
وحدت اسلامی کی ضرورت اور اس کے آثار و فوائد
تحریر: مولانا سید تعلیم رضا جعفری- متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ قم۔
فہرست مندرجات
قرآن مجید میں آپسی اتحاد کی تاکید اور ضرورت:
احادیث میں آپسی اتحاد کی تاکید اور ضرورت:
مقدمہ
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ؑ کی ولادت کے نورانی ایام تمام مسلمانوں کے لئے بہترین اور خوشگوارترین ایام ہیں۔ان دنوں میں آپسی بھائی چارے اور اتحاد کے لئے سال بھر سے زیادہ کوششیں کرنا چاہئے، وحدت کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرنا چاہئے خاص طور پر میلاد النبی ؐ کے موقع پر تمام مسلمانوں کو ایک ہوکر اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ دشمن اپنے غلط اور برے مقاصد کو انجام دینے سے باز آسکے ۔
خداپرستوں کے لئے اتحاد آج کی اہم ضرورت ہے۔ ہم مختلف اور الگ الگ ہوکر بھی اپنے خدا، قرآن، رسولؐ، کعبہ، ایمان، کلمہ، اسلام اور اہل بیتؑ کے نام پر آپسی اتحاد کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
اتحاد قرآن و اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے ، ہمارے پیارے نبی ؐ کی رسالت کے اہم اہداف میں سے ہے ، ہمارے نبی ؐ نے کئی سو سالوں کے دشمنوں کے دلوں میں سب سے پہلے اتحاد، الفت اور محبت کا بیج ہی بویا تھا اوران کی آپسی دشمنی ، کینہ و حسد کو خشک کردیا تھا؛ جس کا تذکرہ قرآن مجید بھی فرما رہا ہے:
«وَ اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا وَ اُذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْواناً وَ كُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اَللّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ»؛ اور سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور ہرگز متفرق نہ ہونا اور خدا کی اُس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ”۔ (آلعمران۱۰۳)۔
قرآن مجید جس نے ہمارے نبیؐ کی سیرت اور آپ کے کردار کی پابندی کا حکم دیا ہے اور آپ کی سیرت کو بہترین نمونہ عمل بیان فرمایا ہے: «لَقَد كانَ لَكُم في رَسولِ اللّه ِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ»؛یعنی یقینی طورپر تم لوگوں کے لئے رسول خداؐ کی سیرت کی پیروی کرنا بہترین نمونۂ زندگی ہے (سورہ احزاب،آیت۲۱)۔ اس آیت کی روشنی میں اتحاد و اتفاق رکھنا اور آپسی اختلافات سے دور رہ کرزندگی گزارنا ہی اپنے نبیؐ کے سچے اور حقیقی پیروکار کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ خود قرآن مجید نے اور ہمارے نبیؐ اور دیگر معصوم اماموں نے اتحاد و اتفاق کی کئی بار تاکید فرمائی ہے۔
قرآن مجید میں آپسی اتحاد کی تاکید اور ضرورت:
قرآن مجید اور ہمارے پیارے نبیؐ کی تعلیمات اور ہمارے اماموںؑ کی سیرت یہی کہتی ہے کہ تمام مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہئے ۔ اسلام اور قرآن کے بنیادی قوانین کو نگاہ میں رکھتے ہوئے کسی کو بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف و دشمنی کے بیج بونے اجازت نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال کبھی کبھی سامنے آتا ہے کہ اگر سامنے والا ہی اتحاد و بھائی چارے کے خلاف کام کرتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : ایسے حالات میں بھی ہمیں اتحاد و بھائی چارہ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے ، سماج کے چند دشمن عناصر یا دشمنوں کے ہاتھوں بکے ہوئے لوگوں کی حرکتوں کا ہمیں مقابلہ کرنا چاہئے اور قرآن و تعلیمات اسلام پر ہمیں عمل کرنا چاہئےچاہے کوئی اورعمل کرے یا نہ کرے، ہمارا دین دیکھا دیکھی کا دین نہیں ہے۔
یہاں اتحاد کے حوالے سے چند اہم آیات و احادیث کو پیش کیاجارہے ہے جن سے اتحاد کی تاکید اور ضرورت ، طریقے، فوائد و آثار کو بیان کیا گیا ہے:
(۱) قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ»؛”ایمان والو! تم سب خدا کے سامنے تسلیم رہو(صلح و آشتی اختیارکرو) اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے”(بقرہ، آیت۲۰۸)۔
(۲) اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: «وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللَّهِ جَمِيعاً و لاتَفَرَّقُوا»؛”اور سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور ہرگز متفرق نہ ہونا” (آل عمران، آیت۱۰۳)۔
(۳) مزید قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ»؛”اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب عظیم ہے”(آل عمران، آیت۱۰۵)۔
(۴) اسی طرح قرآن مجید مومنوں کو آپسی بھائی چارے کی دعوت کے ساتھ فرماتا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ»؛مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔ (حجرات، آیت۱۰)۔
(۵) اسی طرح قرآن مجید وحدت امت اور خدائے واحد کی طرف یوں دعوت دیتا ہے کہ: «وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ»۔ اور تمہارا سب کا دین ایک دین ہے اور میں ہی سب کا پروردگار ہوں لہذا بس مجھ سے ڈرو۔ (مومنون، آیت۵۲)۔
(۶) اسی طرح دوسرے مقام پر مسلمانوں کو متحد رہنے اور اہل کتاب کے اختلاف کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے کہ: «إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ» “بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کیا کرو اور ان لوگوں(اہل کتاب) نے تو اپنے دین کو بھی آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا ہے حالانکہ یہ سب پلٹ کر ہماری ہی بارگاہ میں آنے والے ہیں۔
(۷) اسی طرح قرآن مجید فرماتا ہے: «وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ»؛ “اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمہاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”(انفال، آیت۴۶)۔
(۸) اتحاد اور آپسی الفت و محبت کا ایجاد کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے لہذا انسان کو اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ خدا کی بارگاہ میں اس سلسلے میں دعا کرتے رہنا چاہئے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: «وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ»؛”اور ان کے دلوں میں محبّت پیدا کردی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کردیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت نہیں پیدا کرسکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت و محبّت پیدا کردی ہے کہ وہ ہر شے پر غالب اور صاحب حکمت ہے”۔
احادیث میں آپسی اتحاد کی تاکید اور ضرورت:
(۱) نبی اکرم ؐ نے قرآن اور اہل بیتؑ کو امت اسلامی کے اتحاد و انسجام اور گمراہی سے حفاظت کا بہترین ذریعہ اورمحور قرار دیا اور فرمایا ہے کہ: «اِنِّی تَارِک فِیکمُ الثَّقَلَینِ مَا إِنْ تَمَسَّکتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا کتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَیتِی وَ إِنَّهُمَا لَنْ یفْتَرِقَا حَتَّى یرِدَا عَلَی الْحَوْضَ فَانْظُرُوا کیفَ تَخْلُفُونِّی فِیهِمَا أَلَا هذا عَذْبٌ فُراتٌ فَاشْرَبُوا وَ هذا مِلْحٌ أُجاجٌ فَاجْتَنِبُوا»( الارشاد فی معرفة حجج الله على العباد، شیخ مفید، ج۱، ص۲۳۳)یعنی میں تمہارے درمیان دو اہم اور قیمتی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم ان دونوں سے متمسک رہوگے تو کبھی گمراہی اور اختلاف میں مبتلا نہیں ہوؤگےاوروہ کتاب خدا اور میری عترت میرے اہل بیتؑ ہیں اور یہ دونوں کبھی آپس میں جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے مل جائیں گے لہذا میرے بعد دھیان رکھنا کہ تم لوگ ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک و برتاؤ کرتے ہواور یاد رکھنا یہ خوشگواراور میٹھےپانی کی مانند ہے لہذا ان فائدہ اٹھاؤ اور ان کے مقابل میں آنے والے کھارے اور کڑوے پانی کی مانند ہے لہذا اس سے دور رہو۔
(یاد رہے کہ یہ حدیث فریقین کی کتب میں مختلف الفاظ سے نقل ہوئی ہےتفصیل کے لئے مراجعہ فرمائیں: عيون اخبار الرضا(ع)، شیخ صدوق ، ج ۲ ،ص ۶۲ ۔ كمال الدين ، شیخ صدوق ج ۱ ص ۲۳۴ ۔ الامالي شیخ طوسي ، ص ۵۴۵ ۔بحار الانوار، علامه مجلسی، ج ۲۳، ص ۱۴۵)۔
(۲) اسی طرح نبی اکرمؐ نے اپنے اہل بیت ؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: «… فأنتم «اهل البیت» أهل الله عزوجل الذین بهم تمت النعمة و اجتمعت الفرقة و ائتلفت الکلمة»یعنی اے میرے اہل بیتؑ تم آل اللہ ہو۔خدا نے تمہاری بدولت اپنی نعمت کو مکمل فرمایا اور لوگوں کو اختلافات اور فرقہ پرستی سے دوررہنے کا وسیلہ بنایا اور اور تم ہی حضرات کے ذریعہ وحدت کلمہ کا ظہور ہوا ہے(الکافی شیخ کلینی، ج۱، ص۴۴۶)۔
(۳) نبی اکرم ؐامت مسلمہ کے آپس میں متحد رہنے کے طریقے کو اس طرح بیان فرمایا کہ: «اسْمَعُوا و أطِيعُوا لِمَنْ وَلاّهُ اللّه ُ الأمْرَ، فإنَّهُ نِظامُ الإسلامِ» یعنی جس کو خدا نے ولی امر بنایا ہے اس کی باتوں کو سنو اور اس کی اطاعت کرو اس لئے کہ وہی اسلام کا نظام (امت اسلامی کو متحد رکھنے والا)ہے(الامالی شیخ مفید، ج۲، ص۱۴)۔
(۴) نبی اکرم ؐ نے اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: «أيُّهَا النّاسُ! عَلَيكُم بِالجَماعَةِ و إيّاكُم و الفُرقَةَ»؛ “اے لوگو! آپس میں متحد رہو اور ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ رہو”(میزان الحکمۃ، حدیث نمبر۲۴۳۴)۔
(۵) اسی طرح آنحضرتؐ، اختلاف و تفرقہ کے خطرناک نقصان کا ذکر یوں فرماتے ہیں: «عَلَيكَ بِالجَماعَةِ؛ فَإنَّما يأكُلُ الذِّئبُ القاصِيَةَ»؛ جماعت کے ساتھ رہو، اس لئے کہ جھنڈ سے الگ ہوجانے والے بھیڑ کو بھیڑیا کھا جاتا ہے (مسند احمد، ج۶، ص۴۴۶)۔
(۶) نبی اکرم ؐاتحاد کے فائدہ اور تفرقہ کے نقصان کو یوں بیان فرماتے ہیں: «الجَماعَةُ رَحمَةٌ و الفُرقَةُ عَذابٌ»؛ “آپسی اتحاد، رحمت کا باعث ہے اور اختلاف و تفرقہ عذاب کا سبب ہے”(کنز العمال، ح۲۰۲۴۲)۔
(۷) نبی اکرمؐ مزید فرماتے ہیں: «يَدُاللَّهِ عَلَي الجَماعَةِ و الشَّيطانُ مَعَ مَن خالَفَ الجَماعَةَ يَركُضُ»؛ “خدا کا ہاتھ(ساتھ) متحد قوم کے ساتھ ہے، اور شیطان اس کے ساتھ ہے جو قومی اتحاد سے دوری بنائے رکھتا ہے”(کنزالعمال، ح۱۰۳۱)۔
(۸) پیغمبراکرمؐ نے فرمایا کہ: «المؤمنونَ إخْوَةٌ، تَتَكافى دِماؤهُم، وَ هُمْ يَدٌ على مَن سِواهُم، يَسْعى بذِمّتِهم أدناهُم»؛یعنی مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں، ان کا خون برابر ہے اور وہ دوسروں (دشمنوں) کے سامنے متحد ہوتے ہیں، ان میں سے سب سے کمزور بھی دوسرے کی حفاظت کرسکتا ہے (امالی مفید، ص۱۸۷، ح۱۳)۔
(۹) پیغمبراکرمؐ کی حدیث نقل کرتے ہوئے حضرت امام علیؑ فرماتے ہیں: «إِصْلاَحُ ذَاتِ اَلْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلاَةِ وَ الصَّوْمِ»؛ یعنی لوگوں کے آپسی جھگڑوں کو ختم کرنا تمام نمازوں اور روزوں سے افضل کام ہے۔ (امالی شیخ طوسی، ج۱، ص۵۲۲)
(۱۰) حضرت رسول خداؐ نے فرمایا کہ: «خَيْرُ المُؤْمِنِينَ مَنْ كَانَ مَأْلَفَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، وَلَا خَيْرَ فِيْمَنْ لَا يُؤلَفُ وَلَا يَألَفُ» یعنی مومنین میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے مومنین کے لئےالفت و محبت کا مرکز ہو اور اس شخص میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہوتی ہے جو دوسروں سےانس و محبت نہیں رکھتاہے(بحارالانوار، ج۷۱، ص۳۹۳)۔
(۱۱) حضرت امام علیؑ نے بھی اختلافات میں گرفتار لوگوں کو شیطان کا لقمہ بتایا ہے جیسا کہ فرمایا: «و الْزَموا السَّوادَ الأعْظَمَ، فإنَّ يَدَ اللّه ِ مَع الجَماعةِ، و إيّاكُم و الفُرْقَةَ ، فإنَّ الشّاذَّ مِن النّاسِ للشَّيطانِ، كما أنّ الشّاذَّ مِن الغَنَمِ للذِّئبِ»یعنی دینداروں کی اکثریت کے ساتھ رہو اس لئے کہ خدا جماعت کے ساتھ ہے اور اختلافات سے دوری رکھو اس لئے کہ جماعت سے دور ہونے والا شخص شیطان کا لقمہ ہوجاتا ہے جس طرح بھیڑوں کے جھنڈ سے جدا ہوجانے والی بھیڑ، بھیڑیے کا شکار ہوجاتی ہے(نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۷)۔
(۱۲) حضرت امام علیؑ نے ایک مقام پر بعض مفتیوں اور قاضیوں کی طرف سے اختلافی اور متضاد مسائل اور احکام کے بیان کرنے اور ان سب کوصحیح اور حکم الہی قرار دینے کی مذمت فرمائی اور اس طرح کے اختلافات سے بچنے اور قرآن سے متمسک رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ: «… إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَ نَبِیُّهُمْ وَاحِدٌ وَ کِتَابُهُمْ وَاحِدٌ أَفَأَمَرَهُمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالِاخْتِلَافِ فَأَطَاعُوهُ أَمْ نَهَاهُمْ عَنْهُ فَعَصَوْهُ أَمْ أَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ دِیناً نَاقِصاً فَاسْتَعَانَ بِهِمْ عَلَی إِتْمَامِهِ اَمْ کَانُوا شُرَکَاءَ لَهُ فَلَهُمْ اَنْ یُقُولُوا وَ عَلَیْهِ اَنْ یَرْضَی أَمْ أَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ دِیناً تَامّاً فَقَصَّرَ الرَّسُولُ صلی الله علیه و آله عَنْ تَبْلِیغِهِ وَ أَدَائِهِ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ یَقُولُ «مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیءٍ»۔ یعنی “ان سب(مسلمانوں، ان کے علماء اور مفتیوں) کا خدا ایک ہے، ان سب کا پیغمبرؐ ایک ہے، ان سب کی کتاب ایک ہے تو کیا خدا نے ان کو آپسی اختلاف کا حکم دیا ہے جس کی انہوں نے اطاعت کی ہے؟ یاخدا نے ان کو اختلاف سے دور رہنے کا حکم دیا ہے لیکن انہوں نے نافرمانی کی ہے؟ یا یہ کہ خداسبحانہ تعالیٰ نے ناقص دین بھیجا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے ان علماء اور قاضیوں سے مدد مانگی ہے؟ یا یہ لوگ خدا کے شریک ہیں جو احکام دینی کے نام سے کچھ بھی بیان کردیتے ہیں اور خدا ان پر راضی ہوجاتا ہے، قبول کرلیتا ہے؟ یا یہ کہ خدائے سبحانہ تعالیٰ نے کامل دین بھیجا ہے لیکن (معاذاللہ) پیغمبرؐ نے اس کو لوگوں تک پہنچانے میں کوتاہی کی ہےجبکہ خداوندعالم فرماتا ہے کہ:”ہم نے قرآن میں کسی بھی چیز کو بغیر بیان کئے نہیں چھوڑا ہے(سوره انعام، آیت۳۸)”۔(نہج البلاغہ، خطبہ۱۸)۔ یقینی طور پر امام علیؑ نے دین و احکام کے بارے میں جاہلوں کے آراء اور ان کے نظریات کے دور رہنےپر تاکید فرمائی ہے اور قرآن کی طرف رجوع کرنے اور واقعی طورپر قرآن سے تمام احکام و معارف کو حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو امت اسلامی کو اختلافات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جاہلوں نے جتنا اسلام اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا ہے وہ کسی نے نہیں پہنچایا ہے۔
(۱۳) حضرت امام علیؑ نے قرآن سے رہنمائی حاصل نہ کرنےاور اپنے نظریات کو قرآن پر تھوپنے کو اختلاف کا اہم سبب بیان فرمایا ہے:«اجْتَمَعَ القَومُ على الفُرقَةِ و افْتَرَقوا على الجَماعَةِ، كأنَّهُم أئمَّةُ الكِتابِ و لَيس الكِتابُ إمامَهُم» یعنی ان لوگوں(مسلمانوں) نے آپسی اختلافات اور جدائی پر کمر کس لی گویا یہ قرآن کے رہنما ہوگئے اور کتاب خدا ان کی رہنما نہیں ہے(نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷)۔
(۱۴) اسی طرح امام علیؑ نے جاہلوں کو آپسی اتحاد کو تار تار کرنے والےعناصر میں سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:«لَوسَكَتَ الجاهِلُ مَااختَلَفَ النّاسُ»؛ اگر جاہل و نادان لوگ خاموشی اختیار کرلیتے تو لوگ اختلافات میں گرفتار نہ ہوتے (بحارالانوار، ج۷۸، ص۸۱)۔
(۱۵) امام على ؑ امت کے اختلافات میں شیطان کے کردار کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ: «إنَّ الشَّيطانَ يُسَنّي لَكُم طُرُقَهُ، و يُريدُ أنْ يَحُلَّ دِينَكُم عُقْدةً عُقْدةً ، و يُعْطيَكُم بالجَماعةِ الفُرقَةَ و بالفُرقَةِ الفِتْنَةَ، فاصْدِفوا عن نَزَغاتِهِ و نَفَثاتِهِ» یعنی “بیشک شیطان نے اپنے راستوں کو تمہارے لئے آسان کردیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کے ایک ایک حصہ تو ختم کرنا چاہتا ہے اور تمہارے اتحاد و آپسی میل جول کی جگہ اختلافات کو رائج کرنا چاہتا ہےاور اختلاف کے نتیجے وہ فتنہ و فساد برپا کرنا چاہتا ہے لہذا شیطان کے وسوسوں اور اس کے جھانسوں سے دور رہو”(نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۱)۔
(۱۶) امام علی ؑ آپسی روابط کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ: «عَلَيكُم بِالتَّواصُلِ وَالتَّباذُلِ و إيّاكُم و التَّدابُرَ والتَّقاطُعَ»؛ تمہارے لئے ضروری ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھو، ایک دوسرے کے لئے خرچ کرو اور ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے اور ایک دوسرے کو پشت دکھانے سے پرہیز کرو۔(نہج البلاغہ، نامہ۴۷)۔
(۱۷) اسی طرح امام علیؑ آپسی اتحاد اور دین خدا کی پابندی کے سلسلے میں فرماتے ہیں:«لِيَرْدَعْكُمُ الإسلامُ و وَقارُهُ عنِ التَّباغي و التَّهاذي، و لتَجْتَمِعْ كَلِمَتُكُم، و الْزَموا دِينَ اللّه ِ الّذي لا يَقْبَلُ مِن أحَدٍ غَيْرَهُ، و كَلِمَةَ الإخْلاصِ الّتي هِي قِوامُ الدِّينِ» یعنی تم سب پر لازم ہے کہ اسلام اور اس کی متانت کی وجہ سے تم ایک دوسرے کے خلاف دشمنی رکھنے اور برا بولنے سے باز رہو اور ضروری ہے کہ تم آپس میں متحد رہو اور خدا کے دین کی مضبوطی سے پابندی کرو اس لئے کہ خدا کے نزدیک کوئی دوسرا مذہب قابل قبول نہیں ہے اور کلمۂ اخلاص دین کا نچوڑ ہے(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۴، ص۴۵)۔
(۱۸) حضرت امام علیؑ آپسی اختلاف کے نقصان اور اتحاد کی ضرورت کے بارےمیں فرماتے ہیں: «إيّاكُم و التَّلَوُّنَ في دِينِ اللّهِ، فإنَّ جَماعَةً فيما تَكْرَهونَ مِن الحقِّ خَيرٌ مِن فُرقَةٍ فيما تُحِبّونَ مِن الباطِلِ، و إنّ اللّه َ سُبحانَهُ لَم يُعْطِ أحَدا بفُرقَةٍ خَيرا، مِمّن مَضى و لا مِمّن بَقِي» یعنی “خدا کے دین کے سلسلے میں مختلف رنگوں میں بٹنے (اختلاف پیدا کرنے) سے بچو!اس لئے کہ حق کے بارے میں متحد رہنا چاہے وہ تمہیں ناپسندہو، باطل کے بارے میں متحد رہنے سے بہتر ہے چاہے وہ باطل تمہیں پسند ہی کیوں نہ ہو۔ خداوندعالم نے اختلاف اور آپسی جدائی کی وجہ سے کسی کوبھی گذشتہ زمانے میں خیر و بھلائی نہیں دی ہے اور نہ ہی آئندہ اس میں خیر و بھلائی رکھی ہے”(نہج البلاغہ، خطبہ۱۷۶)۔
(۱۹) حضرت امام علیؑ فرماتے ہیں: «فَرَضَ اللَّهُ … وَ الْأَمَانَةَ (الْإِمَامَةِ) نِظَاماً لِلْأُمَّةِ، وَ الطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلْإِمَامَةِ»؛ اللہ تعالیٰ نے امامت کو لوگوں کے درمیان نظم و انتظام کے لئے اور امام کی اطاعت کواس کی تعظیم اور عظمت کے لئے واجب قرار دیا ہے (نهج البلاغه، حکمت ۲۵۲)۔
(۲۰) حضرت امام علیؑ فرماتے ہیں: «مَكانُ القَيِّمِ بالأمْرِ مَكانُ النِّظامِ مِنَ الخَرَزِ، يَجْمَعُهُ و يَضُمُّهُ، فإنِ انقَطَعَ النِّظامُ تَفَرَّقَ و ذَهَبَ، ثُمَّ لَم يَجْتَمِعْ بِحَذافيرِهِ أبَدا»؛ “ولی امراور سرپرست ایک تار کی طرح ہے جو موتیوں کو جمع کرتا ہے اور انہیں آپس میں جوڑتا ہے۔ اگر وہ تار ٹوٹ جائے تو موتیوں کی مالا ایک دوسرے سے الگ ہو کر بکھر جائیں گی اور دوبارہ کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے(نہج البلاغہ، خطبہ۴۶)۔
(۲۱) حضرت امام علیؑ، مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: «إنَّما أنتُم إخْوانٌ على دِينِ اللّه ِ، ما فَرّقَ بَينَكُم إلاّ خُبْثُ السَّرائرِ، و سُوءُ الضَّمائرِ، فلا تَوَازَرونَ (تأزِرون) و لا تَنَاصَحونَ، و لا تَبَاذَلونَ و لا تَوَادّونَ» یعنی “اے مسلمانو! تم ایک دوسرے کے دینی بھائی ہو اور جس چیز نے تمہارے درمیان اختلاف پیدا کیا ہے وہ شریرباطن اور برا ضمیرہے۔ اسی لئے تم ایک دوسرےکا بوجھ نہیں اٹھاتے اور ایک دوسرے کی بھلائی نہیں چاہتے ہو، ایک دوسرے کی مالی مدد نہیں کرتے اور آپس میں دوستی نہیں رکھتے ہو”(نہج البلاغہ، خطبہ۱۱۳)۔
(۲۲) حضرت فاطمہ زہراؑ نے فرمایا کہ: «فَجَعَلَ اللّه ُ… إطاعَتَنا نِظاما لِلمِلَّةِ و إمامَتَنا أمانا لِلفُرقَةِ»؛ “اللہ تعالیٰ نے ہم اہل بیتؑ کی اطاعت کو امت کے لئے نظام اور ہماری رہبری اور امامت کو اختلاف سے بچنے کا ذریعہ اور جہاد کو اسلام کے لئے عزّت و سربلندی کا وسیلہ بنایا ہے”(الاحتجاج، ج۱، ص۱۳۴؛کشف الغمہ، ج۲، ص۱۰۹)۔
(۲۳) حضرت امام حسنؑ فرماتے ہیں: «إنَّهُ لَم يَجْتَمِعْ قَومٌ قَطُّ على أمرٍ واحِدٍ إلاّ اشْتَدَّ أمْرُهُم و اسْتَحْكَمَتْ عُقْدَتُهُم…» یعنی کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کوئی گروہ اور قوم کسی کام میں متحد و متفق ہوئی ہو اور اس کام میں استحکام پیدا نہ ہوا ہو اوران کے روابط محکم نہ ہوئے ہوں۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۸۵)۔
(۲۴) حضرت امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ: «…يامَعْشَرَ الْمُؤْمِنينَ تَأَلَّفُوا وَتَعاطَفُوا»یعنی اے مومنو! آپس میں مانوس و متحد رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کیا کرو(الکافی، ج۲، ص۳۴۵)۔
(۲۵) حضرت امام محمد باقرؑ نے فرمایا: «إنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ الْمُؤْمِنينَ مِنْ طينَةِ الْجِنانِ وَأجْرى فيهِمْ مِنْ ريحِ رُوحِهِ فَلِذلِكَ الْمُؤْمِنُ أخُو الْمُؤْمِنِ لِأبيهِ وَأُمِّهِ فَإذا أصابَ رُوحا مِنْ تِلْكَ الْأرْواحِ فى بَلَدٍ مِنَ الْبُلْدانِ حُزْنٌ، حَزِنَتْ هذِهِ لِأنَّها مِنها»؛ خداوندمتعال نے مومنوں کو جنت کی مٹی سے پیدا کیا ہے اور اپنی روح ان کے اندر پھونکی ہے اسی لئے مومن آپس میں بھائی اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں لہذا جب بھی ان میں سے کسی کو بھی کسی دوسرے شہر میں کوئی غم و تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا غم و تکلیف کا احساس کرتا ہے (الکافی، ج۲، ص ۱۶۶)
(۲۶) حضرت امام جعفرصادقؑ، اتحاد اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے پر اس طرح زور دیتے ہیں کہ: «تَواصَلوا و تَبارُّوا و تَراحَموا و كُونُوا إخوَةً بَرَرَةً كَما أمَرَ كُمُ اللّهُ» یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل ملاپ کے ساتھ رہو، ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرو، ایک دوسرے پر رحم کرو اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو حکم دیا ہے(الکافی، ج۲، ص۱۷۵)۔
(۲۷) حضرت امام صادق ؑفرماتے ہیں کہ: «صَدَقةٌ يُحِبُّها اللّهُ: إصلاحٌ بينَ الناسِ إذا تَفاسَدُوا، و تَقارُبٌ بَينَهِم إذا تَباعَدُوا» یعنی فساد و اختلاف کے وقت لوگوں کے درمیان وحدت اور اصلاح کا کام کرنا اورجدائی کے وقت لوگوں کو نزدیک کرنا ایسا صدقہ ہے جس کو اللہ پسند کرتاہے (الکافی، ج۱، ص۲۰۹)
(۲۸) بعض حدیثوں میں بیان کیا گیا ہےکہ امت کا اختلاف رحمت ہے؛جیسا کہ پیغمبراکرمؐ نے بھی فرمایا ہے: «اِخْتِلافُ اُمّتي رَحمَةٌ» (کنزالعمال، حدیث نمبر۲۸۶۸۶)۔ اس طرح کی حدیثوں کی بنیاد پر بعض جاہل اور خودغرض افراد کہنے لگتے ہیں کہ جب اختلاف رحمت ہے تو مسلمانوں کو آپس میں متحد اور ہماہنگی کے ساتھ رکھنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ؟
مذکورہ اعتراض کا جواب خود معصومینؑ کی جانب سے بھی دیا گیاہے جیسا کہ ایک راوی عبدالمومن انصاری کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفرصادقؑ سے عرض کیا کہ بعض لوگوں نے پیغمبراکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایا:«اِخْتِلافُ اُمّتي رَحمَةٌ»؛”میری امت کا اختلاف رحمت ہے” تو آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: لوگوں نے صحیح روایت کو نقل کیا ہے۔ عرض کیا: اس کا مطلب جب امت کا اختلاف رحمت ہے تو ان کا اتحاد اور ہماہنگی عذاب ہے؟ امام نے فرمایا: حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے جو تم نے اور لوگوں نے سمجھا ہے۔ بلکہ پیغمبرؐ کی حدیث کا مطلب وہی ہے جو خدا نے آیت میں بیان فرمایا ہےکہ: «فلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ»(سورہ توبہ، آیت۱۲۲) یعنی ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں حرکت کرتی تاکہ دین کی فہم و تعلیمات حاصل کرے۔ اس آیت میں لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہر طرف سے لوگوں کو چاہئے کہ وہ الگ الگ گروہ کی شکل میں پیغمبرؐ کے پاس آئیں تاکہ دین کی باتوں کو سیکھیں اوردوبارہ پلٹ کر اپنی قوم کو بھی دین کی تعلیم دے: «إنّما أرادَ اخْتِلافَهُم مِن البُلْدانِ، لا اخْتِلافا في دِينِ اللّهِ، إنّما الدِّينُ واحِدٌ»؛ یہاں اختلاف الگ الگ شہروں اور علاقوں سے آنا ہے۔ دین کے بارے میں اختلاف مراد نہیں ہے ، اللہ کا دین تو ایک ہی ہے (معانی الاخبار، ص۱۵۷)۔
(۲۹) بعض حدیثوں اور تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ کہ خود ائمہ معصومینؑ نے بعض دینی امور کے سلسلے میں اختلاف پیدا کیا گیا ہے یعنی ظاہری طور پر ایک ہی سوال پر الگ الگ جواب دیا ہے۔
اس مسئلہ کے سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہےکہ ایسے موارد بہت ہی کم پیش آئے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ایسے موارد میں جوبھی اختلاف پیدا کیا گیا ہے اور ایک سوال کے الگ الگ جواب دیئے گئے ہیں وہ حالات کے پیش نظر تھے مثا ل کے طور پر حضرت امام کاظمؑ سے آپ کے اصحاب کے بعض دینی مسائل میں آپسی اختلاف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؑنے فرمایا: «أنا فَعَلتُ ذلكَ بكُم، لوِ اجْتَمَعْتُم على أمرٍ واحِدٍ لاُخِذَ برِقابِكُم»؛میں نے خود اس اختلاف کو ان کے درمیان پیدا کیا ہےاگر وہ ایک ہی امر میں متفق ہوتے تو ان کی گردنوں کو کاٹ دیا جاتا(بحارالانوار، ج۲۳، ص۲۳۶، ح۲)۔
(۳۰) مسلمانوں اورمومنین کے آپسی اتحاد اور ہم آہنگی کے سلسلے میں متعددحدیثوں “جماعت” کا لفظ آیا ہے کہ اہل جماعت کو متحد رہنا چاہئے وغیرہ، یہاں سوال ہوتا ہے کہ جماعت سے کون مراد ہے؟ اس سلسلے میں متعدد دعوے کئے جاتے ہیں اور خصوصا کثرت اور تعداد کی بنیاد پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جن کی تعداد زیادہ ہے وہی جماعت ہے لیکن حدیثوں کے مطابق جماعت سے مراد وہ افراد ہیں جو اہل حق ہیں، اہل باطل کے مقابلے میں ہیں۔ جیسا کہ خود پیغمبر اکرمؐ جب سوال کیا گیا کہ آپؐ کی امت میں جماعت کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: «… جَماعَةُ اُمَّتي أهلُ الحقِّ و إنْ قَلُّوا»؛ “میری امت میں جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جوحق کے پیروکارہیں چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو”(معانی الاخبار، ص۱۵۴)۔
(۳۱) اسی طرح حضرت امام علیؑ نےبھی فرمایا ہے کہ: «الجَماعَةُ أهلُ الحقِّ و إنْ كانوا قَليلاً و الفُرقَةُ أهلُ الباطِلِ و إنْ كانوا كَثيرا» یعنی جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جوحق کے پیروکار ہیں چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو اور اختلاف اور جدائی کرنے والوں سے مراد وہ ہیں جو باطل کی پیروی کرتے ہیں چاہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو(معانی الاخبار، ص۱۵۴)۔
(۳۲) اسی طرح دوسری ایک حدیث میں فرمایا کہ: «أمّا أهلُ الجَماعَةِ فأنا و مَنِ اتَّبعَني و إنْ قَلُّوا، و ذلكَ الحقُّ عَن أمرِ اللّهِ و أمرِ رسولِهِ، فأمّا أهلُ الفُرقَةِ فالمُخالِفونَ لِي و مَنِ اتَّبعَني و إنْ كَثُروا»یعنی جماعت سے مراد میں ہوں اور وہ لوگ ہیں جو میری پیروی اور اطاعت کرتے ہیں چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو اور یہی حق ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے آیاہےلیکن اہل اختلاف وہ لوگ ہیں جو میرے مخالف ہیں اور میرے پیروکاروں کے مخالف ہیں چاہے ان کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو(کنزالعمال، ح۴۴۲۱۶)۔
نتیجہ
مذکورہ حدیثوں کی روشنی میں بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اہل حق کبھی بھی اختلاف پیدا کرنے والے نہیں ہوسکتے ہیں۔ اختلاف پیدا کرنے والے وہی ہیں جو باطل کے پیروکار ہیں۔
پیروان حق جو حدیثوں کی روشنی میں عاشقانِ محمدؐ و آل محمدؑ کے عنوان سے بھی پہچنوائے گئے ہیں، انہوں ہمیشہ ہی سے انسانیت اور اسلام کے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ دشمنوں کے مقابلے میں متحد رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے شخصی اور آپسی مسائل کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اللہ، رسولؐ اور آل محمدؑ کے دشمنوں سے سازش نہیں کی اور دشمنوں کے سے ہر طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور آج عصر حاضر میں بھی اس کی مثالیں دنیا میں رونما ہورہے واقعات اور حوادث میں مل جاتی ہیں کہ کون ہے جو قرآن اور محمدؐ و آل محمدؑ کی تعلیمات کی روشنی میں دشمنوں سے مقابلہ کر رہا ہے اور کون ہے جو دشمنوں کی سازشوں میں گرفتار ہوکر نہ صرف اپنے دینی بھائیوں کے مقابلے میں کھڑا ہے بلکہ دشمنوں کا بھی ساتھ دے رہا ہے۔ اور دنیا میں انسانیت پر ہورہے مظالم و مصائب پر خاموش ہے۔ اوردینی بھائیوں کی مدد کے بجائے دشمنوں کی مدد کررہا ہے۔
- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سچائی کے ساتھ عاشق محمدؐ و آل محمدؑ بناکر قرآن اور ان معصوم حضراتؑ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنادے اور تمام طرح کے دشمنوں کے شرّ سے محفوظ رکھے اور مظلومان عالَم کی مدد و نصرت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین یارب العالمین۔