اسلامی معارف

معجزات و کرامات امام رضا علیہ السلام

تحریر: مولانا سیدمحمد کمیل رضوی۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

 اشارہ

اس مختصر تحریر میں معجزہ اور کرامت کے لغوی اور اصطلاحی معنی و مفہوم اور ان جیسے امور سے تفریق کے بیان کے ساتھ ساتھ حضرت امام رضاؑ سے متعلق بعض اہم معجزات و کرامات کا ذکر کیا جارہا ہے:

معجزہ کے معنی

معجزہ، مصدر اعجاز سے مشتق ہے، جو ثلاثی مجرد ع ج ز سے آیا ہے، جس کے معنی ہیں: درماندگی، ناتوانی اور کسی چیز کا اختتام۔ (معجم مقاييس اللّغة : ج ۲ ص ۲۲۱ ماده «عجز»)

اعجاز کے معنی ہیں: دوسرے کو ناتوان بنانا یا دوسرے کو ناتوان پانا۔ (مفردات الفاظ القرآن، ص ۵۴۷ ماده «عجز» )

لغت کی کتابوں اور اس لفظ کے استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس مادے کا بنیادی مفہوم قدرت کے مقابل میں ہے۔ دونوں الفاظ “معجز” اور “معجزہ”، فاعل کے صیغے ہیں اور ان کے معنی “ناتوان کرنے والا” کے ہیں، جبکہ ان کی جمع “معجزات” ہے۔

معجزہ، اصطلاحِ علم کلام میں، ایک خارق العاده کام ہے جو تحدّی (چیلنج) کے ساتھ ہو اور کسی مقابلے سے محفوظ ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے نبی کے ذریعے ظاہر کرتا ہے تاکہ وہ اس کی رسالت کی سچائی کی نشانی بن جائے۔ (شرح المصطلاحات الكلامیہ، گروہ نويسندگان، ص ۳۳۴ )۔

معجزہ اور جادو میں فرق

اگر چہ یہ دونوں ہی مؤثر ہوتے ہیں مگر معجزہ اور اس میں یہ فرق ہے کہ معجزہ حق اور جادو، باطل ہوتا ہے معجزہ، با مقصد، اصلاحی، انقلابی و تربیتی اور لا محدود ہوتا ہے لیکن سحر ، بے مقصد ، محدود اور کم ارزش ہوتا ہے. صاحب اعجاز کی نظر معنویات پر ہوتی ہے اور ساحر کی مادیات پر قرآنی اعلان کے مطابق ساحر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا: وَلا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ: اور جادو گر لوگ کبھی کامیاب نہ ہوں گے (سورہ یونس: ۷۷/۱۰ تفیسر نمونہ: ۳۵۷/۸، ۳۵۹،۳۵۸)

معجزہ اور کرامت میں فرق

کرامت ایسا خارق العادة فعل ہے جسے اولیائے الہی انجام دیتے ہیں ، اس سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، اس میں نبوت کا دعوی نہیں ہوتا ہے کرامت، اولیاء سے اور معجزہ، انبیاء ؑ) سے مخصوص ہے معجزہ و کرامت دونوں ۔ خارق العادہ ہیں صرف فرق اتنا ہے کہ معجزہ میں نبوت کا دعویٰ ہوتا ہے مگر کرامت میں نہیں ہوتا. ( شرح کشف المراد ، ص۳۶۶، مسئلہ ۵ )

امام رضا علیہ السّلام کے کچھ معجزے

یہاں حضرت امام رضاؑکے کچھ اہم معجزات کا ذکر کیا جارہا ہے:

۱۔ شادی شدہ لڑکی اور اس کی لا علاج بیماری سے شفایابی

 شب جمعه ۷ رشوال ۱۳۴۳ھ کو ربابه بنت حاج علی تبریزی ساکن مشہد مقدس کو فلج وغیرہ سے شفا ملی،  اس کے شوہر کا بیان ہے کہ وہ شادی بعد ایک مشہور بیماری دامنه (حصبہ سرنچہ کھسرا، چھوٹی چیچک ) میں گرفتار ہوگئی نو (۹) دن علاج کے بعد شفاملی اور پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے مرض پھر پلٹ آیا ،علاج معالجہ کے بعد داہنا ہاتھ اور کمر تک دونوں پیر شل ہو گئے سات (۷) ماہ تک علاج کیا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ڈاکٹر کو دکھایا جانا شروع کیا مگر شفا کے بجائے دونوں دانت بیٹھ گئے کھانا پینا دشوار ہو گیا ڈاکٹر نے جواب دے دیا میں آٹھ (۸) دنوں تک صرف حقہ کے ذریعه آبگوشت ( شوربہ دار گوشت) کھلاتا رہا پھر انجکشن لگا تو کھانا شروع ہو گیا مگر مرض پہلے کی طرح باقی رہا، ناامیدہوکر ڈاکٹری علاج بند کر دیا گیا۔

شب پنجشنبه ( جمعرات )۶ شوال کو اہلیہ نے مجھ کو بلا کر معافی طلب کی کہ آپ نے میرے لئے بہت زحمتیں برداشت کیں مجھ سے کوئی بھلائی نہ دیکھی  لیکن مجھ پر ایک احسان اور کر دیں کہ کل رات مجھے امام رضاؑکے حرم میں پہنچا دیں اور خود واپس آجائیں۔ میں حضرت سے شفا یا موت طلب کروں گی، امام دونوں میں سے میری ایک حاجت کو تو ضرور پورا کروا دیں گے۔ شوہر کہتا ہے میں  نے ایک ڈولی میں بٹھاکر اسے اس کی ماں کے ساتھ امام کے حرم لے گیا۔ حرم کے دروازے سے پیٹھ پر لاد کر ضریح کے پاس  لے جاکر چھوڑ دیا اور گھر واپس آ کر سو گیا۔

اس کی بیوی کا بیان ہے کہ جب میرا شوہر چلا گیا تو میری ماں نے کہا: تم ضریح کے پاس رہو میں زنانی مسجد میں آرام کرلوں۔ میں نے حضرت سے دعا کی بہت گریہ کیا ، خواب و بیداری کے درمیان دیکھا کہ ضریح مقدس میں شگاف پیدا ہوا اور ایک بزرگوار سبنر لباس پہنے ہوئے ظاہر ہوئے ترکی زبان میں فرمایا: ( در ایاقہ ) اٹھو!۔

میں نے جواب نہ دیا دوسری اور تیسری مرتبہ کے بعد عرض کیا: آقا میرے ہاتھ پیر نہیں ہیں! فرمایا: مسجد گوہر شاد ( حرم مطہر سے متصل ایک مشہور جامع مسجد ) میں جا کر وضو کر کے نماز پڑھو پھر یہاں آکربیٹھ جانا؟

اسی دوران میری بغل میں موجود ایک عورت نے فریاد بلند کی تو اسی وقت میں نے ضریح سے سر اٹھایا مجھے کوئی درد نہ تھا پہلے جا کر اپنی ماں کو بیدار کر کے یہ خوشخبری سنائی ہم دونوں نے مل کر ایک گھنٹہ تک گر یہ شوق کیا لوگوں کا ہجوم ہو گیا اسی وقت چند خادم میرے شوہر اور والد کو بلا کر لائے ۔ حرم آنے کے بعد جب شوہر نے گھر چلنے کے لئے کہا تو میں نے بتایا کہ حضرت کا حکم ہے کہ وضو کرکے مسجد گو ہر شاد میں نماز پڑھ کر  میں  دوبارہ یہاں آؤں۔ اس کے بعد میں ایسا ہی کیا طلوع آفتاب تک حرم کے اندر رہے۔  پھر اپنے شوہر کے ساتھ گھر واپس آگئی۔

ڈاکٹر لقمان الملک نے اس معجزہ کے صحیح ہونے پر شہادت دی ہے اور مریضہ کی پوری حالت بیان کرنے کے بعد کہا: میں علاج سے نا امید ہو گیا تھا ابھی ابھی جو شفا کی خبرملی وہ بھی صرف چند لمحات میں تو واقعا یہ معجزہ ہی ہے یہ انسانوں کے اختیار سے باہر ہے وَ اللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ : اور خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگر چہ کفار براہی ( کیوں نہ مانیں ! (صف: ۸/۶۱)۔ (کرامات رضویہ، ج۱، ف۲، ص۹۰، کرامت نمبر ۲۶)۔

۲۔محدث بیر جندی کی حرم رضوی کے گردو غبار سے شفایابی

نیز مذکورہ کتاب میں ہے کہ مرحوم بیر جندی علامہ حاج شیخ محمد باقر بن محمد حسن قائنی نے کتاب کبریت احمر میں تحریر فرمایا ہے:

جس وقت میں حضرت امام رضا ؑکی زیارت کے لئے گیا اسی دوران میرے پیروں میں کئی دنوں تک ایسا شدید درد ہو گیا کہ نیند حرام ہوگئی اور بدن میں لرزہ بھی پیدا ہو گیا میں نے اپنے رشتے داروں سے چھپایا تا کہ انہیں گھبراہٹ نہ ہو۔بہر حال کسی طرح صبر کرتا رہا ایک دن حضرت امام رضاؑکے روضہ مبارک کے پتھروں پر پڑے ہوئے گردو غبار کو اپنے پیروں پر مل لیا فوراً در داڑ گیا مجھے پورا سکون مل گیا پھر دوبارہ یہ بیماری نہ ہوئی حرم مطہر کی خاک پاک اور اس کی برکت و اعجاز کا خود میں نے مشاہدہ کیا۔(کرامات الرضویہ، ص۲۷۳، بحوالہ کبیرت احمر)۔

۳۔ دونوں آنکھوں کے اندھے محمد رضا کو حرم حضرت رضا ؑمیں مکمل شفا یابی

کتاب کرامات میں ہے کہ میں اور بہت سے افراد نے اس کو بہت دنوں سے دونوں آنکھوں سے اندھا ہی دیکھاتھا۔  اس کی بیٹی ، باپ کا ہاتھ پکڑ کر چلتی تھی لوگ اسے بھیک دیتے تھے اس طرح سے وہ اپنی زندگی گزار رہا تھا حضرت نے اس کو شفادی تقریبا دس (۱۰) سالوں سے وہ ساری چیزیں دیکھتا ہے اس نے مجھ سے پوری تفصیل بیان کی جس کا خلاصہ یہ کہ میں مبتلا ہوا، علاج کیا فائدہ نہ ہوا آخر کاراندھا ہو گیا سب کچھ تاریک ہو گیا سات (۷) برسوں تک میری لڑکی ہاتھ پکڑ کر چلتی رہی ایک دن روڈ پر مجھ کو پکڑ کر چل رہی تھی تو ایک شخص نے مجھ سے کہا:

میں خدمت کے لئے یہ لڑکی چاہتا ہوں میں بغیر جواب دیئے چلا گیا مگر اس کی بات کا میرے دل میں بہت اثر ہوا غمگین ہو کر وہیں سے حضرت رضاؑ کی طرف رخ کر کے عرض کیا: یا موت! یا شفا۔ میری زندگی بہت دشوار ہو چکی ہے پھر اسی طرح لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہوئے صحن عقیق میں آیا ایسا لگا کہ تھوڑا تھوڑا گنبد دکھائی دے رہا ہے تعجب کیا ایک گوشہ میں بیٹھ کرگریہ کرنے لگا۔چند لمحوں میں ساری چیزیں دکھائی دینے لگیں جب اٹھا تو لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑنا چاہا میں نے کہا: اب ضرورت نہیں سب کچھ دکھائی دے رہا ہے حضرت نے شفا دے دی ۔ لڑکی کو یقین نہ ہوا، میں دوڑنے لگا پھر اس کے ساتھ صحن سے باہر آیا۔ صاحب کرامات رضویہ یہاں دعا کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم آنحضرت کے دوستدار، ان بزرگوار سے امیدوار ہیں کہ ہم پر بھی ایک نظر لطف فرمادیں تا کہ ہماری باطنی کوری ختم ہو کر ہمارے دل کی آنکھیں نورانی ہوں۔(کرامات رضویہ جلد اول فصل سوم، ص۱۶۷ تا ۱۶۹، کرامت نمبر ۱۴)

۴۔لا علاج نا بینا کو مکمل شفاء

شیخ موسی انجل شیخ علی نجفی نے نقل کیا: جب میں حضرت امام رضاؑ کی زیارت کے لئے گیا تو سخت مریض ہو گیا آنکھوں سے سیاہ پانی بہا  اور بینائی ختم ہوگئی تو میں آنکھ کے ایک ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے ایک دوا دی تین(۳) دنوں تک استعمال کرنے کی تاکید کی اور کہا: ” اگر ٹھیک ہو جائے تو کیا بہتر ، ورنہ اب تمہاری آنکھیں لا علاج ہوگئی ہیں کیونکہ آنکھوں سے سیاہ پانی نکل چکا ہے۔

میں نے عمل کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو حضرت امام رضاؑ کے حرم مبارک کا رخ کیا ان سے عرض کیا: آقا! میں علم دین حاصل کرنے آیا ہوں میری آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی ہے مجھے شفا عنایت فرمائیں میں صبح سے دوپہر تک گریہ میں مشغول رہا پھر کھانے کے لئے گھر آیا کھانا کھا کر سو گیا جب بیدار ہوا تو مجھے شفا مل گئی فورا اٹھ کر چلنے لگا پورے گھر والوں کو حیرت و مسرت ہوئی۔ (کرامات رضویہ: ج۱، ف۴، ص ۲۰۴، ۲۰۵، کرامت نمبر ۲۲)۔

۵۔ رومی، ہندی، فارسی و ترکی اور سندھی زبانوں میں گفتگو

خرائج راوندی میں منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت رضاؑ سے عرض کیا: محمد بن فضل کہتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ نازل فرمایا آپ ہر لغت اور زبان جانتے ہیں فرمایا: انھوں نے سچ کہا ہے ؟ اس نے کہا: اچھا تو سب سے پہلے میں زبانوں کے سلسلہ میں آپ کا امتحان لوں گا یہ رومی ، وہ ہندی ، وہ ایرانی اور وہ تر کی شخص ہے ان سب سے بات کیجئے حضرت ؑنے ہر ایک سے اس کی زبان میں گفتگو کی ان سب نے اقرار کیا کہ حضرت ہم سب سے زیادہ صحیح ہیں۔

حضرت نے ایک رومی کنیزسے اس کی زبان میں اور ایک سندھی سے اس کی زبان میں گفتگو فرمائی، یہ معجزہ دیکھ کر وہ سندھی اسلام لایا۔(الاثبات، ج۶، ص۱۲۹تا ۱۳۱، ح ۱۳۸)۔ والسلام

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button