
امامت و ولایت پر شیعی نقطۂ نظر
تحریر: رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری (رح)
نوٹ: مندرجہ ذیل تحریر علامہ رضوی کی کتاب “امامت” سے اقتباس ہے، تفصیلی مباحث کے لئے اصل کتاب میں رجوع فرمائیں۔ (ادارہ)
فہرست مندرجات
مسئلہ امامت و خلافت اور اختلافات
جانشینی پیغمبراکرمؐ کے سلسلے میں بنیادی سوالات
شیعی نقطۂ نظر سے امام کے اوصاف
معنی و مفہوم امامت و خلافت:
امامت یعنی قیادت، رہبری۔ الامام یعنی قائد یا رہبر۔ اسلامی اصطلاح میں اس کی تعریف یہ کی گئی ہے؛ «الإمامة ریاسة عامة فی الدین و الدنیا لشخص من الأشخاص نیابة عن النبی (ص)» ۔ یعنی پیغمبر ؐ کی نیابت میں کسی شخص کے لئے دین و دنیا کی ریاست عامہ کو “امامت” کہتے ہیں(الباب الحادی عشر، حلی، ج۱، ص۶۶)۔ امام کے معنی ہیں وہ “مرد” جو نبی کی نیابت میں امت مسلمہ پر دین و دنیا کے امور میں ریاست عامہ پر فائز ہو(التعریفات، جرجانی، ج۱، ص۲۸)۔ “مرد” کی شرط اس لئ لگائی گئی ہے کہ “عورت” امام نہیں ہوسکتی ہے۔ “ریاست عامہ” کی قید امام جماعت کو اس تعریف سے خارج کردیتی ہے۔اگرچہ وہ بھی “امام جماعت” کہا جاتا ہے لیکن ریاست عامہ کا حامل نہیں ۔ “نیابۃ عن النبیؐ” کی شرط نبی اور امام کے فرق کو واضح کرتی ہے کیونکہ امام کو یہ ریاست عامہ براہ راست نہیں بلکہ نبی کے نائب کی حیثیت سے حاصل ہوتی ہے۔
“خلافت” کے معنی جانشینی ہیں۔ اور “خلیفہ” جانشین اور نائب کو کہتےہیں۔ اسلامی اصطلاح میں “خلافت” و “خلیفہ” عملاًوہی مفہوم ظاہر کرتے ہیں جو “امامت”اور “امام” سے ظاہر ہوتا ہے۔”الوصایۃ” یعنی وصیت پر عملدرآمد کی ذمہ داری اور اختیار اور “وصی” یعنی وصیت پر عملدرآمد کا ذمہ دار۔عام طور سے اس سیاق و سباق میں “وصیت”اور “وصی” کے وہی معنی مراد لئے جاتے ہیں جو “خلافت” اور “خلیفہ” کے ہیں۔
قارئین کرام کے لئے یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ بہت سے انبیاء ؑسلف اپنے پیشرو انبیاءؑ کے خلیفہ بھی تھے۔یعنی: وہ نبی ؑبھی تھے اور خلیفہ بھی ۔ وہ انبیاءؑ جو صاحبان شریعت تھے وہ صرف پیغمبرؑتھے اور اپنے پیش رو نبی ؑکے خلیفہ نہیں تھے اور کچھ ایسے افراد بھی گذرے ہیں جو انبیاء ؑکے خلیفہ تھے مگر نبی ؑنہیں تھے۔
مسئلہ امامت و خلافت اور اختلافات
“امامت و خلافت” کےقضیہ نے امت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور ان اختلافات نے عقائد و نظریات کو اتنا متاثر کیا ہے کہ “توحید”و “نبوت” کے عقیدے بھی ان آویزشوں کی زد سے نہ بچ سکے۔ علم کلام میں اس مسئلہ پر سب سے زیادہ بحث و مباحثہ، سب سے زیادہ نزاع اور جدال ہوتی رہی ہے اور اس پر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ میرے سامنے جو مسئلہ ہے وہ یہ نہیں کہ کیا لکھوں بلکہ یہ کہ کیا نہ لکھوں۔ کوزہ میں سمندر کو بند نہیں کیا جاسکتا ۔ اس چھوٹے سے کتابچہ میں نہ تو اس موضوع کے تمام مباحث کو سمیٹا جاسکتا ہے اور نہ جس مبحث کو بیان کیا جائے اس پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے۔ اس کتابچہ میں اس موضوع پر جو اختلافات ہیں ان کا مختصر سا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔شروع ہی میں یہ کہہ دینا بہتر ہے کہ مسلمان اس سوال پر دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں؛
اہل سنت: جن کاعقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر ہیں۔
شیعہ: جن کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت علیؑ ابن ابی طالب ؑپیغمبرؐ کے پہلے خلیفہ اور امام ہیں۔
اس بنیادی اختلاف نے کئی دوسرے اختلاف کو جنم دیا جن کی وضاحت آئندہ کی جائے گی۔
پیغمبرؐ کی ایک متفقہ علیہ حدیث ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ :
“عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائےگی جن میں سے صرف ایک فرقہ ناجی ہوگااور باقی تمام فرقے ناری ہوں گے”۔
جن کو اپنی آخرت سنوارنے کی فکر ہوتی ہے وہ ہمیشہ ہی راہ نجات اور صراط مستقیم کی تلاش و جستجو کرتےرہتے ہیں، ہر شخص پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عقل کو اپنا رہبر بنائے، تحقیق و جستجو کرتا رہے، یہاں تک کہ سچائی اور حق کا دامن اس کے ہاتھ میں آجائے۔ ان تمام اختلافات پر ایک طائرانہ نظر ڈالے اور جانب داری و تعصب سے بچ کر تمام معاملات کا ایک تنقیدی جائزہ لے اور فہم و تدبر کا سہارا لیتے ہوئے خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے صراط مستقیم کی ہدایت کرے۔
جانشینی پیغمبراکرمؐ کے سلسلے میں بنیادی سوالات
اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہیں:
۱۔ رسول ؐ کے جانشین کا تقرر کرنا خدا کے اختیار میں ہے یا امت کی ذمہ داری ہے کہ جسے بھی چاہے رسولؐ کا جانشین مقرر کردے ؟
۲۔ اگر یہ امت کی ذمہ داری ہے تو کیا خدا یا رسولؐ نے امت کے ہاتھ میں کوئی ایسا دستور دیا جس میں “خلیفہ” کے انتخاب کے قوانین اور طریقہ کا ر بیان کئے گئے ہوں؟ یا امت نے انتخاب کی منزل آنے سے پہلے کچھ قواعد و ضوابط بنا لئے تھے جس کی بعد میں پابندی کی گئی ؟ یا امت نے ہر نئے موڑ پر جو طریقہ مفید مطلب ہوا اسے اختیار کر لیا۔ اور جو کچھ امت نے کیا، کیا اسے ایسا کرنے کا اختیار تھا؟
۳۔ کیا عقل اور قوانین الہی کی رو سے امام اور خلیفہ کے اندر کچھ صلاحتیوں اور شرائط کا پایا جانا ضروری ہے؟ اگر ہاں ! تو وہ شرائط اورخصوصیات کیا ہیں؟
۴۔ پیغمبراسلامؐ نے کسی کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا یا نہیں ؟ اگر مقرر فرمایا تو وہ کون ہے؟ اگر نہیں مقرر کیا تو کیوں؟
۵۔ وفات پیغمبرؐ کے بعد کس کو خلیفہ تسلیم کیا گیا اور کیا خلیفہ کے اندر جن شرائط کا وجود ضروری ہے وہ اس میں پائی جاتی تھیں یا نہیں ؟
امامت کی بنیادی خصوصیت
تفصیلات میں جانے سے پہلے، یہ بہتر ہے کہ “امامت و خلافت” کی اہمیت و خصوصیت کے بارے میں جو اختلا ف ہے اس کی بنیادی وجہ کو واضح کردیا جائے۔ اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہیں کہ:
امامت کی بنیادی خصوصیت کیا ہے؟
کیا امام اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پرسلطنت کا حاکم ہے؟
یا وہ اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پر اللہ کا نمائندہ اور رسولؐ کا جانشین ہے؟
چونکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ “امامت اور خلافت” رسولؐ کی جانشینی ہے لہذا یہ سوال اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک یہ طے نہ ہوجائے کہ خود رسولؐ کی بنیادی حیثیت کیا تھی ؟ ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ کیا رسولؐ اپنی اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پر ایک سلطنت کے حاکم تھے یا آپ اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پر خداکے نمائندے تھے؟
اسلام کی تاریخ میں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک ایسا گروہ موجود تھا جو آنحضرت ؐ کے مشن کو حکومت قائم کرنے کی ایک کوشش سمجھتا تھا۔ اس کا نظریہ مادی تھا اور اس کا نصب العین زر، زمین اور اقتدار تھا۔ ہمیں تعجب نہیں ہوتا جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ رسولؐ کو بھی اپنے ہی آئینہ میں دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ رسولؐ نے یہ مشن انہیں مقاصد کے حصول کے لئے شروع کیا ہے۔
ابوسفیان کے خسر عتبہ بن ربیعہ کو قریش نے پیغمبرؐ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا: “محمدؐ ! اگر تم اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں مکہ کا حاکم بنائے لیتے ہیں۔ اگر کسی بڑے خاندان میں شادی کرنا چاہتے ہو تو مکہ کی سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کردیں گے اگر مال و زر چاہتے ہو تو اس سے کہیں زیادہ مال و زر دینے کے لئے تیار ہیں، جتنا چاہتے ہولیکن اپنی اس تبلیغ سے باز آجاؤجس سے ظاہر ہوتا ہے مکہ ہمارے آباء و اجداد جو ان بتوں کی پرستش کرتے تھے احمق تھے”۔
قریش کو بالکل یقین تھا کہ محمدؐ ان کی پیش کش کو قبول کرلیں گے لیکن پیغمبرؐ نے جواب میں سورہ فصلت کی تلاوت فرمائی جس کی تیرہویں آیت میں یہ تنبیہ موجود ہے کہ:
“فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ”
“اگر کفار منہ پھیر لیں تو میرے رسولؐ کہدو کہ تمہیں ایسی بجلی کے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسی قوم عاد و ثمود پر گری تھی”۔
اس آیت کو سن کر عتبہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوا۔ اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا ، مگر قریش سے کہا: “محمدؐ کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور یہ دیکھو کہ دوسرے قبیلے والے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں”۔ اس پر قریش نے کہا کہ عتبہ پربھی محمدؐ کا جادو چل گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عتبہ “محمدؐ” کو دوسرے قبیلوں کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہتا تھا۔
دوسری طرف جب پیغمبرؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور قریش نے جنگ پر جنگ شروع کی تو دوسرے قبیلے والوں نے یہی مناسب سمجھا کہ پیغمبرؐ کو خود ان کے قبیلہ والوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیاجائے ۔ رسول خداؐ کے صحابی عمرو بن سلمہ کا بیان ہے کہ “عرب اس بات کے انتظار میں تھے کہ قریش اسلام قبول کریں، وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ محمدؐ کو خود ان کے قبیلہ والوں کے ہاتھ میں چھوڑدو، اگر پیغمبرؐ اپنے قبیلے والوں پر غالب آگئے تو یقیناًسچے نبی ہیں اس لئے جب مکہ فتح ہوگیا تو تمام قبائل نے بڑھ بڑھ کر اسلام قبول کرلیا”۔ لہذا عربوں کے مطابق حق و صداقت کی کسوٹی فتح و نصرت تھی۔ اگر خدانخواستہ پیغمبرؐ کو جنگ میں شکست کا سامنا ہوتا تو عرب رسول خداؐ کو جھوٹا سمجھتے !۔
یہ نظریہ کہ پیغمبرؐ کا مقدس مشن حصول اقتدار کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کو ابوسفیان اور اس کے اہل خاندان نے کئی مرتبہ بہ بانگ دہل دہرایا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان مکہ سے اس مقصد کے لئے باہر نکلا کہ مسلمانوں کی عسکری قوت کا اندازہ لگائے تو اس کو پیغمبرؐ کے چچا جناب عباس بن عبدالمطلب نے دیکھ لیا اور اسے لے کر پیغمبرؐ کی خدمت میں آئے اور حضورؐ سے عرض کیا کہ ابوسفیان کو امان دیں اور کوئی خاص اعزاز عطا فرمائیں تاکہ وہ اسلام قبول کرلے۔ قصہ مختصر یہ کہ جناب عباس، ابوسفیان کو اسلامی لشکر کا معائنہ کرانے کے لئے اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے مختلف قبیلوں اور ان کے سربرآوردہ لوگوں کی جانب اشارہ کرکےابوسفیان کو پہچنوایا جو اس وقت لشکر اسلام میں موجود تھے۔ اسی اثناء میں پیغمبر ؐ اپنے اصحاب کے ساتھ ادھر سے گذرے جو سب کے سب سبز لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ابوسفیان چلا اٹھا، عباس ! حقیقت میں تمہارے بھتیجے نے ایک بہت بڑی سلطنت قائم کرلی ہے! عباس نے کہا: وائے ہو تجھ پر یہ سلطنت نہیں؛نبوت ہے ۔
یہاں دونوں متضاد نظریے پہلو بہ پہلو نظر کے سامنے ہیں؛ ابوسفیان نے اپنا نظریہ کبھی نہیں بدلا۔ جب عثمان خلیفہ ہوگئے تو ابوسفیان نے ان کے پاس آکر کہا: “اے آل امیہ ! اب جبکہ حکومت تمہارے پاس آگئی ہے، اس سے اسی طرح کھیلو، جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں اور اس کو اپنے خاندان میں ایک سے دوسرے کی طرف اچھالتے جاؤ ۔ یہ سلطنت ایک حقیقت ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ جنت و دوزخ اور قیامت کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں!!” ۔
پھر وہ احد پہنچا اور رسولؐ کے چچا حمزہؑ کی قبر پر ٹھوکر مارکر کہنے لگا: اے ابویعلیٰ! دیکھو ، اسی حکومت کے لئے تم ہم سے جنگ کررہے تھے آخرکار وہ ہمارے قبضے میں آگئی ہے۔
یہی وہ عقائد و نظریات تھے جو ابوسفیان کے پوتے یزید لعین کو وراثت میں ملے تھے جب ہی تو اس نے کہا تھا:
لعبت هاشم بالملك فلا
خبر جاء ولا وحى نزل
یعنی بنی ہاشم نے سلطنت کے لئے ایک ڈھونگ رچایا تھا ورنہ نہ تو خدا کی طرف سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔
اگر کوئی مسلمان یہی نظریہ رکھتا ہے تو وہ مجبور ہے کہ “امامت” کو “حکومت” سمجھے۔ اس مکتب فکر کے مطابق پیغمبرؐ کا اصل کام “حکومت” کا قیام تھا۔ لہذا جس کے ہاتھ میں بھی عنان حکومت آجائے گی وہ پیغمبرؐ کا حقیقی جانشین ہوجائے گا۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ انبیاء ایسے گذرے ہیں جن کو کسی قسم کا بھی سیاسی اقتدار حاصل نہیں تھا اور ان میں سے اکثر ایسے تھے جن پر ان کے دور کے ارباب اقتدار، مظالم کے پہاڑ توڑ تے رہے اور کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ ان کی شان و شوکت تاج و تخت کی نہیں بلکہ ابتلاء و شہادت کی مرہون تھی۔
اگر نبوت کی بنیادی خصوصیت سیاسی اقتدار اور حکومت ہے تو شاید ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے مشکل سے پچاس بھی اپنے منصب نبوت کو باقی نہیں رکھ سکیں گے۔
اب یہ بالکل واضح ہوگیا کہ پیغمبرؐ کی بنیادی خصوصیت یہ نہیں تھی کہ وہ کسی سیاسی اقتدار کے مالک تھے۔ بلکہ یہ تھی کہ وہ اللہ کے نمائندہ تھے۔ یہ نمائندگی ان کو آدمیوں سے نہیں ملی تھی بلکہ اللہ نے عطا کی تھی۔
اسی طرح ان کے جانشین کی بنیادی خصوصیت سیاسی اقتدار نہیں ہوسکتی بلکہ یہ بات ہوگی کہ وہ اللہ کے نمائندہ ہیں اور یہ نمائندگی کسی کو بندوں کے ہاتھ سے نہیں مل سکتی ۔ اللہ ہی کی جانب سے ملنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ اگر امام اللہ کی نمائندگی کرنے آیا ہے تو اس کو اللہ کی طرف سے مقرر ہوناچاہئے۔
اسلامی قیادت کا سیسٹم
ایک دور تھا جب لوگ بادشاہت کے علاوہ کسی اور نظام حکومت کو جانتے ہی نہ تھے۔ اور اس زمانے کے علماء بادشاہوں اور بادشاہی کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے کہاکرتے تھے۔ “السلطان ظل اللہ” بادشاہ خدا کا سایہ ہے گویا خدا کا بھی کوئی سایہ ہوتا ہے!۔ اس دور جدید میں جبکہ ہر طرف جمہوریت کا بول بالا ہے تو اب سنی علماء بڑے شدّ و مد سےہزاروں مضامین اور کتابوں میں یہ لکھ رہے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت ڈموکریسی اور جمہوریت پر قائم ہے۔ یہ لکھتے ہوئے وہ یونان کی شہری جمہورتیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اس صدی کی نصف آخر سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں سوشلزم اور اشتراکیت کا زور بڑھ رہا ہے۔ مجھے مطلق تعجب نہیں ہوتا جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ کچھ نیک نیت علماء اسلام، ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کررہے ہیں کہ اسلام سوشلزم کی تعلیم دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے پاکستا ن وغیرہ میں اس کو قائم کرنے کے لئے “اسلامی سوشلزم” کا نعرہ ایجاد کیا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اسلامی سوشلزم کا مطلب کیا ہے؟ لیکن مجھے تعجب نہ ہوگا کہ اگر دس بیس سال کے بعد لوگ یہ نعرہ لگانے لگیں کہ اسلام “کمیونزم” کی تعلیم دیتا ہے!۔
ہوا کے رخ پر گھومنے کا یہ طریقہ اسلامی قیادت کے سیسٹم کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے کی بات ہے، ایک افریقی ملک میں مسلمانوں کا ایک اجتماع تھا اور اس ملک کا صدر جمہوریہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھا، ایک مسلم لیڈر نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ: “اطیعوا اللہ” اللہ کی اطاعت کرو۔ “واطیعواالرسولؐ” اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ “اولی الامر منکم”۔ اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو۔ لہذا تمہیں چاہئے کہ اپنے حاکم وقت کی اطاعت کرو!۔ اپنے جواب میں صدر مملکت نے جو ایک کٹر رومن کیتھولک تھے کہا:
“یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو لیکن یہ کون سی منطق ہے کہ حکم دیا جائے کہ “حاکم وقت کی اطاعت کرو؟”؛ اگر حاکم وقت ظالم و جابر ہو تو کیا ہوگا؟ کیا اسلام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ بغیر کسی مقاومت و مزاحمت کے وہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہیں؟! “۔
فہم و فراست سے پھر پور اس دانشورانہ اور چونکا دینے والے سوال کا جواب بھی ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ ایک غیرجانبدار کی حیثیت سے اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اگر قرآن کریم کے غلط مفاہیم نہ بیان کئے جاتے تو اس عیسائی صدر کو اتنی جراءت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اسلام کو ہدف تنقید بناتا۔
اب آیئے غور کریں کہ اسلام میں قیادت کا نظام کیا ہے؟ کیا ڈیموکراسی ہے؟ آئیے تو پہلے دیکھیں کہ جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟ جمہوریت کی بہترین تعریف ابراہام لنکن نے کی ہے: “جمہوریت عوام کی حکومت ہے، جو عوام کے ذریعہ عوام کے لئے ہے”۔
لیکن اسلام میں “عوام کی حکومت” نہیں ہے۔ یہاں صرف “اللہ کی حکومت “ہے عوام اپنے اوپر کس طرح حکومت کرتے ہیں؟ وہ اپنے اوپر حکومت کرتے ہیں اپنے قوانین خود بناکر، لیکن اسلام میں قوانین عوام نہیں، خدا بناتا ہے۔ ان پر قوانین کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی رضامندی سے نہیں۔ بلکہ پیغمبرؐ کے ذریعہ سے ، اللہ کے حکم سے۔ عوام کا قانون سازی میں کوئی دخل نہیں ہوتاہے۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس پر عمل کرتے رہیں۔ ان کو ان قوانین و احکام پر تبصرہ کرنے یا مشورہ دینے کا کوئی حق نہیں ہے!۔ خداوندعالم اسی سلسلےمیں ارشاد فرماتا ہے:
“وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ …” ۔
“کسی مومن یا مونہ کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسولؐ کسی کام کا حکم دے تو ان کو اپنے کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو …”۔
اب ہم دوسرے فقرے پر آتے ہیں یعنی “عوام کے ذریعہ” ہمیں دیکھنے دیجئے کہ عوام اپنے اوپر کس طرح حکومت کرتے ہیں۔ وہ اپنے حکمرانوں کا خود انتخاب کرتے ہیں مگر پیغمبرؐ جو اسلامی حکومت کی انتظامیہ اور عدلیہ بلکہ تمام شعبوں کے اعلیٰ ترین حاکم تھے، آپ کو عوام نے منتخب نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل مکہ کو اجازت ہوتی کہ وہ اپنی پسند کا رہبر منتخب کر لیں تو وہ طائف کے عروہ بن مسعود یا مکہ کے ولید بن مغیرہ کو خدا کا رسول منتخب کرتے! جیساکہ قرآن کریم اس کی وضاحت فرما رہا ہے:
“وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ” ۔
“کہنے لگے کہ یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف)میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا”۔
لہذا اسلامی مملکت کے سربراہ کے انتخاب میں نہ صرف یہ کہ عوام کی کوئی رائے نہیں لی گئی بلکہ حقیقت میں عوامی ترجیحات کے برخلاف حضورؐ کا تعین ہوا۔ پیغمبراسلامؐ اعلیٰ حکومت کے مالک ہیں اور آپ کی ذات میں حکومت کے تمام شعبے مجتمع ہیں اور وہ عوام کے منتخب کردہ نہیں تھے۔
مختصر یہ کہ نہ تو اسلامی حکومت “عوام کی حکومت” ہے اور نہ ہی “عوام کے ذریعہ سے” ہے۔ یہاں عوام قانون نہیں بناتے اور انتظامیہ اور عدلیہ عوام کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ ہی یہ “حکومت عوام کے لئے” ہے۔ اسلامی نظام شروع سے آخر تک اللہ کے لئے ہے۔ ہر کام “صرف خدا کے لئے” ہونا چاہئے۔ اگر خدانخواستہ کوئی کام عوام کے لئے ہوا تو اس کو “شرک خفی” ہے کہتے ہیں۔ جو کام بھی انسان کرے چاہے عبادات ہوں یا معاملات، سماجی خدمات ہوں یا خاندانی امور، والدین کی اطاعت ہو یا حقوق ہمسایہ، امامت نماز جماعت ہو یا کوئی عدالتی کاروائی، جنگ ہو یا صلح ؛ ہر کام “قربۃ الی اللہ” ہونا چاہئے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی نظام حکومت ، اللہ کی حکومت ہے، اللہ کے نمائندے کے ذریعہ، اللہ کی مرضی حاصل کرنے کے لئے:
“وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ” ۔
“ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر یہ کہ میری عبادت کریں”۔
یہ الہی حکومت ہے اور یہی اسلامی قیادت کی خصوصیت اور خاصیت ہے۔
امام کی ضرورت
شیعی نقطۂ نظرمیں امامت عقلاً ضروری ہے۔ یہ ایک لطف خدا ہے۔ لطف خدا اس فعل کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ،بغیرکسی جبر کے بندے خدا کی فرمانبرداری سے قریب اور اس کی نافرمانی سے دور ہوجائیں اور شیعہ علم کلام میں یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ ایسا لطف خدا پر واجب ہے۔ فرض کرو خدا اپنے بندے کو کوئی حکم دیتا ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ بندہ اس کام کو انجام نہیں دے سکتا اور بندہ کے لئے اس کی بجاآوری ناممکن یا بہت ہی دشوار ہے اور یہ دشواری یا عدم امکان اسی وقت ختم ہوگا جب خدا بندے کی مددکرے۔ ایسی صورت میں اگر اللہ بندے کی مدد نہیں کرتا تو گویا خدا خود اپنے مقصد کو باطل کررہا ہے۔ ظاہر ہے ایسی غفلت عقلا ًقبیح ہے۔ اور خدا ہر قبیح سے مبرّا ہے، اسی مدد کو “لطف” کہتے ہیں اور لطف عقلاً اللہ پر واجب ہے۔
امامت ایک لطف خداوندی ہے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جب عوام کے لئے ایک رئیس اور رہبر ہوگا، جس کی وہ اطاعت کرتے ہوں ، جو ظالموں سے مظلوموں کا حق دلوائے تو عوام نیکیوں سے قربت اور برائیوں سے دوری اختیار کریں گے۔
چونکہ امامت ایک لطف ہے لہذا اللہ پر واجب ہے کہ امام کو مقرر کرے تاکہ وہ رسولؐ کے بعد امت کی ہدایت کرتا رہے ۔
شیعی نقطۂ نظر سے امام کے اوصاف
یہاں بعض اہم اوصاف کا ذکر کیا جارہا ہے جو شیعی نقطۂ نظر سے مختلف دلائل کی روشنی میں امام کے لئے ضروری ہیں:
۱- افضلیت
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرؐ کی طرح امام بھی امت سے ہر صفت میں افضل ہوتا ہے، چاہے علم ہو یا شجاعت، تقویٰ ہو یا سخاوت، یا ایسے ہی دوسرے صفات اور اس کو الہی قوانین کا پورا علم ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہو بلکہ یہ منصب اعلیٰ کسی ایسے کے حوالے کردیا جائے جو اپنے دور میں مفضول ہو، جبکہ اس سے افضل موجود ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مفضول کو افضل پر ترجیح دی گئی جو عقلاً قبیح اور عدل خداوندی کے خلاف ہے اس لئے خدا کسی افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول کو عہدۂ امامت نہیں دے سکتا۔
۲- عصمت
امامت کی ایک دوسری صفت “عصمت” ہے اگر امام معصوم نہ ہوگا تو خطا کا امکان باقی رہے گااور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام جھوٹ بول دے ۔
اول تو امام کے معصوم نہ ہونے کی صورت میں جو حکم وہ دے گا اس کی صحت پر کامل بھروسہ نہیں کیا جاسکے گا۔
دوسرے یہ امام حاکم ہے اور امت کا رہنما ہے لہذا امت پر فرض ہے کہ بغیر کسی چوں و چرا کے ہر معاملہ میں اس کی پیروی کرے ۔ اب اگر امام گناہ کا مرتکب ہو تو امت پر بھی اس گناہ کا ارتکاب فرض ہوجائے گا۔اس صورت حال کی نامعقولیت اظہر من الشمس ہے کیونکہ گناہ میں اطاعت قبیح ، ناجائز اور حرام ہے۔ لہذا امام کی ایک ہی بات میں اطاعت بھی واجب ہوگی اور نافرمانی بھی اور ایک ہی وقت میں امام کی اطاعت اور نافرمانی دونوں واجب ہو، یہ صریحاً مہمل بات ہے۔
تیسرے اگر امام کے لئے گناہ کا ارتکاب ممکن ہوگا تو ادوسرے افراد پر یہ فرض عائد ہوگا کہ وہ امام کو گناہ سے روکیں۔ کیونکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ دوسروں کو حرام کاموں سے روکے۔ ایسی صورت میں امام لوگوں کی نظر میں ذلیل ہوجائے گااور اس کی عزت ختم ہوجائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کی قیادت و رہبری کے بجائے خود وہ امت کا پیروکار ہوجائے گا۔ لہذا اس کی امامت ہی بیکار ہوجائے گی۔
چوتھے یہ کہ امام الہی قوانین کا محافظ ہوتا ہے اور تحفظ قانون الہی ایک ایسی ذمہ داری ہے جو غیر معصوم ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی اور نہ غیر معصوم الہی قوانین کا کماحقہ تحفظ کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ خود نبوت کے لئے “عصمت” ایک لازمی شرط تسلیم کی گئی ہے اور وہی اسباب جن کی بناء پر نبوت کے لئے “عصمت” لازمی سمجھی جاتی ہے انہیں اسباب کی بناء پر امامت اور خلافت کے لئے بھی “عصمت” ضروری ہے۔
اس سلسلے میں تیرہویں باب میں “اولوالامر” کی بحث میں “عصمت” کی ضرورت کو مزید واضح کیاجائےگا۔
۳۔ الہی تعین
جس طرح صرف ان صفات کے پائے جانے کی وجہ سے کوئی شخص خودبخود نبی نہیں ہوسکتا ہے اسی طرح خود بخود امام بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ امامت کوئی اکتسابی عہدہ نہیں ہے کہ انسان محنت کرکے یہ عہدہ کسب کرلے بلکہ یہ خدائی عطیہ ہے ۔جو اس کے خاص بندوں کو ملتاہے، یہی وجہ ہے کہ شیعہ اثنا عشری فرقہ کا عقیدہ ہے کہ رسولؐ کا جانشین صرف خدا مقرر کرسکتا ہے، اس مسئلہ میں امت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ امت کا فریضہ صرف یہ ہے کہ خدا کے مقرر کردہ امام یا خلیفہ کی پیروی کرتی رہے۔ اس کے مقابلے میں اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیفہ کا تقرّر کرے۔
دلائل اوصاف امام
مندرجہ ذیل آیتیں شیعوں کے عقیدے کی تصدیق و تائیدکرتی ہیں:
۱۔”وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ” ۔
“اور تمہارا پروردگارجوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور یہ انتخاب لوگوں کے اختیار میں نہیں اور جس چیز کو یہ لوگ خدا کا شریک بناتے ہی اس سے خدا پاک اور کہیں برتر ہے”۔
اس آیت سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کو کسی قسم کے انتخاب کا کوئی حق نہیں بلکہ یہ کام مکمل طور پر خدا کے اختیار میں ہے۔
۲۔ حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل خداوندعالم نے ملائکہ سے فرمایا:
” وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ” ۔
“اور یاد کیجئے جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ بہ تحقیق میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”۔
جب ملائکہ نے خدائی اسکیم کے خلاف مودبانہ لہجے میں اعتراض کیا تو ان کے اعتراض کو ایک مختصر سے جواب سے اڑا دیا گیاکہ : “… إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ” ۔ “جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ہو”۔
اگر خلیفہ کی تقریری میں معصوم ملائکہ کی دخل اندازی نہیں پسند کی گئی تو غیر معصوم افراد کون ہوتے ہیں کہ ان کو پورا اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہیں خلیفہ بنالیں؟
۳۔ اللہ نے حضرت داؤد نبیؑ کو روئے زمین پر خود خلیفہ بنایا ہے ؛ فرمایا:
“يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ” ۔ “اے داؤد بہ تحقیق ہم نے تمہیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا”۔
ملاحظہ فرمائیں کہ خلیفہ یا امام کے تقرر کو کس طرح خدانے ہر جگہ صرف اپنی ذات اقدس کی طرف منسوب فرمایا ہے۔
۴۔ حضرت ابراہیم ؑ کو آواز دی جارہی ہے:
“… قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ” ۔
“… خدانے فرمایا میں تم کو لوگوں کا “امام” بنانے والا ہوں(حضرت ابراہیمؑ نے) عرض کی : اور میری اولاد میں سے۔ فرمایا: (ہاں) لیکن میرا عہد ظالمین تک نہیں پہنچے گا”۔
امامت کے متعلق سے سوالات کے جوابات اس آیت سے معلوم ہوجاتے ہیں:
الف: اللہ نے فرمایا: “بہ تحقیق میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں”۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امامت ایک خدائی عہدہ ہے جو امت کے دائرہ اختیار سے بالکل باہر ہے۔
ب: “میرایہ عہد ظالمین کو نہیں پہنچے گا”۔ اس سےیہ واضح ہوگیا کہ غیر معصوم “امام” نہیں ہوسکتا ۔ منطقی طور پر ہم بنی نوع انسان کو چار گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔ جو ساری زندگی ظالم رہا ہو۔
۲۔ جنہوں نے زندگی بھر ظلم ہی نہیں کیا۔
۳۔ جو پہلے ظالم تھے اور بعد میں توبہ کرلی اور عادل ہوگئے۔
۴۔ جو ابتدائی زندگی میں ظالم نہیں تھے، بعد میں ظالم بن گئے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی شان اس سے کہیں بلند ہے کہ آپ پہلے اور چوتھے گروہ کی امامت کے لئے خداسے سوال کرتے، اب دو گروہ باقی رہ جاتے ہیں یعنی دوسرا اور تیسرا جو اس دعا میں شامل ہوسکتا ہے، اللہ نے ان میں سے بھی ایک کو مسترد کردیا ہے یعنی وہ گروہ جو ابتدائی زندگی میں ظالم رہا ہو مگر آخر میں ظلم سے توبہ کرکے عادل ہوگیا ہو، اب صرف ایک ہی گروہ باقی رہ جاتا ہے جو امامت کا مستحق ہے جس نے زندگی بھر کبھی کوئی ظلم نہ کیا ہو یعنی جو معصوم ہو۔
ج: آخری جملہ جس میں فرمایا کہ”میرا عہد ظالمین تک نہیں پہنچے گا”۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایاکہ: “ظالمین میرے اس عہدہ تک نہیں پہنچ سکتے” کیونکہ اس جملے سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ یہ انسان (البتہ جوعادل ہو) کے اختیار میں ہے کہ عہدہ امامت تک پہنچ جائے۔ مگر جو جملہ اللہ نے استعمال فرمایا ہے اس سے اس طرح کی کسی غلط فہمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی بلکہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حصول امامت فرزند آدم کے اختیار میں بالکل نہیں بلکہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے یہ عہدہ عطا کرتا ہے۔
پھر ایک عام قاعدہ کے طور پر فرمایا:
” وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا …” ۔
“ان سب کو (لوگوں کا) امام بنایا کہ ہمارے حکم سے ان کی ہدایت کرتے تھے…” ۔
۵۔ جب حضرت موسیؑ کو ایک وزیر کی ضرورت ہوئی کہ وہ ان کی نبوت کے کاموں میں ان ہاتھ بٹائے تو انہوں نے خود اپنے اختیار سے کسی کو اپنا وزیر نہیں مقرر کیا بلکہ انہوں نے خدا سے دعا کی :
” وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي ” ۔
“اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے”۔
خدا نے جواب دیا:
” قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ” ۔
فرمایا”اے موسیٰؑ تمہاری سب درخواستیں منظور کرلی گئیں”۔
اس خدائی انتخاب کا امت کے درمیان اعلان یا نبیؐ کے ذریعہ ہوتا ہے یا سابق امام ؑ اعلان کرتا ہے اور اس اعلان کو “نص” کہتے ہیں جس کے لفظی معنی ہیں: “توضیح اور تعین” اور اصطلاحی معنی ہیں: “نبی یا سابق امام کے ذریعہ مابعد کے امام کا اعلان “۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق امام کو منصوص من اللہ یعنی اللہ کی طرف سے معین کردہ ہونا چاہئے۔
امامت اورمعجزہ
اگر کسی امامت کے دعویدار کے بارے میں کوئی “نص” نہ معلوم ہو تو صرف ایک ہی طریقہ اس کی سچائی کے معلوم کرنے کا ہے اور وہ ہے “معجزہ”۔ ویسے تو کوئی انسان یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ امام یا خلیفہ رسول اور معصوم ہے۔ ایسی صورت میں حقیقت حال معلوم کرنے کا واحد اور یقینی طریقہ صرف معجزہ ہے۔ اگر امامت کا دعویدار اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی معجزہ دکھلانے میں ناکام رہا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ امامت و خلافت کے شرائط کو پورا نہیں کرسکتا اور وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔
عملدرآمد:
ہمیشہ سے انبیاء کرام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ حکم خدا کے مطابق بغیرامت کی کسی قسم کی مداخلت کے اپنے خلیفہ اور جانشین کا اعلان کیا کرتے تھے۔ انبیاء سلف کی تاریخ ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے کہ کسی نبی کا جانشین امت کے “ووٹ” کے ذریعہ منتخب ہوا ہو لہذا کوئی وجہ نہیں کہ خاتم النبیینؐ کے جانشین کے سلسلے میں خدا کا ہمیشہ سے جاری رہنے والا یہ قانون بدل جائے۔ خدا فرماتا ہے :
“…لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا” ۔
“…تم خدائی قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے!”۔
اوصاف امام پرعقلی دلائل
وہ تمام عقلی دلائل جن سے یہ ثابت کیاجاتا ہے کہ نبیؐ کا تقرّر خداوندعالم کا مخصوص اختیار ہے انہیں دلائل سے اتنی ہی طاقت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے جانشین کے تقرّر بھی خدا ہی کی جانب سے ہونا چاہئے۔
(1) نبی ہی کی طرح امام اور خلیفہ کا تقرّر بھی اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ خدائی کاموں کو انجام دے، اسے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا چاہئے اگر عوام اس کا تقرر کریں گے تو اس کی وفاداری اللہ کے لئے نہیں بلکہ عوام کے لئے ہوگی کہ جو اس کے اقتدار کی بنیادہوں گے، وہ ہمیشہ لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرے گا اس لئے کہ اگر اس پر سے امت کا اعتماد اٹھ گیا تو امت اسے معزول کرسکتی ہے۔ لہذا وہ اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو بلا کھٹکے غیرجانب داری کے ساتھ پورا نہیں کرسکتا بلکہ اس کی نگاہیں ہمیشہ حالات کے رخ اور سیاسی اتار چڑھاؤ پر لگی رہیں گی، اس طرح خدا کا کام بگڑ جائے گا۔
تاریخ اسلام کے صفحات میں ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی کہ صدر اسلام سے آخر تک، لوگوں کے بنائے ہوئے خلفاء نے کس طرح مذہب کے اصول دارکان کی بے محابا دھجیاں اڑائی ہیں۔ مقصد یہ کہ یہ دلیل صرف عقلی قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ یہ ٹھوس تاریخی حقائق کی بنیاد پر قائم ہے۔
(2) انسان کے دل کی بات اور اندرونی خیالات و نظریات کو صرف خدا ہی جان سکتا ہے؛ ایک انسان کی طینت و فطرت کیسی ہے اوپر سے دیکھ کر کوئی بھی نہیں بتلا سکتا۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص تصنّع سے اپنے کو متقی اور پرہیزگار اور احکام خدا کی پابندی کرنے والا ظاہر کرے تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں۔ لیکن ریاکارانہ دینداری سے اس کا اصل مقصد تحصیل دنیا ہو۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں:عبدالملک بن مروان کو لیجئے جو سارا وقت مسجد میں عبادت اور قرآن کی تلاوت میں صرف کیا کرتا تھا وہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا، جب اسے خبر ملی کہ اس کا باپ دنیا سے رخصت ہوگیا اور لوگ اس کی بیعت کرنے کے لئے جمع ہیں، اس نے قرآن بند کیا اور کہا:
“هذا فراق بینی و بینک” ۔ میرے اور تیرے درمیان اب چھٹم چھٹا ۔
چونکہ امام اور خلیفہ کے لئے جو صفات، خصوصیات اور شرائط لازمی ہیں ان کو حقیقت میں صرف اللہ ہی جان سکتا ہے لہذا صرف خدا ہی کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ امام اور خلیفہ کا تقرّر کرے۔
عصمت اہل بیت ِپیغمبرؐ
آئیے اب دیکھیں کہ اہل بیت ِپیغمبرؐ کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔ قرآن کے مطابق وفات رسولؐ کے وقت یہ چار ذوات مقدسہ ہر قسم کے گناہ سے پاک اور معصوم تھے؛ علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ۔ جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے:
” … إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا” ۔
“اے (پیغمبرؐ کے)اہلبیتؑ خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے”۔
ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مندرجہ بالا چار حضرات یقیناً اہل بیتِ پیغمبرؐ ہیں جو ہر قسم کے رجس سے پاک و منزّہ اور معصوم ہیں۔ اس آیت کے پہلے اور بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبرؐ کو خطاب کیا گیاہے اور مونث ضمیریں استعمال کی گئی ہیں لیکن اس آیت میں مذکر ضمیریں استعمال ہوئی ہیں، یہ اندازہ کرنا کہ یہ آیت اس جگہ کیوں رکھی گئی ہے کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ مشہور عالم علامہ یوپا مرحوم نے ایس وی میراحمد علی مرحوم کے ترجمہ قرآن کریم کے حاشیہ نمبر 1857 میں تحریر فرمایا ہے :
“آیت کریمہ کا یہ حصہ جس میں اہل بیت طاہرین ؑ کی خدائی عصمت کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی سیاق و سباق کی آیات کے ساتھ توضیح و تشریح کرنا ضروری ہے آیت کا یہ حصہ بالکل علیحدہ ہے جو ایک خاص موقع پر علیحدہ نازل ہوئی لیکن اسے ازواج رسول ؐ کا تذکرہ کرنےوالی آیات کے ضمن میں رکھا گیا ہے۔ اگر آیت کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس ترتیب کے پیچھے ایک اہم مقصد کارفرماہے۔ اس آیت کے ابتدائی حصہ میں تانیث کی ضمیریں استعمال ہوئی ہیں لیکن اس ٹکڑے میں تانیث سے ہٹ کر مذکر ضمیریں استعمال ہوئی ہیں جہاں پر ازواج پیغمبرؐ کا ذکر ہے ضمیریں مسلسل ہیں۔ جب مردوں اور عورتوں کے مخلوط مجمع کو خطاب کرنا ہوتا ہے تو عام طور سے مذکر استعمال کی جاتی ہے۔ عربی زبان و قواعد کے ماتحت ضمائر کی یہ تبدیلی اس بات کو بالکل واضح کردیتی ہے کہ یہ جملہ جو پہلے گروہ سے علیٰحدہ ہے اور اس جملے کو یہاں اس لئے رکھا گیا ہے کہ ازواج رسولؐ اور اہل بیت رسولؐ کے باہمی مدارج کا فرق واضح کردیا جائے؛ ربیب رسولؐ حضرت عمرو بن ابی سلمہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پیغمبرؐ، جناب ام المومنین ام سلمہ کے گھر پر تھے کہ خدا نے یہ آیت نازل فرمائی: “اے (پیغمبرؐ کے) اہل بیتؑ خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے”اس وقت پیغمبرؐ نے اپنی بیٹی فاطمہؐ اور ان کے دونوں فرزند حسنؑ اور حسینؑ اور شوہر یعنی اپنے ابن عم کو اپنے پاس جمع کیا اور پھر سب کو اپنے ساتھ اپنی چادر اڑھاکر خدا سے دعا کی، خدایا! یہ میرے اہل بیتؑ ہیں ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور اس طرح طاہر و مطہر قرار دے جس طرح طاہر و مطہر رکھنے کا حق ہے۔ رسولؐ کی صاحب خیر زوجہ حضرت ا م سلمہ نے اس عظیم الشان موقع پر رسولؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا میں بھی اس بزم میں شامل ہوجاؤں ؟ حضورؐ نے جواب دیا: “نہیں۔ تم اپنی جگہ پر رہو، بیشک تم خیر پر ہو”۔
یہاں پر موقع نہیں ہے کہ اس آیہ کریمہ سے متعلق بے شمار حوالے دئے جائیں لہذا مشہور سنی عالم مولانا وحیدالزمان کے حوالے پر اکتفاء کی جارہی ہےجنہوں نے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر تحریر کی ہے اور قرآن و حدیث کی ایک لغت بھی لکھی ہے جس کا نام “انوار للغۃ” ہے۔ وہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: “بعضوں نے اس کو خاص رکھا ہے نسبی گھر والوں سے یعنی حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؐ اور حسنؑ و حسینؑ سے۔ مترجم کہتا ہے صحیح مرفوع حدیثیں اسی کی تائید کرتی ہیں تو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور ایک قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس میں اول و آخر جمع مونث حاضر کی ضمیر سے خطاب ہے اور اس میں جمع مذکر کی ضمیر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان آیتوں کے بیچ میں رکھدی گئی ہے جن میں ازواج مطہرات سے خطاب تھا اور شاید صحابہ نے اجتہاد سے ایسا کیا۔ واللہ اعلم” ۔
اس کے علاوہ “انوار اللغۃ” میں مولوی صاحب موصوف بذیل حدیث کساء لکھتے ہیں :
“صحیح یہ ہے کہ آیت تطہیر میں یہی پانچ حضرات مراد ہیں، گو عرب کے محاورے میں اہل بیت ازواج کو بھی شامل ہے اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ یہ حضرات خطا اور گناہ سے معصوم تھے۔ خیر اگر معصوم نہ تھے تو محفوظ ضرورتھے” ۔
اگرچہ میں خود ان کے بعض خیالات سے پوری طرح متفق نہیں ہوں۔ جب بھی میں نے یہ حوالے صرف اس لئے دیئے ہیں کہ یہ ظاہر ہوجائے کہ نہ صرف شیعہ اثنا عشری بلکہ علماء اہل سنت بھی اس بات کی تائید کرتےہیں کہ عربی قواعد کے مطابق اور صحیح و متصل احادیث رسولؐ کے لحاظ سے یہ آیت رسولؐ کے ساتھ علیؑ، فاطمہؐ، حسنؑ اور حسینؑ کی شان میں نازل ہوئی اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہمارا دعویٰ کہ یہ حضرات معصوم تھے، علمائے اہل سنت کو بھی قبول ہے۔اور یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ حضرات ان خمسۂ نجباء کو معصوم نہ سہی تو گناہوں سے محفوظ ضرور سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سی دوسری آیات و احادیث ہیں جو اہل بیت ؑ کی عصمت کی گواہی دیتی ہیں لیکن اختصار مدنظر ہے لہذا اتنے ہی پر اکتفاء کی جارہی ہے۔
افضیلتِ امام علی علیہ السلام
افضلیت یعنی خدا کے نزدیک اپنے عمل خیر کی وجہ سے زیادہ ثواب کا مستحق ہونا۔ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم اس افضلیت کا تعیّن اپنے خیالات کی بنیاد پر نہیں کرسکتے اور اس کو جاننے کا کوئی ذریعہ سوائے قرآن یا حدیث کے نہیں۔
مشہور عالم اہل سنت امام غزالی لکھتے ہیں:
“افضلیت کی حقیقت کو صرف اللہ جانتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا سوائے رسول خداؐ کے”۔
اکثر برادران اہل سنت افضلیت علیٰ ترتیب الخلافۃ کے قائل ہیں یعنی سب سے افضل ابوبکر، پھر عمر پھر عثمان اور پھر علیؑ۔ لیکن یہ عقیدہ کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے اور نہ صدر اسلام کے اہل سنت اس عقیدے کے قائل تھے۔
دور پیغمبرؐ کے جلیل القدر صحابہ جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد کندی، عمار بن یاسر، خباب بن ارث، جابر بن عبداللہ انصاری۔ حذیفہ یمانی، ابوسعیدالخدری، زیدبن ارقم وغیرھم یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت علیؑ تمام اہل بیتؑ اور صحابہ میں سب سے افضل ہیں ۔
امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے نے ایک مرتبہ ان سے مسئلہ افضلیت کو دریافت کیا تو انہوں نے کہا: “ابوبکر پھر عمر اور پھر عثمان”۔ ان کے بیٹے نے پوچھا: “اور علیؑ ابن ابی طالبؑ؟” انہوں نے جواب دیا: “وہ اہل بیتِ رسولؐ میں سے ہیں، دوسروں کا ان سے کیا مقابلہ؟” ۔
علامہ عبیداللہ امرتسری اپنی مشہور کتا ب ارجح المطالب میں لکھتے ہیں کہ:
“چونکہ افضلیت سے اکثریت ثواب مراد ہے، اکثریت ثواب کا ثبوت صرف مخبر صادق ؐ کی احادیث سے مل سکتا ہے اور احادیث میں تعارض واقع ہے ۔پس جبکہ تعارض واقع ہو تو جانب اولیٰ کو ترجیح دینا چاہئے اور احادیث قوی اور ضعیف کا خیال رکھنا چاہئے”۔
جناب امیرؑکے فضائل میں جواحادیث وارد ہوئی ہیں ان کی نسبت علامہ عبدالبر الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں بذیل ترجمہ جناب امیرؑلکھتے ہیں:
” قال احمد بن حنبل و اسمعیل بن اسحاق القاضی و احمد بن علی بن شعیب النسائی و ابوعلی النیسابوری : لم یرد فی فضائل احد من الصحابة بالاسانید الجیاد ما روی فی فضائل علی ابن ابی طالب ؓ” ۔
“یعنی احمد بن حنبل اور قاضی اسمٰعیل بن اسحاق اور امام احمد بن علی بن شعیب النسائی اور ابوعلی نیشاپوری کہتے ہیں کہ جس قدر جید سندوں کے ساتھ حدیثیں جناب علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حق میں روایت ہوئی ہیں ویسے کسی صحابی کے حق میں نہیں ہوئیں”۔
اس کے ماسوا اگر جناب امیر کی خصوصیات کو دیکھا جائے اور آپ کے امور کثرتِ ثواب کے اسباب پر غور کیا جائے تو جناب امیرؑ ہی افضل الناس بعدخیرالبشرؐ نظر آتے ہیں ۔
مصنف موصوف خود سنی تھے اور انہوں نے اس موضوع پر اپنی اسی کتاب میں تیسرے باب میں صفحہ ۱۰۳ کے شروع سے صفحہ ۵۱۶ کے آخر تک مفصل بحث کی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس مختصرسی کتاب میں ان آیات اور احادیث کی فہرست بھی نہیں پیش کی جاسکتی جو افضلیت امیرالمومنین ؑ کو ثابت کرتی ہیں مختصر یہ کہ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کے فضل میں کم از کم چھیاسی قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں اور احادیث کو شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایک سَرسَری نظر سے دیکھنے والا بھی اس بات کو تسلیم کرلے گا کہ حضرت علیؑ بعد رسولؐ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں۔
امیرالمومنینؑ کا تعیّن
حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی عصمت اور افضلیت کو بیان کرنے کے بعد سب سے اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی جارہی ہے اور وہ ہے آپ کا تعیّن اور تقرّر من جانب اللہ۔
بہت سے مواقع پر آنحضرت ؐ نے اعلان فرمایا کہ حضرت علیؑ حضورؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں۔
حقیقت میں روز اول جب پیغمبرؐ نے اپنی رسالت و نبوت کا اعلان فرمایا اسی موقع پر آپؐ نے حضرت علیؑ کی خلافت کا بھی اعلان فرمادیا تھا اور آپ نے یہ دونوں اعلان “دعوت ذوالعشیرہ” کے موقع پر فرمائے۔
جب پیغمبر ؐ پر آیت “وَأَنذِر عَشِيرَتَكَ الأَقرَبِينَ ” ۔”اے رسولؐ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ” نازل ہوئی تو حضورؐ نے حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ کھانے کا انتظام کریں۔ اور آل عبدالمطلب کو دعوت دیں۔ تاکہ پیغمبرؐ خدائی پیغام ان تک پہنچائیں۔ کھانے کے بعد پیغمبرؐ حاضرین سے کچھ کہنا چاہتےتھے کہ ابولہب نے یہ کہہ کر آپ کی بات کاٹنے کی کوشش کی کہ “حقیقت میں تمہارے ساتھی نے تمہارے اوپر جادو کردیا ہے”۔ یہ جملہ سنتے ہی سب متفرق ہوگئے۔
رسول خداؐ نے دوسرے دن پھر آل عبدالمطلب کودعوت دی ، جیسے ہی ان لوگوں نے کھانا ختم کیا تو پیغمبرؐ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “اے آل عبدالمطلب میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی سعادت لے کر آیا ہوں، مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں ۔ لہذا تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مددکرے تاکہ میرے بعد وہ میرا بھائی، میرا وضی اور میرا خلیفہ ہوگا”۔ کسی نے نبیؐ کی دعوت پر لبیک نہیں کہی سوائے حضرت علیؑ کے جو اس مجمع میں سب سے کم سن تھے۔ پیغمبرؐ نے علیؑ کی پشت پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: “لوگو! یہ علیؑ تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے، اس کی بات سنو! اور اس کی اطاعت کرو” ۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ طبری مطبوعہ لنڈن 1879ء کے صفحہ 1173 پر پیغمبرؐ کے الفاظ اس طرح ہیں: “وصییی و خلیفتی” ۔”میرا وصی اور میرا خلیفہ” لیکن یہی تاریخ طبری مطبوعہ قاہرہ 1963ء میں پیغمبرؐ کے الفاظ کو بدل کر”کذاٰ و کذاٰ”یعنی “اس طرح اور اس طرح” کردیا گیا ہے۔ لطف یہ ہے کہ قاہرہ ایڈیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ لنڈن ایڈیشن کے مطابق ہے۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ علمی دنیا میں دیانتداری اور استقامت کو سیاسی مقاصد پر بھینٹ چڑھا دیا جائے۔
ولایتِ علیؑ قرآن میں
اس کے بعدبہت سے مواقع پر بہت سی آیات اور احادیث مسلمانوں کو علیؑ کی ولایت کی جانب متوجہ کرتی ہیں کہ علیؑبعد پیغمبرؐ ان کے ولی و حاکم ہیں ان اہم آیات میں سے ایک آیت ولایت ہے:
“إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوٰةَ وَيُؤتُونَ الزَّكَوٰةَ وَهُم رَٰكِعُونَ” ۔
“بس تمہارا ولی صرف اللہ ہے اور اس کا رسولؐ ہے اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکٰوۃ دیتے ہیں”۔
شیعہ و سنّی علماء متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ اس آیت سے پوری طرح وضاحت ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کے ولی صرف تین ہیں: سب سے پہلے اللہ ہے۔ پھر اس کا رسول اور تیسرے حضرت علیؑ (اور آپ کی اولاد میں گیارہ امام)۔
ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ “ایک دن وہ پیغمبرؐ کے ساتھ نماز میں مشغول تھے کہ ایک سائل مسجدالنبی ؐ میں داخل ہوا اور اس نے سوال کیا اور کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ اب سائل نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا: خدایا! گواہ رہنا کہ میں تیرے نبیؐ کی مسجد میں سوالی بن کر آیا اور کسی نے مجھے نہیں دیا”۔اس وقت حضرت علیؑ رکوع میں تھے آپ نے اپنی انگشت مبارک سے(جس میں انگوٹھی تھی) اشارہ کیا، سائل نے بڑھ کر انگوٹھی اتارلی اور چلا گیا۔
یہ واقعہ رسولؐ کی موجودگی میں پیش آیا اور آنحضرتؐ نے اپنا روئے مبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور دعا کی :
“خدایا! میرے بھائی موسیٰؑ نے یہ دعا کی کہ: ان کے لئے شرح صدر کردے، ان کے کام کو آسان کردے، ان کی زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ ان کی بات سمجھنے لگیں اور ان کے اہل سے ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنادے اور ہارون کے ذریعہ ان کی پشت کو مضبوط کردے اور ہارون کو ان کے کام میں ان کا شریک قراردے۔ خدایا! تو نے موسیٰؑ سے فرمایا: “ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعہ مضبوط کردیں گے اور کوئی تم دونوں میں سے کسی ایک تک بری نیت سے نہیں پہنچ سکتا”۔ خدایا! میں محمدؐ ہوں اور تو نے مجھے فضیلت عطا کی ہے، میرے سینے کو میرے لئے کشادہ کردے، میرے امور کو میرے لئے آسان کردے اور میرے اہل سے میرے بھائی علیؑ کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کر”۔ابھی پیغمبرؐ کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ جبرئیلؑ مذکورہ بالا آیت لے کر نازل ہوئے ۔
اس جگہ اس حدیث کے سینکڑوں حوالوں کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ یہ آیت اور پیغمبرؐ کی دعا دونوں مل کر اور علیٰحدہ علیٰحدہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا نے حضرت علیؑ کو پیغمبرؐ کے بعد مسلمانوں کا ولی و حاکم مقرر کیا تھا۔
غدیر خم کا اعلانِ عام
حضرت علیؑ کی خلافت و امامت کے بارے میں غدیر سے پہلے جتنے اعلانات ہوئے وہ سب غدیر کا مقدمہ تھے۔
اس واقعہ کو تمام شیعہ و سنی علماء و محققین اور مورخین نے متفقہ طور پر اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ ہم یہاں ایک مختصر سا خاکہ پیش کررہے ہیں کہ حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان کرنے کے لئے کیسے زبردست انتظامات کئے گئے تھے۔
غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان جحفہ میں واقع ہے جس وقت پیغمبرؐ اپنا آخری حج بجالانے کے بعد مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستہ میں خداوندعالم کا یہ فوری حکم لے کر جبرئیلؑ نازل ہوئے:
“يَٰٓأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَآ أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهدِي القَومَ الكَٰفِرِينَ” ۔
“اے رسولؐ! جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو(سمجھ لو کہ) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور خدا تم کو لوگوں (کے شرّ) سے محفوظ رکھے گا”۔
یہ سنتے ہی رسول ؐفوراًٹھہر گئے اور آپ نے حکم دیا کہ جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں انہیں واپس بلایا جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے۔ پورا قافلہ ایک جگہ جمع ہوگیا۔ پالان شتر کا منبر بنایا گیا، میدان سے ببول کے کانٹے صاف کئے گئے۔ پیغمبرؐ منبر پر تشریف لے گئے اور ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس دن اتنی شدید گرمی تھی کہ میدان بہ شدّت تپ رہا تھا۔ لوگوں کی حالت یہ تھی کہ اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے سر پر ڈالے تھے اور دوسرا پیروں کے نیچے بچھائے ہوئے تھے۔ پیغمبرؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایااس کا کچھ اقتباس یہاں درج کیا جاتا ہے:
“مَعاشِرَالنّاسِ… إِنَّ جَبْرئیلَ هَبَطَ إِلَی مِراراً ثَلاثاً یَأْمُرُنی عَنِ السَّلامِ رَبّی – وَ هُوالسَّلامُ – أَنْ أَقُومَ فی هذَا الْمَشْهَدِ فَأُعْلِمَ کُلَّ أَبْیَضَ وَأَسْوَدَ: أَنَّ عَلِی بْنَ أَبی طالِبٍ أَخی وَ وَصِیّی وَ خَلیفَتی (عَلی أُمَّتی) وَالْإِمامُ مِنْ بَعْدی، الَّذی مَحَلُّهُ مِنّی مَحَلُّ هارُونَ مِنْ مُوسی إِلاَّ أَنَّهُ لانَبِی بَعْدی وَهُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَالله وَ رَسُولِهِ…” ۔
“لوگو!…جبرئیلؑ میرے پاس تین مرتبہ آئے اور میرے پروردگار کی طرف سے، جوخود سلام ہے، یہ حکم مع سلام لائے کہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں اور ہر گورے اور کالے کو یہ اطلاع دوں کہ علیؑ ابن ابی طالبؑ میرے بھائی اور میرے وصی اور میرے خلیفہ اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزلت مجھ سے وہی ہے جو ہارونؑ کی موسیٰ ؑ سے تھی، فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اور وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد تم سب کا ولی ہے…”۔
فَاعْلَمُوا مَعاشِرَ النّاسِ أَنَّ الله قَدْ نَصَبَهُ لَکُمْ وَلِیّاً وَإِماماً فَرَضَ طاعَتَهُ عَلَی الْمُهاجِرینَ وَالْأَنْصارِ وَ عَلَی التّابِعینَ لَهُمْ بِإِحْسانٍ، وَ عَلَی الْبادی وَالْحاضِرِ، وَ عَلَی الْعَجَمِی وَالْعَرَبی، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلوکِ وَالصَّغیرِ وَالْکَبیرِ، وَ عَلَی الْأَبْیَضِ وَالأَسْوَدِ، وَ عَلی کُلِّ مُوَحِّدٍ. ماضٍ حُکْمُهُ، جازٍ قَوْلُهُ، نافِذٌ أَمْرُهُ، مَلْعونٌ مَنْ خالَفَهُ، مَرْحومٌ مَنْ تَبِعَهُ وَ صَدَّقَهُ، فَقَدْ غَفَرَالله لَهُ وَلِمَنْ سَمِعَ مِنْهُ وَ أَطاعَ لَهُ.
مَعاشِرَالنّاسِ، إِنَّهُ آخِرُ مَقامٍ أَقُومُهُ فی هذا الْمَشْهَدِ، فَاسْمَعوا وَ أَطیعوا وَانْقادوا لاَِمْرِرَبِّکُمْ، وَ وَلِیُّکُمْ َ وَ إِلاهُکُمْ، ثُمَّ مِنْ دونِهِ رَسولُهُ محمدوَلِیُّکُمْ القائم المخاطِبُ لَکُمْ، ثُمَّ مِنْ بَعْدی عَلی وَلِیُّکُمْ وَ إِمامُکُمْ بِأَمْرِالله رَبِّکُمْ، ثُمَّ الْإِمامَةُ فی ذُرِّیَّتی مِنْ وُلْدِهِ إِلی یَوْمٍ تَلْقَوْنَ الله وَرَسولَهُ”.
“…اےلوگو! تم سمجھ لو کہ اللہ نے علیؑ کو یقیناًتمہارے واسطے ایسا ولی اور ایسا امام مقرر کردیا ہے جس کی اطاعت مہاجرین پر بھی لازم ہے اور انصار پر بھی اور جو نیکی میں ان کے تابع ہیں ان پر بھی، صحرانشینوں پر بھی، اور شہر کے رہنے والوں پر بھی اور بوڑھے پر بھی، گورے پر بھی اور کالے پر بھی ، ہر خدا کے واحد و یکتا ماننے والے پر اس کا حکم جاری ہوگا۔ اس کا قول ماننا پڑے گا، اس کا فرمان نافذ ہوگا ۔ جو اس کی مخالفت کرے گا ملعون ہوجائے گا اورجو اس کی متابعت اور اس کی تصدیق کرے گا اس پر رحم کیا جائے گااور جو اس کی متابعت اور اس کی تصدیق کرے گا اس پر رحم کیاجائے گا کہ اللہ نے خود اس کو مغفور فرمایا ہے اور جو شخص اس کی بات سنے گا اور اس کی اطاعت کرے گا اس کو بھی۔
اے لوگو ! یہ آخری موقع ہے کہ میں ایسے مجمع میں کھڑا ہوا ہوں، پس تم سنو اور مانو اور اپنے پروردگار کے حکم کی اطاعت کروکہ خدائے عزّو جلّ تمہارا پروردگار اور تمہارا ولی اور تمہارا معبود ہے پھر اس کے بعد اس کا رسول محمدؐ تمہارا ولی ہے جو اس وقت کھڑا ہوا تم سے بات کررہا ہے پھر میرے بعد تمہارے پروردگار کے حکم سے علیؑ تمہارا ولی اور تمہارا امام ہے پھر قیامت کے دن تک یعنی اس دن تک کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ کے حضور میں پہنچوگے امامت میری اولاد میں چلی جائے گی جو علیؑ کی صلب سے ہوگی…”۔
“مَعاشِرَالنّاسِ ! تَدَبَّرُوا الْقُرْآنَ وَ افْهَمُوا آیاتِهِ وَانْظُرُوا إِلی مُحْکَماتِهِ وَلاتَتَّبِعوا مُتَشابِهَهُ، فَوَالله لَنْ یُبَیِّنَ لَکُمْ زواجِرَهُ وَلَنْ یُوضِحَ لَکُمْ تَفْسیرَهُ إِلاَّ الَّذی أَنَا آخِذٌ بِیَدِهِ وَمُصْعِدُهُ إِلی وَسائلٌ بِعَضُدِهِ وَ مُعْلِمُکُمْ: أَنَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِی مَوْلاهُ، وَ هُوَ عَلِی بْنُ أَبی طالِبٍ أَخی وَ وَصِیّی، وَ مُوالاتُهُ مِنَ الله عَزَّوَجَلَّ أَنْزَلَها عَلَی…” ۔
” لوگو!… قرآن مجید میں غور کرو اور اس کی آیتوں کو سمجھو اور اس کے محکمات میں نظر ڈالو اور اس کے متشابہات کی پیروی نہ کرو، خدا کی قسم اس کی تنبیہات سوائے اس شخص کے جس کا ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہوں اور جس کو میں اپنی طرف اٹھائے ہوئے ہوں اور جس کا بازو میں تھامے ہوئے ہوں۔ کوئی تمہارے لئے واضح نہیں کرے گا ، نہ اس کی تفسیر بیان کرے گا اور تمہیں بتاتا ہوں کہ بیشک جس کا میں مولا ہوں یہ علیؑ بھی اس کا مولا ہے اور یہ علیؑ ابن ابی طالبؑ ہے جو میرا بھائی ہے، میرا وصی ہے اور اس کا یہ ولی ہونا اللہ کی طرف سے ہے اور اسی نے مجھ پر نازل فرمایا ہے … ۔
اس خطبہ میں اختصار کے ساتھ دوسرے ائمہ طاہرینؑ کا تذکرہ بھی کردیا گیا ہے اور پیغمبرؐ نے دوسری احادیث میں تفصیل کے ساتھ تمام ائمہ طاہرینؑ کے نام بیان فرمائے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر پیغمبرؐ نے امام حسینؑ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم امام ہو، فرزند امام ہو، برادر امام ہو اور تمہاری نسل میں نو امام ہوں گے جن کا نواں قائم (عج) ہوگا ۔
اس واقعہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے والا بھی اس حقیقت کو محسوس کرلے گا کہ یہ اسلام کا انتہائی اہم مسئلہ تھا اسی وجہ سے پیغمبرؐ نے حکم خدا کے مطابق اس کا م کو انجام دینے کے لئے ہر ممکن انتظام کیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ عرب کا تپتا ہوا صحرا، جھلسا دینے والی دھوپ، نصف النہار پر آفتاب، اور رسولؐ پالان شتر کے منبر پر تشریف لے جاتے ہیں۔ پہلے طویل خطبہ ارشاد فرماکر اپنے وصال کے قرب کی خبر دی پھر ان کو اس پر بات گواہ بنایا کہ آنحضرتؐ نے کامل طریقے سے تبلیغ رسالت کا فرض انجام دیا ہے۔ اس کے بعد ان سے سوال کیا: ألستُ اَوْلی بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟ کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتاہوں؟ سب نے ایک آواز ہوکر کہا: قالوا بَلی یا رَسُولَ الله۔ بیشک یا رسول اللہؐ۔ تب پیغمبرؐنے فرمایا: “مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِی مَوْلاهُ”؛ جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علیؑ مولا ہیں۔ آخر میں علیؑ کے لئے اس طرح دعا فرمائی:
” اللهمَّ والِ مَنْ والاهُ و عادِ مَنْ عاداهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ واخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ”۔ خدایا ! اس کو دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علیؑ کو دشمن رکھے۔ اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو علیؑ کو چھوڑ دے”۔
جب جانشینی کی تقریب انجام پا چکی تو یہ آیت نازل ہوئی :
“اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دِينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسلَٰمَ دِينٗا” ۔
“آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیااور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کرلیا”۔
اس الہی فرمان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت علیؑ کی امامت پر تقرری سے دین کامل ہوا اور اللہ کی نعمتیں تمام ہوئیں اور اللہ اسلام سے راضی ہوگیا۔
جب خدا کی جانب سے خوش خبری کا یہ پیغام آیا تو لوگوں نے پیغمبرؐ کے سامنے علیؑ کو مبارکباد دی اور شعراء نے قصیدے پڑھے۔ یہ تمام حقائق کتب احادیث میں موجود ہیں۔
والسلام مع الاکرم ۔