اسلامی معارف

جناب فاطمہ زہراؑ کی چالیس حدیثیں

مولانا سید مہدی رضا رضوی۔ طالبعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران

اس تحریر میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی ۴۰ حدیثوں کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی جاسکے:

۱ ۔ «نَحْنُ وَسيلَتُهُ فى خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ فى غَيْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ اءنْبيائِهِ»؛ “ہم آل محمدؑ لوگوں کے لئے اللہ کا وسیلہ ہیں اور ہم اس کے پاک اور خاص بندے ہیں اور ہم لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے اس کی حجت اور ہم ہی اس کے نبیوںؑ کے وارث ہیں “(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: ج 16، ص 211)۔

۲ ۔ «وَهُوَ الامامُ الرَبّانى، وَ الْهَيْكَلُ النُّورانى، قُطْبُ الا قْطابِ، وَ سُلالَةُ الاَطْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الامامَةِ»؛ حضرت فاطمہ زہرا ؑ، امام علیؑ کے سلسلے سے فرماتی ہیں کہ: “وہ اللہ کی جانب سے رہنما اور پیشوا ہیں اور وہ نور کے پیکر اور تمام مخلوقات کی توجہ کامرکز ہیں اور وہ ایک پاک خاندان سے پاک فرزند، سچ بولنے والے، امامت کے مرکز و محور ہیں (رياحين الشريعة: ج 1، ص 93) ۔

۳ ۔ «أبَوا هِذِهِ الاْ مَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىُّ، يُقْيمانِ أودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ اطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما»؛”حضرت محمدؐاورحضرت علیؑ اس امت کے باپ ہیں۔اگر ان دونوں کی اطاعت کریں گے تو یہ دونوں لوگوں کے انحرافات کی اصلاح کریں گے اور انہیں دردناک عذاب سے بچائیں گے اور ان دونوں کی ہمراہی لوگوں کو جنّت کی ابدی نعمتیں عطا کرے گی (تفسير الا مام العسكرى ؑ، ص 330، ح 191۔ بحارالانوار، ج 23، ص 259، ح 8) ۔

4۔ «مَن أصعَدَ إلَى اللّه ِ خالِصَ عِبادَتِهِ أهبَطَ اللّه ُ إلَيهِ أفضَلَ مَصلَحَتِهِ»؛ “جو شخص بھی خلوص نیت سے خدا کی عبادت کرتا ہے، خدا اس کو بہترین فوائد اور برکتیں عطا کرتا ہے “(بحار الانوار، ج 67، ص 249، ح 25) ۔

5۔ «إنَّ السَّعيدَ كُلَّ السَّعيدِ، حَقَّ السَّعيدِ مَنْ احَبَّ عَليّا فى حَياتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ»؛”بیشک کامیاب، حقیقی کامیاب وہ ہے جو علیؑ سے ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد محبت کرے “(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: ج 2، ص 449 مجمع الزوائد: ج 9، ص 132) ۔

۶ ۔ «إلهى وَ سَيِّدى، اءسْئَلُكَ بِالَّذينَ اصْطَفَيْتَهُمْ، وَ بِبُكاءِ وَلَدَيَّ فى مُفارِقَتى أنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شيعَتى، وَ شيعَةِ ذُرّيتَى»؛ “اے میرے مالک! اے میرے سید! تیرے منتخب اولیاء کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتی ہوں اور میری موت کے بعد میرے بچوں کے رونے کے واسطے سے تجھ سےسوال کرتی ہوں، ہمارے کنہگار اور پیروکار شیعوں کے گناہوں کی بخشش کا سوال کرتی ہوں “۔ (كوكب الدرّى، ج 1، ص 254) ۔

7۔ «شيعَتُنا مِنْ خِيارِ اهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَ مَوالى اَوْليائِنا وَ مُعادى اعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا»؛”ہمارے شیعہ، جنت کے بہترین لوگوں میں سے ہیں اور ہم سے اور ہمارے اولیاء سے محبت کرنے والے اور ہمارے دشمنوں کے دشمن، جو ہمیں دل و زبان سے تسلیم کرتے ہیں وہ جنت میں بہترین لوگوں میں سے ہوں گے “۔ (بحارالانوار: ج 68، ص 155، س 20، ضمن ح 11) ۔

۸ ۔ «وَاللّهِ يَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا إنّى أكْرَهُ أنْ يُصيبَ الْبَلاءُ مَنْ لاذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ أنّى سَأقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ أجِدُهُ سَريعَ الاْجابَةِ»؛ “اے خطاب کے بیٹے! خدا کی قسم! اگر مجھے بے گناہوں پر عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں خدا کی قسم دے کر بد دعا کرتی اور تم دیکھتے کہ اللہ میری دعاؤں کا فوری جواب کیسے دیتا ہے۔ (اصول كافى، ج 1، ص 460؛ بيت الاحزان، ص 104، بحارالانوار، ج 28، ص 250، ح 30) ۔

9۔ «وَاللّهِ، لاكَلَّمْتُكَ ابَدا، وَاللّهِ لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَيْكَ فى كُلِّ صَلوةٍ»؛ “حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملے کے بعد آپؑ نے ابوبکر کو مخاطب ہو کر کہا: “میں خدا کی قسم کھا کرکہتی ہوں، میں تجھ سے کبھی بات نہیں کروں گی اور خدا کی قسم کہ میں ہر نماز میں تیرے لئے بددعا کروں گی “(صحيح مسلم: ج 2، ص 72، صحيح بخارى: ج 6، ص 176) ۔

۱۰ ۔ «إنّى أشْهِدُ اللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ، انَّكُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضيتُمانى، وَ لَئِنْ لَقيتُ النَبِيَّ لاشْكُوَنَّكُما إلَيْهِ»؛”حضرت فاطمہؑ کے پاس جب جب ابوبکر اور عمر معافی مانگنے کی غرض سے آئے تو جناب فاطمہ ؑ نے ان سے منھ پھیرتے ہوئے فرمایا:

“میں خدا اور فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے، میں تم دونوں سے راضی اور خوش نہیں ہوں اور جب میں خدا کے رسولؐ سے ملوں گی تو تم دونوں کی شکایت کروں گی “(بحارالانوار، ج 28، ص 303؛ صحيح مسلم، ج 2، ص 72؛ صحیح بخارى، ج 5، ص 5) ۔

۱۱ ۔ «لاتُصَلّى عَلَيَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَ اللّهِ وَ عَهْدَ ابى رَسُولِ اللّهِ فى اميرالْمُؤمنينَ عَليّ وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ وَ اخَذُوا إرْثى وَ خَرقُوا صَحيفَتى اللّتى كَتَبها لى أبى بِمُلْكِ فَدَك»؛ حضرت فاطمہ زہراؑ نے وصیت میں فرمایا کہ “جن لوگوں نے امیرالمومنین علیؑ کے سلسلہ میں خدا اور رسولؐ کے عہدکو توڑا اور مجھ پرظلم کیا اور میری میراث چھین لی اور فدک کی ملکیت پر میرے والد کا لکھا ہوا خط پھاڑ دیا وہ مجھ پر نماز میت نہ پڑھیں “(بيت الا حزان، ص 113، كشف الغمّہ، ج 2، ص 494) ۔

۱۳ ۔ «إلَيْكُمْ عَنّى، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَديرِكُمْ، وَ الاَمْرُ بعد تقْصيركُمْ، هَلْ تَرَكَ أبى يَوْمَ غَديرِ خُمّ لاِ حَدٍ عُذْوٌ»؛”آپ ؑ نے مہاجرین اور انصار کو مخاطب کر کے فرمایا: “مجھ سے دور ہو جاؤ اور مجھے تنہا چھوڑ دو، تمہاری بے حسّی اور غفلت کے بعد تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ کیا میرے والد نے غدیر خم کے دن کسی کے لئے بہانہ کی جگہ چھوڑی تھی؟”(الخصال، ج 1، ص 173؛ الاحتجاج، ج 1، ص 146) ۔

۱۳ ۔ «جَعَلَ اللّهُ الايمانَ تَطْهيرا لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ وَ الصَّلاةَ تَنْزيها لَكُمْ مِنَ الْكِبْرِ، وَ الزَّكاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَ الصِّيامَ تَثْبيتا لِلاْخْلاصِ وَ الْحَّجَ تَشْييدا لِلدّينِ»؛ حضرت فاطمہ زہراؑ نے خطبہ فدک کے درمیان فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے ایمان و عقیدہ کو شرک سے پاکیزگی اور نماز کو ہر طرح کے کبر و گھمنڈ سے دوری کے لئے لازم قرار دیاہے اور اس نے زکوٰۃ کو تزکیہ ٔ نفس اور رزق میں برکت کے لئے اور روزے کو اخلاص میں استقامت و ثبات کے لئے اور حج کو شریعت کی بنیاد کو مضبوط کرنے اور دین اسلام کی تعمیر کے لئے واجب قرار دیا ہے “(رياحين الشريعة، ج 1، ص 312، فاطمة الزهراء، ص 360) ۔

۱۴ ۔ «يا أبَا الْحَسَنِ، إنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ أهْلِهِ لُحُوقا بِهِ وَلابُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِمْرِ اللّهِ تَعالى وَ ارْضَ بِقَضائِهِ»؛ جناب فاطمہ زہراؑ اپنی شہادت کی خبر دیتے ہوئے امام علیؑ سے فرماتی ہیں: “اے ابا الحسنؑ! بے شک رسول ؐ نے مجھ سے وعدہ کیا اور فرمایاکہ میں اہل بیتؑ میں سب سے پہلے ان سے ملاقات کروں گی اور اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہےلہٰذا صبر کیجئے اور خدا کی تقدیر و فیصلے پر راضی رہئیے “(بحارالا نوار، ج 43، ص 200، ح 30) ۔

۱۵ ۔ «مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ اَوْ عَلَيَّ ثَلاثَةَ أيّامٍ أوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَياتِهِ وَ حَياتِكِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا»؛ “جو شخص بھی رسول اللہؐ اور مجھ پر تین دن تک سلام کرےگا، اللہ تعالیٰ اس پر جنت واجب کر دے گا۔ راوی پوچھتا ہے یہ سلام زندگی میں کرے یا وفات کے بعد؟ فرمایا: چاہے ہماری زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد (بحارالانوار، ج 43، ص 185، ح 17) ۔

۱6۔ «ما صَنَعَ ابُوالْحَسَنِ إلاّ ماكانَ يَنْبَغى لَهُ وَ لَقَدْ صَنَعُوا ما اللّهُ حَسيبُهُمْ وَ طالِبُهُمْ»؛ “امام علیؑ نے رسول اللہؐ کی تدفین اور بیعت کے سلسلے میں جو کچھ بھی کیا وہ ان کا الہی فریضہ تھا اور جو کچھ دوسروں نے کیا، خدا ان کے بارے میں فیصلہ کرےگا اور انہیں سزا دے گا “(الامامة والسياسة، ص 30، بحارالا نوار، ج 28، ص 355، ح 69) ۔

۱7۔ «خَيْرٌ لِلِنّساءِ انْ لايَرَيْنَ الرِّجالَ وَلايَراهُنَّ الرِّجالُ»؛ “ایک عورت کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی نامحرم مرد کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی نامحرم مرد اس کو دیکھے “(بحارالا نوار، ج 43، ص 54، ح 48) ۔

18۔ «اوُصيكَ يا ابَا الْحَسنِ انْ لا تَنْسانى وَ تَزُورَنى بَعْدَ مَماتى»؛ ” جناب فاطمہ ؑ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے ابو الحسن! میری موت کے بعد مجھے مت بھولنا اور میری قبر کی زیارت کے لیے آنا “(زهرة الرياض كوكب الدّرى، ج 1، ص 253) ۔

۱۹ ۔ «إنّى قَدِ اسْتَقْبَحْتُ ما يُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إنّهُ يُطْرَحُ عَلىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُها لِمَنْ رَأى، فَلاتَحْمِلينى عَلى سَريرٍ ظاهِرٍ، اُسْتُرينى، سَتَرَكِ اللّهُ مِنَ النّارِ»؛ “شہزادی فاطمہ زہراؑ نے اپنی بابرکت زندگی کے آخری ایام میں جناب اسماء کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: “مجھے یہ بہت خراب اور ناگوار لگتا ہے کہ مرنے کے بعد عورتوں کی لاشوں کو ان کے جسموں پر کپڑا ڈال کر تشییع کیا جاتا ہے اور لوگ اس کے جسم اور جسامت کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔اے اسماء مجھے ایسے تخت پر نہ لے جانا جوچاروں طرف سے کھلا ہو اور دوسروں کے دیکھنے میں رکاوٹ نہ ہو۔ بلکہ ایسے لے جانا جو پوری طرح سے پوشیدہ ہو ۔ اللہ تم کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے۔ (تهذيب الا حكام، ج 1، ص 429۔ كشف الغمہ، ج 2، ص 67؛ بحار، ج 43، ص 189، ح 19) ۔

۲۰ ۔ «… إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراهُ وَ هُوَ يَشُمُّ الريح»؛ “رسول اللہ ؐکے ساتھ ایک دن ایک نابینا شخص گھر میں داخل ہوا اور حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے آپؑ کو چھپا لیا؛ رسول اللہؐ نے اس کی وجہ پوچھی؟ تو جواب میں بابا سے کہا: “یہ نابینا شخص مجھے نہیں دیکھ پارہا ہے مگر میں تو اسے دیکھ رہی ہوں، اور یہ خوشبو تو سونگھ ہی سکتاہے “(بحارالانوار، ج 43، ص 91، ح 16۔ احقاق الحق، ج 10، ص 258) ۔

۲۱ ۔ «أصْبَحْتُ وَ اللّهِ! عاتِقَةً لِدُنْياكُمْ، قالِيَةً لِرِجالِكُمْ»؛ “فدک کو غصب کرلینے اور شہزادی کے احتجاج کرنے کے بعد مہاجر اور انصار میں سے کچھ عورتیں آپؑ کے گھر آئیں اور آپ کا حال دریافت کیا تو آپؑ نے فرمایا: “خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا کو آزاد کردیا اسے چھوڑ دیا اور میں تمہارے مردوں سے ناراض ہوں، وہ میرے دشمن ہیں “۔ (دلائل الا مامۃ، ص 128، ح 38۔ معانى الاخبار، ص 355، ح 2) ۔

 ۲۲ ۔ «إنْ كُنْتَ تَعْمَلُ بِما أمَرْناكَ وَ تَنْتَهى عَمّا زَجَرْناكَ عَنْهُ، قَاءنْتَ مِنْ شيعَتِنا، وَ إلاّ فَلا»؛ «اگر تم وہی کرتے ہو جس کا ہم اہل بیتؑ نے حکم دیا ہے اور جس سے ہم نے منع کیا ہے اس سے دور رہتے ہو، تو تم ہمارے شیعوں میں سے ہو، ورنہ نہیں۔ (تفسير الا مام العسكرىؑ، ص 320، ح 191) ۔

۲۳ ۔ «حُبِّبَ إ لَيَّ مِنْ دُنْياكُمْ ثَلاثٌ: تِلاوَةُ كِتابِ اللّهِ، وَالنَّظَرُ فى وَجْهِ رَسُولِ اللّهِ، وَالانْفاقُ فى سَبيلِ اللّهِ»؛”مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں؛ قرآن کی تلاوت، رسول اللہؐ کے چہرے کی زیارت اور راہ خدا میں انفاق (ضرورت مندوں کی مدد کرنا)”(بحارالا نوار، ج 43، ص 192، ح 20۔ اعيان الشيعہ، ج 1، ص 321) ۔

۲۴ ۔ «أُوصيكَ اَوّلاً أنْ تَتَزَوَّجَ بَعْدى بِإ بْنَةِ اُخْتى أمامَةَ، فَإنَّها تَكُونُ لِوُلْدى مِثْلى، فَإنَّ الرِّجالَ لابُدَّ لَهُمْ مِنَ النِّساءِ»؛ حضرت فاطمہ زہراؑنے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے شوہر سے وصیت میں فرمایا: “میرے بعد میری بہن کی بیٹی امامہ سے شادی کر لینا کیونکہ وہ میری طرح میرے بچوں کے ساتھ شفقت کرنے والی اور دیندار ہے۔ بے شک مردوں کو ہر حال میں عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے “(كنزل العمّال: ج 16، ص 462، ح 45443) ۔

25۔ «الْزَمْ رِجْلَها، فَإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أقْدامِها و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ»؛ “ہمیشہ ماں کی خدمت کرو، اس کے قدموں میں رہو کیونکہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے اور اس کے نتیجے میں جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی “(مستدرك الوسائل، ج 7، ص 336، ح 2؛ بحارالا نوار، ج 93، ص 294، ح 25) ۔

۲۶ ۔ «ما يَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِيامِهِ إذا لَمْ يَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ»؛ “جو روزہ دار اپنی زبان، کان، آنکھ اور دیگر اعضاء و جوارح پر قابو نہیں رکھتا اس کو اس کے روزے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے “(تفسير الا مام العسكرى ؑ، ص 354، ح 243؛ مستدرك الوسائل، ج 12، ص 262؛ بحارالا نوار، ج 72، ص 401، ح 43) ۔

۲۷ ۔ «اَلْبُشْرى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصاحِبهِ الْجَنَّةَ، وَ بُشْرى فى وَجْهِ الْمُعانِدِ يَقى صاحِبَهُ عَذابَ النّارِ»؛ “مومنوں کے سامنے مسکرانا اور خوش ہونا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اور دشمنوں اور مخالفین کے سامنے مسکرانے کا نتیجہ اس کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے گا “(كنز العمّال، ج 15، ص 242، ح 40759) ۔

۲۸ ۔ «لايَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتُ وَ فى يَدِهِ ريحُ غَمَر»؛” جو شخص کھانے کے بعد ہاتھ نہ دھوئے اور اس کے ہاتھ گندے رہتے ہیں اور اس وجہ وہ کسی پریشانی و مشکلات میں گرفتار ہو جائے تو اپنے سوا کسی دوسرے کی ملامت نہ کرے “۔ (کھانا کھانے کے بعد ہاتھ نہ دھلنے سے پریشانی آتی ہے)”(دلائل الا مامة، ص 71، س 16؛ معانى الاخبار، ص 399، ضمن ح 9) ۔

29۔ «اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإنْ رَأيْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّى لِلْغُرُوبِ فَأعْلِمْنى حَتّى أدْعُو»؛ “سیدہؑ جمعہ کے دن غروب آفتاب کے قریب اپنے غلام سے کہا کرتی تھیں: “چھت پر جاؤ، جب آدھا سورج غروب ہو جائے تو مجھے بتا دینا، تاکہ میں اپنے اور دوسروں کے لیے دعا کروں “(تفسير التبيان، ج 9، ص 37، س 16) ۔

۳۰ ۔ «إنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعا وَلايُبالى»؛”بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس کو ایسا کرنے میں کسی کی پرواہ بھی نہیں ہے “(علل الشرايع، ج 1، ص 183؛ بحارالا نوار، ج 43، ص 82، ح 4) ۔

 31۔ «الْجارُ ثُمَّ الدّارُ»؛ “پہلے پڑوسی اس کے بعد گھر والے ہیں یعنی: پہلے اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی پریشانیوں کو حل کرنے کے لئے سوچنا اور دعا کرنا چاہئے پھر اپنے بارے میں ۔ (مجمع الزوائد، ج 8، ص 108؛ مسند فاطمه، ص 33 و 52) ۔

۳۲ ۔ «الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ، وَ صَدْرِ فِراشِهِ، وَالصَّلاةِ فى مَنْزِلِهِ إلا الاْمامَ يَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَيْهِ»؛”ہر شخص کو اپنی سواری، اپنے گھر کے فرش اور اس پر نماز پڑھنے پر ترجیح ہے، مگر یہ کہ دوسرا شخص امام جماعت ہو اور نماز باجماعت پڑھنا چاہے “۔ (كشف الغمّہ، ج 2، ص 57؛ بحار الا نوار، ج 8، ص 53، ح 62) ۔

۳۳ ۔ «يا ابَة ذَكَرْتُ الْمَحْشَرَ وَ وُقوفَ النّاسِ عُراةً يَومُ القِيامَةِ، واسَوْأتاه يَوْمَئذً مِنَ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ…»؛”اے ابا جان! میں قیامت کے اس دن کو یاد کر رہی ہوں کہ کیسے لوگ خدا کے سامنے برہنہ حالت میں کھڑے ہوں گے اور کوئی فریاد سننے والا نہ ہوگا؛ وائے ہو کہ اس دن کہ کیسے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری ہوگی…”(بحارالانوار، ج 8، ص 53۔ احقاق الحق، ج 19، ص 129) ۔

34۔ «إذا حُشِرْتُ يَوْمَ الْقِيامَةِ، اشْفَعُ عُصاةَ امَّةِ النَّبىّؐ»؛ ” جب میں قیامت کے دن محشور کی جاؤں گی تو رسول اللہؐ کی امت کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گی “(بحارالا نوار: ج 79، ص 27، ضمن ح 13) ۔

۳۵ ۔ «فَاكْثِرْ مِنْ تِلاوَةِ الْقُرآنِ، وَالدُّعاءِ، فَإنَّها ساعَةٌ يَحْتاجُ الْمَيِّتُ فيها إلى انْسِ الاْحْياءِ»؛ حضرت فاطمہؑ نے امام علی ؑ سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: “اے علیؑ مجھے دفن کرنے کے بعد میرے لئے کثرت سے قرآن پڑھنا اور میرے لیے دعا کرنا کیونکہ ایسے وقت میں مردے کو زندہ لوگوں سے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے “(امالى شيخ طوسى: ج 2، ص 228)۔

۳۶ ۔ «يا ابَا الحَسَن، إنّى لاسْتَحى مِنْ إلهى انْ اكَلِّفَ نَفْسَكَ مالاتَقْدِرُ عَلَيْهِ»؛ “یاعلیؑ! مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے کہ میں آپؑ سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کروں جس کو فراہم کرنے پرآپ قادر نہ ہوں (مدينة المعاجز، ج 3، ص 430)۔

۳۷ ۔ «خابَتْ امَّةٌ قَتَلَتْ إبْنَ بِنْتِ نَبِيِّها»؛”تباہی ہے اس امت کے لئے جو اپنے نبی کی بیٹی کے بیٹے کو قتل کرے۔ “(رياحين الشريعة، ج 1، ص 312؛ فاطمة الزهراءؑ، ص 360) ۔

۳۸ ۔ «… وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزيها عَنِ الرِّجْسِ، وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجابا عَنِ اللَّعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ايجابا لِلْعِّفَةِ»؛ اللہ تعالیٰ شراب پینے سے منع کیا تاکہ معاشرہ گندگیوں اور جرائم سے پاک رہے۔ غیبت و تہمت سے دور رہنے کا حکم دیا ہے تاکہ غصےو لعنت بچا جاسکے اور چوری سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ معاشرے میں عفت و پاکیزگی قائم رہے (رياحين الشريعة، ج 1، ص 312؛ فاطمة الزهراء ؑ، ص 360) ۔

۳۹ ۔ «حرم (الله) الشِّرْكَ إخْلاصا لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ، فَاتَّقُوا اللّه حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُّنَ إلاّ وَ انْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اطيعُوا اللّه فيما امَرَكُمْ بِهِ، وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنّهُ، إنَّما يَخْشَى اللّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءِ»؛ “… خداوند متعال نے شرک کو حرام قرار دیا تاکہ لوگ اس کی ربوبیت کے سامنے سرتسلیم خم کر دے لہذا اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک کہ مسلمان نہ ہو جاؤ اور اللہ کی اطاعت و پیروی کرو جس کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے یا منع کیا ہے، بیشک اللہ کے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہی اس سے ڈرنے والےہیں (الامامة والتبصرة، ص 1؛ بحارالانوار، ج 36، ص 352، ح 224) ۔

۴۰ ۔ «امّا وَاللّهِ، لَوْتَرَكُوا الْحَقَّ عَلى أهْلِهِ وَاتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبيّه، لَمّا اخْتَلَفَ فِى اللّهِ اثْنانِ، وَ لَوَرِثَها سَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ، وَخَلْفٌ بَعْدَ خَلَفٍ حَتّى يَقُومَ قائِمُنا، التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِالسَّلام»؛”خدا کی قسم! اگر حق (خلافت و امامت) کو اس کے اہل کے سپرد کر دیا جاتا اور عترت پیغمبر اکرمؐ کی اطاعت و پیروی کی ہوتی تو حتی دو لوگ بھی خدا اور دین کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کرتے اور خلافت و امامت کا عہدہ یکے بعد دیگرے مستحق افراد تک منتقل ہوتا یہاں تک کہ ہمارا قائم جو حسینؑ ابن علیؑ کا نواں فرزند ہے، قیام کرتا “(کفایۃ الاثر، ص ۱۹۹؛ بحارالانوار، ج 36، ص 352، ح 224) ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button