اسلامی معارف

خطبہ فدک؛ منابع اور اسناد کی روشنی میں

حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

 فہرست مندرجات

مقدمہ

الف۔منابع و مآخذ

ب: خطبہ کے اسناد

ج: رواۃ خطبہ فدک کے طبقات

مقدمہ

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خطبہ فدک کے منابع ومآخذ کیا ہیں؟ کتنے علماء نے اس خطبہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیاہے …؟ حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم خطبہ کو بہت سے شیعہ اور سنی علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیاہے، یہاں اس خطبہ کے مصادر اور اسناد و طبقات کو تین حصوں میں بیان کیاجارہاہے تاکہ اس کی عظمت و اہمیت ذہنوں میں راسخ ہوسکے:

الف۔منابع و مآخذ

یہ خطبہ اٹھارہ قدیمی منابع میں مذکور ہے جن کی تفصیل یہ ہے:

1۔ بلاغات النسا، تالیف: احمد بن طیور

ابو الفضل احمد بن ابی طاہر، معروف بہ ابن طیفور؛ تیسری صدی ہجری کے برجستہ علماء میں سے ہیں، ادبی اور تاریخی کتابوں کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ 204ہجری میں شہر بغداد میں پیدا ہوئے اور 280ہجری میں وفات پائی، جائے وفات شام ہے۔ ان سے تقریباً پچاس کتابیں منسوب ہیں، سب سے زیادہ مشہور کتاب “تاریخ بغداد ” ہے، “المنثور والمنظوم ” کو بھی بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔ ابن طیفور نے اس کتاب کو چودہ جلدوں میں مرتب کیاتھا جس کی صرف دو جلدیں محفوظ رہیں، بقیہ جلدیں مفقود ہوچکی ہیں۔ محفوظ شدہ دو جلدوں میں سے گیارہویں جلد کے ایک حصہ کا نام “بلاغات النساء ” ہے ۔

“بلاغات النساء “متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہے، یہ عرب کی بعض برجستہ اور عالمہ خواتین کے اقوال و ارشادات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ایک قدیمی ترین مآخذ ہے جس میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کو سلسلۂ سند کے ساتھ لکھا گیا ہے ۔

2۔مختصر بصائر الدرجات؛ تالیف: حسن بن سلیمان حلی

سعد بن عبداللہ اشعری قمی برجستہ عالم دین اور جلیل القدر شیعہ محدث گزرے ہیں، انہوں نے “بصائر الدرجات ” نامی کتاب لکھی۔ اس کتاب میں شیعہ عقائد کے اثبات کے سلسلے میں بہت سی تاریخی اور اعتقادی احادیث موجود ہیں، آٹھویں صدی ہجری تک یہ کتاب علمائے شیعہ کی دسترس میں تھی اور ان کی نظر میں کافی اہم اور موثق کتاب مانی جاتی تھی ۔

حسن بن سلیمان حلی بھی آٹھویں صدی ہجری کے برجستہ شیعہ عالم تھے، انہوں نے متذکرہ کتاب کی بعض اہم احادیث کا انتخاب کیا اور احادیث کے ذیل میں بعض مطالب کا اضافہ کرکے اس کا نام “مختصر بصائر الدرجات ” رکھا، انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کے ذیل میں خطبہ فدک اور اس کے بعض فقروں کی جانب اشارہ کیاہے۔

3۔ السقیفہ و فدک؛ تالیف: احمد بن عبدالعزیز جوہری

احمد بن عبدالعزیز مسلک کے اعتبار سے سنی ہیں، دوسری صدی ہجری کے محدثین میں ان کا شمار ہوتاہے، وہ بیک وقت مورخ، ادیب اور برجستہ شاعر تھے، علم حدیث میں بہت زیادہ مہارت رکھتے تھے اسی لئے اپنے عہد کے مشہور محدثین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ ان کی قلمی کاوشوں میں “السقیفہ و فدک “اور “اخبار الشعراء ” نمایاں حیثیت کی حامل ہیں ۔

کتاب “السقیفہ وفدک ” میں تاریخ صدر اسلام کے دو اہم ترین واقعات کو موضوع بحث قرار دیاگیاہے، یہ کتاب سر دست موجود نہیں ہے لیکن ابن ابی الحدید معتزلی نے اپنی گرانقدر کتاب “شرح نہج البلاغہ ” میں اس کتاب کے بعض حصوں کو نقل کیاہے، آج جو کتاب “السقیفہ و فدک “کے نام سے موجود ہے اس میں ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ کے مطالب کو جمع کیاگیاہے ۔ جوہری نے خطبہ فدک کو سلسلۂ سند کے ساتھ دو طریق سے اپنی کتاب میں نقل کیاہے ۔

4۔ مقاتل الطالبین؛ تالیف: ابو الفرج اصفہانی

علی بن الحسین معروف بہ ابوالفرج اصفہانی نے خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھی ہے لیکن حالات زمانہ نے اس کا نام و نشان مٹا دیاہے ۔

ابوالفرج 284 ہجری میں شہر اصفہان میں پیدا ہوئے، بعض ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد تاریخ، ادب، شعر و شاعری اور حدیث وغیرہ جیسے مختلف علوم میں شہرت حاصل کی، ابو الفرج اصفہانی نے بہت سی کتابیں بطور یادگار چھوڑی ہیں جن میں “الآغانی ” بہت زیادہ مشہور ہوئی ۔ان کی دوسری مشہور کتاب ” مقاتل الطالبین ” ہے جس میں انہوں نے عہد نبوت سے اپنے زمانہ تک کے اولاد عبد المطلب کے حالات زندگی کو قلمبند کیاہے ۔

اس کتاب میں انہوں نے خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے صدور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حالات زندگی کے ذیل میں لکھا:”العقیلۃ ھی التی روی ابن عباس عنھا کلام فاطمۃ فی فدک، فقال: حدثنی عقیلتنا زینبؑ بنت علی علیہ السلام “۔

5۔ شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار؛ تالیف: نعمان بن محمد

اس کتاب کے مؤلف نعمان بن محمد معروف بہ قاضی نعمان مغربی متوفی 363 ہجری ہیں، اسماعیلی شیعہ کے علماء میں سے ہیں، اس کتاب کا موضوع اہل بیت ؑ کے فضائل و مناقب سے متعلق احادیث و ارشادات کی تبیین ہے ۔ قاضی نعمان نے خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بعض حصے کو سند کے بغیر بطور مرسل عبداللہ بن سلام سے نقل کیاہے اور عبداللہ بن سلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل کیاہے ۔

6۔ من لا یحضرہ الفقیہ؛ تالیف: شیخ صدوق ؒ

محمد بن الحسین، معروف بہ شیخ صدوق، سن 381 ہجری میں ان کی وفات ہوئی، عالم تشیع کے برجستہ اور برزگ علمائے میں سے ہیں، ان کی کتاب ” من لا یحضرہ الفقیہ ” کتب اربعہ میں سے ایک ہے جنہیں شیعہ احادیث کی اصلی منابع و مآخذ میں شمار کیاجاتاہے۔ شیخ صدوق نے اپنی معروف کتاب میں خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بعض حصے کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے نقل کرکے آخر میں لکھا ہے: “والخطبۃ طویلۃ اخذنا منھا موضعَ الحاجۃ “۔

7۔ علل الشرائع؛ تالیف: شیخ صدوقؒ

شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی دوسری مشہور کتاب کا نام ” علل الشرائع “ہے، اس کتاب میں انہوں نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کئے گئے خطبہ کے بعض حصوں کو دو مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیاہے ۔

8۔ المناقب؛ تالیف: احمد بن موسیٰ بن مردویہ اصفہانی

اس کتاب کے مؤلف کا انتقال سن 410ہجری میں ہوا ہے، سر دست یہ کتاب بھی مفقود ہے ۔اسعد بن شقروہ متوفی 635ہجری نے “الفائق ” نامی اپنی کتاب میں خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو ابن مردویہ کی المناقب سے نقل کیاہے ۔سر دست الفائق بھی موجود نہیں لیکن سید بن طاوؤس نے “الطرائف ” میں خطبہ کو الفائق سے نقل کیاہے ۔

9۔ نثر الدرر؛ تالیف: منصور بن حسین رازی

منصور بن حسین رازی، ابو سعد وزیر کے نام سے مشہور ہیں، شہر ری کے رہنے والے تھے، علمائے شیعہ میں ان کا شمار ہوتاہے، یہ پانچویں صدی ہجری کے علماء اور ادباء میں سے ہیں، کافی دنوں تک مجد الدولہ رستم بن فخر الدولہ کے وزیر رہے ۔ان کی تصانیف میں “نثر الدرر ” کافی نمایاں ہے جو سات جلدوں پر مشتمل ہے، البتہ یہ کتاب “نثر الدر ” کے نام سے شائع ہوئی اور اسی نام سے شہرت رکھتی ہے، اس کتاب میں خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا بیشتر حصہ موجود ہے۔

10۔ الشافی فی الامامۃ؛ تالیف: سید مرتضیؒ

علی بن الحسین موسوی معروف بہ سید مرتضی، برجستہ علمائے شیعہ میں سے ہیں، ان کی کتاب ” الشافی فی الامامۃ ” موضوع امامت سے مربوط احادیث و روایات پر مشتمل ہے۔ سید مرتضی ؒ نے خطبہ فدک کے بعض حصوں کو تین طریقوں سے اپنے استاد ابو عبداللہ مرزبانی سے نقل کیاہے ۔

11۔ دلائل الامامۃ؛ تالیف: محمد بن جریر طبری

یہ بات پیش نظر رہے کہ ایک محمد بن جریر طبری جو انتہائی مشہور ہیں اور تفسیر و تاریخ کے موضوع پر ان کی کتابیں ہیں، اکثر اوقات نام اور کنیت میں تشابہ کی بنا پر مذکورہ محمد بن جریر طبری سے اشتباہ ہوجاتا ہے حالانکہ یہ دونوں الگ الگ شخصیت کے مالک ہیں، اسی لئے دونوں میں تمیز پیدا کرنے کے لئے پہلے والے کو طبری کبیر اور دوسرے کو طبری صغیر کہاجاتاہے ۔

خطبہ فدک کا مفصل متن اسی کتاب میں مذکور ہے اور متن خطبہ کے سلسلے میں اکثر علمائے متاخر اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہیں ۔ طبری نے اس خطبہ کو نو (9) مختلف طرق سے سلسلہ سند کے ذکر کے ساتھ نقل کیاہے ۔

12۔ مقتل الحسین؛ تالیف: موفق بن احمد مکی

موفق بن احمد، خطیب خوارزمی کے نام سے مشہور ہیں، سن 568ہجری میں ان کا انتقال ہواہے، انہوں نے اپنی کتاب “مقتل الحسین ” میں خطبہ کے بعض حصے کو حضرت عائشہ سے نقل کیاہے ۔

13۔ الاحتجاج؛ تالیف: ابو منصور طبرسی

کتاب “الاحتجاج علی اھل للجاج “؛ علماء کے درمیان “الاحتجاج ” کے نام سے مشہور ہے ۔یہ عربی زبان میں ایک کلامی کتاب ہے، جس کے مؤلف ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی ہیں جن کا شمار چھٹی صدی ہجری کے علماء میں ہوتاہے۔ اس کتاب میں رسول اکرمؐ، ائمہ طاہرین ؑ اور بعض بزرگان دین کے ان احتجاجات و استدلالات کو جمع کیاگیاہے جو انہوں نے اپنے مخالفین سے کئے تھے ۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کی متعدد شرحین کی گئی ہیں اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔

علامہ طبرسی نے اس آفاقی خطبہ کو بطور کامل عبداللہ بن حسن سے نقل کیاہے ۔

14۔ منال الطالب فی شرح طوال الغرائب؛ تالیف: مبارک بن محمد الجزری

مبارک بن محمد جزری، ابن اثیر کے نام سے مشہور ہیں، سن 606ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ ابن اثیر نے متذکرہ کتاب میں شہزادی کے خطبہ کو بطور مفصل الفاظ و لغات کی تشریح و توضیح کے ہمراہ مرسل طریقہ سے جناب زینب کبریٰ سے نقل کیاہے، جس فصل میں یہ خطبہ نقل کیاہے اس کا نام “احادیث الصحابیات “ہے۔

15۔تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر مناقب الائمۃ؛ تالیف: سبط ابن الجوزی

نام ابو مظفر یوسف بن قزغلی بن عبداللہ ہے، سبط ابن جوزی حنفی کے نام سے مشہور ہیں، مذکورہ کتاب کو ائمہ اہل بیتؑ کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں تحریر کی ہے، ابن جوزی نے خطبہ کے بعض حصے کو بطور مرسل شعبی سے نقل کیاہے، تقریباً سن 654 ہجری میں انتقال ہواہے ۔

16۔ شرح نہج البلاغہ؛ تالیف: ابن ابی الحدید معتزلی

اہل علم کے درمیان ابن ابی الحدید معتزلی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، انہوں نے امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ کی انتہائی مبسوط شرح کی ہے جسے علمی حلقہ میں کافی مقبولیت حاصل ہے، علماء اس سے کافی استفادہ کرتے ہیں؛ انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں خطبہ فدک کو السقیفہ و فدک سے نقل کیاہے ۔

17۔ شرح نہج البلاغہ، تالیف: علی بن میثم بحرانی

ابن میثم بحرانی (متوفی 679ہجری) نے خطبہ کے بعض حصے کو اپنی کتاب میں سند کے بغیر نقل کیاہے ۔

18۔ کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ؛ تالیف: علی بن عیسیٰ اربلی

علامہ ابو الحسن علی بن عیسیٰ بن ابو الفتح اربلی، برجستہ علمائے شیعہ میں ان کا شمار ہوتاہے؛ انہوں نے بھی اس خطبہ کو السقیفہ و فدک سے نقل کیاہے ۔

ب: خطبہ کے اسناد

اس خطبہ کے 25/اسناد پائے جاتے ہیں جنہیں مذکورہ بالا کتابوں میں ملاحظہ کیاجاسکتاہے؛ ان اسناد کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں:

پہلی سند:

قال احمد بن طیفور: حدثنی جعفر بن محمد رجل من دیار مصر لقیتہ بالرافقہ، قال: حدثنی ابی، قال: اخبرنا موسیٰ بن عیسیٰ، قال اخبرنی عبداللہ بن یونس، قال: اخبرناجعفر الاحمر، عن زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ، عن عمتہ زینب بنت الحسین قالت:…۔

دوسری سند:

قال احمد بن طیفور: ذکرت لابی الحسین زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کلام فاطمۃ …فقال لی:…رواہ مشایخ الشیعۃ و تدارسوہ بینم وقد حدث بہ الحسن بن علوان، عن عطیہ العوفی انہ سمع عبداللہ بن الحسن یذکرہ عن ابیہ ۔

تیسری سند:

قال احمد بن طیفور: ذکرت لابی الحسین زید بن علی بن الحسین بن زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، کلام فاطمۃ عند منع ابی بکر ایاھا فدک…فقال لی: رایت آل ابی طالب یروونہ عن آبائھم و یعلمونہ ابنائھم وقد حدثنیہ ابی، عن جدی یبلغ عن فاطمۃ ھذہ الحکایۃ ۔

چوتھی سند:

قال ابن ابی الحدید: قال ابوبکر: حدثنی محمد بن زکریا، قال: حدثنی جعفر بن محمد بن عمارۃ الکندی، قال: حدثنی ابی، عن الحسین بن صالح بن حی، قال: حدثنی رجلان من بنی ھاشم، عن زینب بنت علی بن ابی طالب علیہ السلام۔

پانچویں سند:

قال ابن ابی الحدید: قال ابوبکر: و حدثنی احمد بن محمد بن یزید، عن عبداللہ بن محمد بن سلیمان عن ابیہ عن عبداللہ بن الحسن بن الحسن، قالواجمیعا:…۔

چھٹی سند:

قال ابن ابی الحدید: قال ابوبکر: و حدثنی عثمان بن عمران العجیعفی، عن نائل بن نجیح، عن عمرو بن شمر، عن جابر الجعفی، عن ابی جعفر محمد بن علی …. ۔

ساتویں سند:

قال ابن ابی الحدید: قال ابوبکر: حدثنی محمد بن زکریا، قال: حدثنی جعفر بن محمد بن عمارۃ الکندی، قال: حدثنی ابی، عن الحسین بن صالح بن حی، قال: جعفر بن محمد بن علی بن الحسین، عن ابیہ ؑ…۔

آٹھویں سند:

قال ابو جعفر الصدوق: روی عن اسماعیل بن مہران، عن احمد بن محمد بن جابر، عن زینب بنت علی علیہ السلام، قالت:…۔

نویں سند:

قال ابو جعفر الصدوق: اخبرنی علی بن حاتم، قال: حدثنا محمد بن اسلم، قال: حدثنی عبدالجلیل الباقلانی، قال: حدثنی الحسن بن موسیٰ الخشاب، حدثنی عبداللہ بن محمد العلوی، عن رجال من اھل بیتہ، عن زینب بنت علی، عن فاطمۃ …۔

دسویں سند:

قال ابو جعفر الصدوق: اخبرنی علی بن حاتم ایضاً، قال: حدثنی محمد بن ابی عمیر، قال: حدثنی محمد بن عمارہ، قال: حدثنی محمد بن ابراہیم المصری، قال: حدثنی ھارون بن یحیی الناشب، قال: حدثنا عبید اللہ بن موسیٰ العبسی، عن عبید اللہ بن موسیٰ العمری، عن حفص الاحمر، عن زید بن علی، عن عمتہ زینب بنت علی، عن فاطمۃ علیہا السلام…۔

گیارہویں سند:

قال السید بن طاووس: ما ذکرہ الشیخ اسعد بن سقروہ، فی الکتاب الفائق عن الاربعین، عن الشیخ المعظم عندھم الحافظ الثقۃ بینم، ابوبکر احمد بن موسیٰ بن مردویہ اصفہانی، فی کتاب المناقب، قال: اخبرنا اسحاق بن عبداللہ بن ابراہیم، قال: حدثنا احمد بن عبید بن ناصح النحوی، قال: حدثنا الزیادی محمد بن زیاد، قال: حدثنا شرقی بن قطامی، عن صالح بن کیسان عن الزھری، عن عروہ، عن عائشۃ انھا قالت:…۔

بارہویں سند:

قال السید المرتضی: اخبرنا ابو عبداللہ محمد بن عمران المرزبانی، قال: حدثنی محمد بن احمد الکاتب، حدثنا احمد بن عبید بن ناصح النحوی، قال: حدثنا الزیادی محمد بن زیاد، قال: حدثنا شرقی بن قطامی، عن صالح بن کیسان عن الزھری، عن عروہ، عن عائشۃ انھا قالت:…۔

تیرہویں سند:

قال السید المرتضی: اخبرنا ابو عبداللہ محمد بن عمران المرزبانی، قال: حدثنی علی بن ھارون، قال: اخبرنی عبداللہ بن احمد بن ابی طاھر، عن ابیہ، قال: ذکرت لابی الحسین زید بن علی بن الحسین بن زید بن علی بن الحسین بن زید بن علی کلام فاطمۃ …وقد حدث بہ الحسین بن علوان، عن عطیہ العوفی، انہ سمع عبداللہ بن الحسن یذکر عن ابیہ ھذا۔

چودہویں سند:

قال السید المرتضی: قال المرزبانی، وحدثنا ابوبکر احمد بن محمد الملکی، قال: حدثنا ابو العینا محمد بن القاسم السیمامی، قال: حدثنا ابن عائشۃ …۔

پندرہویں سند:

قال الخطیب الخوارزمی: و بھذا الاسناد (والاسناد ھکذا: اخبرنی شھاب الاسلام ابو النجیب سعد بن عبداللہ الھمدانی، فیما کتب الی من ھمدان اخبرنی الحافظ سلیمان بن ابراھیم فیما کتب الی من اصبھان سنۃ ثمان و ثمانین و اربعماۃ) عن الحافظ ابی بکر ھذا، اخبرنا عبداللہ بن اسحاق، اخبرنا محمد بن زیاد، اخبرنا شرقی بن قطامی، عن صالح بن کیسان، عن الزھری، عن عروۃ، عن عائشۃ، انھا قالت:…۔

سولہویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: حدثنی ابو الفضل محمد بن عبداللہ، قال: حدثنا ابو العباس احمد بن محمد بن سعید الھمدانی، قال: حدثنا احمد بن محمد بن عثمان بن سعید الھمدانی، قال: احمد بن محمد بن عثمان بن سعید الزیات، قال: حدثنا محمد بن الحسین القصبانی، قال: حدثنا احمد بن محمد بن ابی نصر البزنطی السکونی، عن ابانبن عثمان الاحمر، عن عکرمۃ عن ابن عباس، قال…۔

سترہویں سند:

قال ابوجعفر الطبری حدثنی القاضی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلد، قال: حدثنی ام الفضل خدیجہ بنت محمد ابن احمد بن ابی الثلج، قالت: حدثنا العباس بن بکار، قال: حدثنا حرب بن میمون، عن زید بن علی، عن آبائہ، قالوا…۔

اٹھارہویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: اخبرنی ابو الحسین محمدبن ھارون بن موسیٰ التلعکبری، قال: حدثنا ابی، قال ابو العباس احمد بن محمد بن سعید الھمدانی، قال: حدثنی محمد بن المفضل بن ابراھیم بن المفضل بن ابراھیم بن المفضل بن قیس الاشعری، قال: حدثنا علی بن حسان، عن عمہ عبد الرحمن بن کثیر، عن ابی عبداللہ جعفر بن محمدعلیہ السلام عن ابیہ، عن جدہ علی بن الحسین عن عمتہ زینب بنت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، قالت: …۔

انیسویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: قال ابو العباس: حدثنا محمد بن المفضل بن ابراھیم الاشعری، قال: حدثنی ابی، قال: حدثنا احمد بن محمد بن عمرو بن عثمان الجعفی، قال: حدثنی ابی، عن جعفر بن محمد عن ابیہ، عن جدہ علی بن الحسین، عن عمتہ زینب بنت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام …۔

بیسویں سند:

قال ابوجعفر الطبری حدثنی القاضی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلدبن جعفر بن مخلد بن سہل بن حمران الدقاق، قال: حدثتنی ام الفضل خدیجہ بنت محمد بن احمد بن ابی الثلج، قالت: حدثنا ابوعبداللہ محمد بن احمد الصفوانی، قال: حدثنا ابو احمد عبدالعزیز بن یحیی الجلودی البصری، قال: حدثنا محمد بن زکریا، قال: حدثنا جعفر (بن محمد) بن عمارہ کندی، قال: حدثنی ابی، عن الحسن بن صالح بن حی قال: و مارات عینای مثلہ حدثنی رجلان من بنی ھاشم، عن زینب بنت علی علیہا السلام، قالت …۔

اکیسویں سند:

قال ابوجعفر الطبری: حدثنی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلد، قال: حدثنی ام الفضل خدیجہ بنت محمد، قالت: قال الصفوانی: حدثنی محمد بن محمد بن یزید مولی بنی ھاشم، قال: حدثنی عبداللہ بن محمد بن سلیمان، عن عبداللہ بن الحسن بن الحسن، عن جماعۃ من اھل …. ۔

بائیسویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: حدثنی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلد، قال: حدثنی ام الفضل خدیجۃ بنت محمد قالت: قال الصفوانی: حدثنی ابی، عن عثمان قال: حدثنا نائل بن نجیع، عن عمرو بن شمر، عن جابر الجعفی، عن ابی جعفر محمد بن علی الباقر علیہ السلام …. ۔

تئیسویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: حدثنی القاضی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلد بن جعفر بن حمران الدقاق، قال: حدثتنی ام الفضل خدیجہ بنت محمد بن احمد بن ابی الثلج، قالت: حدثنا ابوعبداللہ محمد بن احمد الصفوانی، قال: حدثنا ابن عائشۃ …۔

چوبیسویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: حدثنی القاضی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلد بن جعفر بن سھل بن حمران الدقاق، قال: حدثتنی خدیجۃ بنت محمد بن احمد بن ابی الثلج، قالت: حدثنا ابو عبداللہ محمد بن احمد الصفوانی، قال: حدثنا عبداللہ بن الضحاک، قال: حدثنا ھشام بن محمد، عن ابیہ …. ۔

پچیسویں سند:

قال ابو جعفر الطبری: حدثنی القاضی ابو اسحاق ابراھیم بن مخلد بن جعفر بن حمران الدقاق، قال: حدثتنی ام الفضل خدیجہ بنت محمد بن احمد بن ابی الثلج، قالت: حدثنا ابوعبداللہ محمد بن احمد الصفوانی، قال: حدثنا عبداللہ بن الضحاک، قال: حدثنا ھشام بن محمد، عن عوان…. ۔

ج: رواۃ خطبہ فدک کے طبقات

قابل غور بات یہ ہے کہ 92/ راویوں نے پچیس مختلف طرق سے اس خطبہ کو نقل کیاہے جن کی مندرجہ ذیل اعتبار سے طبقہ بندی کی جاسکتی ہے:

پہلا طبقہ:

1۔ حسین بن علی بن ابی طالب (متوفی 60ہجری)

2۔ زینب بن علی بن ابی طالب (متوفی 62ہجری)

3۔ عبداللہ بن عباس (متوفی 68ہجری)

4۔ عائشہ بنت ابی بکر (متوفی 58ہجری)

دوسرا طبقہ:

1۔ امام سجاد علیہ السلام (متوفی 95ہجری)

2۔ حسن بن حسن بن علی (متوفی 97ہجری)؛ امام حسن مجتبی علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ہیں۔

3۔ زینب بنت الحسین؛ حسن بن حسن کی زوجہ؛

4۔ عکرمہ بن عبداللہ بن موسیٰ بن عباس (متوفی 104ہجری)

5۔ عروہ بن زبیر بن عوام (متوفی 93ہجری)

تیسرا طبقہ:

1۔ امام محمد باقر علیہ السلام (متوفی 114ہجری)

2۔ جابر بن یزید جعفی (متوفی 128ہجری)  امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔

3۔زید بن علی بن حسین، معروف بہ زید شہید (متوفی 121ہجری)

4۔ عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی، معروف بہ عطیہ عوفی (متوفی 111ہجری)

5۔ عبدالرحمن بن کثیر ہاشمی (متوفی 120ہجری)

6۔ محمد بن مسلم بن عبید اللہ، معروف بہ زہری (متوفی 124ہجری)

7۔ صالح بن کیسان (متوفی 140ہجری)

چوتھا طبقہ:

1۔ امام صادق علیہ السلام (متوفی 148ہجری)

2۔ عبداللہ بن حسن بن حسن (متوفی 45ہجری)

3۔ ابان بن تغلب (متوفی 141ہجری)

4۔ عبداللہ بن محمد علوی (متوفی 145ہجری)

5۔ محمد بن سائب کلبی (متوفی 146ہجری)

6۔ الشرقی بن قطامی (متوفی 158ہجری)

7۔ محمد بن اسحاق بن یسار، صاحب المغازی (متوفی 151ہجری)

8۔ عوانہ بن الحکم بن عیاض، ابو الحکم (متوفی 158ہجری)

9۔ عمرو بن شمر بن یزید الجعفی (160 ہجری میں زندہ تھے)

10۔ حرب بن میمون انصاری، ابو خطاب بصری (متوفی 160 ہجری)

11۔ حسن بن صالح بن حی (متوفی 168ہجری)

پانچواں طبقہ:

1۔ ابان بن عثمان الاحمر (متوفی 182ہجری)

2۔ حسین بن زید بن علی (متوفی 190ہجری)

3۔ جعفر بن زیاد الاحمر (متوفی 175ہجری)

4۔ عبید اللہ بن موسیٰ عمری (متوفی 175ہجری)

5۔ موسیٰ بن عیسیٰ العباس ہاشمی (متوفی 183ہجری)

6۔ حسین بن علوان الکبی (متوفی 2ہجری)

7۔ علی بن حسان بن کثیر ہاشمی؛

8۔ محمد بن عمرو بن عثمان الجعفی (متوفی 2ہجری)

9۔ عبداللہ بن یونس؛

10۔ نائل بن نجیع، ابو سہل بصری؛

چھٹا طبقہ:

1۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی (متوفی 221ہجری)

2۔ محمد بن ابی عمیر (متوفی 217ہجری)

3۔ اسماعیل بن مہران (متوفی 220ہجری)

4۔ محمد بن عمارہ؛

5۔ عباس بن بکار ضبی (متوفی 222ہجری)

6۔ عبید اللہ بن محمد، معروف بہ ابن عائشہ (متوفی 228ہجری)

7۔ عبید اللہ بن موسیٰ عبسی (متوفی 221ہجری)

8۔ عبداللہ بن ضحاک (متوفی 206ہجری)

9۔ محمد بن حسین قصبانی (متوفی 221ہجری)

10۔ محمد بن زیاد زیادی (تیسری صدی ہجری)

11۔ محمد بن سلیمان؛

12۔ ہشام بن محمد (متوفی 206ہجری)

ساتواں طبقہ:

1۔ حسن بن موسیٰ خشاب (متوفی 260ہجری)

2۔ محمد بن خالد برقی؛

3۔ یحیی بن حسین بن زید (متوفی 237ہجری)

4۔ محمدبن اسلم (متوفی 270ہجری)

5۔ زید بن علی بن حسین بن زید (متوفی 270ہجری)

6۔ جعفر بن محمد بن عمارہ؛

7۔ عبدالجلیل باقلانی؛

8۔ جعفر بن محمد (متوفی 250ہجری)

9۔ مفضل بن ابراہیم اشعری؛

10۔ عثمان بن عمران عجیفی؛

آٹھواں طبقہ:

1۔ احمد بن ابی عبداللہ برقی (متوفی 274ہجری)

2۔ احمد بن عبید بن ناصح نحوی (متوفی 273ہجری)

3۔ محمد بن مفضل بن ابراہیم اشعری؛

4۔ محمد بن زکریا بصری (متوفی 298ہجری)

5۔ احمد بن ابی طاہر، معروف بن ابن طیفور (متوفی 280ہجری)

6۔ عبداللہ بن محمد بن سلیمان؛

7۔ محمد بن قاسم سیمامی (متوفی 282ہجری)

8۔ سلیمان بن ابراہیم (متوفی 288ہجری)

9۔ احمد بن محمد بن عثمان بن سعید الزیات؛

نواں طبقہ:

1۔ علی بن حسین سعدآبادی؛

2۔ محمد بن احمد بن محمد کاتب (متوفی 322ہجری)

3۔ محمد بن موسیٰ بن متوکل (310ہجری میں زندہ تھے)

4۔ احمد بن عبدالعزیز جوہری (متوفی 323ہجری)

5۔ احمد بن محمد مکی (متوفی 322ہجری)

6۔ احمد بن محمد بن یزید، مولی بنی ہاشم (متوفی 307ہجری)

7۔ احمد بن عبداللہ بن قضاعہ صفوانی (چوتھی صدی ہجری)

دسواں طبقہ:

1۔ عبدالعزیز بن یحیی جلودی (متوفی 332ہجری)

2۔ احمد بن محمد بن سعید ہمدانی، معروف بہ ابن عقدہ (متوفی 332ہجری)

3۔ عبداللہ بن اسحاق (متوفی 349ہجری)

4۔ محمد بن احمد صفوانی (متوفی 352ہجری)

5۔ علی بن الحسین، معروف بہ ابو الفرج اصفہانی (متوفی 356ہجری)

6۔ علی بن ہارون بن علی بن یحیی (متوفی 352ہجری)

7۔ علی بن ابی سہل، حاتم بن ابی حاتم قزوینی (متوفی 305ہجری)

8۔ عبداللہ بن احمد بن طیفور (متوفی 352ہجری)

گیارہواں طبقہ:

1۔ علی بن الحسین معروف بہ شیخ صدوق (متوفی 381ہجری)

2۔ ہارون بن موسیٰ بن احمد بن ابراہیم بن سعید، ابو محمد شیبانی (متوفی 385ہجری)

3۔ محمد بن عمران بن موسیٰ، معروف بہ کاتب بغدادی (متوفی 384ہجری)

4۔ محمد بن ہارون بن موسیٰ بن احمد (متوفی 385ہجری)

5۔ محمد بن عبداللہ شیبانی (متوفی 387ہجری)

6۔ خدیجہ بنت محمد بن احمد بن ابی الثلج (ام الفضل)

یہ تھی خطبہ فدک کے منابع ومآخذ، اسناد و مدارک اور طبقات رواۃ کی اجمالی فہرست؛ ایک مصنف مزاج جب اس خطبہ کے متعدد طرق اور کثرت سند کو ملاحظہ کرے گا تو اسے یہ یقین کرنا پڑے گا کہ یہ خطبہ سند کے اعتبار سے متواتر ہے اور اس کے اعتبار میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button