
حضرت امام علیؑ کی محبت اور ہماری نجات
تحریر: مولانا محمد علی۔ متعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
فہرست مندرجات
حضرت امام علیؑ سے محبت قرآن کے آئینہ میں
حضرت امام علیؑ سے محبت پیغمبرؐ کی روایت میں
مقدمہ
یہ جملہ شیعوں کےلئے تو حل ہےمگر بہت سے لوگوں کےلئے حل نہیں ہے۔آخر کیسے ممکن ہے کہ امام علیؑ کی محبت ہمیں نجات دے سکتی ہے۔اگر کوئی صرف یہ جملہ سن کررہ جائے تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دروازے کو دیکھ کر چلاجائے اورمعلوم نہ کرسکے کہ اس گھر میں کون رہتاہےلہذا پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ صرف جملہ سن کر ورق نہ پلٹ دیں۔ویسے تو ہزاروں کتابوں میں مختلف عناوین آپ کو مل جائیں مگر امام علیؑ کی محبت ہماری نجات کی ضامن ہے، اس طرح کے عنوان بہت کم ہیں۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول ؐ کے فرامین کے ساتھ ساتھ عقلی تحلیل کو پیش کروں کہ جس کی بنیاد پر امام علیؑ کی محبت ہم پر فرض ہے اور ہماری نجات کےلئے زمین ہموارکرتی ہے۔
امام علی ؑ کی محبت کی بنیاد پر نجات کا تصور اسلامی تعلیمات میں نمایاں ہے، کیونکہ امام علی ؑ کی محبت کو اللہ کی محبت کےساتھ جوڑا گیاہےجیساکہ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی ؐ نےفرمایا کہ: “اللہ سے محبت کرو اس کی نعمتوں کی وجہ سے اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیتؑ سے محبت کرو میری وجہ سےکیونکہ یہ محبت انسان کو ہدایت فراہم کرتی ہےاور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنتی ہے (امالی شیخ طوسی، ص278) یعنی اہل بیتؑ کی محبت کو ایمان کا جز سمجھا جائے جو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے”۔
امام علیؑ کا مختصرتعارف
آپ کی ولادت باسعادت 13، رجب المرجب، سنہ30 عام الفیل کو ہوئی، آپؑ کےوالدگرامی حضرت ابی طالبؑ اور والدہ گرامی فاطمہؑ بنت اسدتھیں آپؑ دونوں طرف سے ہاشمی تھے ۔اہمیت کی بات یہ ہےکہ خانہ کعبہ میں آپؑ کی ولادت کا ہونا ایساشرف ہے جو آپؑ سے پہلے نہ کسی کونصیب ہوا تھا اور نہ آپؑ کےبعد ابھی تک کسی کو نصیب ہواہے۔ یہ بات تمام مسلمانوں میں مورد اتفاق ہے (مستدرک امام حاکم، ج3، ص483 ۔چودہ ستارہ باب امام علیؑ)۔
آپؑ کے دنیا میں آنے کی خوشی میں حضرت ابوطالبؑ نے لوگوں کو ولیمہ کی دعوت دی جس میں حضرت ابوطالبؑ نے چھ سو(600)اونٹ، ہزار گوسفند و گائے کی قربانی کی اور تمام اہل مکہ کو کھاناکھلایا تھا ور ہر جگہ نداکردی گئی کہ ہر کوئی میرے بیٹے کی ولادت کے ولیمہ میں کھاناکھاسکتاہے اور کھانے کے بعد کعبہ کا طوا ف کرے اور میرےبیٹے کو آکر سلام کرے (سیرہ معصومینؑ، ص304)۔
حضرت علیؑ بچپن ہی سےحضرت رسول خداؐ کے ساتھ رہے اور آپؑ سے علم و ادب سیکھتے رہے جب آپؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اسی وقت حضرت علیؑ نےبھی اسلام کا اظہارکیا(سیرت علیؑ، ص21)۔
آپؑ ہمیشہ اور ہر جگہ حضرت رسول خد اؐ کی خدمت میں آمادہ رہتے تھے۔ہر جنگ میں چاہے بدر ہویا خیبر وخندق سب میں آگے آگے رہے اور اپنی شجاعت کا مظاہر ہ کیا، دین و اسلام کی حفاظت فرمائی(تہذیب المتقین فی تاریخ امیر المومنین، ج1، ص101)۔
اس کے علاوہ علم و حکمت میں بھی آپؑ کا کوئی ثانی نہیں ہے، خو د آپ ؑکے خطبے جو نہج البلاغہ میں جمع ہیں وہ آپ ؑکے علم و حکمت کی عظمت کے بہترین شاہد ہیں، جن میں زمین و آسمان کی خلقت سےلےکر انسان کی خلقت کیسے ہوئی ہے۔ اسی طرح بہت سے اسرار و رموز وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے، اسی طرح بہت سی حکمت آمیز، ہدایت کرنےوالے خطوط اور حدیثوں کا ذکر ہے جن کو “کلمات قصار” یا “حکمت” کے نام سے جاناجاتاہے۔
اسی طرح آپؑ کی عبادت کی بھی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے؛ اس سے بڑاکیا شرف ہوسکتاہےکہ کعبہ میں آپؑ کی ولادت ہوتی ہے اور مسجد میں سجدے کی حالت میں دنیا کا سب سےخبیث ترین شخص، آپؑ کو شہید کرتاہے۔ یعنی اللہ کے گھر سے ابتداء ہوئی اوراللہ کے گھر سے ہی آپؑ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور “اناللہ وانا الیہ راجعون”کی بہترین تصویر آپؑ کی زندگی پیش کرتی ہے۔
آپؑ کے فضائل سےکتابیں بھری پڑی ہیں جو ہمیں آپؑ کی نسبی شناخت کے ساتھ ساتھ، معنوی مقامات سےآشنائی کرواتی ہیں۔
امام علی ؑ کی ذات گرامی کسی کےلئے مبہم نہیں ہے چاہے شیعہ ہو یا سنی تقریبا سبھی جانتے ہیں ۔ لیکن آپؑ کی حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتاہے خود پیغمبراکرمؐ فرماتے ہیں:
“اے علیؑ! اگر مجھے خوف نہ ہوتاکہ تمہارے بارے میں لوگ وہ کہیں گے جونصرانیوں نے عیسیؑ بن مریمؑ کےبارے میں کہاتھا، تو میں آپؑ کی تعریف اس طرح کرتاکہ لوگ آپؑ کے قدموں کےنیچے کی مٹی اٹھاتے (سیرت علی ؑ، ص15)۔ تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم آپؑ کی حقیقت کےبارے میں نہیں جانتے ہیں۔اسی طرح پیغمبراکرمؐ کےاس ارشاد سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت علیؑ کے تمام فضائل کو ہمیں نہیں بتایا گیاہے۔ اور جو بھی بتایا گیاہے ان سے زیادہ کو لوگوں نےچھپایا ہے جیساکہ روایت میں ہے کہ: امام علی ؑ کے فضائل کو دوطرح کے لوگوں نے چھپایا ہے؛ ایک آپؑ کے بغض میں، آپؑ سے حسد کرتے ہوئے فضائل کو بیان نہیں کیا گیا اور دوسرے آپؑ کی محبت میں دشمنوں کے خوف سے، آپؑ کے چاہنے والوں نے آپؑ کے فضائل کو چھپایا تاکہ ظلم کےشکار نہ ہوں۔
پیغمبر اکرمؐ نے امیر المومنین ؑسے خطاب میں کہا: «یا علی ما عرف اللّه حق معرفته غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّه و غیری»؛ “اے علیؑ! خدا کو میرے اور آپ ؑکے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپؑ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا” (مناقب ابن شهرآشوب، ج3، ص268)۔
محبت کی حقیقت
محبت ایک ایسا تعلق اور رشتہ ہے کہ انسان کیا حیوانات بھی چاہتے ہیں کہ اُن سے محبت کی جائے اور فقط انسان ہی نہیں حیوان بھی دوسروں سے محبت کرتے ہیں۔ مثلاً ماں کی محبت انسان اور حیوان دونوں میں پائی جاتی ہیں۔ محبت کا متضاد بغض ہے یہ بھی انسان و حیوان دونوں میں پایا جاتا ہے۔محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسانی دل کے سب سے گہرے اور پاکیزہ احساسات کا عکاس ہوتا ہے ۔یہ ایسالگاو ہے کہ جو دلوں کو جوڑتاہے، محبت صرف کسی ایک فرد سے جذباتی لگاؤ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر احساس ہے جو ماں کی اولاد کے لیے، دوستوں کے درمیان، ایک فرد کا خدا سے تعلق اور حتیٰ کہ انسانیت کے لیے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ احساس انمول ہے جو انسان کو دوسروں کی خوشیوں میں اپنی خوشی تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہےمحبت اور الفت وہ وجودی جذبہ ہےکہ انسان کو کمال تک پہنچاتاہے اس میں کوئی فرق نہیں ہےکہ وہ محبوب چیز کیاہو(طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج1، ص 411 ۔410، موسسہ اسماعیلیان، سال 1371 ش)۔ ہر محبوب چیز اپنی طرف اپنے محب کو مائل کرتی ہے اور محب اس کی طرف بڑہتا چلاجاتاہے۔اگر محبوب معنوی چیز ہوگی تو اپنے محب کو معنویت کی طرف مائل کرے گی اور اگر محبوب دنیاوی چیز ہوگی تو اپنے محب کو دنیا کی طرف راغب کرےگی۔
حضرت امام علیؑ فرماتے ہیں: اگر بندہ اپنے پرودگار کی طرف مائل ہے تو وہ کسی وقت بھی بندگی سے منھ نہیں موڑے گا، اس کی محبت اور لگاؤخدا کے حکم کی انجام دہی میں اس سے کوتاہی نہیں کرنے دے گی لہذا جو خدا کی عبادت کرنےکےلئےبقرار ہے یہ وہی محبت ہے جو اس کے دل میں ہے(دشتی، محمد، نہج البلاغہ، قم، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیر المومنین، سال 1381، خطبہ 91)۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے محبت کی دو قسمیں بیان کی ہے ۔
ایک محبت مذموم: دنیا وی محبت ہے جو انسان کوخطا اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔(حد اقل آخرت سےدورکردے تی ہے)
اور دوسری محمود: وہ ہےجو انسان کوسعادت اور کمال کی طرف لےجاتی ہے ۔خداوند عالم کی عاشق بنادیتی ہے(خمینی، روح اللہ، آداب الصلاۃ، ص39، تہران، موسسہ تنظیم و نشرآثار امام خمینی، سال 1388)۔
محبت کا میعار اور ملاک
محبت ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور یہی وجوہات محبت کے معیار کو معیّن کرتی ہیں مثلاً خونی رشتے محبت کا ایک سبب ہوتے ہیں کسی سے کوئی ضرورت ہو تو اس سے محبت کا اظہار ہوتا ہے مگر محبت کے دو معیار ایسے ہیں جو انسان کو حیوان سے الگ کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی صفت میں کمال رکھنے والے سے محبت کرتا ہے اور دوسری یہ کہ باکمال کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ ضرورت مند کی ضرورتوں کا احساس کر کے اُس سے محبت کرتے ہوئے اس کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔اس کے علاوہ محبت کا میعار مختلف تہذیبوں، مذاہب، اور سماجی راویوں کے تحت مختلف ہو سکتا ہے، لیکن اس کا بنیادی اصول اخلاص، قربانی، اور خلوص پر مبنی ہوتا ہے۔محبت کے میعار کو چند نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1- اخلاص: محبت میں کسی قسم کی ملاوٹ یا ذاتی مفاد نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقی محبت وہی ہے جو بغیر کسی لالچ کے کی جائے۔خداسے اخلاص بھری محبت کی مثال اہل بیت علیہم السلام پیش کرتے ہیں، جس کا ذکر قرآن مجید نےسورہ دہر میں کیاہے:
«وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلى حُبِّه مِسْكِـيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْـرًا»۔وہ لوگ اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھاناکھلاتے ہیں(سورہ دہر، آیت8)۔
اسی طرح بہت سی مثالیں آپؑ کے سلسلے میں ملتی ہیں جیسےجنگ خند ق میں امام علی ؑ، عمر بن عبدود کی نازیبا حرکت کی وجہ سے اس کے سینے سے اتر گئے اور جب غصہ ٹھنڈاہوگیا تب اس کا سر قلم کیا تاکہ اخلاص میں حرف نہ آئے(پندتاریخ، ج5، ص199)۔
2- قربانی: محبت کرنے والا شخص اپنی محبت کے لئے اپنی خواہشات، وقت اور حتیٰ کہ اپنی زندگی قربان کرنے کے لئےتیار رہتا ہے۔اس میدان میں بھی خداکی محبت میں قربانی پیش کرنےوالوں میں اہل بیت رسولؐ پیش پیش ہیں۔جس کو سارےاہل سنت اور شیعہ مانتے ہیں۔ او اس کی سب سے بڑی مثال امام حسینؑ کی کربلا میں اپنے پورے گھر کے ساتھ قربانی دینا ہے۔ امام حسینؑ کربلا میں اپنے تمام عزیز و اقارب کو خداکی راہ میں قربان کردیا اور پھر اس کے بعد خود اپنی قربانی بھی پیش کردی جس سے انبیاء ؑکے بھی دل کانپ اٹھے۔اگر امام حسین ؑچاہتے تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کرکےخود مدینہ میں رہتے مگر نہیں ایسا نہیں کیاگویا آپؑ نے اپنی خواہشات، اپنے اموال اور اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی بھی قربان پیش کرکےدنیا کو بتادیاکہ خدا سے کتنی محبت ہے۔
3-برداشت: محبت میں صبر اور برداشت بہت اہم ہے۔ اس لئے کہ اس راہ میں بہت مشکل درپیش ہوتی ہے اور جوان پر صبر کرلےجاتاہے وہ محبت میں کامیاب ہوجاتاہے۔خود حضرت علیؑ ظاہر ی خلافت کے چھن جانےپر 25 سال خاموشی سےصبر کیا۔حضرت فاطمہ زہر ا ؑ پرظلم ہوا اس پر صبرکیا، اپنی شجاعت کےباوجود ان کےگلے میں رسی کا پھندا پڑا اس پر صبر کیا۔اسی طرح اما م حسینؑ کے صبر کی بھی عظیم مثالیں موجود ہیں۔
4-احترام: محبت کا ایک اور میعار دوسرے شخص کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا ہے۔خداکی محبت میں اس کےامرونہی کی پیروی کرنا بھی احترام کہلاتاہے۔حضرت رسول خدا ؐ اور آپؐ کےآل پاکؑ کا احترام کرنا، ان سےمحبت کرنےکی علامت ہے۔ اسی ان حضرات سے منسوب تبرکات اور آپ حضرات کی مقدس قبور اور حرم کا احترام بھی آل رسولؐ سے محبت کی ایک نشانی ہے۔
5- اعتماد: محبت کا ایک بنیادی ستون اعتماد ہے۔ اگر اعتماد ختم ہو جائے تو محبت بھی ہلکی پڑ جاتی ہے۔لہذا اگرہم اہل بیتؑ سےمحبت کرتےہیں تو ان حضرات پر مکمل اعتماد کرنا ہوگا کہ انہیں حضرات کا راستہ ہماری نجات و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہی حضرات دنیا و آخرت میں ہمارے حقیقی مددگار بن سکتے ہیں اور ہماری شفاعت کرسکتے ہیں۔
6 ۔ محبت امام علیؑ: حضرت امام علیؑ کی محبت ایمان کے لئےمیعارہےجیساکہ ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خداؐ نے حضرت علیؑ کی سمت دیکھا اور فرمایا: (اےعلیؑ)تم دنیا اور آخرت(دونوں) میں سرد ارہو، جس نےتم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے تم کو دشمن رکھا اس نےمجھے دشمن رکھا۔تمہارا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ اس لئے افسوس ہے اس شخص پر جو تم سے دشمنی رکھتا ہے(نورالابصار،80۔ المرتضی، ص102)۔ معلوم ہوا ہے کہ جہاں امام علیؑ سے دوستی اور محبت ضروری ہے وہیں آپ ؑ کی دوستی دوسرے امور جیسے خداو رسولؐ سے دوستی اور ایمان و عمل کی قبولیت کے لئے بھی ضروری ہے۔
محبت کی بنیاد کمال
کوئی ایسا نہیں ہےکہ جو اپنی بلند ی اور کامیابی نہیں چاہتاہو، ہر ایک کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ باکمال ہو۔وہ الگ بات ہےکہ اس کمال تک نہیں پہنچ پاتا۔مگرایسا نہیں ہے کہ وہ باکمال افراد سے محبت نہیں کرتا۔آج کی دنیا میں دیکھاجاتاہے کہ جو صاحب ہنر اور باکمال ہوتا ہے تو بہت سے افراد اس کے اس ٹائلنٹ او رکمال کو اپناناچاہتے ہیں۔اس لئے کہ انسان کی فطر ت میں ہےکہ وہ باکمال افراد کی طرف مائل ہوتاہے اور اس سے محبت کرتاہے اس کی سیرت کو اپناناچاہتا ہے(فیض کاشانی، ملا محسن، المحجہ البیضاء، ج 8، ص9 ۔11)۔ اللہ نے بھی اپنے کچھ خاص بندوں کو ہماری ہدایت کےلئے بھیجا ہے اور ان کے کاندھوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو کمالات کے زیور سے آراستہ کیاہے کہ جس کے باعث ہم انسان ان کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں لہذاہم اگر حضرت علی ؑ سےمحبت کرتےہیں توان کے اس کمال کی وجہ سے کرتےکہ جس کی طرف ہمارے دل کھینچے چلے جاتے ہیں، ان کےنام پر مرمٹ جاتے ہیں۔ ان کی سیرت پرعمل کرتے ہیں۔ مگر اس کےلئے شرط ہے کہ انسان کی فطرت پاک ہو، دل صاف ہو ورنہ علی ؑ کی محبت اس دل میں نہیں آسکتی ہے۔کیونکہ خود حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ جہاں بہت سی باتیں مجھے حضرت رسول خداؐنے بتائی ہیں ان میں یہ بھی بتایاہےکہ مجھ سےمنافق نفرت کرے گا اور مومن مجھ سے محبت کرے گا(مسنداحمد، طبع قدیم ہندی، ص84) ۔
حضرت امام صادقؑ نے فرمایاکہ حضرت رسول خداؐ نےفرمایاکہ: علیؑ کی محبت مومنوں کے دلوں میں رکھ دی گئی ہے اسی وجہ سے صرف مومن ان سے محبت کرتاہے اور منافق ہی ان سےدشمنی اور بغض رکھتاہے اور حسنؑ و حسینؑ کی محبت مومنوں، منافقوں اور کافروں کے دلوں میں رکھ دی گئی ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی ان کی مذمت کرتے ہوئے کسی کو نہیں دکھوگے ۔حضرت رسول خداؐ اپنی رحلت کے وقت ان کو اپنے پاس بلایا اور ان کا بوسہ لیا، ان کی خوشبو کو سونگھا اور ان پر بہت روئے۔(مناقب ابن شہر آشوب، ج2، ص383 ۔ سفینہ البحار، مادہ حبب، ج1، ص492)۔
حضرت امام علیؑ سے محبت قرآن کے آئینہ میں
اللہ کسی سے محبت کرتاہےتو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی محبت ہماری محبت کی طرح اندھی ہوتی ہے بلکہ وہ محبوب شخص اس کمال کا مالک ہوتاہے کہ جس کی بنا پر خدا اس سے محبت کرتاہے اور محبت کرنےکا حکم دیتاہےجیساکہ خدا فرماتاہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ»(سورہ مائدہ، آیت۵۴)۔
اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیداکرے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے ۔ مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سےپیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنےوالے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے(سورہ مائدہ آیت 54) ۔
اس بات کوحضرت پیغمبر اکرمؐ نے جنگ خیبر کے موقع پربیان فرمایا تھا کہ: “کل میں عَلَم اس کو دوں گا جو کرّار ہوگا، غیرفرّار ہوگا اور اللہ ورسول ؐ اس سے محبت کرتے ہوں گے اور وہ اللہ و رسولؐ سے محبت کرتاہوگا”۔
اسی طرح قرآن کی آیت میں ارشاد ہوتا:
«قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى»؛
“کہہ دیجئے: میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے”(سورہ شوریٰ، آیت 23)۔
یہاں پر (قربیٰ )سے مراد پہلے نمبر پر حضرت علی ؑ ہیں؛ فخررازی کہتے ہیں کہ: زمخشری کشاف میں روایت کرتا ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے کہاکہ یا رسول اللہؐ آپ کے وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے، تو آپؐ نے فرمایاکہ: “علیؑ اور فاطمہؑ اور ان کے بیٹے”۔اس سےمعلوم ہوتاہےکہ یہ حضرات پیغمبراکرمؐ کے خا ص اقاریب ہیں کہ جن کی محبت اور احترام ہم پر واجب ہے، اس بات کا ذکربہت سی روایتوں میں بیان ہوا ہے ۔
اس مقام پر ابوہریرہ سے ایک روایت ہے کہ حضرت محمدؐ نے فرمایا:
“جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریلؑ کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، تو جبرئیلؑ اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں اورکہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لئے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل ؑکو بُلا کر فرماتا ہے: میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو، تو جبرئیلؑ اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ہے، تم بھی اس سے بغض رکھو، تو وہ (سب ) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے”(صحیح مسلم، ح:6705)۔
مذکورہ روایت کی روشنی میں یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اللہ جس سے محبت کرتاہے وہ اس سے محبت کرنےکا حکم بھی دیتاہے لہذاوہ ہمارا خالق، مالک، رب، رازق اور اس کےعلاوہ دوسرے صفات کا حامل ہے اسی بناپراس کےحکم کی بجاآوری بھی ہم پر واجب ہے اور وہ جس سے محبت کرنے کا حکم دے گا ہم سب پر اس سے محبت کرنا واجب ہے۔ اور جس سے نفرت کا حکم دے دے اس سے نفرت کرنا اور اس سے دوری اختیار کرنا واجب ہے اس لئے کہ اس نےجہاں اس نےنماز، روزے کا حکم دیاہےوہیں تولیٰ اور تبّریٰ کا بھی حکم دیاہے جوہمارے فقہ میں ہے۔
اللہ کی محبت اہل بیتؑ سے یونہی نہیں ہے بلکہ ان حضراتؑ کے اعمال و کردار کی بنیاد ہے جیساکہ خداوندعالم فرماتا ہے: «… وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلهِ…» (سورہ بقرہ، آیت 165)
مذکورہ آیت بھی اہل بیتؑ، خاص طور پر امیرالمومنینؑ کی زندگی کی عکاسی کررہی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو مولائے کائناتؑ کی فضیلتوں اور آپ کی اچھائیوں کوبیان کرتی ہیں جن کی وجہ سے خدا ان سے محبت کرتاہے اور خدا کی محبت کا لازمہ ہے کہ ہم بھی ان سے محبت کریں۔
حضرت امام علیؑ سے محبت پیغمبرؐ کی روایت میں
حضرت رسول خداؐنے متعدد روایتوں میں حضرت علیؑ سے محبت اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیاہے۔ اور بہت سے مورد میں ان کے بہ نسبت اپنی محبت کا اظہارکیا ہے جس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتےہیں کہ حضرت رسول اللہؐ کی سیرت کو اپناتے ہوئے ہم بھی حضرت علی ؑ سے محبت کریں جیساکہ جنگِ خیبر کے موقعہ پر چند دِن قلعہ کے فتح نہ ہونے کے بعد ایک شام رسول خداؐ نے اعلان فرمایا جس فرمان کو ’’حدیث رایۃ‘‘ کہتے ہیں آپ ؐ نے فرمایا: «اَمَا وَاللہِ لَاُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا کَرّارًا غَیْرَ فَرَّارٍ یُحِبُّ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیُحِبُّہُ اللہ وَ رَسُوْلُہٗ يَفتَحُ اللهُ عَلٰى يَدَيْهِ »؛ خدا کی قسم! میں کل اس مرد کو علم دوں گا جو مسلسل حملہ کرنے والا ہوگا اور راہِ فرار اختیار کرنے والا نہ ہوگا۔ وہ خُدا اور رسول ؐسے محبت رکھتا ہے اور خدا او ر رسولؐ بھی اُس سے محبت رکھتے ہیں(حسین، علامہ مفتی جعفر، سیرت امیرالمومنینؑ، ص272)۔ تاریخ میں ہےکہ صبح کو حضرت علی ؑ کو طلب کیا اور علم ان کےہاتھ میں دیاجو انہوں نےخبیر کا قلعہ فتح کیا۔
اس کےعلاوہ اور بہت سی حدیثیں ہیں لیکن اس حدیث میں حضرت رسول خداؐ، حضرت علیؑ کےفضائل میں چند باتوں کی طرف اشارہ کرتا چلو۔(رجلاً کراراً) اس مرد کو کہا جاتا ہے جو آگے بڑھ بڑھ کرحملہ کرے والا ہو، غیرفرار ہو، جو میدان چھوڑ کربھاگتانہ ہو۔تو یہ صفات شجاع انسان کی ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ حضرت رسول خداؐ نےفرمایاکہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرنےولاہے اور اللہ، رسولؐ اس سے محبت کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی سند ہے کہ اللہ، رسولؐ ان سےمحبت کرتےہیں تو بہ درجہ اولٰی ہم کو بھی ان سےمحبت کرنا چاہے کیونکہ ہم اللہ کےبندے اور رسولؐ کےپیروکار ہیں:
«قالَ أَخْبَرَنِي أَبُو عَلِيٍّ اَلْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ اَلْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ اَلْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَسَّامٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَلْحَكَمِ عَنِ اَللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ اَلْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: مَعَاشِرَ اَلنَّاسِ أَحِبُّوا عَلِيّاً فَإِنَّ لَحْمَهُ لَحْمِي وَ دَمَهُ دَمِي لَعَنَ اَللَّهُ أَقْوَاماً مِنْ أُمَّتِي ضَيَّعُوا فِيهِ عَهْدِي وَ نَسُوا فِيهِ وَصِيَّتِي مَا لَهُمْ عِنْدَ اَللَّهِ مِنْ خَلاَقٍ »
ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خداؐ نےفرمایا: اے لوگو! علیؑ ابن ابی طالب ؑسے محبت کروکیونکہ ان کاگوشت میرا گوشت ہے، ان کا خون میرا خون ہے، اللہ تعالی لعنت کرے میری امت میں سے ان لوگوں پر جوعلیؑ کےبارےمیں میرے عہد کوضائع کردیں اور اس کے بارے میں میری وصیت کو بھول جائیں ۔ایسے لوگوں کے لئےخدا کے نزدیک کوئی اجر و ثواب نہیں ہے(امالی شیخ مفید، ج1، ص293)۔
ایک اور جگہ حضرت رسول خداؐ فرماتے ہیں:
«أحِبّوا اللّه َ لِما يَغْدوكُم بهِ مِن نِعَمِهِ و أحِبّوني لِحُبِّ اللّه و أحِبّوا أهْلَ بَيْتي لِحُبّي»؛ اللہ سے محبت کروں اس کی نعمتوں کی وجہ سے اور مجھ سے محبت کرو خدا سے محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت ؑسے محبت کرو میری محبت کی وجہ سے۔ (علل الشرائع، ج1، ص139 ۔ امالی طوسی، 278)۔
ان دو حدیثوں میں پہلی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہےکہ مجھے اور علیؑ کو الگ نہ سمجھو کیونکہ ہم دونوں کا گوشت اور خون ایک ہے لہذا اگر میری اہمیت کے قائل ہو تو علیؑ کے بھی اہمیت کا قائل ہونا پڑے گا اور یہاں تک کہ آپ نےفرمایا کہ جوعلیؑ کےبارے میں میرےعہد کو ضائع کردے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے تو اس طرح اس حدیث کے دو پہلوہوجاتے ہیں: ایک میری وجہ سے ان سے محبت کرو اوردوسرے: اگر اللہ کی لعنت سے بچنا ہوتو ان سےمحبت کرو۔
اورآخری حدیث گویا سورہ مائدہ کی آیت نمبر 55 کی تشریح کررہی ہو۔اس حدیث کی ترتیب سے کوئی بھی انسان نہیں بچتاہے کہ جس پر اس حدیث کا حکم نافذ نہ ہوتاہوکیونکہ ہر انسان اللہ کی نعمت سے بہرہ مند ہوتاہے اور جو اس کی نعمت سےبہرہ مند ہو اس پر اللہ سے محبت کرنا لازم ہے اور جو اللہ سےمحبت کرے وہ رسول اللہؐ سےبھی محبت کرے اور جو رسول اللہؐ سےمحبت کرے وہ مولائے کائناتؑ سے بھی محبت کرے۔
یہ بات ایسے ہی نہیں ہے بلکہ خود مولائے کائنات، اللہ کے محبوب اور مطیع بندے ہیں جیساکہ اس واقعہ میں بیان ہواہے کہ ایک مرتبہ حضرت پیغمبر اکرمؐ کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا تو آپؐ نے اللہ سبحانہ سےعرض کی: «اَللّهُمَّ ائْتِنِیْ بِاَحَبِّ خَلْقِکَ اِلَیْکَ؛ یَاکُلُ مَعِیَ هذَا الطَّیْرَ فَجَاءَ عَلِیٌّ فَاَکَلَ مَعَه»؛ “اے اللہ اپنی محبوب ترین مخلوق کو میرے پاس بھیج جو میرے ساتھ اس پرندے کے گوشت کھانے میں شریک ہو؛چنانچہ علی ؑ آئے اور آپؐ کے ساتھ اس گوشت کو کھایا”(المیلانی، سیدعلی، ص20 حدیث طیر)۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ حضرت رسولؐ کے بعد، اللہ کے سب سے محبوب حضرت علی ؑ ہیں۔
ابوہاشم خولانی نے زازان سےنقل کیاہے کہ میں نے جناب سلمان سے خود سنا ہے کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ: “میں ہمیشہ علیؑ ابن ابی طالبؑ سے محبت کرتاہوں کیونکہ میں نےخود رسول خداؐکو دیکھاہےکہ آپ علی ؑ کی ران پر ہاتھ مارکر فرمایاتھاکہ: اے علیؑ جو آپؑ سے محبت کرےگا وہ میرا محبّ ہے اورمیرا محبّ اللہ کا محبّ ہے اور جو آپؑ سے بغض رکھے گا وہ میرے ساتھ بغض رکھنے والاہے اور جو میرے ساتھ بغض رکھے گا وہ اللہ سے بغض رکھنے والاہے”( امالی شیخ طوسی، ج1، ص348) ۔
محبت علیؑ کا فائدہ
ہوسکتاہےکہ کسی کےذہن میں یہ سوال ایجاد ہوکہ ہم حضرت علی ؑسےکیوں محبت کریں؟ ان کی محبت کی وجہ سے دنیا میں زندگی تنگ ہوجاتی ہے، لوگ دشمن ہوجاتےہیں، جہاں ان کو موقع ملتاہے تو وہ ہمیں قتل کر دیتے ہیں لہذا ایسے سےکیوں محبت کریں کہ جس کی وجہ سے ہمیں اتنی زیادہ تکلیف اٹھاناپڑے؟۔
لہذا یہاں پر امام علیؑ کی محبت کےکچھ فوائدکا ذکر کیا جارہا ہے لیکن اس سےپہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتےہیں کہ حضرت علیؑ کی محبت کی وجہ سے لوگ ہمارے دشمن ہیں۔ اگر ہم خود مولائے کائنات ؑسےمحبت نہ کریں اور عدالت اور جوصحیح راستہ ہے اس پر چلنے کی کوشش کریں تب بھی دنیا ہماری دشمن ہوجائے گی اس لئے کہ جو لوگ ظالم اور غلط راستے پر چلتےہیں ان کے راستہ میں صحیح اور حق کا راستہ ایک رکاوٹ ہوتاہےجس کو وہ پسند نہیں کرتے اور اس رکاوٹ کو وہ ہٹانا چاہتےہیں ۔اس کے لئے ہر وہ اقدام کرتے ہیں جو ان کی طاقت میں ہوتاہے چاہے پوری بستی ہی کوویران کرناپڑے ۔
حضرت علی ؑ کا جومسئلہ ہے وہ یہ ہےکہ وہ خود حق ہیں؛ حضر ت رسول خداؐ کےقول کے مطابق حق ان سے جد ا نہیں ہے جس طرف حضرت علیؑ ہیں اسی طرف حق ہے۔تاریخ میں آپؑ کے جیسا عادل شخص ابھی تک کوئی نہیں گزرا۔لہذا آپؑ کی محبت ہم کوبھی صحیح اور حق کےراستے پر چلنےکی ہدایت کرتی ہے اور ظالم اور طاغوت کی پیروی کرنے سے مانع ہوتی ہے اس لئے لوگ ہمارےدشمن ہیں ورنہ حضرت علیؑ کا ظاہری زمانے کو گزرے ہوئے تو چودہ سوسال ہوگئے ہیں پھر بھی آج تک لوگ ان سے کیوں دشمنی رکھیں گے؟۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ؑکےچاہنے والوں میں آپؑ کی سیرت آج بھی زندہ ہے جو ظالم اور طاغوتوں کےارادہ کو ناکام بناتی ہے ۔جبکہ دنیا میں بہت سےمذہب اور فرقہ پائے جاتےہیں لوگ ان سے دشمنی کیوں نہیں کرتے کیونکہ وہ رکاوٹ نہیں بنتے۔ اگر ہم مولائے کائناتؑ سے محبت کرتےہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم حق پر ہیں اور راہ مستقیم پر ہیں اور یہی حضرت علی ؑ کی محبت کا سب سےبڑا فائدہ ہے۔
حنان بن سدیر نے حضرت اما م محمدباقرؑ سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نےفرمایا:
“اللہ اپنےبند وں سے کسی بندےکےدل میں علی ؑ کی محبت قراردے تو اس کے ایک قدم میں لغزس آئےتو اللہ اس کےدوسرے قدم کو ثابت قدمی عطاکرتاہے”( امالی شیخ طوسی، جلد ا، ص347)۔
پیغمبر اکرمؐ نے جناب عمار سے فرمایا: «یا عمّار! ان رأیت علیّاً قدسلک وادیّاً و سلک النّاس وادیاً غیره فاسلک مع علیّ ودع النّاس انّه لن بدلک علی ردی و لن یخرجک من الهدی»؛ “اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علیؑ ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علیؑ کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علیؑ گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے”(تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج 4، ص 410۔ابونعیم، حلیۃ الاولیاء، ج 1، ص)۔
منابع
قرآن مجید۔
- حسین، علامہ مفتی جعفر، سیرت امیرالمومنینؑ ۔
- خسروی، موسی، مترجم جعفری محمد حسن، پندتاریخ، ج5، ناشر حسن علی بک ڈپو، لاہور۔
- خطیب بغدادی، تاریخ بغداد۔
- خمینی، روح اللہ، آداب الصلاۃ، تہران، موسسہ تنظیم و نشرآثار امام خمینی، سال 1388 ش۔
- دشتی، محمد، نہج البلاغہ، قم موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیر المومنین، سال 1381 ءش۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ناشر موسسہ اسماعیلیان، سال 1371 ش۔
- علامہ شیخ طوسی، امالی، مترجم سیدمنیرحسین رضوی۔ ج1، نشر ادارہ منہاج الصالحین، لاہور، سال جنوری 2013 م۔
- فیض کاشانی، ملا محسن، المحجة البیضاء فی تهذیب الاحیاء، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ حوزہ علمیہ قم۔
- قمی شیخ عباس، منتہی الآمال، ترجمہ سیرت معصومینؑ، ناشر مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور پاکستان، سال 2014 ۔
- کراروی، سید نجم الحسن، چودہ ستارہ، ناشر امامیہ کتب خانہ، لاہور، سال 1393 ھ۔
ہاشم، معروف الحسنی، سیرت علی، ناشر جماران پیلی کیشنز، لاہور، سال مئی 1994 م