتی عرب یا کوئی اجنبی آئے اور آنحضرتؐ سے کوئی سوال کرے تاکہ وہ اس کا جواب سن سکیں۔ لیکن میں (حضرت علی ؑ) ہر وہ بات جو میرے دل میں آتی، پوچھ لیتا تھا اور اسے یاد رکھتا تھا”۔(نهج البلاغه، خ ۲۱۰)۔

۶۔مجھ سے کبھی بیزاری نہ کرنا

امام علیؑ اپنے چاہنے والوں کے سامنے معاویہ کے ناپاک کردار اور آئندہ کی خبردیتے ہوئے فرماتے ہیں: «…أَلَا وَ إِنَّهُ سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي وَ الْبَرَاءَةِ مِنِّي، فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّهُ لِي زَكَاةٌ وَ لَكُمْ نَجَاةٌ؛ وَ أَمَّا الْبَرَاءَةُ، فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي، فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَ سَبَقْتُ إِلَى الْإِيمَانِ وَ الْهِجْرَةِ»؛ “…عنقریب وہ (معاویہ) تمہیں مجھ سے بیزاری اور بدگوئی پر مجبور کرے گا۔لہذا جب دشمن کے دباؤ میں ہو تو (ظاہری طور پر) مجھے برا بھلا کہنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ میرے درجات کی بلندی اور تمہاری نجات(جان کی حفاظت) کا سبب ہے۔ لیکن تم لوگ مجھ سےکبھی بیزاری نہ کرنا کیونکہ میں توحید کی فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں سب سے آگے رہا ہوں۔” (نهج البلاغه، خطبه ۵۷)۔

۷۔ ہدایت کا سرچشمہ اور مومنین کی پناہ گاہ

«أنا الهادی، وأنا المُهتَدی، وأناأبو الیَتامى والمَساکینِ، وزوجُ الأراملِ، وأنا مَلْجَأُ کلِّ ضعیفٍ، ومأمَنُ کلِّ خائفٍ، وأنا قائدُ المومنینَ إلَى الجنّهِ، وأنا حَبلُ اللّه المتینُ، وأنا عُروَهُ اللّه الوُثْقى، وکلمهُ التَّقوى، وأنا عَینُ اللّه، ولسانُهُ الصّادقُ، ویَدُهُ»؛ “میں ہدایت دینے والا ہوں، میں ہدایت یافتہ ہوں، میں یتیموں اور مسکینوں کا باپ ہوں، بیواؤں کا سرپرست ہوں، میں ہر کمزور و ناتوان کا سہارا ہوں، ہر خوفزدہ کے لئے پناہ گاہ ہوں، میں مومنین کو جنت کی طرف لے جانے والا ہوں، میں اللہ کی مضبوط رسی ہوں، میں اللہ کی محکم گرہ ہوں، میں کلمۂ تقویٰ ہوں، میں اللہ کی آنکھ ہوں، اس کی سچی زبان اور اس کا ہاتھ ہوں”۔(التوحید، ۲/ ۱۶۴)۔

۸۔ میری مثال

«إنّي فيكُم أيُّها النّاسُ كهارونَ في آلِ فِرعونَ، و كبابِ حِطّةٍ في بني إسرائيلَ ، و كسفينةِ نوحٍ عليه السلام في قومِ نوحٍ ، و إنّي النّبأُ الأعظمُ،  و الصِّدّيقُ الأكبرُ، و عن قليلٍ ستَعْلَمونَ ما تُوعَدونَ»؛ “اے لوگو! میں تمہارے درمیان  آل فرعون میں ہارون کی مانند ہوں، بنی اسرائیل میں بابِ حطہ کی مانند ہوں، اور قومِ نوح میں کشتیِ نوح کی مانند ہوں۔ میں(اللہ کی)عظیم خبر ہوں، میں صدّیق اکبر ہوں، اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہیں کس چیز کا وعدہ دیا گیاہے۔” (تنبیه الخواطر،ج۲ و ص ۴۱ )۔

۹۔اللہ کی عظیم نشانی و خبر

 « ما للّه ِ عزّ و جلّ آيةٌ هِي أكبرُ مِنّي ، و لا للّه ِ مِن نبأٍ أعْظَمُ مِنّي »؛  اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی (آیت) مجھ سے بڑی اور کوئی خبر مجھ سے عظیم نہیں ہے۔(الکافی، ج ۱، ص ۲۰۷، ح۳ )۔

۱۰۔ظلم سے دوری

« وَ اللَّهِ لَأَنْ أَبِيتَ عَلَى حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّداً أَوْ أُجَرَّ فِي الْأَغْلَالِ مُصَفَّداً، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَ رَسُولَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظَالِماً لِبَعْضِ الْعِبَادِ وَ غَاصِباً لِشَيْءٍ مِنَ الْحُطَامِ؛ وَ كَيْفَ أَظْلِمُ أَحَداً لِنَفْسٍ يُسْرِعُ إِلَى الْبِلَى قُفُولُهَا وَ يَطُولُ فِي الثَّرَى حُلُولُهَا؟؛ “خدا کی قسم! اگر میں ساری رات سعدان کے کانٹوں پر گزار دوں، یا زنجیروں سے جکڑ کر ادھر اُدھر گھسیٹا جاؤں، تو یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں قیامت کے دن خدا اور اس کے رسولؐ کے سامنے اس حال  حاضر ہوؤں کہ  میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہویا لوگوں کے مال میں سے کچھ غصب کیا ہو۔ میں اپنے نفس پر کیسےظلم کرسکتا ہوں، جو کہ خاتمے اور بوسیدہ ہونے کی طرف گامزن ہے اور لمبے عرصے تک مٹی میں پڑا رہے گا؟  “۔

۱۱۔اللہ کی نافرمانی سے دوری

«وَاللّه ِ لَوْ اُعْطِيتُ الْأَقاليمَ السَّبْعَةَ بِما تَحْتَ اَفْلاكهِا عَلى أَنْ أَعْصِىَ اللّه َ فى نَمْلَةٍ أَسْلُبُها جِلْبَ شَعيرَةٍ ما فَعَلْتُ، وَ اِنَّ دُنْياكُمْ عِنْدى لاََهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فى فَمِ جَـرادَةٍ تَقْـضِمُها، ما لِعَلِىٍّ وَ نَعيمٍ يَفْنى وَلَذَّةٍ لا تَبْقى؟ »؛ “خدا کی قسم! اگر مجھے ساتوں اقلیم(دنیا) اور جو کچھ آسمان کے نیچے ہے، سب کچھ دے دیا جائے، اس شرط پر کہ میں خدا کی اتنی سی نافرمانی کروں کہ ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو بھی میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ کیونکہ تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک ایک ٹڈی کے منہ میں ادھ چبے پتے سے بھی زیادہ بے وقعت ہے۔ علی ؑ کو فانی نعمتوں اور عارضی لذتوں سے کیا سروکار؟”، (نهج البلاغه؛ خطبه ۲۲2)۔

 ۱۲۔ اندھیرے میں روشن چراغ

«إنّما مثلي بينكم كمثل السّراج  في الظّلمة، يستضي‌ء به من ولجها فاسمعوا أيّها النّاس وعوا، و أحضروا آذان قلوبكم تفهموا»؛ “میری مثال تمہارے درمیان اس چراغ جیسی ہے جو اندھیرے میں روشن ہو، جس  کی روشنی سے تاریکی میں گھرا ہوا شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، میرے کلمات کو یاد رکھو، اور اپنے دلوں کے کان کھول لو تاکہ تم میری بات کو پوری طرح سمجھ سکو”۔(غررالحکم،ح ۸۸۸۳ )۔

۱۳-  نجات کا راستہ

«أنا قَسيمُ اللّه ِ بينَ الجَنّةِ و النّارِ ، لا يَدخُلُها داخِلٌ إلاّ على حَدِّ قَسْمي ، و أنا الفاروقُ الأكبرُ ، و أنا الإمامُ لِمَن بَعدِي ، و المُؤَدِّي عَمَّن كانَ قَبلي»؛ “میں جنت اور جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں۔ کوئی بھی ان میں داخل نہیں ہوگا مگر میری تقسیم کے مطابق۔ میں فاروقِ اکبر (حق و باطل میں جدائی کا سب سے بڑا معیار)ہوں، میں اپنے بعد والوں کا امام ہوں اور میں اپنے سے پہلے والوں (یعنی رسول اللہؐ) کی امانتوں کی ادائیگی کرنے والا ہوں”(الکافی، ج۱، ص۱۹۸، ح۳ )۔

 ۱۴-  مومنین کی شناخت کا معیار

«قالَ رسولُ اللّه (ص): لَوْلاكَ يا علِيّ، ما عُرِفَ المؤمنونَ مِنْ بَعْدي »؛ “رسول اللہ(ص) نے میرے بارے میں فرمایا کہ اے علیؑ! اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومنین پہچانے نہ جاتے”(کنز العمال، ح ۳۶۴۷۷)۔

  ۱۵-  مومنین کا پیشوا

«أنَا یَعسوبُ المُؤمِنینَ، وَالمالُ یَعسوبُ الُفجّارِ»؛ “میں مومنوں کا پیشوا ہوں، اور مال و دولت فاسقوں کے لئے پیشوا ہے”(یعنی مومن میرے پیروکار ہیں لیکن فاسق و فاجر لوگ، مال و دولت کے پرستار ہیں)۔(نهج البلاغه، حکمت۳۱۶)۔

۱۶- اہل بیتؑ سے نزدیک کون؟

«اَوْلَى النّاسِ بِنا مَنْ والانا وَ عادى مَنْ عادانا»؛ “ہم اہل بیتؑ سے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھتا ہے”۔(شرح غررالحكم، ج2، ص483)۔

   ۱۷- نجات و ہلاکت کا معیار

«مَنْ رَكِبَ غَيْرَ سَفينَتِنا غَرِقَ»؛ “جو شخص ہم اہل بیتؑ کی کشتی کے علاوہ کسی دوسری کشتی میں سوار ہوگا وہ غرق ہوجائے گا”۔(شرح غررالحكم ، ج 5، ص 184)۔

   ۱۸-   علیؑ کون؟

«أَنَا الَّذِی عَلِمْتُ عِلْمَ الْمَنایا وَ الْبَلایا وَ الْقَضایا وَ فَصْلَ الْخِطَابِ وَ الأَنْسابَ، وَ اسْتُحْفِظْتُ آیاتِ النَّبِیینَ الْمُسْتَخْفِینَ الْمُسْتَحْفَظِینَ»؛ “میں وہ ہوں جو تمام موت و حیات، مصیبتوں، تقدیر کے فیصلوں، حتمی عدالت اور نسبوں کو جانتا ہوں۔ میں پیغمبروں کی پوشیدہ نشانیوں کا علم رکھتا ہوں”۔(مختصر البصائر ۱۳۲)۔

۱۹-   مظہر صفات الہی

«أَنَا وَجْهُ اللَّهِ أَنَا جَنْبُ اللَّهِ وَ أَنَا الْأَوَّلُ وَ أَنَا الْآخِرُ وَ أَنَا الظَّاهِرُ وَ أَنَا الْبَاطِنُ وَ أَنَا وَارِثُ الْأَرْضِ وَ أَنَا سَبِيلُ اللَّهِ وَ بِهِ عَزَمْتُ عَلَيْهِ»؛ “میں اللہ کا چہرہ ہوں، میں اللہ کا پہلو ہوں۔ میں ہی اولین و آخرین ہوں، میں ہی ظاہر و باطن ہوں، میں زمین کا وارث ہوں، میں اللہ کا راستہ ہوں اور میں نے اس کی ذات کی قسم کھائی ہے”۔(رجال كشي، ص۲۱۱)۔

   ۲۰-   اہل بیتؑ کی بلندی و برتری

«أَيْنَ الَّذِينَ زَعَمُوا أَنَّهُمُ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ دُونَنَا كَذِباً وَ بَغْياً عَلَيْنَا؟ أَنْ رَفَعَنَا اللَّهُ وَ وَضَعَهُمْ وَ أَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ وَ أَدْخَلَنَا وَ أَخْرَجَهُمْ. بِنَا يُسْتَعْطَى الْهُدَى وَ يُسْتَجْلَى الْعَمَى. إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ، غُرِسُوا فِي هَذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ، لَا تَصْلُحُ عَلَى سِوَاهُمْ وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ»؛ “کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ قرآن کا علم صرف انہیں حاصل ہے نہ کہ ہمیں؟ انہوں نے یہ دعویٰ جھوٹ اور ہم پر ظلم کی بنیاد پر کیا۔ اللہ نے ہم اہل بیتِ رسولؐ کو بلند کیا اور انہیں ذلیل و رسوا کیا۔ اس نے ہمیں عطا فرمایا اور انہیں محروم رکھا۔ ہمیں اپنی نعمتوں کے حرم میں داخل کیا اور انہیں باہر رکھا۔ لوگ ہدایت کا راستہ ہماری رہنمائی سے پاتے ہیں اور اندھے، دلوں کی روشنی ہم سے طلب کرتے ہیں۔ بے شک تمام (بارہ )امام  قریش سے ہیں جن کی اصل کو اللہ نے بنی ہاشم میں رکھا۔ ولایت و امامت کا مقام دوسروں کے لئے نہیں ہے، اور دوسرے حکمرانی کے دعویدار اس کے اہل نہیں ہیں”۔(نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۴)۔

۲۱۔ تمام علوم قرآن سے آگاہی

« ما نَزَلَت عَلى رَسولِ اللّه ِ صلي الله عليه و آله آيَةٌ مِنَ القُرآنِ إلاّ أقرَأَنيها وأملاها عَلَيَّ فَكَتَبتُها بِخَطّي ، وعَلَّمَني تَأويلَها وتَفسيرَها، وناسِخَها ومَنسوخَها، ومُحكَمَها ومُتشابِهَها، وخاصَّها وعامَّها»؛ “رسول اللہؐ پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ آپؐ نے اسے مجھے پڑھ کر سنایا اور میں نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ آپؐ نے مجھے اس کی تفسیر، تاویل، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، خاص و عام ہونے کے بارے میں سب کچھ سکھایا ہے”(اصول کافی، ج۱، ص ۶۴ )۔

۲۲۔ علم الہی کا مرکز و منبع

« يا معشرَ النّاسِ، سَلُوني قبلَ أن تَفْقِدوني ، سَلُوني فإنّ عندي عِلمَ الأوَّلينَ و الآخِرِينَ. أمَا و اللّه ِ لو ثُنِيَ لي الوِسادُ لَحَكَمْتُ بينَ أهلِ التّوارةِ بتَوراتِهم  …۔ ثُمّ قالَ : سَلُوني قبلَ أن تَفْقِدوني ، فوالّذي فَلَقَ الحَبّةَ و بَرأَ النَّسَمَةَ لو سَألتُموني عن آيةٍ آيةٍ لأخبَرتُكُم بوقتِ نُزولِها و في مَن نَزلَتْ »؛ “اے لوگو! مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو۔ مجھ سے پوچھو، کیونکہ میرے پاس اولین اور آخرین کا علم ہے۔ خدا کی قسم! اگر مجھے تورات کے ماننے والوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا موقع ملے تو میں تورات کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کروں گا… پھر فرمایا: مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا، اگر تم مجھ سے قرآن کی کسی بھی آیت کے بارے میں پوچھو تو میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کب اور کس کے بارے میں نازل ہوئی”(الارشاد، ج۱، ص۳۵)۔

۲۳۔ ہر آیت  قرآنی کا علم

« سَلوني عَن كِتابِ اللّه ِ ، فَإِنَّهُ لَيسَ مِن آيَةٍ إلاّ وقَد عَرَفتُ بِلَيلٍ نَزَلَت أم بِنَهارٍ ، في سَهلٍ أم في جَبَلٍ»؛ “مجھ سے قرآن کے بارے میں سوال کرو کیونکہ کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہوکہ  وہ رات میں نازل ہوئی یا دن میں، میدان میں یا پہاڑ پر…”( الطبقات الكبرى، ج2، ص338؛ تاريخ الخلفاء،ص 218 ؛ الامالی مفید، ص ۱۵۲)۔

۲۴۔ حکمت کا دروازہ

« تَاللَّهِ لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّسَالاتِ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْكَلِمَاتِ، وَ عِنْدَنَا -أَهْلَ الْبَيْتِ -أَبْوَابُ الْحُكْمِ وَ ضِيَاءُ الْأَمْرِ »؛ “خدا کی قسم! مجھے پیغامات پہنچانے، وعدے پورے کرنے اور کلمات کی تکمیل کا علم دیا گیا ہے۔ ہم اہل بیتؑ کے پاس حکمت کے دروازے اور امر الہی کی روشنی ہے”(شرح نهج البلاغه، خطبه 120)۔

۲۵۔ علم کا سیلاب

«يَنْحَدِرُ عَنِّى السَّيْلُ وَ لا يَرْقى اِلَىَّ الطَّيْرُ»؛ “میری ذات سے (علوم و معارف) کا سیلاب ظاہر ہوتا ہے اور اس کی بلندی تک کوئی طائر فکر نہیں پہنچ سکتی ہے”۔ (نہج البلاغہ، خ۳)۔

۲۶۔ علم کی گہرائی

 «اندَمَجْتُ على مَكْنونِ عِلمٍ لو بُحْتُ بهِ لاضْطَرَبْتُمُ اضْطِرابَ الأرشِيَةِ فِي الطَّوِيِّ البعيدةِ»؛ “میرے سینے میں اتنا علم پوشیدہ ہے کہ اگر میں اسے ظاہر کردوں تو تم ایسے لرز جاؤ گے جیسے گہرے کنویں میں ڈول کی رسیاں لرزتی ہیں”(نهج البلاغه، خطبه ۵)۔

 ۲۷۔ مظہر عجائب

« أنا عَلَمُ الهُدى ، و كَهْفُ التُّقى ، و مَحَلُّ السَّخاءِ ، و بَحرُ النَّدى ، و طَودُ النُّهى »؛ “میں ہدایت کا پرچم ہوں، پرہیزگاری کےلئے پناہ گاہ ہوں، سخاوت کا گھر ہوں، جود و کرم کا دریا ہوں، اور عقل کا پہاڑ ہوں”(نهج السعاده، ج ۳، ص ۷۹ )۔

۲۸۔  بے نظیر شجاعت

«إنّی لَم أفِرَّ مِنَ الزَّحفِ قَطُّ، ولَم یُبارِزْنی أحدٌ إلّا سَقَیتُ الأرضَ مِن دَمِهِ»؛ “میں نے کبھی میدانِ جنگ سے فرار نہیں کیا، اور جو بھی دشمن مجھ سے مقابلہ کرنے آیا، میں نے اس کے خون سے زمین کو سیراب کردیا”(الخصال، ج۱، ح ۵۸۰)۔

۲۹۔الہی امام کی سیرت

« إنَّ اللّه َ جَعَلَني إماما لِخَلْقِهِ ، فَفَرَضَ عَلَيَّ التَّقْديرَ في نَفْسي و مَطْعَمي و مَشْرَبي و مَلْبَسي كَضُعَفاءِ النّاسِ، كَيْ يَقْتَديَ الفقيرُ بِفَقْري، و لا يُطْغِيَ الغَنِيَّ غِناهُ »؛ “خدا نے مجھے اپنی مخلوق کا امام بنایا، اس لئے اس نے مجھ پر لازم کیا کہ میں اپنے آپ کو، اپنے کھانے پینے اور لباس کو غریبوں جیسا رکھوں، تاکہ غریب میری فقیری کی پیروی کرے اور امیر اپنی دولت میں غرور نہ کرے”)بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۳۶، ح۱۷)۔

۳۰۔  دنیا پرستی سے دور

«أنا الّذی أهَنْتُ الدُّنیا»؛ “میں وہ ہوں جس نے ہمیشہ دنیا کو ذلیل کیا”(یعنی کبھی بھی دنیا پرستی اور مادی دنیاکے فریب میں گرفتار نہیں ہوا)۔(تاریخ دمشق، ج ۴۲، ص۴۸۹ ۔ البدایۃ و النہایۃ، ج۸، ص۵)۔

  ۳۱۔  رہبر با عمل

« إنّي لا أحُثُّكُم على طاعةٍ إلاّ و أسْبِقُكُم إلَيها ، و لا أنْهاكُم عن معصيةٍ إلاّ و أتَناهى قَبلَكُم عنها »؛ “میں تمہیں کسی اطاعت(فرمانبرداری) کی ترغیب نہیں دیتا مگر یہ کہ میں خود تم سے پہلے اس پر عمل کرتا ہوں، اور نہ ہی کسی گناہ سے تمہیں روکتا ہوں مگر یہ کہ میں خود تم سے پہلے اس کے ارتکاب سے دور رہتا ہوں”۔ (غررالحکم: ۳۷۸۱ )۔

   ۳۲-  عارفانہ عبادت

“ما عَبَدتُكَ طَمَعًا في جَنَّتِكَ، ولا خَوفًا مِن نارِكَ ، ولكِن وَجَدتُكَ أهلاً لِلعِبادَةِ فَعَبَدتُكَ”؛ “خدایا !  میں (علیؑ)تیری عبادت نہ تو جنت کے لالچ میں کرتا ہوں اور نہ ہی جہنم کے خوف سے کرتا ہوں بلکہ میں  نےتجھے عبادت کے لائق جانا ہے لہذا تیری عبادت کرتا ہوں”۔ (عوالي اللیالي، ج1، ص 404، ح 63؛ ج 2، ص11، ح 18 ؛ شرح نهج البلاغة ابن ميثم البحراني، ج 5، ص361)۔

      ۳۳-   علیؑ کا راستہ

«وَ اِنّى لَعَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبّى وَ مِنْهاجٍ مِنْ نَبِيّى ، وَ اِنّى لَعَلَى الطَّريقِ الْواضِحِ اءَلْقُطُهُ لَقْطاً»؛ “اور میں ان نشانات کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار نے مقرر کئے ہیں اور اس راستے پر چلتا ہوں جو رسول اللہؐ نے دکھایا ہے۔ میں سیدھے اور روشن حق کے راستے پر گامزن ہوں اور پوری آگاہی کے ساتھ اسے باطل کے ٹیڑھے راستوں سے الگ کرتا ہوں”۔(نهج البلاغه ، خ 96 )۔

   ۳۴-   علیؑ کا طرزعمل

 «…يَجِبُ عَلى اَئِمَّةِ الحَقِّ اَن يُقَدِّرُوا اَنفُسَهُم بِضَعفَةِ النّاسِ لِئَلاّ يَطغِى الفَقيرَ فَقرُهُ…»؛ “… امامانِ حق پر لازم ہے کہ وہ کھانے پینے میں عام کمزور اور محتاج لوگوں جیسے ہوں، تاکہ فقر و غربت، غریبوں میں طغیانی (بغاوت یا مایوسی) کا باعث نہ بنے۔ (یعنی جب فقر و تنگدستی ان پر شدید ہو تو وہ کہیں کہ ہم پر جو گزر رہی ہے اس میں ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ امیرالمؤمنینؑ کا دسترخوان بھی تو ہم جیسا ہی ہے)۔(اصل الشّيعه و اصُولُها ،ص 65)۔

واضح رہے کہ یہ قول ، احنف بن قیس نامی شخص نے نقل کیا ہے اس وقت جب معاویہ کے دربار میں امام علیؑ کے فقیرانہ کھا نے کا ذکر ہوا تھا تو اس بات کو سن کر معاویہ کوکہنا پڑا کہ: اے احنف ایسے شخص کا تذکرہ تو نے کیا ہے جس کی فضیلت قابل انکار نہیں ہے۔

   ۳۵-   مدد کا مطالبہ

«أَلَا وَ إِنَّ لِكُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً يَقْتَدِي بِهِ وَ يَسْتَضِيءُ بِنُورِ عِلْمِهِ؛ أَلَا وَ إِنَّ إِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفَى مِنْ دُنْيَاهُ بِطِمْرَيْهِ وَ مِنْ طُعْمِهِ بِقُرْصَيْهِ؛ أَلَا وَ إِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ، وَ لَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَ اجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ. فَوَاللَّهِ مَا كَنَزْتُ مِنْ دُنْيَاكُمْ تِبْراً وَ لَا ادَّخَرْتُ مِنْ غَنَائِمِهَا وَفْراً وَ لَا أَعْدَدْتُ لِبَالِي ثَوْبِي طِمْراً وَ لَا حُزْتُ مِنْ أَرْضِهَا شِبْراً وَ لَا أَخَذْتُ مِنْهُ إِلَّا كَقُوتِ أَتَانٍ دَبِرَةٍ، وَ لَهِيَ فِي عَيْنِي أَوْهَى وَ أَوْهَنُ مِنْ عَفْصَةٍ مَقِرَةٍ»؛ “ہوشیار رہو! ہر ماموم (پیرو) کا ایک امام اور پیشوا ہوتا ہے جس کی پیروی کرنی چاہیے اور جس کے علم کے نور سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ (تمہیں اپنے امام و پیشوا کو دیکھنا چاہیے) جان لو کہ تمہارے امام (علیؑ)نے اپنی دنیا سے دو پرانے کپڑوں اور اپنی غذا سے دو روٹیوں پر قناعت کی ہے۔خوب سمجھ لو کہ تم اس طرح نہیں ہو سکتے، اور اس زندگی کو برداشت نہیں کر سکتے (میں تمہیں اس سے معاف کرتا ہوں) لیکن مجھے پرہیزگاری، کوشش (پاک زندگی گزارنے کی)، پاکدامنی اور سیدھے راستے پر چلنے کے ذریعہ میری مدد کرو۔ خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا کے خزانوں میں سے سونا چاندی جمع نہیں کیا، نہ ہی غنیمتوں اور مال و دولت میں سے کچھ ذخیرہ کیا ہے۔ میں نے اپنے پرانے کپڑوں کا کوئی متبادل تیار نہیں کیا، اور اس دنیا کی زمینوں میں سے ایک بالشت بھر بھی اپنی ملکیت میں نہیں لی۔ میں نے دنیاوی غذا میں سے ایک زخمی جانور کی معمولی خوراک کے برابر بھی زیادہ استعمال نہیں کیا۔ یہ دنیا میری نظر میں بلوط کے درخت کے کڑوے شربت سے بھی زیادہ بے وقعت اور حقیر ہے”۔(نهج البلاغه، نامہ۴۵)۔

      ۳۶-   علیؑ اور گمراہیوں سے مقابلہ

امام علیؑ اپنے آخری دور حکومت میں دشمنوں سے مقابلے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے اور گمراہیوں سے مقابلہ کرنے کی اپنی کوششوں کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ: «إِنِّي وَ اللَّهِ لَوْ لَقِيتُهُمْ وَاحِداً وَ هُمْ طِلَاعُ الْأَرْضِ كُلِّهَا مَا بَالَيْتُ وَ لَا اسْتَوْحَشْتُ؛ وَ إِنِّي مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ وَ الْهُدَى الَّذِي أَنَا عَلَيْهِ لَعَلَى بَصِيرَةٍ مِنْ نَفْسِي وَ يَقِينٍ مِنْ رَبِّي، وَ إِنِّي إِلَى لِقَاءِ اللَّهِ لَمُشْتَاقٌ وَ (لِحُسْنِ) حُسْنِ ثَوَابِهِ لَمُنْتَظِرٌ رَاجٍ؛ وَ لَكِنَّنِي آسَى أَنْ يَلِيَ (هَذِهِ الْأُمَّةَ) أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ سُفَهَاؤُهَا وَ فُجَّارُهَا، فَيَتَّخِذُوا مَالَ اللَّهِ دُوَلًا وَ عِبَادَهُ خَوَلًا وَ الصَّالِحِينَ حَرْباً وَ الْفَاسِقِينَ حِزْباً؛ فَإِنَّ مِنْهُمُ الَّذِي قَدْ شَرِبَ فِيكُمُ الْحَرَامَ وَ جُلِدَ حَدّاً فِي الْإِسْلَامِ، وَ إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُسْلِمْ حَتَّى رُضِخَتْ لَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ الرَّضَائِخُ …»؛ خدا کی قسم! اگر میں تن تنہا ان (دشمنوں) کا مقابلہ کروں، حالانکہ وہ ساری زمین پر چھا گئے ہوں، تو بھی مجھے کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی میں گھبراؤں گا۔ میں اُس گمراہی کو جس میں وہ مبتلا ہیں اور اُس ہدایت کو جس پر میں قائم ہوں، خوب جانتا ہوں اور میں اپنے پروردگار پر یقین رکھتا ہوں (اور اسی لئے ان گمراہوں سے مقابلے میں ذرہ برابر تردید نہیں کروں گا)۔اور میں اپنے رب کی ملاقات (شہادت) کا مشتاق ہوں اور اس کے نیک اجر کا منتظر اور امیدوار ہوں۔ لیکن (دشمنوں کے مقابلے میں فتح پانے کی کوشش کروں گا)، کیونکہ مجھے اس بات کا غم ہے کہ کہیں اس حکومت کی باگ ڈور بیوقوفوں، نادانوں، فاجروں اور بدکاروں کے ہاتھ میں نہ آ جائے، جس کے نتیجے میں وہ بیت المال کو لوٹ لیں گے، اللہ کے بندوں کو غلام بنا لیں گے، نیکوکاروں سے جنگ کریں گے اور فاسقوں کو اپنا ساتھی اور حلیف بنائیں گے۔ کیونکہ اس گروہ میں وہ شخص بھی شامل ہے جس نے شراب پینے کا ارتکاب کیا تھا اور اس پر اسلام کی حد جاری کی گئی تھی، اور ان میں سے بعض نے اسلام صرف اسی لئے قبول کیا تھا کہ ان کے لیے (مالی) عطیات مقرر کئے گئے تھے…”۔ (نہج البلاغہ، نامہ ۶۲)۔

۳۷۔ سب سے بڑا مظلوم

 «ما لَقِیَ أحدٌ مِن النّاسِ ما لَقِیتُ»؛ “جوظلم مجھ پر ہوا ہے وہ کسی پر بھی نہیں ہوا ہے”(شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۰۳)۔

۳۸۔  لوگوں کا ظلم

«كنتُ أرى أن الوالي يظلم الرعية، فإذا الرعية تظلم الوالي»؛ “میں دیکھا ہےکہ والی اپنی رعایا پر ظلم کرتے ہیں لیکن ابھی اس کے برعکس لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے والی(مجھ) پر ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں”(كنزالعمال، ح ٣٦٥٤١)۔

۳۹۔  مسلسل ظلم کا شکار

«ما زِلْتُ مُذ قُبِضَ رسولُ اللّه (ص) مظلوما»؛ “آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد سے میں ہمیشہ مظلوم رہا ہوں”(خصائص الائمهؑ ، ص۹۹)۔

   ۴۰-  عدالت الہی میں مقدمہ

«أنا أوَّلُ مَن یَجْثو لِلخُصومَة بینَ یدَیِ اللّه عزّ وجلّ یومَ القیامهِ»؛ “میں قیامت کے دن سب سے پہلے خدا کے سامنے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے لیے کھڑا ہوں گا”۔(تاریخ دمشق، ج ۴۲، ص ۴۷۵)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button