اسلامی معارف

اشعار در مدح امیرالمومنینؑ و امام حسینؑ و امام مہدی(عج)

نتیجہ فکر: مولانا سید معظم حسین زیدی ۔ متعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران

(1)

جو چوکھٹ پر علی ؑکی آکے سر اپنا جھکاتے ہیں
ستارے اُن کی قسمت کے ہمیشہ جگمگاتے ہیں

زمانہ میں ستم کے جب بھی طوفاں سر اٹھاتے ہیں
علیؑ والے کفن کو اوڑھ کر میداں میں آتے ہیں

علیؑ کے نام پر دشمن، جو لوگوں کو ڈراتے ہیں
تو میثم مدحِ مولا، دار پر چڑھ کر سناتے ہیں

کبھی عرشِ عُلا پر دیتے ہیں، جبریلؑ کو تعلیم
کبھی موسیؑ کو کوہِ طور کے جلوے دکھاتے ہیں

پکاروں گا اُسی کو میں ہر اک مشکل میں اے واعظ
جسے سرکارؐ خیبر میں، پئے نصرت بلاتے ہیں

نہ کیوں قسمت پہ اپنی ناز ہو، اِس رات کعبہ کو
صنم طاقوں سے گرتے ہیں، علیؑ تشریف لاتے ہیں

خدا کے اذن سے آیا، بتوں کو توڑنے والا
علیؑ کو دیکھ کر کعبہ میں احمدؐ مسکراتے ہیں

یہاں گہوارے میں اژدر کے ٹکڑے کردے اک بچہ
وہاں اک سِن رسیده، غار میں آنسو بہاتے ہیں

بپا پہلے تو ہو محشر، پتہ چل جائے گا سب کو
میرے آنسو کی قیمت، تب فرشتے کیا لگاتے ہیں

عَلَم کی چاہ میں، جاگے ہیں ساری رات بھر وہ بھی
جو میداں گرم ہونے سے ہی پہلے بھاگ جاتے ہیں

سبق میثم نے چڑھ کر دار پر جب دےدیا تھا تو
نہ جانے پھر علیؑ کے عشق میں کیوں آزماتے ہیں

میرے دل میں بھی ہے خواہش کہ ایوانِ نجف دیکھوں
نہ جانے پھر مِرے سرکار، مجھ کو کب بلاتے ہیں

محرّم کی دہم سے، ہے معظّم آج تک باقی
فراتِ آب پہ عباسؑ، یوں قبضہ جماتے ہیں

رسول زادیؑ کو گھر پر بلا کے دیکھتے ہیں
غریب خانے کو جنّت بنا کے دیکھتے ہیں

نجات بانٹ رہے ہیں حسینؑ صدیوں سے
چلو چلو درِ سرورؑ پہ جا کے دیکھتے ہیں

ضرور آئیں گے میثم مزاج لوگ یہاں
علیؑ کے نام پہ محفل سجا کے دیکھتے ہیں

کہاں کہاں ہیں منافق کہاں پہ ہیں مومن
علیؑ کے نام کا نعرہ لگا کے دیکھتے ہیں

ہیں کتنے سچے مسلمان ان کی بستی میں
حسینؑ نیزہ پہ قرآں سنا کے دیکھتے ہیں

چلے بھی آئیں امامت کے واسطے مولا
مسیحؑ کب سے مصلّیٰ بچھا کے دیکھتے ہیں

عریضہ آج پہنچنا ہے میرے آقا تک
چلو چلو لبِ دریا پہ جا کے دیکھتے ہیں

صغیر جنگ جو کرتے نہ جانے کیا ہوتا
ابھی تو کہئے فقط مسکرا کے دیکھتے ہیں

 (2)

پوچھتا کیا ہے مجھ سے کیا ہیں حسینؑ
خَلق پر لُطفِ کبریا ہیں حسینؑ

 ہوئی مقبول، توبہء آدمؑ
پیشِ حق ایسا واسطہ ہیں حسینؑ

بولے موسیؑ جو طور پر چمکا
ہاں وہی نور کبریا ہیں حسین ؑ

حضرتِ نوحؑ بھی یہ کہتے ہیں
کشتیِ دیں کے نا خدا ہیں حسینؑ

سب اولو العزم انبیاءؑ بولے
عزم و ہمّت کی انتہا ہیں حسین ؑ

نارِ نمرود سے پکارے خلیل
آخری منزلِ رضا ہیں حسینؑ

جب مسیحاؑ سے پوچھا کہنے لگے
میرے ہر درد کی دوا ہیں حسینؑ

دلِ زہرا ہیں اور سکونِ علیؑ
بہجتِ قلبِ مصطفی ہیں حسینؑ

ہادیِ حق ہیں چودہ صدیوں سے
مثلِ قرآن معجزہ ہیں حسینؑ

سورہ حمد بھی یہ کہتا ہے
خلد کا سیدھا راستہ ہیں حسینؑ

اے اندھیروں کے باسیو آؤ
دینِ اسلام کی ضیا ہیں حسینؑ

اِن کو جھولا جھلاتے ہیں جبرائیلؑ
کس قَدَر عالی مرتبہ ہیں حسینؑ

جس کو کہنا ہو جو بھی کہتا رہے
فاتحِ ارضِ کربلا ہیں حسینؑ

کیا پہنچ پائیں گے صحابہ وہاں
راکبِ دوشِ مصطفیؐ ہیں حسینؑ

نوکِ نیزہ پہ بھی تلاوت کی
با خدا رب سے کب جدا ہیں حسینؑ

حُر کی معافی نے کر دیا ثابت
خُلقِ احمدؐ کا آئینہ ہیں حسینؑ

آپ کا غم ہے یا کہ ہے اکسیر
غمِ دنیا سے ہم رہا ہیں حسینؑ

ظلمتوں کی سیاہ آندھی میں
ایک جلتا ہوا دِیا ہیں حسینؑ

عاصیوں کے لیے ہر اک لمحہ
سارے دروازے تیرے وا ہیں حسینؑ

 میں کبھی بھی بھٹک نہیں سکتا
سامنے، تیرے نقشِ پا ہیں حسینؑ

اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں
حشر میں صرف آسرا ہیں حسینؑ

 (3)

 

رسول زادیؑ کو گھر پر بلا کے دیکھتے ہیں
غریب خانے کو جنّت بنا کے دیکھتے ہیں

نجات بانٹ رہے ہیں حسینؑ صدیوں سے
چلو چلو درِ سرورؑ پہ جا کے دیکھتے ہیں

ضرور آئیں گے میثم مزاج لوگ یہاں
علیؑ کے نام پہ محفل سجا کے دیکھتے ہیں

کہاں کہاں ہیں منافق کہاں پہ ہیں مومن
علیؑ کے نام کا نعرہ لگا کے دیکھتے ہیں

ہیں کتنے سچے مسلمان ان کی بستی میں
حسینؑ نیزہ پہ قرآں سنا کے دیکھتے ہیں

چلے بھی آئیں امامت کے واسطے مولا
مسیحؑ کب سے مصلّیٰ بچھا کے دیکھتے ہیں

عریضہ آج پہنچنا ہے میرے آقا تک
چلو چلو لبِ دریا پہ جا کے دیکھتے ہیں

صغیر جنگ جو کرتے نہ جانے کیا ہوتا
ابھی تو کہئے فقط مسکرا کے دیکھتے ہیں

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button