اسلامی معارفبنیاد اختر تابان

امامت میں اختلاف؟

علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس (1)

(1) 🍀امامت و خلافت کی تعریف🍀

امامت: قیادت، رہبری ۔ الامام یعنی قائد یا رہبر۔ اسلامی اصطلاح میں اس کی تعریف یہ کی گئی ہے: الامامۃ: ھی ریاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا نیابۃ عن النبیؐ۔[1] یعنی پیغمبر ؐ کی نیابت میں دین و دنیا کی ریاست عامہ کو “امامت” کہتے ہیں۔ امام کے معنی ہیں وہ “مرد” جو نبی کی نیابت میں امت مسلمہ پر دین و دنیا کے امور میں ریاست عامہ پر فائز ہو۔

“مرد” کی شرط اس لئ لگائی گئی ہے کہ “عورت” امام نہیں ہوسکتی ہے۔

“ریاست عامہ” کی قید امام جماعت کو اس تعریف سے خارج کردیتی ہے۔اگرچہ وہ بھی “امامت جماعت” کہا جاتا ہے لیکن ریاست عامہ کا حامل نہیں ۔

“نیابۃ عن النبیؐ” کی شرط نبی اور امام کے فرق کو واضح کرتی ہے کیونکہ امام کو یہ ریاست عامہ براہ راست نہیں بلکہ نبی کے نائب کی حیثیت سے حاصل ہوتی ہے۔

“خلافت” کے معنی جانشینی ہیں۔ اور “خلیفہ” جانشین اور نائب کو کہتےہیں۔ اسلامی اصطلاح میں “خلافت” و “خلیفہ” عملاًوہی مفہوم ظاہر کرتے ہیں جو “امامت”اور “امام” سے ظاہر ہوتا ہے۔

“الوصایۃ” یعنی وصیت پر عملدرآمد کی ذمہ داری اور اختیار اور “وصی” یعنی وصیت پر عملدرآمد کا ذمہ دار۔عام طور سے اس سیاق و سباق میں “وصیت”اور “وصی” کے وہی معنی مراد لئے جاتے ہیں جو “خلافت” اور “خلیفہ” کے ہیں۔

قارئین کرام کے لئے یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ بہت سے انبیاء ؑسلف اپنے پیشرو انبیاءؑ کے خلیفہ بھی تھے۔یعنی: وہ نبی ؑبھی تھے اور خلیفہ بھی ۔ وہ انبیاءؑ جو صاحبان شریعت تھے وہ صرف پیغمبرؑتھے اور اپنے پیش رو نبی ؑکے خلیفہ نہیں تھے اور کچھ ایسے افراد بھی گذرے ہیں جو انبیاء ؑکے خلیفہ تھے مگر نبی ؑنہیں تھے۔

“امامت و خلافت” کےقضیہ نے امت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور ان اختلافات نے عقائد و نظریات کو اتنا متاثر کیا ہے کہ “توحید”و “نبوت” کے عقیدے بھی ان آویزشوں کی زد سے نہ بچ سکے۔

علم کلام میں اس مسئلہ پر سب سے زیادہ بحث و مباحثہ، سب سے زیادہ نزاع اور جدال ہوتی رہی ہے اور اس پر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔

میرے سامنے جو مسئلہ ہے وہ یہ نہیں کہ کیا لکھوں بلکہ یہ کہ کیا نہ لکھوں۔ کوزہ میں سمندر کو بند نہیں کیا جاسکتا ۔ اس چھوٹے سے کتابچہ میں نہ تو اس موضوع کے تمام مباحث کو سمیٹا جاسکتا ہے اور نہ جس مبحث کو بیان کیا جائے اس پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے۔ اس کتابچہ میں اس موضوع پر جو اختلافات ہیں ان کا مختصر سا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شروع ہی میں یہ کہہ دینا بہتر ہے کہ مسلمان اس سوال پر دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں؛

اہل سنت: جن کاعقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر ہیں۔

اور شیعہ: جن کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت علیؑ ابن ابی طالب ؑپیغمبرؐ  کے پہلے خلیفہ اور امام ہیں۔

اس بنیادی اختلاف نے کئی دوسرے اختلاف کو جنم دیا جن کی وضاحت آئندہ کی جائے گی۔

(2) 🍀 اختلافات کا خلاصہ🍀

پیغمبرؐ کی ایک متفقہ علیہ حدیث ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ :

“عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائےگی جن میں سے صرفایک فرقہ ناجی ہوگااور باقی تمام فرقے نازی ہوں گے”۔[2]

جن کو اپنی آخرت سنوارنے کی فکر ہوتی ہے وہ ہمیشہ ہی راہ نجات اور صراط مستقیم کی تلاش و جستجو کرتےرہتے ہیں، ہر شخص پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عقل کو اپنا رہبر بنائے، تحقیق و جستجو کرتا رہا، یہاں تک کہ سچائی اور حق کا دامن اس کے ہاتھ میں آجائے ۔ ان تمام اختلافات پر ایک طائرانہ نظر ڈالے اور جانب داری و تعصب سے بچ کر تمام معاملات کا ایک تنقیدی جائزہ لے اور فہم و تدبر کا سہارا لیتے ہوئے خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے صراط مستقیم کی ہدایت کرے۔

اسی لئے میں یہاں پر اہم اور خاص خاص اختلافی موضوعات کو اجمالا بیان کرنے کے ساتھ، ان موضوعات سے متعلق فرقوں کے دلائل اور نظریات کا بھی جائزہ لوں گا تا کہ تحقیق کی منزلیں آسان ہوجائیں۔

اس سلسلے میں اہم سوالات یہ ہیں:

۱۔ رسول ؐ کے جانشین کا تقرر کرنا خدا کے اختیار میں ہے یا امت کی ذمہ داری ہے کہ جسے بھی چاہے رسولؐ کا جانشین مقرر کردے ؟

۲۔ اگر یہ امت کی ذمہ داری ہے تو کیا خدا  یا رسولؐ نے امت کے ہاتھ میں کوئی ایسا دستور دیا  جس میں “خلیفہ” کے انتخاب کے قوانین اور طریقہ کا ر بیان کئے گئے ہوں؟ یا امت نے انتخاب کی منزل آنے سے پہلے کچھ قواعد و ضوابط بنا لئے تھے جس کی بعد میں پابندی کی گئی ؟ یا امت نے ہر نئے موڑ پر جو طریقہ مفید مطلب ہوا اسے اختیار کر لیا۔ اور جو کچھ امت نے کیا، کیا اسے ایسا کرنے کا اختیار تھا؟

۳۔ کیا عقل اور قوانین الہی کی رو سے امام اور اخلیفہ کے اندر کچھ صلاحتیوں اور شرائط کا پایا جانا ضروری ہے؟ اگر ہاں ! تو وہ شرائط اورخصوصیات کیا ہیں؟

۴۔ پیغمبراسلامؐ نے کسی کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا یا نہیں ؟ اگر مقرر فرمایا تو وہ کون ہے؟ اگر نہیں مقرر کیا تو کیوں؟

۵۔ وفات پیغمبرؐ  کے بعد کس کو خلیفہ تسلیم کیا گیا اور کیا خلیفہ کے اندر جن شرائط کا وجود ضروری ہے وہ اس میں پائی جاتی تھیں یا نہیں ؟[3]

[1] الحلی ، حسن بن یوسف بن علی بن مطہر حلی، شرح باب حادی عشر، ص۶۹۔ محمد جواد مغنیہ ، فلاسفۃ الاسلامیۃ ، ص ۳۹۲۔مطبع دارالتعارف بیروت۔ 1398/1978ء۔

[2] مشکوۃ المصباح، ج۱، ص۵۰۔ اور علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں ایک باب اسی عنوان سے احادیث کا لکھا ہے۔سفینۃ البحار، شیخ عباس قمی۔ ج۲، ص۳۶۰/ 359

[3]  نجم العلماء، سید نجم الحسن، النبوت و والخلافت، مطبوعہ لکھنو۔ 1935 طبع دوم(بہ تبدیل عبارت)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×