اسلامی معارف

آثار و برکات رمضان المبارک

تحریر: انیس زہرا رضوی - طالبہ جامعة المصطفیؐ العالمیه قم ایران

تمہید

رمضان المبارک ہجری قمری کے اعتبار سے نواں مہینہ ہے اور یہ مہینہ بہت ہی مبارک اور بابرکت مہینہ ہے، اس مہینہ میں روزہ واجب ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔ روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ دوسرے مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ واجب تھا لہذا تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ لیکن رمضان المبارک میں روزہ رکھنا دین اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لئے حضرت امام زین العابدین ؑ نے ماہ مبارک رمضان کو صحیفہ سجادیہ ایک دعا میں “شہر الاسلام ” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔اس مہینہ کی فضیلت اور اس کے آثار و برکات کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں کثرت سے ہوا ہے؛ یہاں چند حدیثوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

دس اہم احادیث کی وضاحت

۱- قال الباقرؑ: «بُنِىَ الاِسـلامُ عَلى خَمْسَةِ أَشْيآءَ، عَلَى الصَّلوةِ وَ الزَّكاةِ والْحَجِّ وَ الصَّـوْمِ وَ الْوِلايَـةِ» ۔

امام محمد باقر ؑ نے فرمایا:”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ، اور ولایت۔”(فروع كافي، ج 4، ص 62، ح 1) ۔

یہ حدیث اسلامی عقائد و اعمال کی بنیادی ستونوں کو واضح کرتی ہے۔ امام باقرؑ نے ان پانچ ارکان کو دین اسلام کی اساس قرار دیا ہے، جن کے بغیر اسلام کا ڈھانچہ مکمل نہیں ہوتا ہے ۔

۱-نماز:نماز دین کا ستون ہے اور اللہ کے ساتھ بندے کا براہ راست تعلق قائم کرتی ہے۔قرآن میں نماز کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اسے ترک کرنا گمراہی کا سبب بتایا گیا ہے۔

۲-زکوٰۃ: زکوٰۃ اسلام میں مالی عبادت ہے جو دولت کی پاکیزگی اور معاشرتی انصاف کو یقینی بناتی ہے۔اس کے ذریعے دولت مند افراد غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔

۳-حج: صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہے۔ یہ عبادت اتحاد اور مساوات کی علامت ہے، جہاں سب مسلمان ایک لباس میں اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔

۴-روزہ:رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا فرض ہے، جو صبر، تقویٰ اور روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔روزہ انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور اس کی روحانی ترقی میں مدد دیتا ہے۔

۵-ولایت:ولایت کا مطلب اللہ، رسولؐ اور اہل بیتؑ کی رہنمائی کو قبول کرنا ہے۔ولایت کے بغیر دین نامکمل ہے، کیونکہ یہ دین کی فکری اور عملی راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ولایت امام علیؑ اور ان کے بعد آئمہ معصومینؑ کی قیادت کو تسلیم کرنے کا نام ہے، جیسا کہ مختلف احادیث میں ولایت کو دین کا سب سے اہم ستون قرار دیا گیا ہے۔

یہ حدیث اسلامی تعلیمات کی بنیاد کو واضح کرتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ عبادات (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) کے ساتھ ساتھ ولایت دین کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے۔ ولایت کے بغیر دین ناقص رہتا ہے کیونکہ ولایت ہی وہ راستہ ہے جو اسلامی احکام کو درست طریقے سے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

2- قال الصادقؑ: «اِنَّـما فَرَضَ اللّه ُ الصِّـيامَ لِيَسْتَوى بِهِ الْغَنِىُّ وَ الْفَقيرُ» ۔

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:”اللہ نے روزہ اس لئے فرض کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے امیر اور غریب برابر ہوجائیں”۔ (من لا يحضره الفقيه، ج 2 ص 43، ح 1) ۔

یہ حدیث روزے کے فلسفے اور اس کی حکمت کو بیان کرتی ہے، جو صرف عبادت ہی نہیں بلکہ ایک سماجی اور اخلاقی درس بھی ہے۔اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے:

۱-برابری اور مساوات

عام دنوں میں مالدار افراد ہر قسم کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جبکہ غریب افراد فاقہ کشی اور تنگ دستی میں زندگی گزارتے ہیں۔روزے کے ذریعے امیر اور غریب ایک جیسے حالات کا تجربہ کرتے ہیں، کیونکہ دونوں کو بھوک اور پیاس کا سامنا ہوتا ہے۔

۲-ہمدردی اور احساس

جب ایک مالدار شخص خود بھوک اور پیاس کا تجربہ کرتا ہے، تو وہ غریبوں کی مشکلات کو بہتر طور پر سمجھنے لگتا ہے۔اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ زیادہ صدقہ و خیرات کرنے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔

۳-نفس کی پاکیزگی

روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ خواہشات اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی مشق بھی ہے۔ اس عمل سے غرور اور تکبر کم ہوتا ہے اور عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے۔

۴-سماجی عدل و انصاف

جب امیر اور غریب دونوں ایک ہی حالت میں رہتے ہیں، تو اس سے سماج میں برابری کا تصور مضبوط ہوتا ہے۔اس سے طبقاتی فرق کم کرنے اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔

امام جعفر صادقؑ کی مذکورہ حدیث ہمیں روزے کے ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ یہ عبادت صرف جسمانی مشق نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی اور اخلاقی پیغام رکھتی ہے۔ روزے کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہی نہیں، بلکہ ایک ایسا نظام پیدا کرنا بھی ہے جہاں تمام انسان ایک دوسرے کے درد کو محسوس کر سکیں اور ایک بہتر، ہمدرد معاشرہ تشکیل دے سکیں۔

۳۔ قال اميرالمومنينؑ: «فَـرَضَ اللّه ُ… الصِّيـامَ اِبْتِلاءً لاِخْلاصِ الْخَلْقِ»

امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے فرمایا:”اللہ نے روزہ اس لیے فرض کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے مخلوق کے اخلاص کا امتحان ہو۔”(نهج البلاغه، حكمت 252)۔

یہ حدیث روزے کی بنیادی حکمت کو واضح کرتی ہے اور اس کی روحانی و اخلاقی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی طرف اشارہ کیا جارہاہے:

۱-اخلاص کی آزمائش

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو مکمل طور پر انسان اور اللہ کے درمیان ہوتی ہے۔دوسری عبادات جیسے نماز، زکوٰۃ، حج میں انسان دوسروں کے سامنے عبادت کرتا ہے، لیکن روزہ ایک مخفی عبادت ہے، جس میں حقیقی نیت اور اخلاص کا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ایک شخص بھوک اور پیاس کے باوجود کھانے پینے سے رکا رہتا ہے، حالانکہ اگر وہ تنہائی میں کھا بھی لے تو کوئی دوسرا انسان اسے نہیں دیکھے گا، لیکن وہ اللہ کے لیے ایسا نہیں کرتا۔

۲- نفس کی پاکیزگی اور تربیت

روزہ انسان کے اندر تقویٰ اور خدا کا خوف پیدا کرتا ہے، کیونکہ یہ ایک مسلسل کوشش کا نام ہے جس میں خواہشات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ انسان صرف اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھے، نہ کہ دکھاوے یا سماجی دباؤ کے تحت۔

۳-عبادت کی حقیقت

اللہ کو انسان کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ کتنا مخلص ہے؛ قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ: “إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ”؛ “اللہ صرف متقی لوگوں کے اعمال کو قبول کرتا ہے”(مائدہ، آیت۲۷) ۔

۴-اخلاص کا امتحان

روزے کے دوران بھوک، پیاس اور مشکلات کے باوجود صبر کرنا، غصے کو کنٹرول کرنا اور دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اخلاص کا امتحان ہے۔ جو شخص صرف اللہ کے لیے روزہ رکھتا ہے، وہ نہ صرف کھانے پینے سے بچتا ہے بلکہ زبان، آنکھ اور دل کو بھی گناہوں سے روکتا ہے۔

امام علیؑ کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ محض ایک ظاہری عبادت نہیں، بلکہ ایک گہری روحانی تربیت ہے جو بندے کے اخلاص اور تقویٰ کو جانچنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ روزے کے ذریعے اللہ بندوں کے دلوں میں پوشیدہ نیتوں اور ارادوں کو آزماتا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ کون واقعی طور پر اس کی رضا کے لیے عمل کر رہا ہے اور کون صرف رسمی عبادت میں مصروف ہے۔

4- قال الرضاؑ: «اِنَّـما اُمِـرُوا بِالصَّـوْمِ لِكَىْ يَعْرِفُوا أَلَمَ الْجُوْعِ وَ الْعَطَشِ فَيَسْـتَدِلُّوا عَلى فَقْرِاْلاْخِـرَةِ» ۔

امام علی رضا ؑنے فرمایا:”لوگوں کو روزے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کو محسوس کریں اور اس کے ذریعے دوسروں کی غربت کو پہچان سکیں۔”(وسائل الشيعه، ج 4 ص 4 ح 5؛ علل الشرايع، ص 10) ۔

یہ حدیث روزے کے ایک اہم سماجی اور اخلاقی پہلوکو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں حضرت امام رضاؑ روزے کی ایک بڑی حکمت یعنی ہمدردی اور غریبوں کے احساس کو بیان فرما رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض اہم مطالب مندرجہ ذیل ہیں:

۱-بھوک اور پیاس کا تجربہ

روزے کے ذریعے انسان خود بھوک اور پیاس کو محسوس کرتا ہے، جو عام طور پر خوشحال افراد کے لیے غیر معمولی کیفیت ہوتی ہے۔جب ایک روزہ دار خود بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو وہ ان لوگوں کے حالات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے جو روزانہ فاقہ کشی اور تنگدستی کا شکار ہوتے ہیں۔

۲-ہمدردی اور احساسِ ذمہ داری

جب کوئی شخص بھوک اور پیاس کے درد کو خود محسوس کرتا ہے، تو اس کے دل میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔یہ ہمدردی انسان کو صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور فلاحی کاموں کی طرف مائل کرتی ہے، تاکہ وہ معاشرے میں غربت اور محرومی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے۔

۳-سماجی عدل اور مساوات

اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں دولت صرف چند ہاتھوں میں محدود نہ ہو بلکہ تمام لوگوں کو بنیادی ضروریات میسر آئیں۔ روزہ رکھنے سے امیر اور غریب دونوں ایک جیسے حالات کا سامنا کرتے ہیں، جس سے طبقاتی فرق کم ہونے اور مساوات کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔

۴-روحانی و اخلاقی تربیت

روزہ صرف ایک جسمانی عبادت نہیں، بلکہ ایک گہری روحانی اور اخلاقی تربیت بھی ہے۔بھوک اور پیاس کا احساس انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے، جس سے وہ دوسروں کی مدد کرنے اور بہتر انسان بننے کی طرف مائل ہوتا ہے۔

امام رضاؑکی یہ حدیث ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ روزہ صرف عبادت نہیں بلکہ ایک سماجی تربیت کا ذریعہ بھی ہے، جس کے ذریعے انسان دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کر کے ان کی مدد کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ روزہ رکھنے کا حقیقی مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں، بلکہ یہ سیکھنا ہے کہ ہم محتاجوں اور مسکینوں کے درد کو سمجھیں اور ان کی مدد کریں۔

۵- قال رسول الله ؐ: «لِكُـلِّ شَيْى ءٍ زَكـاُةٌ وَ زَكاةُ الاِبْدانِ الصِّيامُ»۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا:”ہر چیز کی ایک زکوٰۃ ہوتی ہے، اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے۔”(الكافي، ج 4، ص 62، ح 3)

یہ حدیث روزے کی ایک اہم حکمت اور اس کے روحانی و جسمانی فوائد کو بیان کرتی ہے؛ اس حدیث کی روشنی میں بعض مندرجہ ذیل مطالب معلوم ہوتے ہیں:

۱- زکوٰۃ کا مفہوم

زکوٰۃ کا مطلب ہے پاکیزگی اور نشوونما۔مالی زکوٰۃ کا مقصد مال کو پاک کرنا اور اس میں برکت پیدا کرنا ہوتا ہے۔اسی طرح، جسم کی زکوٰۃ کا مطلب اسے پاک کرنا، بہتر بنانا اور نشوونما دینا ہے۔

۲- روزہ اور زکوٰۃ

روزہ جسم کی پاکیزگی اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہے۔جیسے مال کی زکوٰۃ سے دولت پاک ہوتی ہے، ویسے ہی روزے سے جسم اور روح کی اصلاح ہوتی ہے۔روزہ کھانے پینے کی زیادتی کو کم کرتا ہے، جسم کو زہریلے مادوں سے پاک کرتا ہے، اور قوتِ برداشت بڑھاتا ہے۔

۳- روحانی اور اخلاقی فوائد

روزہ صرف جسمانی عبادت نہیں بلکہ ایک روحانی عمل بھی ہے جو دل کو تقویٰ اور اخلاص کی طرف مائل کرتا ہے۔روزہ رکھنے سے صبر، شکر، ہمدردی اور اللہ سے قربت حاصل ہوتی ہے۔اس سے انسان اپنی خواہشات پر قابو پانے اور خود کو برائیوں سے بچانے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔

۴-جسمانی فوائد

جدید سائنسی تحقیق کے مطابق روزہ جسم کی ڈیٹاکسیفیکیشن (Detoxification) میں مدد دیتا ہے۔ روزہ رکھنے سے ہاضمے کا نظام بہتر ہوتا ہے، وزن متوازن رہتا ہے اور جسم کی قوتِ مدافعت بڑھتی ہے۔

 خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث کے مطابق جس طرح مال کو پاک کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جاتی ہے، اسی طرح جسم اور روح کی پاکیزگی کے لیے روزہ ضروری ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو نہ صرف روحانی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی انسان کو پاکیزہ اور مضبوط بناتی ہے۔

۶- قال النبی ؐ: «أَلصَّوْمُ جُنَّـةٌ مِنَ النّـارِ» حضرت رسول اللہ ؐنے فرمایا: “روزہ آگ (جہنم) سے ڈھال ہے”۔ (الكافي، ج 4 ص 162) ۔

یہ حدیث روزے کی ایک عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے، جس میں روزے کو جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کے ذیل مندرجہ ذیل مطالب ظاہر ہوتے ہیں:

۱-روزہ حفاظتی حصار

عربی میں “جنة” کا مطلب ڈھال یا حفاظت کا ذریعہ ہے۔جیسے جنگ میں ایک سپاہی خود کو دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے ڈھال استعمال کرتا ہے، اسی طرح روزہ انسان کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

۲- روزہ اور گناہوں سے حفاظت

روزہ رکھنے سے انسان کی خواہشات اور نفسانی جذبات قابو میں آتے ہیں۔یہ عبادت برے خیالات، برے اعمال، غیبت، جھوٹ اور گناہوں سے دور رہنے میں مدد دیتی ہے۔جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پاتا ہے انہیں تمام امور کی وجہ سے روزہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

۳- روزہ اور شفاعت

احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن روزہ سفارش و شفاعت کرے گا اور اللہ کے حکم سے روزہ دار کے لیے بخشش اور نجات کا ذریعہ بنے گا۔روزہ دار کے لیے اللہ کی خاص رحمت اور مغفرت کا وعدہ ہے، جو اسے جہنم سے بچانے میں مدد دے گی۔

۴- جہنم سے بچاؤ کا عملی راستہ

روزہ انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور پرہیزگاری پیدا کرتا ہے، جو گناہوں سے بچنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔جب کوئی شخص مسلسل روزہ رکھتا ہے، تو اس کی طبیعت نیکی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ روزہ محض ایک جسمانی عبادت نہیں بلکہ یہ ایک روحانی ڈھال بھی ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت میں نقصان اور عذاب سے محفوظ رکھتی ہے۔ جو شخص روزے کو اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ رکھتا ہے، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق بنتا ہے اور جہنم سے نجات حاصل کرتا ہے۔

۷- قال رسول ؐ: «أَلصَّـوْمُ فِى الْحَـرِّ جِـهادٌ»؛ رسول خدا ؐنے فرمایا:”گرمی میں روزہ رکھنا جہاد ہے۔” (بحار الانوار، ج 96، ص 257) ۔

یہ حدیث روزے کی عظمت اور اس میں پائے جانے والی قربانی کے جذبے کو بیان کرتی ہے۔اور مندرجہ ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہے:

۱-روزہ اور جہاد میں شباہت

جہاد کا مطلب صرف جنگ کرنا نہیں بلکہ ہر وہ کوشش ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کی جائے، خواہ وہ نفس کے خلاف ہو یا کسی ظاہری دشمن کے خلاف۔گرمی کے شدید موسم میں روزہ رکھنا ایک مشکل عمل ہے، جس میں بھوک، پیاس اور جسمانی مشقت کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا ہے، لہذا گرمی میں روزہ رکھنا کسی مجاہد کی قربانی سے کم نہیں ہے کیونکہ ایک مجاہد اللہ کے راستے میں جس طرح مشکلات کو برداشت کرتا ہے، ویسے ہی سخت گرمی میں روزہ رکھنے والا بھی اللہ کی رضا کے لیے قربانی دیتا ہے۔

۲- صبر اور تقویٰ کی آزمائش

گرمی میں روزہ رکھنے سے انسان کے صبر و برداشت اور تقویٰ و پرہیزگاری کا حقیقی امتحان ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص شدید گرمی میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتا ہے، تو وہ اپنی خواہشات اور جذبات پر قابو پانے کی مشق کرتا ہے، جو روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے۔

۳- اخلاص اور قربانی کا درس

جب کوئی شخص گرمی کے موسم میں روزہ رکھتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ محض رسمی طور پر نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لیے عبادت کر رہا ہے۔ ایسی سختیوں میں کیے گئے اعمال کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔

۴- اہلِ بیتؑ اور صحابہ کی عملی مثالیں

اہلِ بیتؑ اور نیک اصحاب سخت ترین حالات میں بھی روزے کا اہتمام کرتے تھے؛ حضرت فاطمہ زہراؑ، امام علیؑ اور دیگر اہلِ بیت نے گرمی میں روزے رکھ کر صبر اور استقامت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ گرمی میں روزہ رکھنا ایک عظیم عبادت اور جہاد کی مانند ہے۔ جو شخص صبر کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے گرمی میں روزہ رکھتا ہے، وہ جہادِ نفس میں کامیاب ہوتا ہے اور اللہ کی خاص رحمت و مغفرت کا مستحق بنتا ہے۔

۸- قال اميرالمومنينؑ:«أَلصِّيـامُ اِجْتِـنابُ الْمَحـارِمِ كَما يَمْتَنِعُ الرَّجُلُ مِنَ الطَّعامِ وَ الشَّرابِ»؛ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے فرمایا: “روزہ محرمات سے بچنے کا نام ہے جس طرح انسان روزے میں کھانے پینے کی چیزوں سے بچتا ہے”۔ (بحار، ج 93، ص 249) ۔

یہ حدیث روزے کی حقیقت اور اس کے اصل مقصد کو بیان کرتی ہے۔ امام علیؑ ہمیں بتا رہے ہیں کہ روزہ صرف بھوک اور پیاس کا نام نہیں بلکہ ایک جامع عبادت ہے جو انسان کو گناہوں سے بچانے اور اس کے کردار کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل مطالب ظاہر ہوتے ہیں:

۱-روزہ صرف بھوک پیاس نہیں

عام طور پر لوگ روزے کو صرف ظاہری عبادت سمجھتے ہیں کہ اس میں کھانے اور پینے سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔لیکن امام علیؑ فرما رہے ہیں کہ روزے کا اصل مقصد حرام چیزوں سے بچنا ہے، جیسا کہ آدمی کھانے اور پینے سے خود کو روکتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص دن بھر بھوکا پیاسا رہے لیکن جھوٹ، غیبت، دھوکہ دہی، گناہ اور برے اعمال سے نہ بچے تو اس کا روزہ حقیقی روزہ نہیں ہے۔

۲-روزے کا روحانی پہلو

روزہ انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور تقویٰ و پرہیزگاری سکھاتا ہے۔یہ صرف جسمانی عبادت نہیں بلکہ روحانی پاکیزگی اور نفس کی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔

حدیث نبوی ؐہے: “بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔” (سنن ابنِ ماجہ، 2 / 320، ح 1690) یعنی اگر کوئی شخص گناہوں سے نہیں بچتا، تو اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔

۳- روزہ بطور تربیت

روزہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جس طرح ہم حلال چیزوں (کھانے، پینے) سے دور رہتے ہیں، اسی طرح ہمیں حرام چیزوں (جھوٹ، چغلی، حسد، غصہ، بدگمانی، دھوکہ) سے بھی دور رہنا چاہیے۔ اگر روزہ ہمیں گناہوں سے نہ بچائے، تو وہ ایک رسمی عبادت بن جاتی ہے اور اس کا حقیقی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

خلاصہ یہ کہ امام علیؑ کی یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ اور پاکیزگی ہے۔ صرف بھوکا پیاسا رہنا کافی نہیں بلکہ اپنی زبان، آنکھ، دل اور دماغ کو بھی برے کاموں سے بچانا ضروری ہے۔ حقیقی روزہ وہ ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے روکے اور نیکی کی طرف مائل کرے۔

۹- قال اميرالمومنينؑ: « صَـوْمُ الْقَلْبِ خَيْرٌ مِنْ صِيـامِ الِلّسانِ وَ صَوْمُ الِلّسانِ خَيْرٌ مِنْ صِيامِ الْبَطْنِ»؛ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے فرمایا:”دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر ہے، اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے بہتر ہے”۔ (غرر الحكم، ج 1، ص417، ح 80)

یہ حدیث روزے کی حقیقی روح اور اس کے مختلف درجات کو واضح کرتی ہے۔ امام علیؑ یہاں تین طرح کے روزوں کا ذکر فرما رہے ہیں:

۱-شکم کا روزہ

یہ سب سے ابتدائی درجہ ہے، جس میں انسان کھانے، پینے اور دیگر ممنوع چیزوں سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف کھانے پینے سے رکا رہے، لیکن جھوٹ، غیبت، بدگوئی اور دیگر برے کاموں میں ملوث رہے، تو اس کا روزہ ناقص ہوگا۔

۲- زبان کا روزہ

شکم کے روزے سے بہتر یہ ہے کہ انسان اپنی زبان کو بھی برائیوں سے روکے۔ اس میں جھوٹ، غیبت، بدزبانی، چغلی، بے ہودہ گفتگو، گالی گلوچ اور فضول باتوں سے پرہیز شامل ہے؛ قرآن میں مومنین کی صفات میں سے بیان ہوا ہے کہ: «وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ»”یہ لوگ وہ ہیں جو لغو باتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔” (سورہ مؤمنون، آیت3) ۔ زبان کا روزہ رکھنے والا شخص نہ صرف خود کو بہتر بناتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے الفاظ سے تکلیف نہیں دیتا۔

۳- دل کا روزہ

سب سے افضل روزہ وہ ہے جس میں دل کو گناہوں، برے خیالات، حسد، نفرت، کینہ، تکبر اور دنیاوی لالچ سے پاک رکھا جائے۔ظاہری عبادات کے ساتھ اگر دل میں ناپاکی اور برے جذبات ہوں تو انسان کی روحانی ترقی نہیں ہوتی جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: «يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ- إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ»؛ اس (قیامت کے) دن نہ مال کام آئے گا، نہ اولاد، مگر جو پاک دل کے ساتھ اللہ کے پاس آیا”۔ (سورہ شعراء، 88-89) ۔ یعنی حقیقی روزہ وہی ہے جو دل کو اللہ کی یاد میں مشغول کرے اور انسان کے کردار کو پاک کر دے۔

خلاصہ یہ کہ امام علیؑ کی یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں، بلکہ زبان اور دل کو بھی پاک رکھنا ضروری ہے۔ حقیقی روزہ وہ ہے جو انسان کو گناہوں سے روکے، زبان کو قابو میں رکھے، اور دل کو نیک اور اللہ کی طرف مائل کرے۔

10- قال اميرالمومنين ؑ: «كَمْ مِنْ صائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيامِهِ اِلاَّ الْجُوعُ وَ الظَّمَأُ وَ كَمْ مِنْ قائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيامِهِ اِلاَّ السَّهَرُ وَ الْعِناءُ»؛

امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے فرمایا: “کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے صرف بھوک اور پیاس ہی حاصل ہوتی ہے، اور کتنے ہی عبادت گزار ایسے ہیں جنہیں ان کی عبادت سے صرف جاگنا اور مشقت اٹھانا ہی نصیب ہوتا ہے”۔ (نهج البلاغه، حكمت 145) ۔

یہ حدیث روزے اور عبادت کی حقیقی روح کو بیان کرتی ہے اور ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محض ظاہری اعمال کافی نہیں، بلکہ نیت، اخلاص، اور عمل کی پاکیزگی ضروری ہے۔مندرجہ ذیل مطالب اس حدیث کی روشنی میں معلوم ہوتے ہیں:

۱-روزے کی حقیقت

روزہ صرف کھانے اور پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ گناہوں سے بچنے، اخلاق کو سنوارنے، اور اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔اگر کوئی شخص روزہ رکھے لیکن جھوٹ، غیبت، حسد، چغلی، دھوکہ، فریب، اور دیگر برے اعمال سے نہ بچے، تو اس کا روزہ محض بھوک اور پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔

۲- عبادت کی روح

کچھ لوگ رات بھر عبادت کرتے ہیں، لیکن ان کے دل میں ریاکاری، تکبر، حسد اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ ایسی عبادت میں روحانی ترقی نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف ظاہری مشقت بن کر رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ نماز کے سلسلے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ:«فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ»؛”پس ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔” (سورہ الماعون 4-6)

۳- اخلاص اور نیت کی اہمیت

مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبولیتِ عمل کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اگر روزہ اور عبادت ریاکاری، شہرت، یا رسمی عادت بن جائیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔امام علیؑ کی یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ روزہ اور عبادت صرف رسمی یا جسمانی مشقت نہ ہوں، بلکہ ان میں اخلاص، نیکی، اور اللہ کا خوف ہونا چاہیے۔ اگر روزہ اخلاقی اصلاح کا ذریعہ نہ بنے اور عبادت دل کی پاکیزگی نہ بڑھائے تو وہ بے فائدہ رہ جاتی ہے۔ حقیقی کامیابی وہی ہے جو ظاہری عبادات کے ساتھ دل کی پاکیزگی اور اچھے اخلاق میں نظر آئے۔

والسلام

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button