
حضرت امام مہدی (عج)، رمضان المبارک کی دعاؤں میں
تحریر: سید تعلیم رضا جعفری- طالبعلم جامعة المصطفیؐ العالمیه قم ایران
فهرست مندرجات
- امام زمانہ (عج) کے فرج کی تعجیل کی دعا
- دعائے تجدیدِ عہد ولایت
- امام مہدی (عج) کی نصرت اور بلاؤں سے حفاظت اور ان کے ذریعہ ظالموں کے خاتمہ کی دعا
۴. دعائے افتتاح اور امام مہدی(عج)
الف) محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما
ب) قیام عدل کے لئے فرشتوں سے نصرت فرما
ج) کتاب و دین کی دعوت دینے والا قرار دے
ه) دین و سنت کا کامل ظہور فرما
ز) حالات زمانہ سے نجات عطا فرما
مقدمہ
دعا اور عبادت انسان کی روح پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور اسے بلندی عطا کرتی ہے۔ انسان دعا کے ذریعے اللہ کی رحمت کو پانے کے لیے زیادہ توجہ اور اہلیت حاصل کرتا ہے۔ دعا ایک قسم کی عبادت، عاجزی اور بندگی ہے جیسا کہ تمام عبادات کے تربیتی اثرات ہوتے ہیں، دعا کے بھی ایسے ہی اثرات ہیں۔ اسی لیے قرآن و احادیث میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بندوں کی دعاؤں کا اللہ کی طرف سے قبول ہونا ایک الہٰی سنت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کی بہت سی آیات میں صراحت آئی ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
«وَ إِذا سَأَلَکَ عِبادی عَنِّی فَإِنِّی قَریبٌ أُجیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ» (بقرہ، آیت 186) ۔
“اور جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے”۔
یقینی طورپر دعا کا قبول ہونا سوال اور طلب کرنے پر موقوف ہے، جب تک سوال نہیں کیا جاتا، جواب نہیں آتا ہے ۔ یہاں سوال اور دعا کرنے والا بندہ ہے اور جواب دینے والا اللہ ہے جو بندے کی حاجت قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔
بندے کو اپنی حاجت اور مطالبے کو بھی اسی کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہئے جو کریم، رحیم، غفور اور ودود ہے۔ اس کا کرم لامحدود، اس کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور کوئی سائل اس در سے خالی نہیں لوٹتا ہے۔
ماہ رمضان المبارک دعا کے لیے ایک بہترین وقت ہے۔ پیغمبراکرمؐ خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں:
«… وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ هُوَ شَهْرٌ دُعِيتُمْ فِيهِ إِلَى ضِيَافَةِ اللَّهِ وَ جُعِلْتُمْ فِيهِ مِنْ أَهْلِ كَرَامَةِ اللَّهِ أَنْفَاسُكُمْ فِيهِ تَسْبِيحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِيهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِيهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِيهِ»۔ (وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۳۱۳، حديث: ۱۳۴۹۴) ۔
“اس مہینے کے دن بہترین دن، راتیں بہترین راتیں، اور لمحات بہترین لمحات ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کی ضیافت و مہمانی کی دعوت دی گئی ہے اوراس مہینے میں تمہیں اللہ کے صاحبان کرامت بندوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے میں تمہاری سانسیں تسبیح، تمہاری نیند عبادت، تمہارے اعمال مقبول اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں…”۔
دعا اور امام مہدی (عج)
دعاؤں کے ذریعہ جس طرح معبود اور بندےکا رابطہ محکم و مضبوط ہوتا ہے۔ اسی طرح انہیں دعاؤں کے وسیلے سے الہی حجتوں اور رہبروں کی معرفت و شناخت کا زمینہ بھی فراہم ہوتا ہے۔ خاص طور پر دور حاضر میں حضرت امام مہدی (عج) کے سلسلے میں دعاوں کی خصوصی تاکید ہے۔ بہت سی حدیثوں میں امام زمانہ (عج) کے لئے دعاؤں کی تاکید آئی ہے جیسا کہ خود امام فرماتے ہیں: «أكثِروا الدُّعاءَ بِتَعجيلِ الفَرَجِ فَإنَّ ذلِكَ فَرَجُكُم»؛ (كمال الدّين، ص ۴۸۵) ۔
“ظہور میں جلدی کے لئے بہت زیادہ دعا کرو؛ اس لئے کہ میرے ظہور میں جلدی سے تمہارے لئے آسانیاں ہیں “۔
ائمہ معصومینؑ کی ہدایات اور فرمائشات کی روشنی میں حضرت امام مہدی (عج) سے منسوب دعائیں اور ان میں آپ کا تذکرہ بہت زیادہ ہےاور شیعہ انہیں پر عمل کرتے ہوئے برسوں سے اپنے امام زمانہ (عج) کے ظہور کی آرزو اور حجت خدا کی ایک نگاہِ کرم کے اشتیاق کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ آیت اللہ صافی گلپایگانی لکھتے ہیں: “امام کے دیدار کی خواہش، ان کی جدائی پر گریہ، ان کی موجودگی کے فیض سے محرومی کا اظہار، فرج کی تعجیل اور ان کے انقلابی اقدامات کا ذکر ایک بہترین و نیک سنت ہے جس پر شیعہ ہمیشہ کاربند رہے ہیں”۔ (فروغ ولایت در دعای ندبہ، آیت اللہ صافی، ص۱۵)۔
اگرچہ ہر وقت اورہر زمانے میں امام زمانہ (عج) کی طرف متوجہ رہنا ضروری ہے اور اپنی دعاؤں کبھی بھی امام وقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے لیکن رمضان المبارک کے روحانی و معنوی ماحول جہاں دعاؤں کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ ہے اور حالات بھی موزوں ہوتے ہیں لہذا اس مہینے کے اوقات اور حالات میں امام زمانہ (عج) کی طرف خصوصی توجہ رکھنا ضروری ہے اور رمضان المبارک کی مختلف دعاؤں میں امام زمانہ(عج) کا خصوصی ذکر اور آپ سے منسوب و مرتبط متعدد دعائیں بھی خاص اہتمام کا بیان کرتی ہیں؛ زیر نظر مقالے میں مختصر طور پر ماہ رمضان المبارک کی دعائیں میں حضرت امام مہدی (عج) کے تذکرے کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ اس مسئلہ کی اہمیت کا ذکر کیا جاسکے اور قارئین کرام کے لئے اس مسئلہ کی طرف متوجہ ہونے کا سامان فراہم کیا جاسکے۔
1. امام زمانہ (عج) کے فرج کی تعجیل کی دعا
رمضان المبارک کی دعاؤں میں ظہور امام (عج) میں جلدی کی درخواست ایک اہم موضوع ہے جس کا متعدد دعاؤں میں تذکرہ آیا ہے؛ یہاں چند موارد کا ذکر کیا جاررہا ہے:
الف) رمضان المبارک کے چھٹی شب کی دعا میں اس طرح آیا ہے کہ:
« اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ وَ إِلَيْكَ الْمُشْتَكَى … وَ أَسْأَلُكَ يَا رَحْمَانُ أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تُعَجِّلَ فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ فَرَجَنَا بِفَرَجِهِمْ وَ تَقَبَّلَ صَوْمِي … .. أَنْتَ حَسْبِي وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ»
یعنی خدایا! تمام حمد تیرے لئے ہے اور تیری ہی بارگاہ میں حرف شکایت لے کر آیا ہوں … اے صاحب رحمت! تجھ سے طلب کرتا ہوں کہ محمدؐ و آل محمدؑ پر صلوات نازل فرمایا اور آل محمدؑ کے لئے (امام مہدی (عج) کے ظہور کے ذریعہ) آسانی فرمااور ان کے ظہور میں جلدی کے ذریعہ ہمارے لئے آسانی فرمایا اور میرے روزے کو قبول فرما…خدایا تو ہی میرے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے۔ (الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1، ص126) ۔
(نوٹ: مکمل دعا اور ترجمہ کے لئے متعلقہ کتب کی طرف مراجعہ کیا جائے یہاں صرف شاہد مثال عبارت کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے تاکہ مقالے کو طولانی ہونے سے بچایا جاسکے) ۔
ب) رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا میں اس طرح آیا ہے کہ:
«اللَّهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِي حِينَ يَسُوءُ ظَنِّي بِأَعْمَالِي وَ أَنْتَ أَمَلِي عِنْدَ انْقِطَاعِ الْحِيَلِ مِنِّي… يَا كَاشِفَ كَرْبِ أَيُّوبَ وَ سَامِعَ صَوْتِ يُونُسَ الْمَكْرُوبِ وَ فَالِقَ الْبَحْرِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ وَ مُنْجِيَ مُوسى وَ مَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَجْعَلَ لِي مِنْ أَمْرِي فَرَجاً وَ مَخْرَجاً وَ يُسْراً بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ».
یعنی: … خدایا! تجھ سے طلب کرتا ہوں کہ محمدؐ و آل محمدؑپر صلوات نازل فرما اور میرے معاملات میں آسانی و راحت اور گشائش فرما، اپنی رحمت کے ذریعہ سے۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔ (الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1، ص1۳۱) ۔
ج) رمضان المبارک کے آٹھویں دن کی دعا میں اس طرح آیا ہے کہ:
«اللَّهُمَّ إِنِّي لا أَجِدُ مِنْ أَعْمالِي عَمَلًا أَعْتَمِدُ عَلَيْه… وَ أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ تُعَجِّلَ فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ فَرَجِي مَعَهُمْ، وَ فَرَجَ كُلِ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ، بِرَحْمَتِكَ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين»۔
«یعنی خدایا! … تجھ سے طلب کرتا ہوں کہ محمدؐ و آل محمدؑ پر صلوات نازل فرما اور قائم آل محمدؑ کے ظہور میں جلدی فرما اور ان کے ظہور میں جلدی کے ذریعہ میرے لئے اور ہرمومن و مومنہ کے لئے آسانی فرما، اپنی رحمت کے ذریعہ سے۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے»۔ (الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1، ص1۳۳) ۔
د) رمضان المبارک کے اکیسویں دن سے مربوط حضرت امام صادقؑ کی ایک دعا میں آیا ہے کہ:
«… وَ أَسْأَلُكَ بِجَمِيعِ ما سَأَلْتُكَ وَ ما لَمْ أَسْأَلُكَ مِنْ عَظِيمِ جَلالِكَ، ما لَوْ عَلِمْتُهُ لَسَأَلْتُكَ بِهِ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَ أَنْ تَأْذَنَ لِفَرَجِ مَنْ بِفَرَجِهِ فَرَجُ أَوْلِيائِكَ وَ أَصْفِيائِكَ مِنْ خَلْقِكَ وَ بِهِ تُبِيدُ الظَّالِمِينَ وَ تُهْلِكُهُمْ، عَجِّلْ ذلِكَ يا رَبَّ الْعالَمِين…»۔
“یعنی… میں تجھ سے ہر اس چیز کا سوال کرتا ہوں جو میں نے تجھ سے مانگا ہے اور ہر اس چیز کا جو میں نے تجھ سے نہیں مانگا، تیری عظیم عظمت کے واسطے سے ۔ جس کااگر مجھے علم ہوتا تو میں اس کے مطابق سوال کرتا ہوں کہ محمدؐ و آل محمدؑ پر صلوات نازل فرما۔ اور اس کو (ظہور کی ) اجازت عطا فرما جس کے ظہور سے مخلوقات میں تیرے اولیاء و منتخب بندوں کے لئے آسانی ہواور اس کے ذریعہ ظالموں کی نابودی اور ہلاکت ہو۔ اے تمام عالمین کے پروردگار اس کے ظہور میں جلدی فرما…”۔ (الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1، ص1۲۱) ۔
مذکورہ دعاؤں میں محمدؐ و آل محمدؑ پر صلوات و رحمت کے مطالبہ کے ساتھ ظہور قائم آل محمدؑ میں تعجیل کا مطالبہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کی شبانہ دعاؤں میں ہمارا اہم وظیفہ ہے کہ ہم امام زمانہ (عج) کے ظہور کی دعا کریں جن کے ظہور سے اللہ کے اولیاء و اوصیاء اور تمام بندوں کے لئے آسانی اور گشائش ہے۔
2. دعائے تجدیدِ عہد ولایت
ماہ رمضان المبارک کے تیرہویں دن کی دعا میں تمام ائمہ ؑ اور امام مہدی (عج) کے عہد ولایت کی تجدید کے بارے میں اس طرح ذکر ہوا ہے کہ:
« اللَّهُمَّ إِنِّي أَدِينُكَ بِطَاعَتِكَ وَ وَلَايَتِكَ وَ وَلَايَةِ مُحَمَّدٍ نَبِيِّكَ وَ وَلَايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَبِيبِ نَبِيِّكَ وَ وَلَايَةِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ سِبْطَيْ نَبِيِّكَ وَ سَيِّدَيْ شَبَابِ أَهْلِ جَنَّتِكَ وَ أَدِينُكَ يَا رَبِّ بِوَلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ سَيِّدِي وَ مَوْلَايَ صَاحِبِ الزَّمَانِ أَدِينُكَ يَا رَبِّ بِطَاعَتِهِمْ وَ وَلَايَتِهِمْ وَ بِالتَّسْلِيمِ بِمَا فَضَّلْتَهُمْ رَاضِياً غَيْرَ مُنْكِرٍ وَ لَا مُسْتَكْبِرٍ (مُتَكَبِّرٍ) عَلَى مَا (معنى) أَنْزَلْتَ فِي كِتَابِكَ …»؛ “خدایا! میں تیری اطاعت اور ولایت کے عقیدے کا اظہار کرتاہوں اور تیرے نبی حضرت محمد ؐ کی ولایت اور تیرے حبیب ؐکے دوست امیرالمومنینؑ اور دونوں نواسوں، جنت کے سرداروں حضرات حسنؑ و حسینؑ کی ولایت کے عقیدے کا اظہار کرتاہوں۔ خدایا! اسی طرح علیؑ ابن حسینؑ اور محمدؑ بن علیؑ اور جعفر ؑبن محمدؑ اورموسیؑ بن جعفرؑ اورعلیؑ بن موسیؑ اورمحمدؑ بن علیؑ اور علیؑ بن محمدؑ اور حسنؑ بن علیؑ اور میرے مولا و سردار صاحب الزمان (عج) کی ولایت کے عقیدہ کا اظہار کرتا ہوں۔ اور اے میرے پروردگار! میں ان سب کی ولایت اور اطاعت کو قبول کرتا ہوں اور تونے جو ان کو دوسروں پر جو فضیلت دی ہےاس کو پوری طرح خوشی سے تسلیم کرتاہوں اور اس سلسلے میں جو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اس بارے میں کسی طرح کا کوئی انکار اور تکبر نہیں ہے…”۔ (الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1، ص1۴۴) ۔
مذکورہ دعا کے پڑھنے کی تاکید اور خاص طور پر موجودہ زمانے میں حضرت امام مہدی (عج) کے حوالے سے اس دعا کا پڑھنا صرف ظاہری ورد کے لئے نہیں ہے بلکہ عہد ولایت و اطاعت کی تجدید اور ہر سال اس بات کی یاددہانی کے لئے ہے کہ ولایت اور اطاعت صرف خدا اور رسولؐ کی کرنا ہے اور اس کے بعد ائمہ معصومینؑ کی ولایت اور اطاعت فرض ہے بقیہ تمام تر ولایت اور اطاعت سب انہیں کے فرامین اور ارشادات کی روشنی میں ہیں۔
3. امام مہدی (عج) کی نصرت اور بلاؤں سے حفاظت اور ان کے ذریعہ ظالموں کے خاتمہ کی دعا
تجدید عہد اور اعلان ولایت و اطاعت کے حوالے سے مذکورہ تیرہویں دن کی دعا کے دوسرے حصہ میں امام زمانہ (عج) کی نصرت اور بلاؤں سے حفاظت کے حوالے سے مزید اس طرح آیا ہے کہ:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ ادْفَعْ عَنْ وَلِيِّكَ وَ خَلِيفَتِكَ وَ لِسَانِكَ وَ الْقَائِمِ بِقِسْطِكَ وَ الْمُعَظِّمِ لِحُرْمَتِكَ وَ الْمُعَبِّرِ عَنْكَ وَ النَّاطِقِ بِحُكْمِكَ وَ عَيْنِكَ النَّاظِرَةِ وَ أُذُنِكَ السَّامِعَةِ وَ شَاهِدِ عِبَادِكَ وَ حُجَّتِكَ عَلَى خَلْقِكَ وَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِكَ وَ الْمُجْتَهِدِ فِي طَاعَتِكَ وَ اجْعَلْهُ فِي وَدِيعَتِكَ الَّتِي لَا تَضِيعُ وَ أَيِّدْهُ بِجُنْدِكَ الْغَالِبِ وَ أَعِنْهُ وَ أَعِنْ عَنْهُ وَ اجْعَلْنِي وَ وَالِدَيَّ وَ مَا وَلَدَا وَ وُلْدِي مِنَ الَّذِينَ يَنْصُرُونَهُ وَ يَنْتَصِرُونَ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ اشْعَبْ بِهِ صَدْعَنَا وَ ارْتُقْ بِهِ فَتْقَنَا اللَّهُمَّ أَمِتْ بِهِ الْجَوْرَ وَ دَمْدِمْ بِمَنْ نَصَبَ لَهُ وَ اقْصِمْ رُءُوسَ الضَّلَالَةِ حَتَّى لَا تَدَعَ عَلَى الْأَرْضِ مِنْهُمْ دَيَّاراً»۔
(الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1 ص1۴۴) ۔
خدایا! محمدؐو آل محمدؑ پر رحمتیں نازل فرما، اور تیرےولی و جانشین، تیری باتوں کا بیان کرنے والے، تیرے عدل کو قائم کرنے والے، تیری حرمت کو عظیم سمجھنے والے، تیری طرف سے بولنے والے، تیرے احکام کی ترجمانی کرنے والے، تیری بینا آنکھ، تیرا گوش گذار کان، تیرےبندوں پر گواہ، تیری مخلوق پر حجت، تیری راہ میں جہاد کرنے والے، اور تیری اطاعت میں کوشش کرنے والے (حجت دوران حضرت مہدی (عج)) کو ہر خطرے سے محفوظ رکھ۔ اسے اپنی اس امانت میں رکھ جو کبھی ضائع نہیں ہوتی، اپنی غالب فوجوں کے ساتھ اس کی مدد و نصرت فرما، اور اس سے ہر شر سے دور رکھ۔ مجھے، میرے والدین کو، ان کی اولاد کو، اور میری اولاد کو ان لوگوں میں شامل فرما جودنیا اور آخرت میں اس کی مدد کرنےوالے ہوں۔ خدایا! اپنے اس حجت کے ذریعہ ہماری منتشر اور مختلف صفوں میں اتحاد قائم کردے۔ ہمارے درمیان موجودشگاف کو ختم کر دے۔ اے پروردگار! اس کے ذریعے ظلم کو مٹا دے، اس کے دشمنوں کو تباہ کر دے، اور گمراہی کے سربراہوں کو نیست و نابود کر دے یہاں تک کہ زمین پر ان میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ (الاقبال الاعمال، سید ابن طاووس، ج1 ص1۴۴) ۔
امام مہدی (عج) کی نصرت اور آپ کے ذریعہ ظالموں کے خاتمہ کے سلسلے میں خود رمضان المبارک کی دوسری دعاوٴں میں بھی ذکر آیا ہے جن کو یہاں اختصار کے سبب بیان نہیں کیا گیا ہے لیکن ان تمام دعاؤں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی(عج) کی نصرت کے لئے دعاؤں کے ذریعہ اس بات کے لئے ہدایت دی گئی ہے کہ ظہور کی تیاری شیعہ اسلامی تعلیمات میں خاص اہمیت رکھتی ہےاور شیعوں کو خود بھی اس کے لئے زمینہ فراہم کرتے رہنا چاہئے۔
۴. دعائے افتتاح اور امام مہدی(عج)
دعائے افتتاح اللہ کی حمد و ثناء سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد صحیح راستے کا انتخاب اور خدا کی تائید کی ضرورت، اللہ کی رحمت اور غضب کا حکمت آمیز ہونا، خوف و رجاء کی ضرورت، توفیق عبادت کا در حقیقت اللہ کی طرف سے منت و احسان ہونا، بندہ کا گناہ کا ارتکاب کرنے کے باوجود اللہ کی فیض رسانی کا جاری رہنا، اللہ کی نعمتوں کی یادآوری، نعمتوں کا ہمیشہ اللہ کے ہاں باقی رہنا اور خدا کی نعمتوں کے بارے میں غور فکر کی ضرورت جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
دوسرے فقروں میں دعا کی استجابت میں تاخیر، تکّبر اور خدا سے بے رخی، خدا کے ساتھ انس اور مناجات کی قدر و قیمت اور رحمتِ خداوندی کے دروازے مسلسل کھلے رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں عرض کرتے ہیں: خدا کبھی بھی اپنے بندے کو اپنے سے دور نہیں کرتا اور اپنی رحمت کا دروازہ اس پر بند نہیں کرتا ہے اور کبھی بہی اسے اپنی رحمت سے نایوس نہیں کرتا ہے۔
دعائے افتتاح کے آخری فقرات جن پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اسلامی حکومت کے قیام کے اشتیاق پر مشتمل ہیں، جو حضرت ولی عصر(عج) کے سائے میں قائم ہوگی۔ دعا کے ان فقرات میں اسلامی حکومت کے قیام کے اہداف اور اس کے حوالے سے ہمارے وظایف بیان ہوئے ہیں، اور سابقہ امتوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ رسول اللہؐ اور ائمہ ؑکی ذوات مقدسہ اللہ کی عمدہ ترین اور قابل قدر ترین نعمتیں ہیں۔
دعائے افتتاح کو سید بن طاؤس نے اقبال الاعمال میں، شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں، کفعمی نے مصباح اور البلد الامین میں، مجلسی نے زاد المعاد میں اور شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں نقل کیا ہے؛ “اس دعا کے راوی حضرت بقیۃ اللہ(عج) کے نائب خاص محمد بن عثمان بن سعید ہیں۔ اگرچہ یہ دعا بظاہر امام معصومؑ سے نقل نہیں ہوئی لیکن چونکہ اس کے راوی ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری ہیں جو امام زمانہ (عج) کے نائبین خاص میں سے ہیں، اور وہ اس دعا کی قرائت کا پابندی سے اہتمام کرتے رہے ہیں، لهذا یہ اطمینان حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ یہ دعا امام زمانہ (عج) کی جانب سے یا دیگر معصومین ؑسے انہیں موصول ہوئی ہے”( ترجمہ و شرح دعای افتتاح، مهدوی کنی، ح، ص 2) ۔
اس دعا کے اہم موضوعات جو حضرت امام مہدی (عج) سے مربوط ہے، ان کا ذکر کیا جارہا ہے:
الف) محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما
«اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِك وَ رَسُولِك وَ أَمِینِك وَ صَفِیك وَ حَبِیبِك… وَ الْخَلَفِ الْهَادِی الْمَهْدِی حُجَجِك عَلَی عِبَادِك وَ أُمَنَائِك فِی بِلادِك صَلاةً كثِیرَةً دَائِمَةً»
“دعائے افتتاح کے اس حصہ میں پروردگارمتعال کی حمد و ثنا کے بعد پیغمبراکرمؐ سے لے کر تمام ائمہ معصومینؑ پر نام لے کر صلوات و سلام بھیجا گیا ہے جس کے آخر میں امام مہدی (عج) پر بھی صلوات و سلام بھیجا گیا ہے اور ان معصوم ہستیوں کو اللہ کی طرف سے تمام بندوں پر حجت اور عالم ہستی کے لئے امین قرار دیا گیا ہے۔ اور آخر میں پھر سے بہت زیادہ اور دائمی رحمت کے نزول کی دعا کی گئی ہے”۔
ب) قیام عدل کے لئے فرشتوں سے نصرت فرما
«اللَّهُمَّ وَ صَلِّ عَلَى وَلِيِّ أَمْرِكَ الْقَائِمِ الْمُؤَمَّلِ وَ الْعَدْلِ الْمُنْتَظَرِ وَ حُفَّهُ (وَ احْفُفْهُ) بِمَلاَئِكَتِكَ الْمُقَرَّبِينَ وَ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ»
“اے معبود! اور درود بھیج اپنے ولی امر پر جو قائم ہیں اور جن کے آنے کی امید ہے اور اس کے عدل پھیلانے والے ہیں جس کا انتظار کیا جارہا ہے، انہیں اپنے مقرب فرشتوں کی حفاظت میں قرار دے اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید فرما، اے جہانوں کے پروردگار “۔
ج) کتاب و دین کی دعوت دینے والا قرار دے
«اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ الدَّاعِی إِلَی كتَابِك وَ الْقَائِمَ بِدِینِك اسْتَخْلِفْهُ فِی الْأَرْضِ كمَا اسْتَخْلَفْتَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِ مَكنْ لَهُ دِینَهُ الَّذِی ارْتَضَیتَهُ لَهُ أَبْدِلْهُ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِ أَمْنا یعْبُدُك لا یشْرِك بِك شَیئا»۔
«اے معبود! ان کو (امام مہدی (عج))، اپنی کتاب کی طرف بلانے والا اور اپنے دین کو قائم کرنے والا قرار دے۔ انہیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دے جس طرح کہ ان سے پہلے گذرنے والوں کو تو نے خلیفہ قرار دیا، جو دین تو نے ان کے لئے پسند کیا ہے»۔
دعائے افتتاح کے ان فقرات میں تین اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ:
۱۔ امام مہدی (عج) ہی ہیں جو آخری زمانے میں اللہ کی کتاب کی طرف حقیقی دعوت دینے والے ہیں، کتاب الہی کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے پہنچانے والے ہیں۔
۲۔ امام مہدی (عج) ہی ہیں جو دین کو قائم کرنے والے ہیں یعنی کوئی بھی اس زمانے میں اللہ کے حقیقی دین کو قائم کرنے والا نہیں ہے اگر امام مہدی (عج) کے علاوہ کوئی بھی حقیقی دین الہی کے وارث ہونے کا دعویٰ کرے اور ائمہ اطہارؑ اور امام مہدی (عج) کی ہدایات کے برخلاف اپنی جانب سے دعویٰ کرے اور اپنی طرف دعوت دے تو وہ جھوٹا ہے اور اللہ کے حقیقی اور سچے دین کے بجائے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کررہا ہے۔
۳۔ امام مہدی (عج) ہی ہیں جواس زمانے میں اللہ کی جانب سے گذشتہ معصومینؑ کی طرف حقیقی خلیفہ و حجت خدا ہیں۔ آپ کے علاوہ خلافت کے تمام دعوے دار جھوٹے ہیں۔
د) عزت و نصرت و فتح عطا فرما
«اَللَّهُمَّ أَعِزَّهُ وَ أَعْزِزْ بِهِ وَ انْصُرْهُ وَ انْتَصِرْ بِهِ وَ انْصُرْهُ نَصْرا عَزِیزا وَ افْتَحْ لَهُ فَتْحا یسِیرا وَ اجْعَلْ لَهُ مِنْ لَدُنْك سُلْطَانا نَصِیرا»
اے معبود! اسے معزز فرما اور اس کے ذریعے مجھے عزت دے، اسکی مدد کر اور اس کے ذریعے میری مدد فرما اسے باعزت مدد دے اور اسے آسانی کے ساتھ فتح دے اور اسے اپنی طرف سے قوت والا مددگار عطا فرما۔
ه) دین و سنت کا کامل ظہور فرما
«اللَّهُمَّ أَظْهِرْ بِهِ دِینَك وَ سُنَّةَ نَبِیك حَتَّی لا یسْتَخْفِی بِشَیءٍ مِنَ الْحَقِّ مَخَافَةَ أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ»
“اے معبود! اس کے ذریعے اپنے دین اور اپنے نبیؐ کی سنت کو ظاہر فرما یہاں تک کہ حق میں سے کوئی چیز مخلوق کے خوف سے مخفی و پوشیدہ نہ رہ جائے”۔
و) حکومت کریمہ کا قیام فرما
«اَللّٰھُمَّ إنَّا نَرْغَبُ إلَیْکَ فِی دَوْلَةٍ کَرِیمَةٍ، تُعِزُّ بِھَا الْاِسْلامَ وَأَھْلَہُ وَتُذِلُّ بِھَا النِّفاقَ وَأَھْلَہُ، وَتَجْعَلُنا فِیھَا مِنَ الدُّعاةِ إلٰی طاعَتِکَ، وَالْقادَةِ إلٰی سَبِیلِکَ، وَتَرْزُقُنا بِھَا کَرامَةَ الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ»۔
“اے معبود! ہم ایسی برکت والی حکومت کی خاطر تیری طرف رغبت رکھتے ہیں جس سے تو اسلام و اہل اسلام کو قوت دے اور نفاق و اہل نفاق کو ذلیل کرے۔ اور اس حکومت میں ہمیں اپنی اطاعت کیطرف بلانے والے اور اپنے راستے کیطرف رہنمائی کرنے والے قرار دے اور اس کے ذریعے ہمیں دنیا و آخرت کی عزت دے”۔
و) مادی و معنوی ترقی عطا فرما
«اَللَّهُمَّ مَا عَرَّفْتَنَا مِنَ الْحَقِّ فَحَمِّلْنَاهُ وَ مَا قَصُرْنَا عَنْهُ فَبَلِّغْنَاهُ اللَّهُمَّ الْمُمْ بِهِ شَعَثَنَا وَ اشْعَبْ بِهِ صَدْعَنَا وَ ارْتُقْ بِهِ فَتْقَنَا وَ كثِّرْ بِهِ قِلَّتَنَا وَ أَعْزِزْ (أَعِزَّ) بِهِ ذِلَّتَنَا وَ أَغْنِ بِهِ عَائِلَنَا وَ اقْضِ بِهِ عَنْ مُغْرَمِنَا (مَغْرَمِنَا) وَ اجْبُرْ بِهِ فَقْرَنَا وَ سُدَّ بِهِ خَلَّتَنَا وَ یسِّرْ بِهِ عُسْرَنَا وَ بَیضْ بِهِ وُجُوهَنَا وَ فُك بِهِ أَسْرَنَا وَ أَنْجِحْ بِهِ طَلِبَتَنَا وَ أَنْجِزْ بِهِ مَوَاعِیدَنَا وَ اسْتَجِبْ بِهِ دَعْوَتَنَا وَ أَعْطِنَا بِهِ سُؤْلَنَا وَ بَلِّغْنَا بِهِ مِنَ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ آمَالَنَا وَ أَعْطِنَا بِهِ فَوْقَ رَغْبَتِنَا یا خَیرَ الْمَسْئُولِینَ وَ أَوْسَعَ الْمُعْطِینَ اشْفِ بِهِ صُدُورَنَا وَ أَذْهِبْ بِهِ غَیظَ قُلُوبِنَا وَ اهْدِنَا بِهِ لِمَا اخْتُلِفَ فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِك إِنَّك تَهْدِی مَنْ تَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ وَ انْصُرْنَا بِهِ عَلَی عَدُوِّك وَ عَدُوِّنَا إِلَهَ الْحَقِّ (الْخَلْقِ) آمِینَ»۔
اے معبود! جس حق کی تو نے ہمیں معرفت عطا کی ہے اسکے تحمل کی توفیق عطا فرما اور جس سے ہم قاصر رہے ہیں، اس تک پہنچادے۔ اے معبود ان (امام مہدی (عج)) کے ذریعے ہم بکھرے ہوؤں کو جمع کردے۔ ان کے ذریعے ہمارے جھگڑوں اور اختلافات ختم کردے۔اور ان کے ذریعے ہماری پریشانی دور فرما۔اسکے ذریعے ہماری قلت کوکثرت سے اور ذلت کو عزت میں بدل دے۔ اسکے ذریعے ہمیں نادار سے توانگر بنا اور اس کے ذریعے ہمارے قرض ادا کر دے اور اسکے ذریعے ہمارےفقر کو دور فرما۔ اور اس کے ذریعے ہماری حاجتیں پوری کر دے اور اس کے ذریعے تنگی کو آسانی میں بدل دے اور اس کے ذریعے ہمارے چہرے روشن کردے اور اس کے ذریعے ہمارے قیدیوں کو رہائی عطا کردے۔ اس کے ذریعے ہماری حاجات کو قبول فرمااور اس کے ذریعے ہمارے وعدوں کو پورافرما۔ اسکے ذریعے ہماری دعائیں قبول فرما۔ اور اس کے ذریعے ہمارے سوال و مطالبات کو پورا کردے۔ اس کے ذریعے دنیا و آخرت میں ہماری امیدیں پوری فرمااور ہمیں ہماری درخواست سے زیادہ عطا فرما۔ اے سوال کئے جانے والوں میں بہترین۔اور اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے، اس کے ذریعے ہمارے سینوں کو شفا دے اور ہمارے دلوں سے بغض و کینہ مٹا دے۔ جن حق باتوں میں ہمارے درمیان اختلاف ہے اپنے حکم سے اس کے ذریعے ہمیں ہدایت فرما۔ بے شک تو جسے چاہے سیدھے راستے کی طرف لے جاتا ہے لہذا اس کے ذریعے اپنے اور ہمارے دشمن پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔ آمین۔
مذکورہ دعا کے فقرات میں بارگاہ خداوندی میں بہت سی مادی و معنوی چیزوں کو مطالبہ کیا گیا ہے اور یقینی طور پر ان چیزوں کا مکمل حصول امام مہدی(عج) کے ذریعہ، آپ کے ظہور کی صورت میں ممکن ہے لہذا اس دعا میں ان مادی و معنوی امور کا مطالبہ گویا ظہور امام کا مطالبہ ہے۔
ز) حالات زمانہ سے نجات عطا فرما
«اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكو إِلَیك فَقْدَ نَبِینَا صَلَوَاتُك عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ غَیبَةَ وَلِینَا (إِمَامِنَا) وَ كثْرَةَ عَدُوِّنَا وَ قِلَّةَ عَدَدِنَا وَ شِدَّةَ الْفِتَنِ بِنَا وَ تَظَاهُرَ الزَّمَانِ عَلَینَا فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ (آلِ مُحَمَّدٍ) وَ أَعِنَّا عَلَی ذَلِك بِفَتْحٍ مِنْك تُعَجِّلُهُ وَ بِضُرٍّ تَكشِفُهُ وَ نَصْرٍ تُعِزُّهُ وَ سُلْطَانِ حَقٍّ تُظْهِرُهُ وَ رَحْمَةٍ مِنْك تُجَلِّلُنَاهَا وَ عَافِیةٍ مِنْك تُلْبِسُنَاهَا بِرَحْمَتِك یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ »۔
“اے معبود! بے شک ہم شکوہ کرتے ہیں تیری بارگاہ میں، تیرےنبیؐ کے ہمارے درمیان نہ رہنے اور ہمارے مولاؑ کے نظروں سے اوجھل ہونے کا اور ہمارے دشمنوں کی کثرت اور ہماری تعداد کی قلت کا۔ اور ہمارے اوپر فتنوں کی سختیوں کا، اور زمانے کی یلغار اور غلبے کا۔ خدایا! محمدؐ و آل محمدؑ پر رحمت نازل فرما۔اور ان سارے مسائل و مصائب کا سامنا کرنے کے لئے ہماری مدد فرما۔ تیری طرف سے جلد حاصل ہونے والی فتح کے ذریعہ ۔اور تکلیفوں کو دور کرنے کے ذریعہ سے اور اس نصرت سے جس کو تو عظیم تر کردےگا۔ اور حق کی سلطنت کے ذریعہ جس کو تو ظاہر کرکے غلبہ عطا کرے گا۔اور تیری طرف سے آنے والی رحمت کے ذریعہ جو ہم پر سایہ فگن ہوگی اور تیری طرف کی حاصل ہونے والی عافیت کے ذریعہ جو ہمیں ڈھانپ لے گی۔ تیری رحمت اور مہربانی کے واسطے سے اے مہربانوں کے سب سے زیادہ مہربان “۔ (مکمل دعائے افتتاح کے لئے مراجعہ کریں: اقبال الاعمال، سید بن طاووس، ص 325-322)
دعا کے مذکورہ فقرات میں دعا کرنے والا حالات زمانہ کے بارے میں بارگاہ الہی میں حرف شکوہ لے کر حاضر ہوتا ہے اور مشکلات و مصائب زمانہ اور دشمنوں کی کثرت اور دوستوں کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے، ان تمام مشکلات و مصائب سے نجات عطا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور آخری جملات میں امام مہدی (عج) کے بارے میں اشارہ کرتا ہے کہ خدایا اپنی جانب سے فتح و کامیابی، رحمت و عافیت، غلبہ حق و قیام حکومت کے ذریعہ ہماری نصرت و مدد فرما جو کہ ہمارے امام زمانہ(عج) کے ظہور کی شکل میں ہوگی اور ان کے ظہور میں تعجیل فرما۔
والسلام مع الاکرام