
حفاظت اسلام میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا کردار
تحریر: رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری (رح)
نوٹ: مندرجہ ذیل تحریر علامہ رضوی کی کتاب “کربلاشناسی” سے اقتباس ہے، تفصیلی مباحث کے لئے اصل کتاب میں رجوع فرمائیں جو www.allamahrizvi.com پر موجود ہے۔(ادارہ)
فہرست مندرجات
اسلام کیوں انحطاط کا شکار ہوا؟
حضرت علیؑ نے اسلام کو بچانا چاہا
امام حسنؑ مدد کے لئے آگے بڑھے
مذہب کو حکومت سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔
امام حسین ؑ نے امامت و سلطنت کی علیحدگی کو آخری شکل دے دی
مقدمہ
مذہب اور حکومت کا باہمی تعلق کافی نازک ہے۔ جب تک حکمراں مذہب کی متابعت پر قانع رہیں، بات بنی رہی رہتی ہے۔ لیکن جہاں سے ان کا حوصلہ اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے کہ وہ مذہب پر بھی حکومت کریں یا مذہب ان کا تابع رہے وہاں سے انتشار اور تباہی شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت چنگیزی کے ہاتھ میں دین کی تلوار بھی آجاتی ہے۔ایسی حالت میں بالعموم مذہب ہی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بطور مثال عیسائیت کو شہنشاہ کانسٹنٹائن (EMPEROR CONSTANTINE) کے قبول مذہب نے سابق کے لامذہب حکمرانوں کی کھلم کھلا مخالفت کی بہ نسبت زیادہ نقصان پہونچایا۔
اسلامی حکومت کا تصور:
اسلام اس خطرہ کی طرف سے غافل نہیں رہا۔ اور اس نے اس کا علاج پہلے ہی سے مہیا کر رکھا تھا۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ اسلامی قوانین میں کسی طرح کی بھی ترمیم و تنسیخ کرے۔ اسلامی حکومت میں ’’مجلس قانون ساز‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ ہی حاکم اعلیٰ اور واحد قانون ساز ہے۔ جس کے قوانین رسول اکرمؐ کے ذریعہ ہم تک پہونچے، یہ قوانین آخری اور مکمل ہیں۔ اور ہر قابل تصور حالت اور ضرورت کے لئے اس میں سامان موجود ہے۔ اور اگر کسی مسئلہ کی تفسیر با تشریح کی ضرورت ہو تو صرف وہی افراد اس فریضہ کو انجام دیں گے جنہیں اللہ نے اس کام کے لئے معین کیا ہے۔ یہ منصوص من اللہ امام ہیں جو معصوم ہیں اور جنہیں اللہ نے اپنے نبی کے ذریعہ مقرر کیا ہے۔
چونکہ اسلام رسول ؐ کی زندگی میں ایک منظم طریقۂ کار زندگی عطا کرتا ہوا آگے بڑھا اور چونکہ اس اسلامی ریاست کا ہر شعبہ رسول اکرم ؐ کی الہی ہدایات کے مطابق کام کرنا تھا ، یہ بالکل مناسب بلکہ اشد ضروری تھا کہ رسول ؐ کی زندگی کے بعد زمام حکومت ان معصوم اماموں کے ہاتھوں میں رہے جو رسول اکرم ؐ کے بعد خدا کے نمایندے تھے اور اللہ کی طرف سے معین ہوئے تھے۔ یہ طریقہ اسلام کو مسخ ہونے سے بچاتا اور ہمیشہ کے لئے اسلام کو مستحکم بنیادوں پر قائم کردیتا۔
اس طرح اسلام دنیاوی مغرور حکمرانوں کے چنگل سے آزاد رہتا اور بادشاہوں اور امیروں کے جذبانی پیچ و خم اور برخود غلط جوش و خروش سے پاک رہتا۔
یہی وجہ تھی کہ رسول مقبول ؐنے خداوندعالم کے حکم خاص کی بنا پر یہ اعلان کردیا کہ ان کے بعد امام بارہ ہوں گے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ’’میں جس کا مولا ہوں علیؑ اس کے مولا ہیں‘‘ یہ اقدام اس لئے کیا گیا تاکہ اسلامی شریعت سیاسی دوؤں پیچ کی قربان گاہ پر ذبح نہ کیا جا سکے۔
لیکن کچھ لوگوں کو جن کے حوصلے جائزو ناجائز کی قید کے پابند نہ تھے ، یہ اچھا نہ معلوم ہوا اور انہوں نے یہ انتظام کیا کہ حکومت کی زمام علیؑ یا ان کےنائبین کے ہاتھوں میں نہ رہے اور اس طرح اسلام اس تحفظ سے جو اسے اللہ کے حکم سے دیا گیا تھا ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔ نتیجہ میں اسلام ان تمام خرابیوں کا شکار ہوگیا جو سابق کے مذاہب پر پڑ چکی تھی۔
اسلام کیوں انحطاط کا شکار ہوا؟
اس موضوع پر لکھنا کافی تکلیف دہ ہے۔ لیکن اگر ہم ماضی کا جائزہ حتی الامکان غیر جانبداری کے ساتھ لے سکیں تو ہمارے مستقبل کی ہدایت کے لئے یہ ایک مستحسن اقدام ہوگا۔
میں نے لوگوں کو تعجب کے ساتھ کہتے سنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکا کہ یزید جیسا شخص اور تاج خلافت پہن لے؟ وہ کون سی طاقتیں تھیں جنہوں نے اس حادثہ کے لئے راہیں ہموار کیں؟ دنیا میں کوئی کام بغیر علت نہیں ہوتا۔
جو لوگ واقعات کے دھارے میں بہہ رہے تھے ممکن ہے ان کو ہر ہر واقعہ کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوسکا ہو، لیکن ہم لوگ جب ان واقعات پر آج نظر ڈالتے ہیں تو ہم ہر واقعہ کو اس کی صحیح جگہ پر آسانی سے رکھ سکتے ہیں ۔ اور ہمارا فریضہ ان لوگوں کے فیصلے سے زیادہ صحیح ہوگا جو اس ڈرامہ میں عملی حصہ لے رہے تھے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ کے ہر المیہ کی بنیادی وجہ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے۔ یہ تھی کہ اسلام علیؑ اور ان کے بعد کے اماموں کی ہدایت سے محروم رہ گیا۔ یہی بہت بڑی مصیبت تھی، اس پر طرہ یہ کہ وہ خلفا٫ جو تخت سلطنت پر بیٹھے انہوں نے اپنے دنیاوی اقتدار کا پورا فائدہ اٹھایا اور عوام میں اس یقین کو رائج کیا کہ مذہب کی راہبری دنیاوی حکومت کے زیر نگین ہے۔ اور جو شخص بھی دنیاوی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے (چاہے جس ذریعہ سے بھی ہو) وہ دستوری اور جائز خلیفہ اور مذہبی رہنما ہے جس کو (بہ شہادت تاریخ) اس بات کا اختیار ہے کہ اسلامی شریعت میں ترمیم و تنسیخ کرسکے۔ اس غلط اعتقاد کیوجہ سے لوگوں نے حکمرانوں کے ہر کام کو مذہب کا معیار سمجھ لیا۔ جس کے نتیجہ میں اسلامی اصول اور شریعت کی پابندی میں انحطاط شروع ہوگیا۔
اسلام کا انحطاط:
یہ انحطاط رسول مقبول ؐ کے فورا ہی بعد شروع ہوگیا جن لوگوں کو سیاسی اقتدار مل گیا تھا انہوں نے اس اقتدار کو کامل اور مستقل بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ لہذا فطری طور پر مالیات اور عدلیہ کے قوانین کو اس طرح بدلہ گیاکہ ان کا مقصد پورا ہوسکے۔
صدقہ، زکوۃ اور غنیمت کی مستحقین کے درمیان مساوی تقسیم کا اصول چھوڑ کر یہ طریقۂ اختیار کیا گیا کہ اصحاب رسول ؐ کو ایک معینہ رقم بطور وظیفہ دی جایا کرے۔ سلوک کے ذریعہ ان لوگوں کی زبانوں پر مہر لگا دی گئی جو حکومت کے مخالفین کے مطابق ان کا اور ان کے خاندان کا حق ہے (کنزالعمال، ج3، ص145-149۔ مسند امام احمد بن جنبل، ج۱، ص4، الفاروق علامہ شبلی نعمانی، ج۲، ص117) ۔
یہاں یہ لکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ انہیں دنوں ایک صحابی رسول ؐ حضرت جابر بن عبداللہ نے یہ دعویٰ کیا کہ رسول ؐ نے ان سے فلاں فلاں چیزوں کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے اس دعویٰ کو ثبوت یا گواہ طلب کئے بغیر مان لیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجہ میں جناب فاطمہؑ اور ان کے خاندان والے اپنی ذاتی جائداد سے بھی محروم کر دئیے گئے جبکہ حکومت کے منظور نظر حضرات نے بھاری دولت اکٹھا کرلی(صحیح بخاری، کتاب الخمس، صحیح مسلم، طبقات ابن سعد، ج88) ۔
یہاں چند مثالیں کافی ہوں گی۔
جب حضرت عبدالرحمن بن عوف (جو سابق کے تینوں خلفا٫ کے منظور نظر تھے) مرے تو انہوں نے دیگر ورثہ کے علاوہ چار بیویاں چھوڑیں۔ ہر زوجہ کو شریعت کے لحاظ سے میراث سے 32-۱ واں حصہ ملنا چاہئے تھا۔ ان میں سے ایک طلاق رجعی کے عدہ میں تھی، اس لئے اس کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے قانونی حصہ سے کم لینا منظور کرلے۔ (یہ اسلامی شریعت کی مخالفت کی ایک اور مثال ہے) لہذا اس کو بتیسویں حصہ سے کم ملا اس کے باوجود اس کو ایک لاکھ درہم نقد ملا۔(الاستیعاب ابن عبدالبر، ج۲، ص560 و ج ۱، 208 و210۔ Politicism Islam مصنفہ خدابخش خان، ص151۔ مروج الذہب مسعودی، ج2، ص222) ۔
طلحہ بن عبیداللہ (جو حکومت کے ایک اور چہیتے تھے) ان کی مستقل آمدنی دوسری آمدنیوں کے علاوہ دو ہزار دینار طلائی تھی۔ جب مرے تو انہوں نے بائیس لاکھ درہم اور بیس لاکھ دینار نقد کی صورت میں چھوڑے۔ اس کے علاوہ غیر منقولہ جائداد تھی جس کی قیمت تین کروڑ درہم تھی(منبع مذکور) ۔
نیز زبیر بن عوام نے موت کے وقت پچاس ہزار دینار ، ایک ہزار گھوڑے اور سیکڑوں غلام ترکہ میں چھوڑے(منبع مذکور) ۔
دولت جمع کرنے کے خلاف اسلامی تاکید کو بھلا دیا گیا۔ اور اسلامی دنیا میں ایک نئے سماج کی تشکیل ہوئی جو فطرت و کردار کے لحاظ سے اسلام کے بالکل مخالف تھا۔ لیکن لوگوں نے اسے بھی اسلام کے مطابق سمجھا۔ صرف اس وجہ سے کہ یہ ان حکمرانوں کا قائم کردہ تھا جو اسلام کے ترجمان اور مفسر سمجھے جاتے تھے۔
بنی امیہ کی سربلندی
اسلام کے لئے ان سب سے زیادہ نقصان دہ تھا، بنی امیہ کا پھر سے برسر اقتدار آنا۔ وہ بنی امیہ جو اسلام کے سب سے کڑ دشمن تھے۔ اور یہ بھی خلفا٫ کی سرپرستی میں ظہور پذیر ہوا۔ رسول ؐ کی زندگی میں بنی امیہ ابوسفیان کی سرکردگی میں اسلام کے خلاف جنگ پر جنگ کرتے رہے۔ آخرکار ان کی طاقت اس وقت ختم ہوئی جبکہ رسول ؐ نے سنہ 8 ہجری میں بغیر کسی خونریزی یا جنگ کے مکہ فتح کرلیا۔ اب چونکہ دوسری کوئی صورت سامنے نہ تھی اس لئے ان لوگوں نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی کی یعنی اب انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا۔ لیکن اسلام کبھی بھی ان کے دل کے قریب نہیں پہونچا ۔ کفر کا لہو ان کی رگوں میں ڈوڑتا رہا۔ کم از کم چھ جگہ قرآن مجید میں ان کی طرف اشارہ ہے۔ اور ہر جگہ انتہائی توہین کے ساتھ ان کی ملامت کی گئی ہے۔ قرآن کی نگاہ میں یہ لوگ شجرۂ ملعونہ لعنت کیا ہوا درخت یا خاندان ہیں(تفسیر در منثور، سیوطی، ج۴، ص191 ، ذیل آیہ سورہ ۱۷ ، اسرا٫ ، آیت60، و دیگر کتب تفاسیر و احادیث)۔
یہاں عبدالرحمن بن عوف کی ایک حدیث قابل ذکر ہے۔ انہوں نے خلیفۂ دوم سے قرآن کی اس آیت کے متعلق پوچھا ’’وَ جاهِدُوا فِي اَللّهِ حَقَّ جِهادِهِ‘‘(حج، 78)۔’’خدا کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ خلیفہ نے جواب دیا : یہ حکم اس وقت کے لئے ہے جب بنی امیہ حکمراں ہوں گے اور بنی مغیرہ ان کے وزیر ہوں گے۔ اس وقت مسلمانوں کا یہ فرض ہوگا کہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان کے خلاف جنگ کریں(تفسیر در منثور سیوطی، ج۴، ص371) ۔
کتنی تعجب خیز ہے فطرت انسانی کی یہ کرشمہ سازی بھی۔ کون یقین کرسکتا تھا کہ وہی خلیفہ جو یہ جانتا ہو کہ یہ ہر مسلمان کا فرض ہوگا کہ وہ بنی امیہ کے خلاف اللہ کی راہ میں جہاد کرے و ہ بذات خود ان کی خود مختار گورنزی شام میں قائم کرائے گا۔ اور شوریٰ کےڈرامہ کا پلاٹ اس طرح ترتیب دے گاکہ ایک اموی تیسرے خلیفہ کی شکل میں مسلمانوں کا مطلق العنان حکمران بن کر اسلامی دنیا پر مسلط ہوجائے، اس سے زیادہ تعجب خیز تو یہ ہے کہ یہ وہی عبدالرحمن بن عوف ہیں جنہوں نے تیسرے خلیفہ کی تخت نشینی میں ایک اہم رول ادا کیا۔
رسول ؐ خدا کی زندگی کے آخری دور میں بنی امیہ بالکل خاموش رہے۔ لیکن رسول ؐ کے انتقال کے بعد ان کو ہاتھ پاؤں پھیلانے کا موقع ملا۔ ابوسفیان پہلے حضرت علیؑ کے پاس آیا۔ لیکن حضرت علیؑ نے اسلام کے اس ذلیل دشمن سے کسی طرح کا سازباز کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد وہ خلیفۂ اول کے پاس گیا۔ اگر انہوں نے بھی اسی طرح ابوسفیان کو ٹھکرا دیا ہوتا جیسے حضرت علیؑ نے کیا تھا تو کوئی مشکل نہ پڑتی۔ لیکن خلیفۂ دوم کی رائے سے اسے شام کی پیش کش کی گئی۔ ابوسفیان اس وقت بوڑھا ہوچکا تھا۔ اس لئے اس کا بیٹا یزید ایک فوج کے ساتھ شام بھیجا گیا۔ اور شام کی فتحیابی کے بعد وہاں کا گورنر بنایا گیا۔ اور یزید کی وفات کے بعد اس کا بھائی معاویہ ابن ابی سفیان وہاں کا گورنر ہوا(تمام کتب تاریخ اسلام) ۔
سیاست کا الٹ پھیر بھی کتنا عجیب ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہ بنی امیہ جو رسول ؐ کی زندگی میں اپنی تمام توانائی اسلام کو تباہ کرنے میں صرف کر رہے تھے ایک دن اسلامی حکومت کے واحد اجارہ دار بن جائیں گے۔ وہ کھلم کھلا دشمن بن کر اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ لیکن داخلی تباہ کاری کے ذریعہ انہوں نے اسلام کو قریب قریب بالکل برباد کردیا۔ خلیفہ دوم کے بعد حضرت عثمان تیسرے خلیفہ ہوئے۔ جب لوگوں نے حضرت عثمان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی تو ابوسفیان ان کے پاس آیا اور یہ مشورہ دیا ’’اے امیہ کے فرزندو! اب جبکہ یہ حکومت تمہارے ہاتھ آگئی ہے اس سے اس طرح کھیلو جیسے بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔ اور اپنے خاندان میں ایک کے بعد دوسرے کی طرف منتقل کرتے جاؤ کیونکہ یہ حکومت ایک حقیقت ہے۔ یہی بہشت یا دوزخ تو ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہے بھی یا نہیں‘‘(الاستیعاب،ج۴،ص86-87؛ تاریخ ابوالفدا٫، ج64) ۔
ہمیں نہیں معلوم کہ زبان خلافت سے کیا جواب دیا گیا۔ لیکن تاریخ یہ گواہی ضرور دیتی ہے کہ اس مشورہ پر انتہائی فراخ دلی سے عمل کیا گیا۔
حکم بن عاص اور اس کے بیٹے مروان کو رسول ؐ نے مدینہ سے خارج البلد کردیا تھا۔ یہ خلیفۂ ثالث کا چچا تھا اور مروان ان کا داماد تھا۔ اس لئے انہوں نےرسول ؐ کے فرمان کو بھلا دیا۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے مروان کو مدینہ میں واپس بلا لیا بلکہ اس کو اپنا مطلق العنان وزیر بھی بنا دیا۔ اس کے حوالے نہ صرف افریقہ سے آنے والا خمس (جس کی مقدار کئی لاکھ دینار تھی) کر دیا گیا بلکہ فدک بھی اسے بخش دیا گیا۔(خمس اور فدک کا تذکرہ اوپر گذر چکا ہے۔(مروج الذہب، ج۲، ص 623، کنزالعمال، ج۶، ص90۔ تذکرہ خواص الآئمہ، ص134، فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج۲، ص141۔ روضۃ الناظر، مطبوعہ با مروج الذہب، ص209)۔
عبداللہ بن ابی سرح خلیفہ کا ایک رشتہ دار تھا۔ فتح مکہ کے روز رسول ؐ خدا نے یہ حکم دیا تھا کہ اسے اگر کعبہ میں بھی پاؤ تو قتل کرڈالو۔ لیکن حضرت عثمان نے اس کے برخلاف اسے اپنے گھر میں پناہ دی اور کافی سفارش کے بعد اس کے لئے امان حاصل کرلی ۔ حضرت عثمان کے دور خلافت میں ایسا شخص مصر کا گورنر بنایا گیا(الاستیعاب ، ص 292۔ الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ، ج۲، ص 316-317۔ تفسیر الدر المنثور، ج۳، ص30) ۔
ولید بن عقبہ خلیفہ کا چچازاد بھائی تھا۔ قرآن مجید اسے فاسق کے نام سے یاد کرتا ہے(الاصابۃ ، ج۳، ص632) ۔
یہ ایک شرابی اور بہت ہی بدکردار آدمی تھا۔ لیکن اسے کوفہ کا گورنر بنایا گیا۔ ایک صبح یہ نشہ کی حالت میں مسجد میں آیا اور نماز صبح پڑھانی شروع کی اور حالت سرور میں دو کے بجائے چار رکعت نماز پڑھائی اور اس کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ اگر تم کہو تو چند رکعتیں اور بھی بڑھا دوں(تفسیر نیشابوری، ج۱، ص72۔ تفسیر در منثور، ج۵، ص178۔ تفسیر معالم التنزیل بغوی، ص 70۔ تفسیر کشاف ۔ تاریخ الخلفا٫ ، سیوطی ، ص 105۔تاریخ کامل ابن اثیر ،ج۳، ص 40۔ تذکرہ خواص الامۃ ، ص 117۔ شرح فقہ اکبر، ص 92۔ مروج الذہب، ج۱، ص 303، صحیح مسلم ، ج۲، ص 72)۔
صرف انہیں تین آدمیوں نے نہیں بلکہ بنی امیہ سے منسلک ہر فرد نے سلطنت میں کوئی نہ کوئی با اثر منصب حاصل کر لیا۔(تاریخ الخلفا٫ ، سیوطی، ص 105۔ تاریخ کامل ابن اثیر، ص40 ۔ اسپرٹ آف اسلام، سید میر علی، ص417-437) ۔
ان لوگوں نے اپنے جاہ و مرتبہ کو اسلامی سماج کو کمزور کرنے، اسلامی اخلاق کو مسخ کرنے، اسلام کے اصول و قوانین کی بے حرمتی کرنے، عبادتوں کی تفکیک کرنے، مختصر یہ اسلام کی ہر چیز کو برباد کرنے کے لئے استعمال کیا۔
رسول مقبول ؐ کی وفات کے پچیس سال کے اندر اندر اسلامی رہنمائی کا معیار مذاہب عالم کی طویل تاریخ کے پست ترین معیاروں کے ہمدوش ہوگیا عام طور سے مسلمان خدا کے بندے ہونے کے بدلے سونے اور چاندی کے بندے ہوکر رہ گئے ۔ خلیفہ سوم قتل ہوئے ، اس لئے نہیں کہ وہ بنی امیہ کو توانگر سے تو انگر تر بنا رہے تھے۔ اور اس طرح اسلامی دولت کی مساوی تقسیم کے اصول کو مسخ کر رہے تھے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہ اپنے خاندان والوں کو مسلمانوں کا آقا بنا رہے تھے۔ جب کہ یہ لوگ قرآن کی نگاہ میں ملعون خاندان والے تھے۔ بلکہ صرف اس لئے کہ اسلامی دنیا کے دوسرے بڑے لوگوں کو یہ ناگوار ہو رہا تھا کہ ان کو خلیفہ صاحب نے نظر انداز کر دیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ان کو بھی اس کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ بھی اپنے گھروں کو سونے اور چاندی سے بھر لیں۔ ان کو بنی امیہ سے کوئی مخالفت نہ ہوتی اگر ان کو بھی اس دولت سے معتد بہ حصہ ملتا رہتا۔
حضرت علیؑ نے اسلام کو بچانا چاہا
حضرت علیؑ ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ انہوں نے دوسروں کو اپنا مذہبی رہنما مان کر کیسی بھیانک غلطی کی ہے۔ حضرت علیؑ کا یہ طرز عمل ذاتی فائدہ کے لئےنہیں بلکہ اسلام کی خاطر تھا جو نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ کر لازمی طور سے مسخ ہوتا جارہا تھا۔ جب خلیفۂ دوم کے بعد آپ کو اس شرط پر خلافت پیش کی جانے لگی کہ وہ سابق کے دو خلفا٫ کی سیرت پر چلیں گے۔ تو آپ نے اس خلافت کو ٹھکرا دیا۔ کیونکہ اس شرط کو ماننے کا مطلب یہ ہوتا کہ ان سابق خلفا٫ کی غیر قانونی خلافت پر مہر تصدیق ثبت کردی جائے۔
خلیفہ سوم کے بعد جب لوگ آپ کے پاس آئے اور یہ دباؤ ڈالا کہ آپ خلیفہ ہونا قبول کرلیں تو آپ نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کیا کہ آپ رسول ؐ کے زمانے کے اسلام کو پھر سے قائم کریں گے۔ آپ نے یہ خیال فرمایا کہ مجھے یہ موقع مل جائے گا کہ میں اسلام کو ان بدعتوں کے جھاڑ جھنکاڑ سے پاک کردوں جن کو اسلام کے اصول سے مخلوط کردیا گیا ہے(رجوع فرمائیں:نہج البلاغہ اور اس کی شروح) ۔
لیکن حضرت علیؑ کا عدل و انصاف مسلمانوں کے مسخ شدہ لیڈروں کے کام ودہن کے لئے تلخ ثابت ہوا۔ وہ لوگ ترجیحی سلوک کے عادی ہوچکے تھے۔ اور اس غیر عادلانہ نظام کی تنسیخ ان کو انتہائی ناگوار گذری۔ اگر یہ بات نہ تھی تو آخر کون سی وجہ تھی کہ طلحہ و زبیر اور جناب عائشہ نے حضرت علیؑ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ جبکہ آپ نے اپنے مختصر دور خلافت میں اسلام کے اس اصلی نظام کو قائم کرنا چاہا جو رسول ؐ کے زمانے میں جاری تھا۔
مسلمانوں کا نقطہ ٔ نگاہ سماجی اور معاشرتی اصول کے متعلق اس طرح بدل گیا تھا کہ وہ ان اصلاحات کو برداشت نہیں کرسکتے تھے جو حضرت علیؑ نے دوبارہ نافذ فرمائیں(نہج البلاغہ، الاستیعاب(مطبوعہ) ، اصابہ ج۳، ص47، تاریخ التمدن الاسلامی، ج۴، ص37) ۔
آپ کے خلاف جنگ کے بعد جنگ برپا کی گئی اور بالآخر آپ کو مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں شہید کردیا گیا۔ اور اس طرح مسلمانوں نے وہ واحد موقع ہاتھ سے کھو دیا جس سے ان کا معاشرہ اسلام کے اخلاقی، معاشرتی، قانونی اور معاشی عدل و انصاف کی بنیاد پر دوبارہ قائم ہوسکتا۔
امام حسنؑ مدد کے لئے آگے بڑھے
امام حسنؑ (جو اپنے والد کی شہادت کے بعد اللہ کے نمائندہ تھے) یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کی بیماری اب اس منزل پر پہونچ چکی ہے جہاں اس کے علاج کی کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ بددیانتی ان کا ایمان، غداری ان کی وفا، دولت ان کی واحد محبوبہ اور ذاتی منفعت ان کا واحد مطمع نظر تھا۔ اب یہ ناممکنات سے تھا کہ ان کے درمیان خدائی حکومت پھر سے قائم کی جاسکے۔
امام حسنؑ کے سامنے اب سب سے اہم سوال یہ آیا کہ اسلام کے اصول کی حفاظت کیسے ہو؟ سابق کے بادشاہوں نے رسول ؐ کے اقتدار اعلیٰ کے اعتقاد کو بادشاہوں کے اقتدار اعلیٰ کے اعتقاد میں بدل دیا تھا۔ ان لوگوں نے اس غلط عقیدہ سے فائدہ اٹھایا اور دنیا سے رخصت ہوئے ۔ لیکناسلام کو انتشار سے دوچار کرکے۔ اس غلط اعتقاد کا باقی رہنا اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ اب جبکہ الہی حکومت کو پھر سے قائم کرنا ممکن نہ تھا۔ صرف ایک ہی صورت رہ گئی تھی کہ لوگوں کو یہ بتا دیا جائے کہ دنیاوی حکمرانی اور مذہبی رہنمائی ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور یہ کہ مذہب کی محافظت اور ترجمانی کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے سپرد کی جاتی ہے۔ یہ بادشاہت نہیں ہے جو لوگوں کی عطا کردہ ہو، مقصد کہ لوگ ایک بار پھر دیکھ لیں کہ مذہب تاج و تخت کے ساتھ بندھا ہوا نہیں ہے۔
مذہب کو حکومت سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔
حضرت علیؑ کے بعد صرف امام حسنؑ اور امام حسینؑ اس کام کو انجام دے سکتےتھے وہ بے شمار خصائص کے مالک تھے، عوام یا فوج کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول ؐ کی طرف سے، ارشاد قرآنی کے مطابق وہ دونوں رسول کے بیٹے تھے(تفسیر جلالین، سورہ آل عمران، ج۱، ص 118۔ صحیح مسلم، مشکوۃ المصابیح، ص560-562۔ ارجح المطالب عبیداللہ امرتسری)۔ ان کی مودت اور احترام مسلمانوں پر فرض تھا(قرآن مجید، سوری شوریٰ، تفسیر کشاف زمخشری، ج۲، ص69۔ تفسیر در منثور، صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل )۔ وہ ہر گناہ سے پاک تھے۔ اور ان سے کسی غلطی کا ارتکاب ممکن نہ تھا(قرآن مجید، سورہ احزاب، تفسیر در منثور سیوطی، ج۵، ص198-199۔صحیح مسلم، مشکوۃ المصابیح،ص61۔ارجح المطالب)۔ وہ سردار جوانان جنت تھے(صحیح ترمذی، معجم کبیر، طبرانی، مشکوۃ المصابیح، ص 592۔ مسند احمد بن حنبل ، ارجح المطالب، سنن ابن ماجہ۔ تاریخ ابن عساکر دمشقی)۔ اور لوگوں پر ان کی فرماں برداری فرض تھی کیونکہ وہ امام تھے چاہے وہ بیٹھے ہوں یا کھڑے ہوں یعنی چاہے وہ صلح کریں یا جنگ(مختصر الناقب حافظ محمد بن یوسف بلخی، شافعی بحوالۂ مسند امام احمد بن حنبل) ۔
اندریں حالات ان کے اختیارات ہر حالت میں مسلم تھے۔ چونکہ ان کی امامت سیاسی طاقت پر مبنی نہ تھی اس لئے وہ آسانی سے بے خوف و خطر مقتضائے حال کے مطابق حکومت کو ٹھکرا بھی سکتے تھے اور حکومت وقت کی مخالفت بھی کرسکتے تھے۔
اس لئے علیؑ و فاطمہؑ کے دلبندوں نے اللہ اور رسول ؐ کے عطا کردہ کامل اختیار کے ساتھ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس سے مذہب کی گردن حکمرانوں کے آہنی چنگل سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوجائے ۔ اولا امام حسنؑ نے سیاسی طاقت کو چھوڑ دیااور یہ دکھا دیا کہ ان کا مذہبی منصب حکومت کا مرہون منت نہیں ہے۔ امام حسنؑ کے اس اقدام سے یہ سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ مسلم عوام کا نقطۂ نظر مذہب اور حکومت کے باہمی تعلق کے متعلق بدلنے لگا جیسا کہ بعد میں واضح ہوگا۔ معاویہ انتہائی کوشش کی کہ اسلام کے بہت سے اصولوں کو بدل دیاجائے مگر وہ ناکام رہا ، اگر وہی تبدیلیاں اور بدعتیں سابق کے تینوں خلفا٫ کے زمانے میں ہوتیں تو مسلم عوام اس کو قبول کرلئے ہوتے۔ لیکن اب امام حسنؑ سامنے آچکے تھے۔ اور یہ تخیل پاش پاش ہوچکا تھا کہ مذہب حکومت کا دست نگر ہے۔ اس وجہ سے معاویہ کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔ بلکہ آج بہت سے سنی ہیں جو اسے خلیفہ تک ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
معاویہ کی غلط کاریاں
اب ہمیں ذرا دمشق کی طرف دیکھنا چاہئے۔ یہ وہ وقت ہے جبکہ معاویہ عامۂ مسلمین کا تسلیم شدہ حکمراں ہے۔ انتخاب یا نامزدگی کے ذریعہ نہیں بلکہ قہر و غلبہ کی تلوار سے اس کے پہلے کی فضا ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ ہر غیر اسلامی تصور یا طریقہ جزو اسلام سمجھ لیا جاتا تھا۔ شرط صرف اتنی تھی کہ برسر اقتدار حکمران اسے پیش کرے۔ معاویہ نے اس تصور سے فائدہ اٹھانے کی انتھک کوشش کی۔ دولت کی خورد برد اپنے انتہائی عروج پر پہونچ گئی۔ زہر،تلوار اور سونا آزادی کے ساتھ حکمرانوں کے ظالمانہ منصوبوں کے لئے استعمال ہونے لگا۔ مخالفین کو قتل کرنا، مقابل کو زہر دغا سے شہید کرنا، اور جن لوگوں کی وفاداری مشکوک ہو، انہیں قید کرنا، ان کے گھر بار کو جلانا، جائداد کو لوٹنا، یہ سب روزمرہ کا معمول ہوگیاتھا(تاریخ الخلفا٫، سیوطی، ص134۔ کتاب الاحداث، اسپرٹ آف اسلام، سید امیر علی، ص135)۔ امام حسنؑ ابن علیؑ ابن ابی طالبؑ کو زہر سے شہید کیا گیا(مروج الذہب، مطبوعہ با تاریخ کامل، ج۶، ص 55۔ تذکرہ خواص الامۃ، ص41-43۔ النصائج الکافیہ، ص 60۔ تاریخ ابوالفدا٫، ج۱، ص 183۔ تاریخ ابن عساکر، ج۳، ص 226۔ العقد الفرید ابن عبد ربہ اندلسی، ج۲، ص 211، ج۳، ص 123۔ الاستیعاب (مطبوعہ با اصابہ) ج۱، ص 375، تاریخ دول الاسلام ، ج۱، ص 54۔تاریخ روضۃ الصفا، ج۲، ص ۷ و ص ۳۵۔ تاریخ ابن کثیر، ج۸، ص ۴۳۔ تاریخ طبری ، ج۲۔ کتاب الامامۃ و السیاسۃ ، ص 128۔ حبیب السیر، شواہد النبوۃ ، ملاجامی، ص 173۔ محرم نامہ خواجہ حسن نظامی، ص74)۔ حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو اللہ کے نام امان دی گئی اور انتہائی درندگی سے شہید کردیا گیا (الاصابہ، ج۱، ص 315 و 329۔ الاستیعاب، ص 358-359۔ تاریخ کامل، ج۲، ص 185-192۔ انوارالذہب، ص210۔ تاریخ روضہ الصفا، ج۲، ص 312)۔ مالک بن اشتر کو زہر سے شہید کیا گیا(تاریخ طبری۔ تاریخ کامل ۔ النصائح الکافیہ۔ انوار اللغۃ،ج 16، ص 21-22۔ تاریخ روضۃ الصفا٫ ، ج۲، ص 314) ۔ محمد بن ابی بکر(خلیفہ اول کے صاحبزادے) کو گدھے کی کھال میں سی کر جلا دیا گیا(النصائح الکافیہ، ص 62۔ تاریخ طبری، ج۶، ص 60۔ حیاۃ الحیوان امیری۔ ج۱۔ ص 223۔ مروج الذہب، ج۲، ص 287۔ تذکرہ خواص الآئمہ، ص 60۔ تاریخ روضۃ الصفا٫ ۔ ج۲، ص214 و ج2، ص35۔ انوار اللغۃ، پ16، ص21-22) ۔ جناب عائشہ کو (جو خلیفہ اول کی بیٹی اور رسول ؐ کی زوجہ تھیں) ایک گڈھے میں گرایا گیا اور اس گڈھے کو چونا بھر کر بند کردیا گیا اور ان کو اسی گڈھے میں گلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا(اوائل السیوطی، ربیع الابرار زمخشری، کامل السفینہ، حبیب السیر، حدیقہ) ۔ خالد بن ولید جن کو عوام سیف اللہ کہتے ہیں کے فرزند عبدالرحمن کو زہر سے مار اگیا(تاریخ طبری، تاریخ کامل، النصایح الکافیہ، تاریخ روضۃ الصفا، ج۲، ص 25۔ استیعاب مع الاصابہ، ج۲، ص402) ۔ عمرو بن حمق خزاعی جیسے باعزت صحابی رسول ؐ کو بیدردی سے شہید کردیا گیا(رجال کشی، ص 21-23) ۔
ہم نے ابوسفیان کا عقیدہ اوپر بیان کیا ہے۔ معاویہ اپنے باپ سے کچھ بہتر نہ تھا۔
معاویہ کے معتمد گورنر مغیر ہ کی روایت یہاں نقل کرنے کے قابل ہےوہ ایک بار معاویہ سے گفتگو کررہا تھا۔ دوران گفتگو معاویہ نے کہا (میں لوگوں کے لئے بھلائی کیوں کروں؟) اگر میں اچھے کام بھی کروں تو بھی یہ امید کیسے کر سکتا ہوں کہ میں اچھےنام سے یاد کیا جاؤں گا، دیکھو بنی تیم کی ایک فرد (یعنی خلیفہ اول) نے لوگوں پر حکومت کی اور ان کے لئے بہت بڑے بڑے کام کئے ، لیکن جب وہ مرے تو ان کا نام بھی ان کے ساتھ ختم ہوگیا اب لوگ انہیں ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور بات ختم۔ اس کےبعد بنی عدی کی ایک فرد آئی (یعنی خلیفہ دوم) اور پوری طاقت کے ساتھ دس سال تک حکومت کی لیکن ان کا نام بھی ان کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اوراب لوگ انہیں بھی اکثر اوقات ’’عمر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں اور بس۔ لیکن ابن ابی کبشہ کو دیکھو کفار قریش بغض و عداوت کے جوش میں رسول اکرم ؐ کو اس نام سے پکارتے تھے (اور معاویہ ان کی تاسی میں رسول ؐ کے لئے وہی نام استعمال کررہاہے)۔ کہ ان کا نام روزانہ پانچ وقت پکارا جاتا ہے۔ اور موذن ہر مسجد میں پکارتے ہیں کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘ اب ان کی اس کامیابی کے بعد کون سا نام باقی رہ سکتا ہے۔ اور کون سا نیک کام یاد رکھا جاسکتا ہے(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید معتزلی، ج۵، ص32) ۔
رسول ؐ اور اذان کی اس کھلی ہوئی تحقیر کے علاوہ ابوسفیان کے پوت سے اور کیا امید کی جاسکتی ہے؟ سیاسی گٹھ بندیوں، خیانتوں، بے ایمانیوں، بربریت اور کشت و خون کے علاوہ اس نے طریقۂ عبادت کو بھی بدلنے کی کوشش کی ۔
عبادات میں ’’ایجاد بندہ‘‘ کی نظیریں سابق کے ادوار حکومت میں بھی ملتی ہیں۔ خلیفۂ دوم نے صبح کی اذان میں ’’الصلوة خیرمن النوم‘‘ کا اضافہ کیا(کنزالعمال، ج۴، ص270-271۔ موطأ امام مالک۔ روضۃ الاحباب، ج۱، ص 121) ۔ ’’حی علی خیر العمل‘‘ کو اذان سے خارج کردیا گیا(شرح تجرید، علامہ قوشنجی۔ شرح مقاصد تفتازانی) ۔ تراویح کی نماز با جماعت انہیں نے قائم کی(فلک النجاۃ، ج۲) ۔ خلیفۂ سوم نے نماز جمعہ کے پہلے ایک اور اذان کا اضافہ کیا(صحیح بخاری، ج۱، ص19۔ ازالۃ الخفا٫ ، ج۱، ص116) ۔ اور عیدین میں نماز کے قبل خطبہ کی رسم جاری کی(تاریخ الخلفا٫ ، ص 117۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج۱، ص 521) ۔ اور انہیں نے سفر میں بھی پوری چار رکعت نماز پڑھی بجائے دو رکعت کے جیسا کہ رسول ؐ کے زمانہ میں تھا(نہایہ ابن اثیر، ج۲، ص 212۔ صحیح بخاری۔ صحیح مسلم ۔ جمع بین الصحیحین)۔لیکن معاویہ اس معاملہ میں سب سے آگے بڑھ گیا، اس نے نماز کے سورتوں سے ’’بسم الله الرحمن الرحیم‘‘ کو حذف کردیا(کنز العمال ،ج ۴۔ ص 210۔ تفسیر کبیر امام رازی، ج۱، ص 160۔خصائص یزید نامہ خواجہ حسن نظامی۔ ص 110)۔ جیسا کہ پہلے نماز میں ہر عمل کے پہلے ’’اللہ اکبر‘‘ کہا جاتاتھا۔ اس نے اسے ختم کردیا(کنزالعمال ، ج۴، ص 210)۔ اس نے نماز جمعہ کا خطبہ منبر پر بیٹھ کر پڑھا(ازالۃ الخلفا٫ ، ج۱، ص 240۔ فتح الباری، ج۴، ص 216)۔ جب وہ حضرت علیؑ خلیفۂ رسول ؐ سے لڑنے کے لئے جارہا تھا تو اس نے لشکریوں کو حکم دیا کہ نماز جمعہ بدھ کے روز ہی پڑھ لی جائے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ لوگوں نے اس پر عمل کیا(مروج الذہب، ج۲، ص 332)۔ اس نے حج کے موقع پر صفا و مروہ کے درمیان قدم سے چلنے کے بجائے بغیر کسی عذر کے گھوڑ سواری کی(اوائل السیوطی)۔ اس نے تلبیہ ’’لبیک اللهم لبیک‘‘کو حج سے نکال دیا(کنزالعمال،۳، ص 30) ۔
لیکن ان سب سے زیادہ اہم تبدیلی نماز میں ہاتھ کا باندھنا ہے اس بات کے کافی قراین موجود ہیں کہ یہ معاویہ ہی تھا جس نے یہ طریقہ ایجاد کیا۔ امام مالک (مالکی فرقہ کے بانی) نے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنا ہاتھ کھلا اور سیدھا رکھیں (جیسا کہ شیعہ کرتے ہیں) اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ مدینہ کے لوگ اپنا ہاتھ نماز میں کھلا رکھتے ہیں۔ اور اہل مدینہ نے رسول ؐ کو عبادت کرتے دیکھا ہے۔ اور جو طریقہ اہل مدینہ کا ہے وہ یقینا رسول ؐ ہی کی پیروی پر مبنی ہوگا۔ امام مالک کی وفات سنہ 179 ہجری میں ہوئی۔ ان کے اس استدلال کے علاوہ عبداللہ بن زبیر(دراسۃ اللبیب۔ ص 330۔ فتح المنان، عبدالحق دہلوی۔ شرح کنز الدقائق عینی، ص 25) ابن سیرین،تسہیل القاری، پ3، ص 83-84) اور اسلامی شریعت کے دوسرے آئمہ کی بیان کردہ حدیثیں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ کم از کم دوسری صدی ہجری تک مدینہ کے لوگ نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے۔ اس کے مقابل میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل (جنہوں نے عراق یا شام میں جہاں بنی امیہ کا اثر تھا، تعلیم و تربیت پائی) اپنے پیرؤں کو ہاتھ باندھنے کاحکم دیا۔ اور اس سے بھی زیادہ دل چسپ یہ بات ہے کہ امام شافعی نے (جنہوں نے ابتدائی زندگی مکہ اور مدینہ میں گذاری اور بعد میں عراق و مصر میں مقیم ہوئے) ہاتھ کھولنے اور باندھنے دونوں کو جائز کہا ہے۔
نماز میں تبدیلیوں کے کچھ اور ثبوت رسول ؐ کے دوصحابیوں سے ملتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک(رسول ؐ کے ایک بوڑھے صحابی) دمشق گئے۔ جو کچھ انہوں نے وہاں دیکھا اس پر بے اختیار گریہ کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: میں تمہارے درمیان سے کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو رسول ؐ کے زمانے میں دیکھا کرتا تھا سوائے اس نماز کے اور وہ بھی مسخ کی ہوئی(صحیح بخاری مع فتح الباری، ج۲، ص 104) ۔
رسول ؐ کے دوسرے صحابی حضرت ابودردا٫ نے کہا ’’میں یہاں کوئی چیز شریعت کے مطابق نہیں پاتا۔ سوائے اس کے کہ یہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتے ہیں اس کے علاوہ ہر چیز متروک ہے‘‘(صحیح بخاری، ج۱، ص 80-81۔ صحیح مسلم ، ج۲) ۔ حضرت علیؑ جب معاویہ سے جنگ کر رہے تھے تو انہوں نے فرمایا ’’ہم ان لوگوں سے اس لئے جنگ کررہے ہیں تاکہ پھر سے نماز کو قائم کرسکیں‘‘(انوار الہدایہ ، باب15) ۔
یہاں یہ بات بتانی مناسب ہوگی کہ جب حضرت علیؑ نے اپنے دور خلافت میں نماز پڑھائی تو لوگ مسرت سے بے قابو ہوکر چلائے کہ ’’یہ نماز ٹھیک ویسی ہے جیسی رسول ؐ پڑھاتے تھے‘‘۔ ہم نے ایک عرصۂ دراز کے بعد رسول ؐ کی نماز دیکھی ہے۔ ایسے تاثرات ظاہر کرنے والوں میں عمران بن حصین(صحیح بخاری، ج۲، ص 418-419۔ صحیح مسلم، ج۱، ص 129)، ابوموسیٰ اشعری(سنن ابن ماجہ (مع اردو ترجمہ)، ج۱ ، ص319) اور ابوہریرہ(یزید نامہ، ص 110۔ حبیب السیر، حاشیہ فوائد جونپوری) کے نام قابل ذکر ہیں۔
اسلام میں معاویہ پہلا شخص تھا جس نے تجارت میں سود صرف لیا ہی نہیں بلکہ اس کو شرعی حیثیت سے جائز بھی بنانا چاہا(صبح صادق، نظام الدین شرح نہج البلاغہ ، ج۵، ص 253۔ دراسۃ اللبیب، ص 62-63) ۔ وہ کھلم کھلا شراب(مسند احمد بن حنبل، ج۵۔ اوائل السیوطی) گانے بجانے اور رقص و سرور سے لطف اندوز ہوتا تھا حالانکہ ان چیزوں کو اسلام میں صاف صاف حرام قرار دیا گیا ہے(مسند ابویعلی۔ تاریخ ابوالفدا٫ ۔ محاضرات امام راغب اصفہانی ۔ اوائل السیوطی) ۔
اس نے رسول ؐ کے ابن عم، داماد اور خلیفہ حضرت علیؑ پر سبّ و شتم کی بدعت جاری کی اور یہ شرمناک سلسلہ مسلمانوں میں پہلی صدی ہجری کے آخرتک جاری رہا(صحیح مسلم ، ج۲، ص 162۔ تاریخ الخلفا٫ ، ص 166۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی، ج۲، ص 225 و ج ۴، ص 15۔ شرح مشکوۃ عبدالحق دہلوی، ص 300۔ منہاج السنۃ ابن تیمیہ ، ج۳، ص 178۔ حیوۃ الحیوان دمیری، ج۱، ص 63۔ مروج الذہب، ج۳، ص 120۔ تاریخ طبری ، ج۱، ص 92۔ تاریخ ابوالفدا٫۔ ج۱ ،ص 192- العقدالفرید ابن عبد ربہ، ۳، ص ۱۲۶۔ سیرۃ النبی شبلی نعمانی، ج۱، ص۶۱، تاریخ روضۃ الصفا، ج۲، ص ۵)۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت علیؑ وہ ہیں جن کی مودت قرآن اور احادیث رسول ؐ کے مطابق ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علیؑ سے محبت رسول ؐ سے محبت ہے اور علیؑ سے عداوت رسول ؐ سے عداوت ہے۔ علیؑ سے صلح و آشتی رسول ؐ سے صلح و آشتی اور علیؑ سے جنگ رسول ؐ سے جنگ ہے اور علیؑ پر سب و شتم رسول ؐ پر سب و شتم ہے(مسند ابویعلی، معجم طبرانی، مسند احمد بن حنبل، صواعق محرقہ ابن حجر مکی، مشکوۃ المصابیح، ص555-557) ۔
معاویہ نے قرآن و اسلام کے مسلمہ قوانین کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے جمعہ کے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ حکومت کی کل آمدنی اس کی ذاتی ملک ہے اور اس کا مسلمانوں میں تقسیم کرنا یا نہ کرنا اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ اگر وہ اس میں سے کسی کو کچھ دینا چاہے تو اس کی مرضی اور اگر ایسا نہ کرے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہےکہ اس کے متعلق پوچھے کیونکہ یہ اس کی ذاتی دولت ہے(میزان الاعتدال ، امام ذہبی) ۔
یہ چند مثالیں صاف طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ معاویہ نے کس طرح نہ صرف عبادت میں بلکہ اسلام کے ہر شعبہ میں تبدیلی کرنی چاہی، اگر وہ پوری طرح اس میں کامیاب نہ ہوسکا تو اس کی واحد وجہ امام حسن ؑ کی الہی سیاست تھی۔
تذکرہ
یہ بھی کہتا چلوں کہ امام حسنؑ کی سیاست اس حیثیت سے بھی کامیاب رہی کہ اس کی وجہ سے سچے مومنین اور منافقین میں پوری طرح تمیز ہوگئی۔ امام حسن ؑ کے پدر بزرگوار کی زندگی کے آخری چار برسوں میں سب مسلمان ان کو مسلم حکومت کا سربراہ مان رہے تھے۔ اس میں کچھ لوگ وہ تھے جو آپ کو منصوص من اللہ کی حیثیت سے مانتے تھے اور اکثریت ان کی تھی جو آپ کو اجتماعی خلیفہ مانتے تھے۔ مختلف نظریات رکھنے والے آدمیوں کے اس جم غفیر سے دین کو کوئی فائدہ نہ تھا۔ جیسا کہ حالات نے پوری طرح ظاہر کردیا۔ معاویہ کے ساتھ امام حسن ؑ کی مصالحت نے اس بے یقینی کی کیفیت کو ختم کردیا۔ اور امام حسنؑ کے ساتھ اب صرف وہی سچے مومنین رہ گئے جن کا عقیدہ دنیاوی سیاست کی قلابازیوں کے ساتھ بدلنے والا نہ تھا۔
انسان معاویہ کے دور کی اتنی تاریخ کا مطالعہ کرےتو شاید یہ سوچنے لگے کہ اسلام کا اس سے زیادہ انحطاط ناممکن تھا۔ لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی اس ڈرامہ کا آخری پردہ نہیں اٹھا ہے۔ اس کے منصوبوں میں سب سے زیادہ نفرت انگیز منصوبہ یزید کو اپنا جانشین مقرر کرنا تھا۔ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لئے اس نے ہر ممکن تدبیر اختیار کی، چاہے وہ رشوت ہو یا زبردستی ۔ چال بازی ہو یا دروغ بافی، زہرخورانی ہو یا کھلم کھلا قتل و غارت(تاریخ روضۃ الصفا، ج۳، ص 25-31۔ تاریخ کامل، ص 201، تاریخ الخلفا، ص 133) ۔
اس منحوس جانشینی کے اعلان کے چند برسوں بعد مسلمانوں کا حکمراں اپنے کو جانشین رسول ؐ کہنے والا، معاویہ اپنے گلے میں صلیب لٹکائے ہوئے اس دنیا سے اٹھا(محاضرات امام راغب اصفہانی)۔ اب یزید پوری اسلامی مملکت کا حاکم مطلق تھا جو شمال میں آذربائیجان سے جنوب میں یمن تک اور مغرب میں مصر تک، تو مشرق میں ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔
یزید کے عقائد و اعمال
رسول ؐ کے اس نام نہاد خلیفہ کا کیرکٹر کیسا تھاْ وہ ایک ایسا آدمی تھا جو کھلم کھلا رسول ؐ کی رسالت سے انکار کرنا تھا۔ اس نے ان چند اشعار میں اپنے عقیدہ کو صاف ظاہر کیا ہے۔
’’بنی ہاشم اور رسول ؐ اور ان کے خاندان والوں نے حکومت حاصل کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا تھا، حقیقت میں ان کے پاس نہ تو کوئی فرشتہ آیا تھا اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی‘‘۔
اس غلط عقیدہ میں سرشار وہ اسلام و کفر کی پوری کشمکش کو دو خاندانوں کی جنگ سمجھتا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سماتا کہ وہ اپنے آبا٫ و اجداد کا قصاص رسول ؐ کے خاندان والوں سے لینے میں کامیاب ہوگیا۔
’’کاش میرے اسلاف زندہ ہوتے جو جنگ بدر میں قتل کئے گئے اور دیکھتے کہ ان کے مخالفوں (اہل بیت رسول ؐ) پر کیسے کیسے ظلم ڈھائے گئے تو وہ خوشی سے چلا اٹھتے کہ ’’اے یزید! تیرے ہاتھ کبھی شل نہ ہوں‘‘ ہم نے ان کے سردار کو قتل کیااور اس طرح ان سے بدر کا قصاص لے لیا ہے، اور میں خندف کی اولاد کہے جانے کا مستحق نہیں تھا اگر میں محمد ؐ اور ان کے خاندان والوں سے بدلہ لینے میں چوک جاتا‘‘(تاریخ کامل ابن اثیر، ج۷، ص ۱۶۰۔ تاریخ خمیس، ج۲، ص ۱۸۴۔ تاریخ ابن الوردی، ج۱، ص ۲۴۴۔ تاریخ الخلفا٫، ص ۱۲۹۔ اور دوسری کتب تاریخ اسلامی) ۔
رسول ؐ اور اسلام کے متعلق اس کے عقیدے کو ظاہر کرنے کے لئے اتنا کافی ہے ، اب کچھ اشعار اسلام کے دوسرے ارکان کے بارے میں سنئے۔
قیامت: ’’اے میری محبوبہ! (مرنے کے بعد پھر ملاقات ہونے کا یقین نہ کرے) کیونکہ مرنے کے بعد روز قیامت پھر سے زندہ ہونے کے متعلق تو نے جو کچھ سنا ہے وہ صرف ایک خیالی افسانہ ہے جو اس حقیقی دنیا کی سچی خوشی سے دل کو غافل کردیتا ہے‘‘۔
شراب اور عبادت: ’’تمہارے خدا نے یہ نہیں کہا ہے کہ جہنم ان لوگوں کے لئے ہے جو شراب پیتے ہیں بلکہ اس نے کہا کہ کہ ’’جہنم ان لوگوں کے لئے ہے جو نماز پڑھتے ہیں‘‘(ذبح عظیم، اولاد حیدر فوق، ص561) ۔
ان کفریات کے پس منظر میں اس کے غلط کارناموں کو بھی بتانا ضروری ہے ۔
تاریخ انسانی کے سب سے بڑے المیہ یعنی ’’سانحۂ کربلا‘‘ سے قطع نظر اس نے ان گنت کام ایسے کئے جن میں کوئی بھی اس بات کے لئے کافی ہے کہ اس پر ہمیشہ لعنت بھیجی جائے۔
یہاں صرف دو مثالیں اس کی ان غلب کاریوں کی دے رہا ہوں جن میں وہ کامیاب نہ ہوسکا لیکن اس کی کوشش اس کے کیرکٹر کو صاف ظاہر کرتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ معاویہ کا نامزد ولیعہد تھا۔
سب سے پہلے اس نے رسول ؐ کی زوجہ جناب عائشہ سے شادی کرنی چاہی(مدارج النبوۃ محدث دہلوی) اس وقت حضرت عائشہ کا سن پچاس سال سے زیادہ تھا۔ اس خواہش کا واحد مقصد صرف یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ رسول ؐ اورقرآن کی ہتک حرمت کرنا چاہتا تھا کیونکہ قرآن نے رسول ؐ کی ازواج سے شادی کرنا مسلمانوں کے لئے حرام قرار دیا ہے(سورہ احزاب، آیہ۶)۔ اور مسلمانوں کی توہین مقصود تھی جو ازدواج رسول ؐ ’’امهات المؤمنین‘‘ بحکم قرآن کہتے ہیں۔
وہ اپنی اس خواہش میں اپنے باپ کی وجہ سے باز آیا۔ جو ایک چالاک سیاست داں تھا۔ اور اچھی طرح جانتا تھا کہ اس اشتعال انگیزی کی وجہ سے یزیدکی خلافت کے تمام مواقع ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں گے۔
دوسرے اس نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ خدا کے گھر یعنی کعبہ کی چھت پر شراب پئے۔ اس موقع پر بھی اس کے دوستوں اور مشیروں نے اس ارادے سے باز رکھا(ذبح عظیم، ص 588) ۔
خلافت ملنے کے بعد اس نے کھل کر اسلامی عبادات کا مذاق اڑانا شروع کیا (جیسا پہلے بتایا جا چکا ہے) اس نے کتوں اور بندریوں کو مذہبی رہنماؤں کے لباس پہنائے ۔ قماربازی اور بھالوؤں کے ساتھ کھیلنا اس کی وقت گذاری کا پسماندہ مشغلہ تھا۔ وہ اپنا سارا وقت ہر جگہ اور ہر موقع پر شراب نوشی میں بلا جھجھک گذارتا تھا۔ اس کی نگاہ میں کسی عورت کی کوئی حرمت نہ تھی یہاں تک کہ محرمات یعنی ماں، بہنیں، پھوپھیاں، بھتیجیاں وغیرہ بھی اس کی نظر میں عام عورتوں کی طرح تھیں(تاریخ الخلفا٫ سیوطی، صواعق محرقہ ابن حجر مکی، تمانچہ بر رخسار، ص 39) ۔
مدینہ کی غارت گری
اس نے مدینہ پر فوج کشی کی اور رسول خدا ؐ کا یہ مقدس شہر آزادانہ لوٹا گیا، تین سو کنواری لڑکیاں (دوسری عورتوں کے علاوہ) ان کی ہوس کا نشانہ بنیں۔ تین سو قاریان قرآن اورسات سو صحابۂ رسول ؐ بے رحمی کے ساتھ شہید کردئیے گئے ۔ رسول ؐ کی مقدس مسجدکئی دنوں تک بند رہی۔ اور یزید کی فوج نے اسے اصطبل کے طور پر استعمال کیا۔ کتوں نے اسے اپنی جائے پناہ بنایا جن کی گندگی سے رسول ؐ کا پاک منبر بھی نہ بچ سکا(تاریخ ابوالفدا٫ ، ص 466۔ تذکرہ خواص الامہ، سبط ابن جوزی) ۔ آخرکار فوج کے سپہ سالار نے مدینہ کے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ یزید کی بیعت ان الفاظ میں کریں کہ: ’’ہم یزید کے غلام ہیں اور اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ چاہے تو ہمیں ہماری آزادی واپس دے، چاہے تو ہمیں غلاموں کی منڈی میں بیچ دے ‘‘ اور جن لوگوں نے اس بات پر بیعت کرنی چاہی کہ ’’یزید قرآن اور احادیث رسول ؐ کی پیروی کرے گا‘‘ انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا(تاریخ ابوالفدا٫۔ تذکرہ خواص الامہ، سبط ابن جوزی۔ تاریخ روضۃ الصفا، ج۲، ص 66)۔ یہاں پر یہ بتانا بیجا نہ ہوگا کہ رسول ؐ کی حدیث ہے کہ:
’’جس نے مدینہ کے لوگوں کو ڈرایا اس پر خدا کی دائمی لعنت ہے‘‘(الرد علی التعصب، ابن جوزی) ۔
مکہ کا محاصرہ
اس کےبعد یزید کے حکم سے فوج مکہ روانہ ہوئی۔ اور ان لوگوں نے خدا کے مقدس شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ فوج شہر میں داخل نہیں ہوسکی اس لئے انہوں نے منجنیق کا استعمال کیا اور اس کی مدد سے کعبہ کو پتھروں اور جلتی لکڑیوں کا نشانہ بنایا۔ کسوۃ یعنی غلاف کعبہ نذر آتش ہوگیا اور مقدس کعبہ کا ایک حصہ زمین پر آرہا۔(تذکرہ خواص الامہ، تاریخ طبری، تاریخ روضہ الصفا، ج۳، ص 67) ۔
اس طرح ہم اس دور تک آپہونچے ہیں جہاں ہر اسلامی چیز پر اصول دین سے مقدس عبادات تک، خانگی زندگی سے سماجی نظام تک پر حملہ ہورہا تھا۔ اور انہیں برباد کیا جارہا تھا۔
کس کے ذریعہ؟
یزید کے ذریعہ جسے ان کا نگہبان و محافظ فرض کیا جاتا تھا۔
اور سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ ان بدعتوں میں سے کچھ چیزیں یقینا اسلامی سمجھ کر جزو اسلام بنا دی جاتیں کیونکہ پچھلے پچاس برسوں میں لوگوں کو اس بات کا عادی بنا دیا گیا تھا کہ حکمراں جو کام کرے اسے اسلام کا معیار حقیقی سمجھ لیاجائے۔ آج اسلام کا کہیں پتہ نہ ہوتا اگر امام حسنؑ اس ذہنیت پر بریک نہ لگایا ہوتا اور امام حسین ؑ کھل کر سربراہ حکومت (یعنی یزید لعین) کے مقابلے کے لئے سامنے نہ آگئے ہوتے۔
امام حسین ؑ کے مصائب
کسی دوسرےشخص میں نہ تو اتنی ہمت تھی اور نہ کسی کو اسلام سے اتنی محبت تھی، نہ اسلام کے متعلق کسی پر اتنی ذمہ داری عائد ہوتی تھی جتنی امام حسینؑ پر تھی حسینؑ رسول ؐ کے نواسے تھے۔ علیؑ و فاطمہ ؑ کے لخت جگر تھے اور امام حسنؑ کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ ان سب کے وارث اور جانشین تھے۔ اسلام وہ دین تھا جو ان کے نانا لے کر آئے تھے اور قائم کیا تھا ۔ شروع ہی سے یہ خاندان اسلام کا بے لوث محافظ رہا۔ اسلام کے لئے اس خاندان والے ہر قربانی دے سکتے تھے۔ اور بارہا جو کچھ ان کے پاس تھا یہان تک کہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان تک اسلام کے لئے قربان کرچکے تھے۔ امام حسینؑ تو ان کے عادی تھے کہ اسلام کی قربان گاہ پر ہر چیز نثار کردی جائے ۔ انہوں نے اسلام کو خطرہ میں دیکھا اور اس کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ سب سے بہتر موقع ہے کہ اسلام کے ایک موثرترین اور آخری قربانی پیش کردی جائے تاکہ اسلام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہر خطرہ سے آزاد ہوجائے۔ اس لئے آپ اپنے کچھ منتخب رشتہ داروں اور صحابیوں کے ساتھ جن کی تعداد عورتوں اور بچوں سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ نہ ہوگئی، کربلا آئے۔
دنیا جانتی ہے کربلا میں کیا ہوا؟ اور کس طرح اور کس طرح امام حسینؑ اور ان کے اصحاب اور ان کے اقربا٫ نے (جن میں چھ مہینے کا معصوم بچہ بھی شامل ہے)، ۱۰ محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو جام شہادت نوش فرمایا؟ کس طرح انہوں نے ۷ محرم سے ۱۰ محرم تک بھوک و پیاس کی شدت جھیلی؟ کس طرح ان کے خیموں کو جلایا گیا اور ان کے اثاث البیت کو لوٹا گیا؟ کس طرح ان کے اہل حرم کو جن میں عورتیں ایک بیمار بیٹا اور کئی چھوٹے چھوٹے بچے تھے اسیر کیا گیا؟ اور کس طرح کوفہ اور دمشق میں ابن زیاد ملعون اور یزید ملعون کے درباروں میں پیش کیا گیا؟ کس طرح انہوں نے ایک سال تک قید کی اذیت برداشت کی اور کیسے اس کے بعد رہا ہوئے؟ یہ سب حقیقتیں بالکل آشکارا ہیں۔ اور میں یہاں ان کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتا ۔
امام حسین ؑ نے امامت و سلطنت کی علیحدگی کو آخری شکل دے دی
امام حسینؑ شہید کردئیے گئے ۔ بظاہر یزید فاتح رہا لیکن صرف بظاہر ہے، در اصل یہ حسینؑ تھے جو فاتح رہے۔ اور انہوں نے اپنی کامیابی کی داستان کربلا کے ریگ زار پر اپنے پاک خون سے لکھی، ان کی اس کامیابی کے کئی رخ تھے لیکن یہاں مجھے صرف ایک کا تذکرہ کرنا ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے، یزید لعین مسلم حکومت کا حکمران تھا۔ اور سابق کے تین خلفا٫ کے قائم کردہ اصول کے مطابق اس کا ہر عمل اسلام کا معیار اور مذہب کا حقیقی ترجماں سمجھا جانا چاہئے تھا۔
امام حسین ؑ کے پاس ایسی کوئی سیاسی سند نہ تھی لیکن وہی واحد شخصیت ایسی تھی جو یزید لعین (سربراہ حکومت،بادشاہ)کے مقابلےمیں آئے اور اسے ’’باغی‘‘ نہ کہا جاسکے کیونکہ ان کو خدا اور رسول ؐ کی طرف سے ہر وہ سند حاصل تھی جو ان کے بڑے بھائی امام حسنؑ کو ملی تھی اور رسول مقبول ؐ کی اس حدیث نے کہ ’’حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں‘‘(ذخائر العقبی، امام الحرمین، مسند احمد بن حنبل، صحیح بخاری، سنن ابن ماجہ، ارجح المطالب، عبیداللہ امرتسری، صحیح ترمذی، مشکوۃ المصابیح، ص563۔ اسدالغابہ، ابن اثیر)۔ اس بات کو ظاہر کردیا تھا کہ حسینؑ کا ہر کام بذات خود رسول ؐ کا کام ہے۔
اس لئے جب لوگوں کو سانحۂ کربلا کا علم ہوا تو ان کا دل کسی طرح اس بات کو ماننے پر آمادہ نہ ہوسکا کہ حسینؑ غلطی پر رہے ہونگے کیونکہ حسینؑ کو غلطی پر کہنا (معاذاللہ) رسول ؐ کو غلطی پر کہنے کے مترادف تھا اس لئے یزید لعین ساری اسلامی دنیا میں ہدف لعنت و ملامت بنا۔
اس طرح مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا سلسلہ جو امام حسینؑ سے شروع ہوا، شہادت امام حسینؑ پر آکر ممکل ہوا۔ یہ ایک مسلسل کڑی تھی۔ امام حسنؑ کی صلح اور امام حسینؑ کی جنگ ایک دوسرے کا جزو لازم ہیں۔ اور ایک کو دوسرے سے الگ کرکے صحیح طریقہ سے سمجھنا ناممکن ہے۔
حدیث میں ہے کہ امام حسنؑ کے جسم کا بالائی حصہ اور امام حسینؑ کے جسم کا حصۂ زریں رسول اکرم ؐ سے مشابہ تھا۔ شاید خدا نے اسے اس امر کی علامت قرار دیا تھاکہ رسول ؐ کا صحیح اور پورا مذہب جاننے کے لئے ان دونوں نواسوں کی زندگی کا ایک ساتھ مطالعہ ضروری ہے۔ ان دونوں بھائیوں نے مل کر اسلام کو ہمیشہ کے لئے حکمرانوں کی من مانی حرکات سے آزاد کرادیا۔
امام حسینؑ نے عوام کے سوچنے اور سمجھنے کی رو کو صحیح رخ پر موڑ دیا۔ حسین ؑ کی شہادت کے بعد سے سیاسی طاقت کا مطلب مذہبی اقتدار نہیں رہا۔ کربلا کے بعد دنیاوی حکمراں کا یہ منصب نہ رہا کہ اس کا عمل اسلامی قانون بن جائے۔ کوئی بھی شخص اجماع یا نامزدگی کے ذریعہ بادشاہ ہوسکتا ہے کوئی بھی شخص قہر و غلبہ کے ذریعہ تخت حکومت پر بیٹھ سکتا ہے لیکن عوام کا حاکم بن جانا اور ہے، مذہب کا رہنما بننا چیز دیگری ہے۔ اول الذکر کا سرچشمہ عوام ہیں اور آخر الذکر کا منبع خدا کی طرف سے ہے۔ امام حسینؑ نے بالآخر اسلامی دنیا کی آنکھ ہمیشہ کے لئے کھول دی۔
امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے اسلام کو بادشاہوں کی غلامی سے نجات دلائی اور اس طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے انحطاط و زوال سے بچا لیا۔ بادشاہ آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے لیکن اسلام ہمیشہ باقی رہے گا۔ اور اسلام کے ساتھ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے مقدس نام بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔