اسلامی معارف

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (3)

دنیا کی خلقت کیسے اور کیوں؟

 

دنیا کی خلقت کیسے اور کیوں؟

«اِبْتَدَعَ الْاَشْیاءَ لامِنْ شَیءٍ كانَ قَبْلَها، وَ اَنْشَاَها بِلاَاحْتِذاءِ اَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَها، كَوَّنَها بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأَها بِمَشِیتِهِ، مِنْ غَیرِ حاجَةٍ مِنْهُ اِلی تَكْوینِها، وَ لافائِدَةٍ لَهُ فی تَصْویرِها، اِلاَّ تَثْبیتاً لِحِكْمَتِهِ وَ تَنْبیهاً عَلی طاعَتِهِ، وَ اِظْهاراً لِقُدْرَتِهِ وَ تَعَبُّداً لِبَرِیتِهِ، وَ اِعْزازاً لِدَعْوَتِهِ، ثُمَّ جَعَلَ الثَّوابَ عَلی طاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقابَ عَلی مَعْصِیتِهِ، ذِیادَةً لِعِبادِهِ مِنْ نِقْمَتِهِ وَ حِیاشَةً لَهُمْ اِلی جَنَّتِهِ».

«اس نے پہلے سے موجود کسی چیز سے اشیاء کو پیدا نہیں کیا اور کوئی مثال پیش نظر رکھے بغیر عالم کو وجود میں لایا۔ ان چیزوں کو اپنی قدرت سے خلق فرمایا حالانکہ اسے ان چیزوں کے پیدا کرنے کی حاجت نہ تھی اور چیزوں کی تصویر کشی میں اسے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اشیاء کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ عقل والوں کو اس کی حکمت کا ثبوت ملے اور اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوں اس نے اپنی قدرت کے اظہار کیلئے یہ سب کچھ کیا تاکہ اس کی مخلوق اس کی بندگی کا اقرار کرے اور اس کی دعوت کو غلبہ حاصل ہو۔ پھر اس نے اپنی اطاعت پر ثواب مقرر کیا اور اپنی نافرمانی پر سزا قرار دی تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے بچائے اور انہیں گھیر کر جنت کی طرف لے جائے»۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ فدک میں نعمات الہی پر حمد و شکر  اور توحید کی گواہی اور شرک سے بے زاری کے بعد کائنات کی خلقت کیسے ہوئی اور کیوں ہوئی ؟ اس سلسلے میں آپؑ نے مختصر طور پر اہم باتوں کی طرف اشارہ فرمایا جن میں سے بعض یہ ہیں:

۱دنیا کی خلقت کیسے ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جس کے سلسلے میں ہمیشہ سے مختلف علوم میں بہت بحثیں ہوتی رہی ہیں؛ جن میں سے بعض عقیدے یہ ہیں کہ:  دنیا “عدم”سے پیدا ہوئی ہے ۔یا یہ کہ خودبخود پیدا ہوگئی ہے یا یہ کہ ہر چیز کو نمونوں اور مثالوں کے ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یہاں اس خطبہ میں شہزادیؑ نے  مذکورہ عقیدوں کا انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ تو دنیا  کی خلقت “عدم” یعنی (من لاشیء) سے ہوئی اور نہ ہی کسی نمونے اور مثال کو سامنے رکھ کر دنیا کی خلقت ہوئی ہے اور نہ ہی یہ دنیا خودبخود بنی ہے بلکہ دنیا کا بنانے والا خدا ہے جس نے بغیر کسی نمونے یا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ارادے اور مشیت سے اس کو بنایا ہے۔  اس سلسلے میں بہت سی آیات اور احادیث بھی پائی جاتی ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

۲۔ دوسرا اہم سوال خلقت دنیا کے حوالے سے یہ پیش آتا ہے کہ دنیا کو پیدا کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ کو اس کا فائدہ کیا ہے؟  یہ وہ سوال ہے جس کی بنیاد پر بہت زیادہ بحثیں ہوئی ہیں یہاں تک کہ مسلمانوں میں اسی سوال کی بنیاد پر فرقے بھی وجود میں آگئے۔ بعض نے دنیا کی خلقت میں فائدے اور اس کی ضرورت سے ہی انکار کردیا۔ بعض نے اس کے ہدف و فائدے کی روشنی میں اللہ تعالیٰ ہی کو محتاج اور مخلوق کی طرح بناکر پیش کردیا اور بعض نے دوسرے عقیدے اختیار کئے۔ لیکن معصومین ؑ کے ارشادات اور مذکورہ خطبہ میں حضرت فاطمہ زہراؑ کے بیان کی روشنی میں صحیح جواب یہ ہے کہ:

الف: دنیا کی خلقت میں اللہ تعالیٰ کسی بھی مثال یا تصویر و نمونے کا محتاج نہیں ہے ۔

ب: دنیا بغیر ہدف اور مقصد کے پیدا نہیں ہوئی ہےبلکہ اس کی خلقت میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔

ج: دنیا کی خلقت کا فائدہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے اس لئے کہ وہ کسی قسم کے فائدے کے لئے کسی چیز یا کسی اور کا محتاج نہیں ہوسکتا ہے ۔

د: دنیا کی خلقت اللہ تعالیٰ کی مخلوق  اور بندوں کے فائدوں کے لئے بنائی گئی ہے جن میں سے  شہزادیٰؑ کے ارشاد کے مطابق بعض فائدے یہ ہیں :

(1) صاحبان عقل پر اللہ کی حکمت آشکار ہوجائے۔

(2) بندے خدا کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوجائیں۔

(3) اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہو۔

(4) مخلوق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کی منزل پر گامزن ہوکر ثواب و منفعت تک پہنچ جائےاور اپنے آپ کو عذاب و عقاب سے محفوظ کرلے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اپنے وجود میں اور اپنی بقاء میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہیں اوراللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور اس کی تمام چیزوں کو بھی اپنی ضرورت یا ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ مخلوق ہی کی مصلحت اور اس کے فائدے کے لئے دنیا کو خلق کیا ہے لہذا تمام انسانوں کو اپنے ہدف و مقصد خلقت کو جاننا سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور رہبران الہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے انحرافات سے محفوظ رہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×