اسلامی معارف

ولایت امام علی(ع) کا عام اعلان

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب "امامت" سے اقتباس

ولایت امام علی(ع) کا عام اعلان

حضرت علیؑ کی خلافت و امامت کے بارے میں غدیر سے پہلے جتنے اعلانات ہوئے وہ سب غدیر کا مقدمہ تھے۔

اس واقعہ کو تمام شیعہ و سنی علماء و محققین اور مورخین نے متفقہ طور پر اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ ہم یہاں ایک مختصر سا خاکہ  پیش کررہے ہیں کہ حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان کرنے کے لئے کیسے زبردست انتظامات کئے گئے تھے۔

غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان جحفہ میں واقع ہے جس وقت پیغمبرؐ اپنا آخری حج بجالانے کے بعد مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستہ میں خداوندعالم کا یہ فوری حکم لے کر جبرئیلؑ نازل ہوئے:

“يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهُۥۚ وَٱللَّهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهۡدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡكَٰفِرِينَ”[1]۔

“اے رسولؐ!  جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو(سمجھ لو کہ) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور خدا تم کو لوگوں (کے شرّ) سے محفوظ رکھے گا”۔

یہ سنتے ہی رسولؐفوراًٹھہر گئے اور آپ نے حکم دیا کہ جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں انہیں واپس بلایا جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے۔ پورا قافلہ ایک جگہ جمع ہوگیا۔ پالان شتر کا منبر بنایا گیا، میدان سے ببول کے کانٹے صاف کئے گئے۔ پیغمبرؐ منبر پر تشریف لے گئے اور ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس دن اتنی شدید گرمی تھی کہ میدان بہ شدّت تپ رہا تھا۔ لوگوں کی حالت یہ تھی کہ اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے سر پر ڈالے تھے اور دوسرا پیروں کے نیچے بچھائے ہوئے تھے۔ پیغمبرؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایااس کا کچھ اقتباس یہاں درج کیا جاتا ہے:

“مَعاشِرَالنّاسِ…  إِنَّ جَبْرئیلَ هَبَطَ إِلَی مِراراً ثَلاثاً یَأْمُرُنی عَنِ السَّلامِ رَبّی – وَ هُوالسَّلامُ – أَنْ أَقُومَ فی هذَا الْمَشْهَدِ فَأُعْلِمَ کُلَّ أَبْیَضَ وَأَسْوَدَ: أَنَّ عَلِی بْنَ أَبی طالِبٍ أَخی وَ وَصِیّی وَ خَلیفَتی (عَلی أُمَّتی) وَالْإِمامُ مِنْ بَعْدی، الَّذی مَحَلُّهُ مِنّی مَحَلُّ هارُونَ مِنْ مُوسی إِلاَّ أَنَّهُ لانَبِی بَعْدی وَهُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَالله وَ رَسُولِهِ…” ۔

“لوگو!…جبرئیلؑ میرے پاس تین مرتبہ آئے اور میرے پروردگار کی طرف سے، جوخود سلام ہے، یہ حکم مع سلام لائے کہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں اور ہر گورے اور کالے کو یہ اطلاع دوں کہ علیؑ ابن ابی طالبؑ میرے بھائی اور میرے وصی اور میرے خلیفہ اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزلت مجھ سے وہی ہے جو ہارونؑ کی موسیٰ ؑ سے تھی، فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اور وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد تم سب کا ولی ہے…”۔

فَاعْلَمُوا مَعاشِرَ النّاسِ أَنَّ الله قَدْ نَصَبَهُ لَکُمْ وَلِیّاً وَإِماماً فَرَضَ طاعَتَهُ عَلَی الْمُهاجِرینَ وَالْأَنْصارِ وَ عَلَی التّابِعینَ لَهُمْ بِإِحْسانٍ، وَ عَلَی الْبادی وَالْحاضِرِ، وَ عَلَی الْعَجَمِی وَالْعَرَبی، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلوکِ وَالصَّغیرِ وَالْکَبیرِ، وَ عَلَی الْأَبْیَضِ وَالأَسْوَدِ، وَ عَلی کُلِّ مُوَحِّدٍ. ماضٍ حُکْمُهُ، جازٍ قَوْلُهُ، نافِذٌ أَمْرُهُ، مَلْعونٌ مَنْ خالَفَهُ، مَرْحومٌ مَنْ تَبِعَهُ وَ صَدَّقَهُ، فَقَدْ غَفَرَالله لَهُ وَلِمَنْ سَمِعَ مِنْهُ وَ أَطاعَ لَهُ.

مَعاشِرَالنّاسِ، إِنَّهُ آخِرُ مَقامٍ أَقُومُهُ فی هذا الْمَشْهَدِ، فَاسْمَعوا وَ أَطیعوا وَانْقادوا لاَِمْرِرَبِّکُمْ، وَ وَلِیُّکُمْ َ وَ إِلاهُکُمْ، ثُمَّ مِنْ دونِهِ رَسولُهُ محمدوَلِیُّکُمْ  القائم المخاطِبُ لَکُمْ، ثُمَّ مِنْ بَعْدی عَلی وَلِیُّکُمْ وَ إِمامُکُمْ بِأَمْرِالله رَبِّکُمْ، ثُمَّ الْإِمامَةُ فی ذُرِّیَّتی مِنْ وُلْدِهِ إِلی یَوْمٍ تَلْقَوْنَ الله وَرَسولَهُ”.

“…اےلوگو! تم سمجھ لو کہ اللہ نے علیؑ کو یقیناًتمہارے واسطے ایسا ولی اور ایسا امام مقرر کردیا ہے جس کی اطاعت مہاجرین پر بھی لازم ہے اور انصار پر بھی اور جو نیکی میں ان کے تابع ہیں ان پر بھی، صحرانشینوں پر بھی، اور شہر کے رہنے والوں پر بھی اور بوڑھے پر بھی، گورے پر بھی اور کالے پر بھی ، ہر خدا کے واحد و یکتا ماننے والے پر اس کا حکم جاری ہوگا۔ اس کا قول ماننا پڑے گا، اس کا فرمان نافذ ہوگا ۔ جو اس کی مخالفت کرے گا ملعون ہوجائے گا اورجو اس کی متابعت اور اس کی تصدیق کرے گا اس پر رحم کیا جائے گااور جو اس کی متابعت اور اس کی تصدیق کرے گا اس پر رحم کیاجائے گا کہ اللہ نے خود اس کو مغفور فرمایا ہے اور جو شخص اس کی بات سنے گا اور اس کی اطاعت کرے گا اس کو بھی۔

اے لوگو ! یہ آخری موقع ہے کہ میں ایسے مجمع میں کھڑا ہوا ہوں، پس تم سنو اور مانو اور اپنے پروردگار کے حکم کی اطاعت کروکہ خدائے عزّو جلّ تمہارا پروردگار اور تمہارا ولی اور تمہارا معبود ہے پھر اس کے بعد اس کا رسول محمدؐ تمہارا ولی ہے جو اس وقت کھڑا ہوا تم سے بات کررہا ہے پھر میرے بعد تمہارے پروردگار کے حکم سے علیؑ تمہارا ولی اور تمہارا امام ہے پھر قیامت کے دن تک یعنی اس دن تک کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ کے حضور میں پہنچوگے امامت میری اولاد میں چلی جائے گی جو علیؑ کی صلب سے ہوگی…”۔

“مَعاشِرَالنّاسِ ! تَدَبَّرُوا الْقُرْآنَ وَ افْهَمُوا آیاتِهِ وَانْظُرُوا إِلی مُحْکَماتِهِ وَلاتَتَّبِعوا مُتَشابِهَهُ، فَوَالله لَنْ یُبَیِّنَ لَکُمْ زواجِرَهُ وَلَنْ یُوضِحَ لَکُمْ تَفْسیرَهُ إِلاَّ الَّذی أَنَا آخِذٌ بِیَدِهِ وَمُصْعِدُهُ إِلی وَسائلٌ بِعَضُدِهِ  وَ مُعْلِمُکُمْ: أَنَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِی مَوْلاهُ، وَ هُوَ عَلِی بْنُ أَبی طالِبٍ أَخی وَ وَصِیّی، وَ مُوالاتُهُ مِنَ الله عَزَّوَجَلَّ أَنْزَلَها عَلَی…”[2]۔

” لوگو!… قرآن مجید میں غور کرو اور اس کی آیتوں کو سمجھو اور اس کے محکمات میں نظر ڈالو اور اس کے متشابہات کی پیروی نہ کرو، خدا کی قسم اس کی تنبیہات سوائے اس شخص کے جس کا ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہوں اور جس کو میں اپنی طرف اٹھائے ہوئے ہوں اور جس کا بازو میں تھامے ہوئے ہوں۔ کوئی تمہارے لئے واضح نہیں کرے گا ، نہ اس کی تفسیر بیان کرے گا اور تمہیں بتاتا ہوں کہ بیشک جس کا میں مولا ہوں یہ علیؑ بھی اس کا مولا ہے اور یہ علیؑ ابن ابی طالبؑ ہے جو میرا بھائی ہے، میرا وصی ہے اور اس کا یہ ولی ہونا اللہ کی طرف سے ہے اور اسی نے مجھ پر نازل فرمایا ہے  … ۔

اس خطبہ میں اختصار کے ساتھ دوسرے ائمہ طاہرینؑ کا تذکرہ بھی کردیا گیا ہے اور پیغمبرؐ نے دوسری احادیث میں تفصیل کے ساتھ تمام ائمہ طاہرینؑ کے نام بیان فرمائے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر پیغمبرؐ نے امام حسینؑ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم امام ہو، فرزند امام ہو، برادر امام ہو اور تمہاری نسل میں نو امام ہوں گے جن کا نواں قائم (عج) ہوگا[3]۔

اس واقعہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے والا بھی اس حقیقت کو محسوس کرلے گا کہ یہ اسلام کا انتہائی اہم مسئلہ تھا اسی وجہ سے پیغمبرؐ نے حکم خدا کے مطابق اس کا م کو انجام دینے کے لئے ہر ممکن انتظام کیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ عرب کا تپتا ہوا صحرا، جھلسا دینے والی دھوپ، نصف النہار پر آفتاب، اور رسولؐپالان شتر کے منبر پر تشریف لے جاتے ہیں۔ پہلے طویل خطبہ ارشاد فرماکر اپنے وصال کے قرب کی خبر دی پھر ان کو اس پر بات گواہ بنایا کہ آنحضرتؐ نے کامل طریقے سے تبلیغ رسالت کا فرض انجام دیا ہے۔ اس کے بعد ان سے سوال کیا:

ألستُ اَوْلی بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟  کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتاہوں؟ سب نے ایک آواز ہوکر کہا: قالوا بَلی  یا رَسُولَ الله۔ بیشک یا رسول اللہؐ۔ تب پیغمبرؐنے فرمایا: “مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِی مَوْلاهُ”؛ جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علیؑ مولا ہیں۔ آخر میں علیؑ کے لئے اس طرح دعا فرمائی:

” اللهمَّ والِ مَنْ والاهُ و عادِ مَنْ عاداهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ واخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ”۔ خدایا ! اس کو دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علیؑ کو دشمن رکھے۔ اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو علیؑ کو چھوڑ دے”۔

جب جانشینی کی تقریب انجام پا چکی تو یہ آیت نازل ہوئی :

“ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ”[4]۔

“آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیااور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کرلیا”۔

اس الہی فرمان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت علیؑ کی امامت پر تقرری سے دین کامل ہوا اور اللہ کی نعمتیں تمام ہوئیں اور اللہ اسلام سے راضی ہوگیا۔

جب خدا کی جانب سے خوش خبری کا یہ پیغام آیا تو لوگوں نے پیغمبرؐ کے سامنے علیؑکو مبارکباد دی اور شعراء نے قصیدے پڑھے۔ یہ تمام حقائق کتب احادیث میں موجود ہیں۔

[1] مائدہ، آیت ۶۷۔

[2] الاحتجاج طبرسی، ج۱، ص ۶۶۔۸۴۔

[3]  ینابیع المودۃ، باب ۷۷۔

[4] سورہ مائدہ، آیت۳۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×