
شب عاشور کی مہلت اور حکمتیں
تحریر :حجۃ الاسلام مولانا سید محمد مجتبیٰ علی رضوی، دہلی، ہند
فهرست مندرجات
تمہید
معرکۂ کربلا اور انقلاب حسینی ؑکی تاریخ محتاج تعارف نهیں هے تاریخ اسلام سے مختصر آشنائی رکھنے والے بھی کربلا کو جا نتے هیں۔ اور اس کی اهمیت اور عظمت کے قائل هیں ۔تاریخ کربلا کو ئی گونگی تاریخ نهیں هے بلکه بولتی هو ئی تاریخ هے اور اس کے تمام پهلوؤں کو خود امام حسین ؑنے بار ہا اپنے واضح بیانات کے ذریعہ روشن کیا هے ۔ یه ایک ایسا عظیم اور معرکۃ الاراء انقلاب هے که جس کے تمام تر جزئیات بھی کتابوں میں موجود هیں ۔ جس سے بخوبی واقعۂ کربلا کو سمجھنے میں مدد ملتی هے ۔ جیسا که خود انقلاب کے پهلے هی دن امام حسین ؑنے اپنے قیام کا مقصد واضح کر دیا که یه کس طرح کا انقلاب هے اور کیوں هے ؟
آغاز انقلاب کربلا
جس وقت حاکم شام معاویه بن ابو سفیان اس دنیا سے گیا تو یزید ملعون اسلامی حکومت کا حاکم هو ا یه دنیائے اسلام کے لئے ایک بهت بڑا المیه تھا لیکن اس سے بڑا ستم یه که امت کی اکثریت کے کانوں میں جوئیں تک نه رینگی اورعوام الناس نے بلا تکلف اس فاسق و فاجر کی بیعت کر لی ۔ وه پهلے سے هی دین سے بے پرواه اور بدمست تھا حکومت ملنے کے بعد وه اور جری هو گیا اور جسارت یهاں تک هو گئی که فرزند نبی سے مطالبه بیعت کر بیٹھا۔ چنانچه اس نے والئ مدینه کو اس مضمون کا خط لکھا : « فخذ حسینا و عبدالله بن عمر و عبدالله بن الزبیر بالبیعه أخذا شدیدا لیست فیه رخصه حتی یبایعوا، و السلام». حسین ؑ ، عبد الله ابن عمر اور عبد الله ابن زبیر سے بیعت لو اورجب تک بیعت نه کریں کسی قسم کی مهلت و فرصت نه دینا و السلام۔( صحیفۂ شہادت، ص 28)۔
یه لهجه بتا رها هے که ارادے کیا هیں اور بیعت کا مطلب کیا هے یزید جیسے کی بیعت کا مطلب یه هے که اسلام کا فاتحه پڑھنا؛جیسا که خود امام ؑ فرما تے هیں: «وَعَلَى الاِْسْلامِ الْسَّلامُ اِذ قَدْ بُلِيَتِ الاُْمَّةُ بِراعٍ مِثْلَ يَزيدَ»؛ ایسے اسلام کا فاتحه پڑھ دینا چا هیئے جس کا یزید جیسا حاکم هو(صحیفۂ شہادت ، ص 32)۔
کیونکه یزید کا فسق و فجور عیاں تھا وه کھلے عام محرمات کو انجام دے رها تھا اسلام کی هر ممنوعه چیز اس کو پسند تھی اور وه اسے کھلے عام انجام دیتا تھا قوانین اسلام کی اپنے باپ کے زمانے میں هی پرواه نهیں کر تا تھا اب تو آزاد تھا حکومت اسلامی اس کے هاتھ میں تھی۔
جب حاکم مدینه نے امام حسین ؑکو دربار میں بلوایا اور یزید کا خط سامنے رکھا اور بیعت کی بات کی تو آپ نے صاف صاف فرق واضح کرتے هو ئے بتادیا که یزید بیعت کے قابل هی نهیں هے؛ چنانچه امام فرما تے هیں :« انا اهل بيت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائكة و مهبط الرحمة بنا فتح الله و بنا ختم»؛ هم اهل بیت نبور هیں هم مرکز رسالت هیں همارے یهاں ملائکه کے آنے کا سلسله رها اور رحمتوں کا نزول هوا خداوندعالم نے هم سے هی شروعات کی اور انتها بھی هم هی سے هو گی ۔ (صحیفه شہادت ، ص 27)۔
اس کے بعد یزید کے کردار کو بیان فرما تے هیں:«یزید رجل شارب الخمر، قاتل نفس المحترمة، معلن بالفسق»؛ یزید ایک مرد شراب خوار هے بے گناهوں کا قاتل هے اور کھلے عام گناه کرتا هے(صحیفۂ شہادت ، ص 27)۔ لهذا «مثلی لایبایع مثله»؛ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نهیں کر سکتا ۔ امام ؑنے واضح الفاظ میں یه بیان فرمادیا که هم کون هیں اور یزید کون هے تو بیعت کا تو سوال هی نهیں هو تا ۔
امام نے یهاں بھی اخلاق اور آداب کا اتنا لحاظ رکھا که جب اپنی تعریف کی تو پورے خاندان کا ذکر کیا لیکن جب یزید کی برای اور حقیقت بیان کی تو صرف اسی کی بات کهی پورے خاندان کو نهیں گھسیٹا۔ بلکه صرف اسے برا کها۔ هاں اس سے کوئی یه مطلب نه نکا لے که امام نے نبی امیه کو کلین چٹ دے دی ، بلکه امام نے اپنی اعلی ظرفی کا ثبوت دیا ۔ که هم دشمنی میں بھی بد اخلاقی کا مظاهره نهیں کرتے هیں اور نه ادب کی حدود کو پار کرتے هیں ۔ لهذا صرف مد مقابل کا تذکره کیا «يزيد رجل فاسق شارب الخمر» یزید شراب خوار هے ۔
امام حسین ؑ کے اب تک کے بیان سے یه معلوم هو گیا که کسی بھی زاویه سے بیعت کا کوئی امکان نهیں تھا بلکه اب تو اسلام کو بچا نا اور سوئی هوئی اور پژمرده هو چکی امت کو جگانا تھا انهیں یه احساس دلا نا تھا که تم بے حس اور بے شعور هو چکے هو تمهیں حلال و حرام کی تمیز نهیں رهی، تمهیں حق و باطل کو سمجھنے کا شعور هی نهیں لهذا انهیں بیدار کرنا ضروری تھی ایسا کوئی بڑ ا قدم اٹھا نا ضروری تھا جس سے قوم بیدار هو لهذا اپنے بھائی محمد حنفیه کے جواب میں امام نے یوں خط لکھا اور اپنے پورے قیام کی وجه بتائی :
«و اني لم اخرج اشرا و لا بطـرا و لا مفسدا و لا ظالما و انما خرجت لطلب الاصلاح في امة جدي(ص) اريد ان امر بالمعروف و انهي عن المنكر و اسير بسيرة جدي و ابي علي ابن ابي طالب(ع) فمن قبلني بقبول الحق فاللّه اولى بالحق و من رد علي هذا اصبر حتى يقضي اللّه بيني و بين القوم بالحق و هو خير الحاكمين»؛(بحارالانوار،ج44و ص329؛ مقتل خوارزمی، ج1، ص188)؛ نه میں خود خواهی کے لئے وطن چھوڑ رها هوں اور نه هی خوش آیند مستقبل کی جستجو میں نه شر و فساد کےلئے بلکه اس سفر سے میرا مقصد یه هے که لوگوں کو اچھائی کی طرف دعوت دوں اور برائی سے روکوں ، چا هتا هوں که اپنے جد بزرگوار اور اپنے والد ماجد کے اسوه حسنه کو زنده کروں ۔ جس کسی نے اس حقیقت کو قبول کرتے هوئے میری پیروی کی اس نے راه حق کو اختیار کیا اور جس کسی نے مجھ سے انحراف کیا تو میں صبر و شکیبائی سے اپنی راه کی طرف بڑھتا رهوں گا یهاں تک که خدا همارے اور ان لوگوں کے درمیان فیصله فرما ئے کیونکه وهی بهتر فیصله کرنے والا هے ۔
یه امام کا راسته تھا امت کا حال اور اپنی ذمه داریوں کو بتایا که سنت نبوی اور سیرت مرتضوی نظر انداز هو چکی هے جسے دوباره سے زنده کرنا چا هتے هیں برائیاں عام هیں اچھائیاں نایاب هو چکی هیں انهیں دوباره سے اپنی جگه لانا هے اپنے اس مشن کا پورا حال بتا دیاتو اب سے سے اهم دین هے ۔
شب کی مهلت
اسی طرح امام نے قیام مکه کے دوران کوفه والوں کی طرف سے مسلسل اصرار اور خطوط کی آمد کی وجه سے اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کا جائزه لینے کے لئے کوفه بھیجا اور شہر مکه میں دشمنوں کی آہت محسوس کرتے ہوئے اس مقدس شہر کی حرمت کے تحفظ کی خاطر حج کو ترک کیا اور مکہ سے کوچ فرمایا یهاں تک که راسته میں جناب حر کے لشکر سے ملاقات هو ئی اور امام دوسری محرم کو کربلا پهنچ گئے ۔
کربلا میں ورود کے بعد عمر بن سعد سے مسلسل گفتگو کا سلسله جاری رها کوئی نتیجه نهیں نکلا اس لئے که عمر سعد چا هتا تھا که امام بیعت کرلیں اور جنگ ٹل جائے امام کسی بھی صورت بیعت کو قبول نهیں کر سکتے تھے ۔ امام سب کو بیدار کرنا چا هتے تھے تا که امت مسلمه بیعت فاسق کا طوق اتار پھینکیں لیکن جب دنیا اور اس کا حصول عقلوں پر حاوی هو جا تا هے تو امام کی باتیں بھی اثر انداز نهیں هو تی هیں ۔
آخری خط
جب ابن زیاد کو یه خبریں ملی که عمر سعد جنگ کو ٹال رها هے اور امام حسینؑ بیعت کے لئے کسی بھی طرح آماده نهیں هیں تو اس نے ایک آخری خط لکھا جو کربلا میں نو محرم عصر کے وقت عمر سعد کے پاس پهنچا جس کا مضمون تھا که یه خط ملتے هی یا تو امام حسین ؑ سے بیعت لے یا پھر جنگ شروع کردے۔ خط ملتے هی پوری یزیدی فوج حرکت میں آ گئی اور چاروں طرف سے خیام امام حسین ؑ کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ ادھر جب امام کو یه اطلاع هو ئی تو آپ نے حضرت عباس ؑکو اپنے پاس طلب فرما کر فرمایا:
«يا عباس، ارکب- بنفسي أنت يا أخي، حتي تلقاهم و تقول لهم: ما لکم و ما بدا لکم؟ و تسألهم عما جاء بهم»؛
“اے بھائی آپ خود جا ئیں اور دشمنوں سے دریافت کریں که وه کیا چا هتے هیں”(تاریخ طبری ، ج7، ص 316؛ الارشاد شیخ مفید، ج2و ص90)۔ جب حضرت عباس ؑ لشکر کے پاس پهنچےاور دریافت کیا که کیا چا هتے هو تو یزیدی لشکر نے جواب دیا : ابن زیاد کا خط آیا هے که یا تو ابھی بیعت کریں یا جنگ کے لئے تیارهو جا ئیں(صحیفۂ شہادت ، ص 144)۔
حضرت عباس ؑ نے ان سب کو روکا اور امام کی خدمت میں حاضر هو ئے اور دشمنوں کے مقصد سے آگاه کیا ۔ امام نے فرمایا :
«اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَاِنْ اسْتَطَعْتَ اَنْ تُؤَخِّرَهُمْ اِلى غَدْوَةٍ وَتَدْفَعَهُمْ عَنّا الْعَشِيَّةَ لَعَلَّنا نُصَلّى لِرَبِّنَا الْلَّيْلَةَ وَنَدْعُوَهُ وَنَسْتَغْفِرَهُ، فَهُوَ يَعْلَمُ اَنِّى قَدْ كُنْتُ اُحِبُّ الصَّلاةَ لَهُ وَتِلاوَةَ كِتابِهِ وَكَثْرَةَ الدُّعاءِ وَالاِسْتِغْفارِ»؛(تاریخ طبری، ج7، ص316؛ موسوعة كلمات الامام الحسين ؑ، حديث 392، ح379)۔
“جاؤ اور ان لوگوں سے کهو که اگر ممکن هو تو جنگ کو کل پر ملتوی کریں تا که هم لوگ آج کی رات نماز و تلاوت میں بسر کرسکیں اور اپنے رب سے استغفار و مناجات کر سکیں کیونکه خدا جانتا هے که مجھے نماز، تلاوت قرآن، استغفار اور مناجات سے شدید انس و لگاؤ هے ۔
حضرت عباس ؑدوباره گئے اور امام کا پیغام ان لوگوں کو دیا جس پر انهوں نے آپس میں مشوره کر کے مهلت دے دی”۔
مهلت کے مقاصد
رهتی دنیا تک کے لئے یه پیغام دینا تھا که حسین ؑ جنگ نهیں چا هتے حتی الامکان جنگ سے گریز کر رهے هیں اور دوسری طرف بڑھتی هو ئی فوجیں وه بھی عصر کے وقت اس بات کی عکاسی کر رهی هیں که دشمن هر طرح کے حربه استعمال کر سکتا هے وه ظلم ڈھا نے میں کسی بھی حد تک جا سکتا هے ۔
بڑھتی هو ئی فوج کو یه کهه کر روکنا که هم عبادت کریں گے ، نماز و تلاوت و دعا و استغفار کریں گے ۔ امام عالی مقام کی طرف سے اعلان هے که هم کسی بھی دنیوی مقصد کے لئے نهیں نکلے هیں اگر مقصد حصول دنیا هو تا تو تیاریاں جنگ کی هو تیں لیکن مصلائے عبادت دراز کرنا اس بات کی واضح دلیل هے که رضائے پروردگار کی سعی هے ۔جس کی عصر عاشور ببانگ دهل منادی دی گئی .
“يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ- ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّة”.(سورہ فجر،آیه 27،28) کی شکل میں۔ جو خود معراج بندگی کی سند اور رضائے الهیٰ کا اقرار تھا ۔
تاریخ نویسوں کو یه پیغام دیا که جب بھی کربلا کی تاریخ لکھیں یه ضرور لکھیں که یزیدی جنگ کے لئے کوشاں تھے اور حسینی ؑ رضائے الهیٰ کے لئے وه جنگ چا هتے تھے اور یه امن کے خواهاں تھے ۔
اس ایک شب کی مهلت سے نماز و تلاوت قرآن اور دعا و مناجات کی اهمیت کو محسوس کیا جا سکتا هے ۔ یه چیزیں امام کے نزدیک کتنی اهمیت و عظؐت کی حامل تھیں اسی لئے مهلت مانگی ۔
انقلاب حسینی کا مقصد هی یهی تھا که نماز و قرآن کو نئی زندگی ملے شعار الهی میں تبدیلی نه آنے پا ئے پژمرده هو چکی شریعت میں حیات تازه آ ئے اور عبادت الهی کی اهمیت پھر سے ظاهر هو جا ئے اور بعد والوں کے لئے مشعل راه هو سکے اسی لئے هم امام کی زیارت میں یه جمله پڑھتے هیں:
« اشهد انک قد اقمت الصلاة»؛ هم گواهی دیتے هیں که آپ نے نماز کو قائم کیا۔ (زیارت وارثہ)۔
یهی مقصد تھا که اگر اب تک کسی کو قیام حسینی اور انقلاب سید الشهداء کی اهمیت اور ضرورت نه سمجھ میں آئی هو تو اب آجائے که جو امام نے پهلے دن فرمایا تھا که میرے قیام کا مقصد امر بالمعروف اور نهی عن المنکر هے ۔ میں سیرت محمد مصطفی ؐاور سیرت علی مرتضی ؑ کو زنده کرنے کے لئے نکلا هوں ۔ یه اس کی تصدیق و تائید هے ۔
مهلت کی حکمتیں
ایک طرف عبادت الهی مقصد اصلی تھا جس میں خود امام حسین ؑسے لے کر تمام اعزاء و اقرباءو برادر و اصحاب و انصار یهاں تک که خواتین و بچے بھی شامل تھے وهیں کچھ دوسرے اهم نکات بھی واضح کرنا تھے ۔ جو اس سے پهلے ممکن نه تھاگویا آتی هو ئی موت کو امام نے کچھ دیر کے لئے روکا اور سب پر واضح کردیا که یه زندگی کی آخری شام هے ۔
یقینی موت
امام معصوم ؑ اور آپ کے اعزاء تو علم امامت اور اپنی بصیرت کی وجه سے یقینی موت کا علم رکھتے تھے لیکن دوسروں کے لئے ، ساتھیوں کے لئے اور بعد کے قلمکاروں کے لئے اور یزید سے همدردی رکھنے والوں کے لئے بات بنا نے کا موقع تھا که اصحاب حسینی کا کمال کیا وه تو اتفاقی حمله اور جنگ کی وجه سے شهید هو گئے۔
دوسری طرف امام کو بھی حجت تمام کرنا تھی کیونکه اب تک دوسروں کے لئے ایک امکان تھا که شاید جنگ نه هو ، شاید کوئی راسته نکلے ، لیکن نویں محرم کو عصر کے وقت یزیدی فوج کی غیر متوقع پیش قدمی نے سارے امکانا اور قیاس آرائیوں کو ختم کرکے جنگ و شهادت کو یقینی بنا دیا۔ اب امام کے لئے حجت تمام کرنا اور اپنے جانثاروں کے کمال اطاعت کو پوری دنیا پر اجاگر کرنا تھا ۔ جو اس سے پهلے ممکن نه تھا دوسری طرف تاریخی بهانوں کو بھی ختم کرنا تھا ۔ اور عبادت کی اهمیت ،کردار کی بلندی ، عظمت نماز، شان تلاوت قرآن، معراج بندگی ، اطاعت امام اور الهی مقصد میں ڈتے رهنے والوں کی کامیابی کی شب تھی۔
اصحاب پر حجت تمام کرنا
جب سب کو معلوم هو گیا که موت یقینی هے پھر بھی اصحاب حسینی ؑ نے امام کی همراهی میں مصلائے عبادت بچھا کر عبادت شروع کی اس وقت امام نے تاریخی خطبه دیا ۔ جس میں خدا کی حمد و ثناء کے بعد خاندان رسالت اور مرکز نبوت هو نے پر الله کا شکر ادا کیا پھر فرمایا :
“میں نے اپنے اصحاب سے بهتر اصحاب نهیں دیکھے اور اپنے خانواده سے زیاده با وفا و همدرد گھرانه میری نظر سے نهیں گزرا خدا تم سب کو جزائے خیر دے مجھے میرے نانا نے خبر دی هے که میں کربلا اور عموره نامی جگه پر شهید کیا جاؤں گا میری شهادت کا وقت آچکا هے کل هی دشمن آغاز جنگ کریں گے تم آزاد هو تاریکی شب میں ایک دوسرے کا هاتھ پکڑ لو اور چلے جاؤ کیونکه لشکر یزید کو صرف مجھ سے سروکار هے اگر تم نے میری حمایت سے هاتھ روک لیا تو پھر انهیں تم سے کوئی غرض نه هو گی ۔ خدا تم سب کو جزائے خیر عطا فرما ئے گا ۔ “
اس موقع پر حضرت نے صاف اور واضح الفاظ میں اپنی شهادت کی خبر دی اور سب کو جا نے کا آخری موقع بھی دیا یعنی اپنی بیعت بھی سب سے اٹھا کر سب کو آزاد کردیا لیکن اس کا اثر یه هوا که حضرت کے بیان کے بعد چھوڑ کر جانے کے بجائے سب نے پھر پور طریقه سے اظهارعقیدت کیا اور آپ کے بغیر زندگی کو ننگ وعار سے تعبیر کیا اور اصحاب و اقرباء کے هر فرد نے پامردی و بهادری کے ساتھ حضرت کو اپنی وفادری ، جذبۂ نصرت ، پائیداری اور استقامت کا یقین دیالا۔
اس موقع پر هم کچھ جانثاروں کے بیان کو پیش کررهے هیں
حضرت عباس ؑکا بیان
“لاارنا الله ذلک ابدا “میرے سید و سردار خدا وه دن نه دکھا ئے که هم آپ کو تنها چھوڑ کر کسی شهر کی طرف چلے جا ئیں۔ علمدار حسینی ؑ کے بعد بنی هاشم کے ایک ایک فرد نے اپنے عقیده کا اظهار اسی طرح کیا اور آخری دم تک حمایت کا یقین دلایا(صحیفۂ شہادت، ص147)۔
جناب مسلم کے بھائیوں کو بھی امام نے آزادی دے دی اور کها که مسلم کی شهادت کافی هے تم تو چلے جاؤ لیکن وه بھی امام کی حمایت سے دستبردار نهیں هو ئے۔
جناب مسلم بن عوسجه کا بیان
آقا کیونکر ممکن هے که هم آپ ؑ کی نصرت سے هاتھ روک لیں تو خدا کو کیا جواب دیں گے خدا کی قسم آپ کے قدموں سے جدا نهیں هو ں گے جب تک اپنے نیزوں سے آپ کے دشمنوں کا سینه چھلنی نه کردیں اور اپنی تلواروں سے ان پر ٹوٹ نه پڑیں اگر همارے پاس نیزه و شمشیر نه بھی هو تو هم پتھروں سے جنگ کرتے هوئے جان کا نذرانه حضرت احدیت کی خدمت میں پیش کردیتے (صحیفۂ شہادت ،ص 148)۔
سعد بن عبد الله نے یوں کها
آپ کی نصرت و حمایت سے دست بردار نهیں هوں گا آپ کی نصرت کرکے خداوندعالم کی بارگاه میں کهه سکتاهوں که تیرے نبی کے حق کا خیال رکھا خدا کی قسم اگر ستر بار قتل کیا جاؤں اور پھر زنده کیا جاؤں تب بھی آپ کی نصرت سے منه نهیں موڑ سکتا (صحیفۂ شہادت ،ص 148)۔
اس طرح تقاریر کا سلسله جاری رها اور هر ایک نے فردافردا اپنی حمایت اور جانثاری کا اظهار برملا کیا ۔ جو شب عاشور کی خصوصیت تھی۔ جیسے جیسے موت قریب هو رهی تھی جو ش شهادت اور ولوله نصرت امام میں اضافه هو رها تھا۔
آخر کلام
ان تاریخی اقرار اور جذبۂ جانثاری نے اصحاب حسینی ؑ کی عظمتوں میں چار چاند لگا دئے امام نے یهاں تک که بیعت بھی اٹھا لی اور سب کو آزاد بھی کردیا که کهیں ایسا نه هو که کوئی مورخ لکھ دے که یه بیعت کر چکے تھے اس لئے مجبور تھے ساتھ دینے کے لئے جیسا که اب تک تاریخ میں یه کئی بار هو چکا تھا جب جنا سیده نے مولائے کائنات کے حق کا دفاع کرتے هوئے ایک ایک کے گھر جا کر حق کهنے کی بات کهی تو سب نے یهی کها که هم کیا کریں مجبور هیں بیعت کرچکے هیں۔ تو بیعت کو مجبوری بنا کر هر موقع پر امت کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ لهذا امام حسین ؑ نے اس خودساخته مجبوری کو بھی ختم کرتے هو ئے بیعت بھی اٹھا لی۔ اور دعا خیر کے ساتھ اجازت بھی دے دی۔لیکن ان صاحبان بصیرت اور سچے حسینی جانثاروں نے امام کو چھوڑ کر جانا کسی بھی حال میں قبول نه کیا اور آزادانه طور پر فخریه شان سے شهادت قبول کی ۔
یه شب عاشور کی حکمتیں اور مقاصد تھے جو قیام حسینی ؑ کے کمال کو روشن کر رهے هیں اور یه بتا رهے هیں که وه کچھ بھی اتفاقی یا حادثاتی نهیں تھا بلکه سب کچھ علم و اختیار کے ساتھ تھا اور کمال تھا که موت کے یقین کے بعد بھی جان بچا نے کا خیال کسی کو بھی نه تھا بلکه سب صرف امامت کی اطاعت اور خدا کی بندگی میں مصروف تھے ۔
ان تمام باتوں کا نتیجه یهی نکلتا هے که شب عاشور کی مهلت جان بچا نے کے لئے نهیں تھی بلکه اپنے مقصد اور مشن کو نکهارنے اور اپنے جانثاروں کے کمال کردار اور اخلاص عمل کا برملا اعلان تھا۔
خداوندعالم هم سب کو جذبۂ اصحاب حسینی ؑ عطا فرمائے اور همیں امام کے سچے اور پکے پیروکاروں میں هو نے کی توفیق عنایت فرما ئے