
حضرت مہدی(عج) کے سچے اور حقیقی منتظر کی زندگی
تحریر: نہاں نقوی۔ طالبہ جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
مقدمہ
آیات و روایات میں ایک حقیقی و سچے منتظر کی کچھ صفات بیان ہوئے ہیں؛ جن کا امام زمانہ( عج) کے ہر عاشق و محبّ اور آپ کے انتظار میں زندگی بسرکرنے والے شخص پر اپنے اندروجود میں لانا یا ان صفات کو اور زیادہ قوی کرنا لازم ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:
(1) اطاعت خداوند، (2) اہل بیتؑ سے محبت، (3) عالم و بصیر ہونا، (4)حجاب، عفت کی حفاظت، (5) خانوادہ کی خدمت، (6)مخلوقات کی خدمت، (7)اولاد کی تربیت، (8)والدین کے ساتھ احسان، (9)کسب و کار میں بااخلاق ہونا، (10)فرصت سے استفادہ کرنا یعنی وقت برباد نہ کرنا۔
غیبت امام مہدی (عج)کے زمانہ بہت سخت ہے، اس میں ایک سچا منتظر ہر طرف سے داخلی اور خارجی دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا ہوتا ہے لہذا صرف اللہ سے دعا و مدد اور امام زمانہ (عج) سے توسل کرتے رہنا چاہئے؛ چنانچہ امام صادقؑ اس زمانے کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ایک صحابی سے فرماتے ہیں:
“بیشک خدا کی قسم۔ صاحب الامر(اللہ کے امور کو اجرا کرنے والا امام)تم لوگوں کے درمیان پوشیدہ ہوجائے گا اور گمنام ہوجائے گا یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ وہ مر گئے ہیں، ہلاک ہوگئے ہیں، کسی درّے میں گر گئے ہیں اور تم لوگ اس وقت سمندر کی موجوں میں گرفتار کشتی کی مانند عقاید و افکار کے لحاظ سے متزلزل ہوجاؤگے، ایسے حالات اس شخص کے علاوہ کوئی نجات و رہائی حاصل نہیں کرپائےگا جس سے خدا نے عہد لیا ہو اور اس کے دل میں ایمان کومحکم ثابت کردیا ہو، ایسے شخص کو خداوندعالم اپنی روح (فرمان وحکم) کے ذریعہ سے قوی کردے گا۔ بیشک اس (غیبت کے زمانے میں)۱۲ گمراہی و اشتباہ میں ڈالنے والے پرچم اٹھیں گے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی پہچان نہیں ہوپائے گی(یعنی مہدویت کے بہت سے جھوٹے دعویدار اٹھیں گے جس سے باطل سے حق کی تشخیص کرپانا نہایت مشکل ہوگا)”
امام کی یہ باتیں سن کر امام کے صحابی رونے لگے کہ ایسے عالم میں کیسے حق و ہدایت کی روشنی لوگوں تک پہونچے گی؟ امام نے یہ سن کر وہاں جلسہ کی جگہ پر موجود ایک سوراخ سے داخل ہونے والی سورج کی روشنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
“اس آفتاب کی روشنی کو دیکھو کیسے ظاہر و روشن ہے، ہمارا امر(امامت) اس سے بھی زیادہ روشن ہے” (اصول کافی، ج۲، ص۱۳۷)۔
مذکورہ حدیث میں جہاں غیبت کے زمانے میں سخت ترین حالات کو بیان کیا گیا ہے وہیں چندنکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی طرف متوجہ رہنا ہر منتظر کی ذمہ داری اور سچی زندگی کی نشانی ہے۔
غیب کے زمانے میں انسان کو اپنے سچے ایمان و عقیدہ پر ثابت قدم رہنے کے لئے نہایت کوشش کرنا چاہئے اور ایسا کرنے والے کی اللہ مدد کرتا ہے اور اس کا صاف ترین و سب سے سیدھا راستہ – اہل بیت و اماموںؑ کا بتا یا ہوا راستہ ہے جو اللہ کے نبی کے سچے دین اور اللہ تک پہونچتا ہے ۔ اہل بیتؑ کے علاوہ، غیبت کے زمانے میں لوگوں کو گمراہ کرنے کےلئے بہت سے دعویدار بلند ہوتے آئے ہیں جو اہل بیتؑ کو چھوڑ کر اپنے نام سے مذہب و مکتب و دین بناتے و تراشتے رہے ہیں، بھلے ہی ابتدا میں یا ظاہرا اہل بیتؑ و آئمہؑ کے ناموں کا استفادہ کیا جاتا رہا ہے لیکن حقیقت میں خود کی طرف دعوت دینا اور لوگوں کو گمراہ کرنا مقصد رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ امام صادقؑ ہی اپنے ایک صحابی جناب زرارہ کے معلوم کرنے پر فرماتے ہیں کہ غیبت کے زمانے میں بہترین کام یہ ہے کہ دعا کرو کہ: “خدایاتو اپنے آپ کو مجھے پہچنوا دے، اس لئے کہ اگر تو نے خود کو مجھے نہیں پہچنوایا تو میں تیرے پیغمبرؐ کو نہیں پہچان پاوں گا۔ خدایا تو خود اپنے پیغمبرؐ کو مجھے پہچنوادے اس لئے کہ اگر تو نے اپنے پیغمبرؐ کو مجھے نہیں پہچنوایا تو میں تیرے پیغمبرؐ کو نہیں پہچان پاوں گا۔ خدایا تو خود اپنے حجّت و امام کو مجھے پہچنوادے اس لئے کہ اگر تو نے مجھے اپنے حجّت و امام کو نہیں پہچنوایا تو میں اپنے دین کی راہ کو گم کردوں گا”(اصول کافی، ج۲، ص۱۴۴)۔
مذکورہ دعا میں اللہ و رسولؐ و امامؑ کی سچی معرفت و شناخت کے لئے اللہ سے مدد و دعا کی تاکید کی گئی ہے اور امامؑ و اہل بیت پیغمبرؐ کی سچی معرفت و شناخت کو دین الہی کے سلسلے میں ہدایت یافتہ ہونے کی نشانی بتایا گیا ہے ۔ اگر کوئی اہل بیتؑ کے راستے سے گمراہ ہوکر، غیروں کے راستوں، غیر کے اٹھائے پرچموں کے سایہ میں آجائے تو گمراہ ہے لہذا ضروری ہے کہ ہمیں اہل بیت ؑکے راستے پر چلنا ہے اور اہل بیت ؑکے صحیح راستے کو حاصل کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے امام زمانہ(عج)، نے اپنے سچے و پرہیزگار، مال و دنیا کی لالچ سے دور، علم و عمل سے مالامال مجتہدین و مراجع کی طرف رجوع کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور غیبت کے زمانے میں انہیں کی تقلید کرنے، انہیں کے بتائے ہوئے راستے کو اہل بیتؑ کا سچا راستہ بتایا ہے، پس لازم ہے کہ غیبت کے زمانے میں اپنی خواہشات یا کچھ بیمار دل افراد کی خواہشات میں اسیر ہونے کے بجائے اہل بیتؑ کے سچے راستے کی پیروی کی جائے اور پرہیزگاری و نیک رفتار کوزندگی کا طریقہ بنایا جائے ۔ ایسا شخص امام زمانہ(عج) کا سچا دوست ہوگا چنانچہ امام صادقؑ فرماتے ہیں: “جو شخص بھی چاہتا ہے کہ حضرت مہدی(عج) کے دوستوں و چاہنےوالے میں قرار پائے اسے ان کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے اور اگر سچ میں ان کے منتظرین میں سے ہو تو پرہیزگاری اور نیک رفتار و اخلاق کو شیوہ بنائے، ایساشخص اگر ان کے ظہور سے پہلے مربھی جائے تو خدا وندعالم اسے وہی ثواب عطا کرے گا جو امام کے حضور و دیدار کو پائے گا”۔ (بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۴۰)