
فہرست مندرجات
تمہید
قدیم ترین اسلامی تاریخ مغازی ابن اسحاق اور اس کی تلخیص سیرت ابن ہشام دوسری اور تیسری صدی ہجری میں لکھی گئیں۔ اس کے بعد تاریخ طبری تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی۔
یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قدیم اسلامی تاریخیں حدیث کا ایک شعبہ تھیں اور حدیث ہی کی طرح ان میں مندرج ہربیان راویوں کے سلسلے اسناد کے ساتھ لکھا جاتا تھا، اور تدوین حدیث پر جو حالات گذرے ان کا پورا اثر تاریخ کی تدوین پر بھی پڑا کیونکہ ہیئت اور مواد کے اعتبار سے حدیث اور تاریخ میں کوئی فرق نہ تھا۔ خلیفہ اول اور خلیفہ دوم حدیث کی کتابت سے روکتے تھے اور حدیث بیان کرنے پر بھی پابندی لگادی گئی تھی۔ معاویہ نے اپنے دور حکومت میں حدیثیں گڑھنے اور روایتیں وضع کرنے کے لئے ایک باضابطہ ادارہ قائم کیا تھا جو ہماری اطلاع کے مطابق دنیا کا پہلا حکومتی پروپیگنڈا ڈیپارٹمنٹ تھا۔ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ حضرات شیخین کی فضیلت میں جھوٹی حدیثیں رائج کی جائیں۔ بنی امیہ کو قریش کا معزز ترین خاندان اور رسولؐ کا اصلی قرابت دار ظاہر کیا جائے اور امیرالمومنین علیؑ ابن ابی طالب ؑ اور ان کے اسلاف و اخلاف کی طرف ہر طرح کی برائیوں دھڑلے سے منسوب کی جائیں۔ جو لوگ ایسی حدیثیں گڑھتے تھے انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ دربار میں ان کی منزلت بڑھائی جاتی تھی اور وہ خلفاء و حکام کے مقربین میں شامل کئے جاتے تھے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی تھی۔ اس مختصر مقالے میں اس تاریک دور کی تصویرکشی ممکن نہیں ہے۔ جو لوگ تفصیل جاننا چاہتے ہیں وہ ابوالحسن علی ابن المدائنی کی “کتاب الاحداث ” کو دیکھیں یا ابن ابی الحدید معتزلی کی “شرح نہج البلاغہ “(طبع مصر) کی گیارہویں جلد کا مطالعہ کریں۔
اہل بیت رسولؐ کی تنقیص و تحقیر اور مخالفین کی تائید و تعظیم کا یہ سلسلہ نوے (90) برس سے زیادہ عرصہ تک چلتا رہا۔اس عرصے میں کئی نسلیں ایسی گذر گئیں جو بنی امیہ ہی کو اہل بیت رسولؐ سمجھتی تھیں اور علی ابن ابی طالبؑ پر جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں لعنت کو سنت رسولؐ سمجھ کر حرز جان بنائے ہوئے تھیں۔
یہاں ضمنا یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ بنی امیہ حضرت علیؑ کو چوتھا خلیفہ بھی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کے نظریہ کے مطابق امیرالمومنینؑ نے چار یا پانچ سال تک خلافت پر معاذ اللہ غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا۔ امام احمد بن حنبل (متوفی ۲۴۱ ھ) کے دور تک یہی عقیدہ رائج تھا اور وہ بھی اسی عقیدہ کے قائل تھے لیکن آخر میں ان کا اعتقاد بدل گیا اور وہ حضرت علیؑ کو چوتھا “خلیفہ راشد ” کہنے لگے جس پر عام علماء اہل سنت نے ان پر اعتراضات کی بھر مار کردی ۔
تقریبا ڈیڑھ سو سال کے پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں جعلی حدیثیں عالم اسلام میں پھیل گئیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ امیرالمومنین علیؑ ابن ابی طالبؑ نے بخوشی ٔ خاطر شیخین کی خلافت کو تسلیم کرلیا تھا اور ان کی بیعت کرلی تھی۔ نیز یہ کہ حضرات خلفاء حضرت علیؑ سے امور خلافت میں مشورے لیتے تھے اور ایک وفادار رعایا کی طرح شیخین کے تمام اقدامات کے موئد تھے۔ ایسی حدیثیں بھی وضع کی گئیں جن سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ حضرت رسول مقبولؐ اور حضرات ائمہ معصومینؑ غلطیوں اور خطاؤں کے معاذ اللہ مرتکب ہوتے تھے۔ ایسی حدیثوں سے دو فائدے حاصل ہوتے تھے؛ ایک تو ان حضرات کی عصمت پر بٹہ لگتا تھا اور اس کے علاوہ خلفاء بنی امیہ کی بدکرداریوں، فحاشیوں اور فسق و فجور سے بھری ہوئی زندگیوں کے لئے ایک وجۂ جواز نکل آتی تھی کہ جب رسولؐ جیسا معصوم بھی لغزشوں سےمحفوظ نہ رہ سکا تو ان غیر معصوم خلفاء کی بدعنوانیوں پر اعتراض کیسا؟ یہ تھا ابتدائی صدیوں میں اسلامی دنیا کا مزاج۔ یہی وہ وقت تھا جب حدیث اور تاریخ کی کتابیں مرتب کی جانے لگیں۔ ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں زیادہ تر ویسی ہی حدیثیں اور روایتیں جگہ پاسکیں جو کہ عام مسلمانوں میں قبولیت عام کی سند حاصل ہوچکی تھی۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی تاریخ معرض وجود میں آئی جس سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ اہل بیت رسولؐ اور خلفاء میں کامل اتحاد و یگانگت تھی، حضرت علیؑ نے شیخین کی بیعت کرلی تھی اور رائے مشوروں میں شریک رہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں میں باہم ایسی محبت تھی کہ حضرت علیؑ نے اپنی بیٹی کا عقد حضرت عمر ابن خطاب سے کردیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
میں نے ایران میں اپنی متعدد تقریروں میں فخر کےساتھ یہ بات کہی ہے کہ تاریخی معاملات کو صحیح طریقے سے جانچنے پرکھنے کا کام صرف ہندو پاک کے علمائے اعلام نے گذشتہ سو برس میں انجام دیا ہے اور کھوٹے کھرے کی پہچان کرادی ہے۔ جب کہ یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ایران و عراق و لبنان وغیرہ کے علمائے کرام آج بھی آنکھیں بند کرکے طبری وغیرہ کے بیانات کو حرف آخر سمجھ کر اپنی کتابوں میں درج کرتے رہتےہیں۔
انکار بیعت
اس مقالے میں مجھے صرف اس بات پر روشنی ڈالنی ہے کہ کیا امیرالمومنینؑ نے حضرات شیخین کی بیعت کرلی تھی؟
حضرات اہل سنت کی حدیثیں اور تاریخیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ جب تک سیدہؑ زندہ رہیں انہوں نے حضرت علیؑ کو ابوبکر کی بیعت نہ کرنے دی ۔ چھ مہینے بعد جب جناب سیدہ ؑکی وفات (شہادت) ہوگئی اور لوگوں کی نظر میں حضرت علیؑ کی پہلے جیسی عزت نہ رہ گئی تو آپؑنے ابوبکر کی بیعت کرلی۔
لیکن ہمیں تاریخ میں دو ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن سے اس مفروضے کی تردید ہوتی ہے:
دلیل اول
پہلا موقع وہ ہے جب حضرت عمر نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کمیٹی ترتیب دی جسے اسلامی تاریخ “شوریٰ ” کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں حضرت علیؑ، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف شامل تھے۔ خلیفہ کا انتخاب ان کے باہمی مشورے پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے درمیان میں سے ایک خلیفہ منتخب کرلیں۔ یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ اگر ان میں سے پانچ افراد ایک شخص پر متفق ہوجائیں اور چھٹا مخالف ہو تو اسے قتل کردیا جائے ۔ اگر چار افراد ایک پر متفق ہوں اور دو مخالف تو ان دو کا سر کاٹ دیا جائے۔اگر تین تین کے دو گروپ ہوجائیں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہوں اس کی بات مانی جائے گی اور دوسرے تین اس پر راضی نہ ہوں تو ان تینوں کو قتل کردیاجائے گا۔
یہاں یہ بات بیان کردینا ضروری ہے کہ عبدالرحمن بن عوف، عثمان کے بہنوئی تھے اور سعد ابن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف ایک ہی خاندان، بنی مخزوم سے تھے اور ایک دوسرے کے ابن عم تھے۔ عرب کے قبائلی تعصب کو دیکھتے ہوئے یہ سوچا بھی جاسکتا تھآ کہ سعد، عبدالرحمن کی مخالفت کریں گے یا عبدالرحمن، عثمان کو نظر انداز کردیں گے۔ اس طرح عثمان کے قبضے میں تین ووٹ پہلے سے موجود تھے، جن میں عبدالرحمن بن عوف کا فیصلہ کن ووٹ بھی شامل تھا۔ اب رہے طلحہ تو وہ ابوبکر کے خاندان بنی تیم سے تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ کے بعد بنی ہاشم اور بنی تیم میں سخت عداوت چلی آرہی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ حضرت علیؑ نے جنگ بدر میں طلحہ کے چچا عمیر بن عثمان اور طلحہ کے دو بھائیوں عثمان اور مالک کو قتل کیا تھا۔ لہذا طلحہ کے لئے حضرت علیؑ کی حمایت ناممکن تھی۔ اسی لئے اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد حضرت علیؑ نے اپنے چچا عباس سے کہہ دیا تھا کہ اس بار بھی یہ امر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ۔
بہرحال شوریٰ کے طریقۂ کار اور اس کے اثرات پر اس طرح غور کرنے کے بعد جو کچھ شوریٰ میں ہوا، اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ابتداء میں طلحہ نے عثمان کی حمایت میں اپنا نام واپس لے لیا، تب زبیر حضرت علیؑ کے حق میں دستبردار ہوگئے اور سعدابن ابی وقاص نے عبدالرحمن بن عوف کی حمایت میں دست برداری اختیار کی۔ عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ اگر مجھے خلیفہ بنانے کا اختیار دے دیا جائے تو میں بھی خلافت کی امیدواری سے دست کش ہوجاؤں گا۔اس طرح اب مقابلہ حضرت علیؑ اور عثمان کے درمیان رہا۔ دو دن تک حضرت علیؑ نے اپنے حق کے اثبات کے لئے مسلسل ایسے دلائل دیئے کہ سب لاجواب ہوگئے اور جو اصل منصوبہ تھا کہ عثمان کو خلافت مل جائے وہ ناکام ہوتا نظر آرہا تھا۔ شب کے وقت عبدالرحمن بن عوف، عمروعاص کے پاس گئے اور صورت حال کی نزاکت بیان کی عمروعاص نے یہ مشورہ دیا کہ کل صبح تم علیؑ کو اس شرط پر خلافت پیش کرو کہ وہ “کتاب خدا، سنت رسولؐ اور سیرت شیخین پر عمل کریں گے “۔ علیؑ سیرت شیخین کو قبول نہیں کریں گے، اس وقت تم عثمان کے سامنے یہی شرط رکھنا اور وہ یقینا قبول کرلیں گے تو تم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلینا۔ عبدالرحمن بن عوف نے تشویش ظاہر کی اگر علیؑ نے یہ شرطیں قبول کرلیں تو کیا ہوگا؟ عمروعاص نے کہا کہ علیؑ سیرت شیخین کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
تیسرے دن یہی ہوا حضرت علیؑ نے سیرت شیخین کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ تب عثمان کے سامنے یہی شرطیں رکھی گئیں اور انہوں نے قبول کرلی اور خلیفہ بنا دیئے گئے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمرو عاص کو کیوں یہ یقین تھا کہ علیؑ سیرت شیخین کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اور اگر حضرت علیؑ نے ان دونوں حضرات کی بیعت کرلی تھی تو پھر ان کی سیرت کے اتنے مخالف کیوں تھے کہ ہاتھ آئی خلافت کو ٹھوکر ماردی؟ مزید برآں اگر اس جلسے میں نہیں تو کم از کم بعد میں کسی نے حضرت علیؑ سے کیوں نہیں کہا کہ آپؑ تو ابوبکر و عمر کی بیعت کرچکے تھے تو پھر ان کی سیرت پر چلنے سے انکار کیوں کیا۔
ان سوالات پر اگر تعصب کو کنارے رکھ کرغور کیا جائے تو صاف ظاہر ہوجائےگا کہ حضرت علیؑ نے ان حضرات کی بیعت نہیں کی تھی اور نہ ان کی سیرت کو پسند کرتے تھے۔
دلیل دوم
عمر ابن سعد نے امام حسینؑ سے (کربلا میں) ملاقات کے بعد ابن زیاد کو خط لکھا کہ حسینؑ اس پر آمادہ ہیں کہ مدینہ واپس چلے جائیں یاکسی سرحدی علاقہ میں جاکر ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کریں یا یزید کے پاس جاکر اس کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اس کے فیصلے کو قبول کرلیں (یہ تیسری بات عمر سعد نے اپنی طرف سے بڑھائی تھی اور تاریخی شواہد اس کی تردید کرتے ہیں) ۔ابن زیاد یہ خط پڑھ کر خوش ہوا اور اپنی منظوری لکھنا چاہتا تھا کہ شمر نے اس کو بھڑکا دیا اور یہ کہا کہ “حسینؑ اگر تیرے علاقہ سے تیرے ہاتھ پر بیعت کئے بغیر نکل گئے تو ان کی طاقت اور بڑھ جائے گی اور تیری طاقت پر ضرب لگے گی “۔ بہرحال ابن زیاد نے عمر سعد کی تجویزیں مسترد کردیں اور لکھا کہ “میں نے تجھے حسینؑ سے صلح کرنے کے لئے یا مجھ سے ان کی سفارش کرنے کے لئے نہیں بھیجا ہے، اگر حسینؑ اور ان کے ساتھی میرے حکم پر راضی ہوں تو انہیں میرے پاس بھیج دے ورنہ ان سے جنگ کرکے ان کو قتل کردے اور بعد از قتل حسینؑ کی لاش کو گھوڑوں سے پامال کردے اور اگر اس حکم کی تعمیل تجھے منظور نہ ہو تو ہمارے کام سے الگ ہوجا اور لشکر کو شمر کے حوالے کردے کہ ہم نے اس کو یہ اختیار دے دیا ہے “(مقتل الحسین المقرم، ج 1، ص 208 بحواله ابن اثیر، ج 4، ص 23) ۔
جب یہ خط شمر کے ہاتھ سے عمرسعد کو ملا تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ شمر کی چال بازی کا نتیجہ ہے۔ اس نے شمر سے غصہ میں کہا کہ “گمان کرتا ہوں کہ تونے ابن زیاد کو میری بات ماننے سے روکا ہے اور میں جو معاملات سلجھانا چاہتا تھا تو نے ان کو بگاڑ دیا ہے (اور مطالبہ بیعت کے بارے میں کہا): «والله لا يستسلم حسين فانّ نفس أبيه بين جنبَيه» خداکی قسم! حسینؑ کبھی اطاعت قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان کے سینے میں ان کے باپ کا دل دھڑک رہا ہے (مقتل الحسین المقرم، ج 1، ص 208 بحواله ابن اثیر، ج 6، ص 236؛ انساب الاشراف بلاذری، ق ۱، ج ۱، الارشاد مفید، ص ۸۹ ۔ حیاۃ الامام الحسینّ باقرشریف قرشی، ج ۳، ص ۱۳۳) ۔
اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ نہ تو حضرت علیؑ نے کسی کی بیعت کی تھی اور نہ حسینؑ کسی کی بیعت کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت علیؑ نے بیعت کرلی تھی تو شمر نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ جب علیؑ نے بیعت کرلی تھی تو حسینؑ کیوں انکار کریں گے۔ اس گفتگو سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سنہ ۶۱ ہجری کے محرم تک دوست و دشمن ہر ایک کو یہ بات معلوم تھی کہ حضرت علیؑ بیعت نہیں کی تھی۔
واضح رہے کہ عمر سعد کا یہ جملہ خود اس کے خط میں مندرجہ تیسری شق کی نفی کرتا ہے جو اس نے ابن زیاد کو لکھا تھا کہ حسینؑ راضی ہیں کہ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ اب شمر سے مباحثہ کے وقت بے اختیارانہ اصل بات اس کے منہ سے نکل آئی کہ حسینؑ کبھی اطاعت نہیں کریں گے۔
دلیل سوم
آئیے اب اس قصے پر نظر ڈالیں جس کا ذکر بیعت کے سلسلے میں اوپر کیا گیا ہے ۔ اس قصے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ ؑ نے نہ خود ابوبکر و عمر کی بیعت کی، نہ اپنے شوہر کو بیعت کرنے دی ۔ حضرت سیدہ ؑ کے فضائل و مناقب اسلام کے ہر فرقے کے عقیدے کا جزو ہیں، وہ رسول ؐکا ٹکڑا اور سیدہ نساء العالمین ؑہیں اور سیدہ نساء اہل جنت ہیں۔ پھر بھی انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہ کی جبکہ رسولؐ کا یہ ارشاد ہے کہ: «مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلیة»؛ جو اپنے امام زمانہ کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرتا ہے۔ (الاقبال بالاعمال الحسنه سید بن طاووس، ج ۲، ص ۲۵۲؛ کمال الدین شیخ صدوق، ج ۲، ص ۴۱۰؛ شرح مقاصدتفتازانی، ج ۵، ص ۲۳۹؛ ينابيع المودة قندوزی، ج ۳، ص ۴۵۶) ۔
ذرا سوچئے کہ جناب سیدہؑ اپنے زمانے کے امام کو پہچانتی تھیں یا نہیں اور اگر ابوبکر امام زمانہ تھے تو ان کی بیعت سے انکار کے بعد وہ سیدہ نساء اہل جنت کیسے بن سکتی ہیں؟ لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت سیدہؑ کی نظر میں امیرالمومنین علیؑ ابن ابی طالبؑ امام زمانہ تھے اور انہیں کو اپنا امام مانتی تھیں اور اسی لئے وہ اہل جنت کی عورتوں کی سردار بنیں۔ اگر بعد وفات رسولؐ حضرت علیؑ امام تھے تو بعد وفات جناب سیدہؑ وہ اس امامت سے معزول کیسے ہوجائیں گے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق علیؑ اور فاطمہؑ دونوں معصوم تھے اور دونوں نے چھ مہینے تک ابوبکر کی بیعت نہ کی یعنی ان کی نگاہ میں ابوبکر کی خلافت کی کوئی اصلیت یا حقیقت نہ تھی اور ان کی بیعت سے انکار کرکے ہی یہ حضراتؑ راہ حق پر گامزن رہ سکتے تھے۔ اگر بیعت ابوبکر سے انکار حق تھا تو چھ مہینے بعد بیعت کرلینا کیسے حق ہوسکتا ہے؟ اور اگر بیعت کرنا حق تھا تو جناب سیدہؑ نے پوری زندگی اس حق کی مخالفت کیوں کی اور حضرت علیؑ چھ مہینے تک اس حق سے کیوں رو گرداں رہے؟
آخر میں ایک بات واضح کردینی ضروری ہے کہ بیعت نہ کرنا ایک بات ہے اور مشورہ طلب کرنے پر صحیح مشورہ دینا الگ بات ہے اور مخالف ہوتے ہوئے بھی جنگ نہ کرنا ایک تیسری بات ہے۔
اوپر یہ دکھایا جاچکا کہ حضرت علیؑ نے بیعت ہرگز نہیں کی، رہی یہ بات کہ جب مختلف مواقع پر مشورے طلب کئے گئے تو حضرت علیؑ صحیح مشورے کیوں دیئے؟ اس کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ آنحضرت ؐ کا ارشاد ہے کہ: “المستشارُ مؤتَمَنٌ “؛”جس سے مشورہ طلب کیاجائے وہ امین ہے “(منتهي السؤول، عبد الله عبادى، ج 2، ص 25) ۔ یعنی اسے صحیح مشورہ دینا چاہئے۔ علاوہ بریں وہ مشورے ملت اسلامیہ کی مفاد کے پیش نظر دیئے جاتے تھے کہ بحیثیت امام برحق حضرت امیرالمومنینؑ کا یہی فریضہ تھا کہ وہ ان مفادات کی حفاظت کریں۔
اب رہی جنگ نہ کرنے کی بات تو اس کے متعلق زید بن خالد نے امام جعفرصادقؑ سے پوچھا تھاکہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر حضرت علیؑ کا حق تھا تو انہوں نے جنگ کیوں نہ کی۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ مددگاروں کی معتد بہ تعداد کے بغیر جہاد کرنے کا حکم صرف ایک ذات کو دیا گیا تھا یعنی حضرت رسالتمآب کو کہ اگر تمہارا کوئی بھی معین و ناصر نہ ہو تو تن تنہا جہاد کے لئے نکلو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: «فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّه لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ…»(نساء، آیت ۸۴)؛”پس خدا کی راہ میں جنگ کرو تم پر اپنے نفس کے علاوہ کسی کی ذمہ داری نہیں ہے…”۔
لیکن دوسرے لوگوں کے لئے اللہ یہ ارشاد فرماتا ہے: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ» (انفال، آیت ۱۶) اور اس شخص کے سوا جو لڑائی میں ادھر ادھر مڑےیا کسی جماعت کے پاس جاکر موقع تلاش کرے اور جو شخص بھی اس دن ان کفار کی طرف سے اپنی پیٹھ پھیرے گا وہ یقینا خدا کے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور وہ (کیا) برا ٹھکانہ ہے “۔
اس کے بعد امام ؑ نے فرمایا: حضرت علیؑ کے پاس کوئی ایسی جماعت نہیں تھی جو اس میں ان کی مدد کرتی۔ لہذا حضرت علیؑ پر جنگ کرنا واجب نہیں تھا اور ان کے پاس کوئی گروہ ہوتا تو ضرور جنگ کرتے (تفسیر العیاشی، طبع تہران، ج ۲، ص ۵ ۔ تفسیر المیزان، ج ۵، ص ۲۵) ۔
نوٹ
واضح رہے کہ رئیس المبلغین مذکورہ مضمون کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس مضمون کو نومبر ۱۹۹۵ ء میں اپنے ایک دوست مقیم ٹورنٹو (کناڈا) کی فرمائش پر تحریر فرمایا تھا۔ مضمون کو فیکس کرنے کے بعد اپنے فرزند ارجمند حجۃ الاسلام سید محمد رضوی (سلمہ اللہ تعالیٰ) کے متوجہ کرنے پر معلوم ہوا ہے شیخ مفید (علیہ الرحمۃ) کا بھی یہی اعتقاد تھاکہ حضرت علیؑ نے ابوبکر کی بیعت کبھی نہیں کی جیسا کہ شریف مرتضی علم الہدی نے الفصول المختار من العیون و المحاسن (ص ۵۶-۵۷) میں لکھا ہے۔ اس حوالہ کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ شیخ مفید (علیہ الرحمۃ) کا استدلال میری تیسری دلیل سے ملتا جلتا ہے جسے آنجناب نے منطقی تشریح و تحلیل کے ذریعہ واضح کیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی اس توفیق کا شکر کیسے ادا کروں کہ میری فکر و نظر کو اسی نہج پر گامزن رکھا جو شیخ مفید (علیہ الرحمۃ) جیسے معلم الامۃ کا منہج تھا۔