علامه رضوی(ره)علامہ رضوی(ره) کے قلمی آثار

مسلمانوں کے شہر میں پیغمبر(ص) کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ (س) کی قبر کو کیوں چھپانا پڑا؟

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی مرحوم کی زبانی

مسلمانوں کے شہر میں پیغمبر(ص) کی اکلوتی بیٹی

حضرت فاطمہ (س) کی قبر کو کیوں چھپانا پڑا؟

نوٹ: مندرجہ ذیل تحریر ایام فاطمیہ(س) میں مرحوم علامہ رضوی کی ایک تقریر سے اقتباس ہے:

 جناب سیدہ(س) کی قبر کے بارے میں دو طرح کی روایتیں ملتی ہیں؛  ایک میں یہ کہ دفن کرنے کے بعد۔ امیرالمومنین (ع)نے جہاں بھی دفن کیا وہاں سات جگہوں پر نئی قبروں کا نشان بنایا اور ایک روایت میں ہے کہ جنت البقیع میں چالیس جگہوں پر نئی قبروں کا نشان بنا دیا تھا کہ پتہ نہ چل سکے کہ جناب سیدہ(س)کہاں دفن کی گئی ہیں[1]۔

 غور کرنے کی بات ہے کہ آخر کیا ضرورت تھی امیرالمومنین(ع)کو؟  کیا خطرہ تھا ؟ امیر المومنین(ع)کون سا خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ جس کی وجہ سے سیدہ(س)کی قبرکو چھپایا گیا۔ آپ غور کریں چند مہینےقبل تک جناب سیدہ(س)کی جو عزت تھی۔ ایک بیٹی رسول(ص) کی زندہ تھی، رسول(ص) کے بعد اور اولادیں تو ختم ہوچکی تھیں؛ قاسم، عبد اللہ، طیب و طاہر سب ختم ہوگئے ۔ بس ایک بیٹی رسول(ص)کی زندہ تھیں،مسلمانوں کےلئے کیا لازم تھا، کتنا اسکا احترام کرتے، رسول(ص) کی بیٹی کی دلجوئی کرتے، کتنا ان کے غم میں شریک ہوتے، لیکن بجائے اس کے کہ غم میں شریک ہوں جیسا کہ امام زین العابدین(ع)نے فرمایا کہ ’’اگر میرے جد امجد یہ وصیت کر کے گئے ہوتے اور یہ تاکید کر گئے ہوتے کہ جتنا ہوسکے میری اولاد کو ستانا تو اس سے زیادہ نہیں ستایا جا سکتا تھا کہ جتنا یہ محبت اور اطاعت اور ہمدردی کی تاکید کے بعد ستایا گیا‘‘[2]۔

ایک واقعہ ہے  آیت سید محمدباقر درچہ ای، جوآقائے بروجردی کے استادوں میں سے تھے ان کا یہ واقعہ ہے کہ نجف اشرف میں اہل سنت کے ایک بڑے عالم نے ان سے مباحثہ شروع کیا خلافت کے بارے میں اور اٹھارہ دنوں تک یہ دلیلیں دیتے رہ گئے، لیکن اس کا بس ایک یہی موقف تھا کہ نہیں علی(ع) اور خلفاء میں تو بڑی دوستی تھی، بڑی ہمدردی تھی، بہت ساتھ رہتے تھے۔ خلفاءنے تو کوئی ظلم نہیں کیا۔ ایسی ایسی بات۔ اٹھارہ دن کی حجت و دلیل کے بعد جناب سید محمدباقردرچہ ای تھک گئے اور روضۂ امیرالمومنین(ع) پر گئے اور وہاں ضریح پکڑ کر کہا کہ مولا(ع) میری طاقت اب ختم ہو چکی ہے۔ اب آپ کوئی طریقہ بتائیے آپ کوئی ایسا ذریعہ بتایئے جس سے یہ شخص حق کو مان لے کیونکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ گھر واپس آئے، جب سوئے تو خواب میں دیکھا کہ امیرالمؤمنین(ع)تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ کل جب وہ شخص آئے تو پہلا سوال تم یہ کرنا کہ فاطمہ(س) کی قبر کہاں ہے؟ بس انیسواں دن ہوا اور وہ شخص آیا مباحثہ کے لئے تو جناب سید محمد باقر درچہ ای نے کہا کہ ذرا یہ تو بتائے کہ فاطمہ(س)  کہاں دفن ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ان کی قبر پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول(ص)اورمسلمانوں کے اس شہر میں مسلمانوں کے درمیان وفات پا رہی ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ وہ قبر چھپ گئی اور کسی پر ظاہر نہیں ہو سکی کہ وہاں کہاں دفن ہیں؟۔یہ سوال سن کر وہ تھوڑی دیر تک غور کرتا رہا  اور اس کے بعد ایک مرتبہ چیخ  مار کر روپڑا اور اس نے کہا کہ بیشک اگر دوستی ہوتی، اگر اہلبیت رسول(ص) سے محبت ہوتی تو علی(ع) کو ضرورت نہ ہوتی کہ قبر کو پوشیدہ رکھیں کہ آج تک پتہ نہیں چلا ہے کہ حضرت فاطمہ(س)کہاں پر دفن ہیں[3]۔

تین جگہوں کی روایتیں عام طور سے ملتی ہیں؛ ایک تو جس کے اوپرعلماء کا زیادہ یقین ہے۔ وہ قبررسول(ص)اورمنبر رسول(ص) کے درمیان کی جگہ ہے جس کو ’’روضہ ‘‘ کہا جاتا ہے؛ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ۔ زیادہ تر علماء شیعہ کا یہ رجحان ہے کہ جناب سیدہ(س) وہاں دفن ہیں[4]۔ اس کے بعد دوسری روایت کا بیان آتا ہے جو یہ ہے کہ آپ اپنے  گھر کے اندر دفن ہیں[5] اور بقیع والی روایت پر عام طور پر علماءکو یقین نہیں ہے۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ بقیع میں جہاں پر کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت فاطمہ(س)  کی قبر ہے، وہ فاطمہ(س)  بنت رسول(ص) نہیں بلکہ فاطمہ  بنت اسد ہیں[6]۔ لیکن زیارت تینوں جگہ پڑھنی ہے اور بقیع میں جب جائیں تو جناب سیدہ(س)کی بھی زیارت پڑھیں۔ تو قبر کا مقام اب ان تین جگہوں میں ہمیشہ کے لئے مخفی رہ گیا کہ  جس کے بارے میں اُس زمانے میں سوائے خاص گھر والوں کے یا آج کل کے زمانے میں کہئے کہ سوائے حضرت صاحب العصر(عج)کے اورکسی کو یقین کے ساتھ نہیں معلوم ہے کہ جناب سیدہ(س) کہاں پر دفن کی گئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جناب سیدہ(س) کے غسل و کفن کو پوشیدہ رکھا گیا۔ اسی طرح اللہ نے قبر کو بھی پوشیدہ کر دیا اور اس میں جو مصلحت امیرالمومنین(ع) کی ہو اور خدا کی ہو، وہ حضرات بہتر جانتے ہیں۔ ہمارےلئے تو یہی کافی ہے کہ بہر حال ان تین جگہوں میں سےکہیں پر جہاں ہم زیارت پڑھ لیں ہمیں ثواب تینوں جگہوں کا ملے گا۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا  ضروری ہے کہ  سعودی عربیہ کے ایک میگزین کے مطابق…  سعودی عربیہ کی گورنمنٹ [7]نے امریکہ وغیرہ کی منسٹری سے مل کر ایک بہت بڑی کمپنی بنائی ہے کہ جو’’درعیہ‘‘ اور ’’ریاض‘‘  میں آثار قدیمہ کی دوبارہ مرمت و تعمیر کر رہی ہے۔ درعیہ وہ جگہ ہے جہاں ’’ابن سعود‘‘  پہلے تھا جو اصلی جگہ تھی اس کی جہاں کا وہ امیر تھا کہ ان جگہوں پر جو ان کے گھر ہیں کہ جواب پرانے ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ قریب تھا کہ گرجائیں۔ اب ان کی مرمت کر رہے ہیں، ان کو پھر سے بنا رہے ہیں۔ بنیادوہی ہے، دیواریں وہی ہیں انکوٹھیک ٹھاک کر رہے ہیں تاکہ تاریخ آل سعود سعود کا نشان باقی رہے اس کے لئے ابن سعود کے مکان کی مرمت کی جا رہی ہے اسکوتعمیر کیا جارہاہےاوربہت سی چیزیں اس طریقہ  کی ہیں جن میں سےقوم ثمود جس کے اوپر اللہ کا عذاب نازل ہوا ،اس کے جو آثارباقی ہیں ان کی بھی حفاظت کی جا رہی ہے کہ وہ خراب نہ ہوں۔ ایک اورکوئی قبیلہ تھا جاہلیت کے زمانے میں کہ جو بت پرستی کرتا تھا اس کے کچھ مندر نکلے ہیں۔ ان کی حفاظت کی جا رہی ہے ان کے بتوں کی حفاظت کی جا رہی ہے تاکہ وہ برباد  نہ ہوں تاکہ ان کی جو اصل تاریخ ہے ہزاروں سال پرانی وہ لوگوں کی نظر میں آئے۔لیکن بیچ میں محمد(ص) اور ان کے اصحاب، ان کے اہلبیت (علیہم السلام)کی تاریخ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ ان آل سعود کا اپنا جہاں تعلق ہے جن سے تعلق ہے اس کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ چاہے وہ مندر ہو، چاہے قوم ثمود کے مکانات ہوں کہ جن پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کیا اور چاہے ابن سعود کے مکانات ہوں ان کی تو حفاظت کی جا رہی ہے، ان کوتو تعمیر کیا جا رہا ہے۔لیکن رسول(ص) اور رسول(ص)کے اہلبیت(علیہم السلام)یا رسول(ص) کے اصحاب کی جو نشانیاں تھیں ان کو ایک ایک کر کے مٹایا جا رہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان حضرات کو وہ اپنے  میں شامل نہیں سمجھتے ہیں۔ اپنی جڑ میں شامل نہیں سمجھتے ہیں ورنہ اسکو مٹایا نہ گیا ہوتا بلکہ اسکو باقی رکھا گیا ہوتا ۔

حاشیه:

[1]  امالی ، شیخ مفید، ص 146؛ بحارالانوار، محمد باقر مجلسی، ج 43، ص 183-

[2]  لہوف، علی ابن موسی ابن طاووس، ص۱۱۶ ؛ غم نامه كربلا ، ترجمه لہوف،  محمد مہدی اشتہاردی، ص 218۔

[3] آیۃ اللہ سید محمدباقر درچه‌ای، شہر اصفہان کے ’’درچہ‘‘ نامی جگہ کے رہنے والے تھے اور آپ  شیعوں کے بہت عظیم مجتہد تھے،آپ کی وفات سنہ ۱۳۴۲ ہجری میں ہوئی تھی۔

[4] بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج 43، ص 185؛ اقبال الاعمال،  سید رضی الدین ابن طاووس، ص623۔

[5] معانی الاخبار، شیخ صدوق، ج۱، ص۲۶۷؛ عیون الاخبار الرضا، شیخ صدوق، ج 1، ص 311؛ مناقب، موفق بن احمد بکری مکی خوارزمی،  ج 3، ص 365؛ بحارالانوار، محمد باقرمجلسی، ج 100، ص 191۔

[6] تاریخ المدینه ابن شبہ نمیری،  ج 1، ص127؛ عمدة الاخبار، احمد بن عبدالحمید عباسی، ص153۔

[7]  Government

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×