
امام کے علم کی حقیقت اور دائرہ کار آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی کی نظر میں
تحریر: مولانا سید شهاب سلمان رضوی کراروی۔ طالبعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
فہرست مندرجات
1- قرآن کی روشنی میں امام کے علم کے بنیادی اصول آیت اللہ جوادی آملی کی نظر میں
۱-۱۔ حضرت خضرؑ کا الہٰی علم اور علمِ لدنی کی امکانیت
۱-۲۔ پیغمبروں اور ائمہ کا مخصوص علم
۱- ۳ آیتِ تطہیر: عصمت اور علم کا باہمی تعلق
2- قرآن کی روشنی میں امام کے علم کے بنیادی اصول آیت اللہ جوادی آملی کی نظر میں
۱-۱۔ حضرت خضرؑ کا الہٰی علم اور علمِ لدنی کی امکانیت
۱-۲۔ پیغمبروں اور ائمہ کا مخصوص علم
۱-۳۔ آیتِ تطہیر: عصمت اور علم کا باہمی تعلق
3- دلائل روائی علم امام آیة الله جوادي كي نظر ميں
3-۱۔ علم امام کی تائید میں متعدد احادیث
3-۲ وحی اور الہام کے ذریعے علم
4- آیت اللہ جوادی آملی کے فلسفی اور عرفانی تجزیے
خلاصہ
امام کے علم کا مسئلہ شیعہ کلامیات میں ایک بنیادی بحث ہے جو امامت کے مقام کی وضاحت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی، ایک معاصر ممتاز شیعہ عالم، عقلی، قرآنی اور حدیثی بنیادوں پر امام کے علم کے بارے میں ایک جامع اور منظم نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک امام کا علم نہ صرف ذاتی اور الہامی ہے بلکہ معصوم اماموں کی تکوینی و تشریعی ولایت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس مقالے میں آیت اللہ جوادی آملی کی تحریروں اور تقریروں کے حوالے سے امام کے علم کی حقیقت، اس کا دائرہ کار، اقسام، عصمت و ولایت سے اس کا تعلق، نیز قرآنی و حدیثی دلائل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
کلیدی الفاظ
امام کا علم، آیت اللہ جوادی آملی، تکوینی ولایت، عصمت، علم لدنی، قرآن، حدیث
تمہید
شیعہ فکر میں امامت رسالت کی تسلسل ہے، اور امام تشیع کے معرفتی و وجودی نظام میں ایک بلند و منفرد مقام رکھتا ہے۔ معصوم امام کی اہم خصوصیات میں سے ایک اس کا الہامی و ہمہ گیر علم ہے، جسے “لدنی علم” یا “الہامی علم” کہا جاتا ہے۔ یہ علم امامت کے مکمل تحقق کے لیے لازم شرط سمجھا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں امام کے علم کی ماہیت اور حدود کا جائزہ اہم ترین کلامی مباحث میں شامل ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی، قرآن کے مفسر، فلسفی اور معاصر متکلم، اپنی متعدد تحریروں میں اس نظریے کی وضاحت اور دفاع کرتے ہیں کہ معصوم امام کو حضوری، شهودی، ہمہ گیر اور الہامی علوم حاصل ہیں۔ ان کے مطابق امام کا علم نہ صرف دینی امور بلکہ اشیاء کے باطن، غیب، مستقبل کے واقعات اور انسانوں کی حقیقت تک محیط ہے۔ وہ قرآن کی آیات، اہل بیت کی احادیث نیز فلسفی و عرفانی اصولوں کی بنیاد پر اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں۔
یہ مقالہ توصیفی-تجزیاتی طریقہ کار اور آیت اللہ جوادی آملی کے اصلی اسلامی مصادر و تحریروں پر انحصار کرتے ہوئے امام کے علم کی ایک جامع تصویر پیش کرتا ہے۔ پہلے امام کے علم کے مختلف نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے، پھر آیت اللہ جوادی آملی کے قرآنی، حدیثی، فلسفی اور عرفانی تجزیے کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
1- قرآن کی روشنی میں امام کے علم کے بنیادی اصول آیت اللہ جوادی آملی کی نظر میں
آیت اللہ جوادی آملی اپنی قرآنی تفسیرات خصوصاً تفسیر “تسنیم” میں نظامِ وحی کے تحت امام کے مقام کو واضح کرتے ہیں۔ آپ کا ماننا ہے کہ قرآن کریم متعدد مقامات پر اللہ کے خاص بندوں (پیغمبروں اور ائمہ) کو عطا کردہ علمِ خاص کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۱-۱۔ حضرت خضرؑ کا الہٰی علم اور علمِ لدنی کی امکانیت
سورہ کہف کی آیت ۶۵ میں حضرت موسیٰؑ اور خضرؑ کی ملاقات کا ذکر ہے:(فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا)؛ “پس انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی تھی اور اپنے پاس سے علم سکھایا تھا” ۔
جوادی آملی کے مطابق: “خضرؑ کو عطا کردہ علم نہ تو مکتسب ہے نہ اکتسابی، بلکہ الہٰی، مشاہداتی اور حضوری علم ہے جو اللہ کی جانب سے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔ یہ علم ولایتِ تکوینی کے تحقق کا ذریعہ ہے” (تفسیرتسنیم، ج۱۳، ص۳۵۶)
وہ فرماتے ہیں کہ اگر خضرؑ جیسے غیر نبی بھی یہ علم رکھ سکتے ہیں تو امام معصوم، جو زمین پر اللہ کی حجت ہیں، اس علم کا زیادہ حقدار ہے۔
۱-۲۔ پیغمبروں اور ائمہ کا مخصوص علم
آیات جیسے:(فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا)؛ “ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا” (انبیاء:۷۹)
اور “ہم نے اپنے پاس سے علم سکھایا” (کہف:۶۵) کی روشنی میں، جوادی آملی کا موقف ہے کہ حقیقی علم کا منبع صرف اللہ ہے، اور یہ علم ولایت و خلافتِ الہٰی کے تحت عطا ہوتا ہے۔ امام معصومؑ، جو پیغمبرؐ کے وارث اور جانشین ہیں، وہی الہٰی علم رکھتے ہیں
“اگر پیغمبروں کے لیے خلافتِ الہٰی، علمِ لدنی کا تقاضا کرتی ہے تو امام کے لیے، جو اپنے زمانے کی حجتِ خدا ہے، یہ علم ضروری تر ہے” (تفسیری دروس، ج۲، ص۱۴۰) ۔
۱- ۳ آیتِ تطہیر: عصمت اور علم کا باہمی تعلق
آیتِ تطہیر ( إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرً) ؛ (“اللہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے ہر ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں پاک رکہے جیسا پاک رکہنے کا حق ہے”۔ الاحزاب:۳۳) کے بارے میں جوادی آملی فرماتے ہیں: “رجس (ناپاکی) ہر ظاہری و باطنی آلودگی کو شامل ہے۔ غیر لدنی علم شک اور خطا سے آلودہ ہوتا ہے، لہٰذا امام کا علم لدنی ہونا ضروری ہے” (تسنیم، ج۱۶، ص۴۱۰)۔
یعنی امامؑ نہ صرف گناہوں سے پاک ہیں بلکہ دین کی سمجھ میں کسی غلطی یا جہالت سے بھی محفوظ ہیں
2- قرآن کی روشنی میں امام کے علم کے بنیادی اصول آیت اللہ جوادی آملی کی نظر میں
آیت اللہ جوادی آملی اپنی قرآنی خصوصاً تفسیر “تسنیم” میں نظامِ وحی کے تحت امام کے مقام کو واضح کرتے ہیں۔ آپ کا ماننا ہے کہ قرآن کریم متعدد مقامات پر اللہ کے خاص بندوں (پیغمبروں اور ائمہ) کو عطا کردہ علمِ خاص کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۱-۱۔ حضرت خضرؑ کا الہٰی علم اور علمِ لدنی کی امکانیت
سورہ کہف کی آیت ۶۵ میں حضرت موسیٰؑ اور خضرؑ کی ملاقات کا ذکر ہے:(فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا)؛ “پس انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی تھی اور اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔
“خضرؑ کو عطا کردہ علم نہ تو مکتسب ہے نہ اکتسابی، بلکہ الہٰی، مشاہداتی اور حضوری علم ہے جو اللہ کی جانب سے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔ یہ علم ولایتِ تکوینی کے تحقق کا ذریعہ ہے”(تسنیم، ج۱۳، ص۳۵۶)
وہ فرماتے ہیں کہ اگر خضرؑ جیسے غیر نبی بھی یہ علم رکھ سکتے ہیں تو امام معصوم، جو زمین پر اللہ کی حجت ہیں، اس علم کا زیادہ حقدار ہے۔
۱-۲۔ پیغمبروں اور ائمہ کا مخصوص علم
آیات جیسے (فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا)؛ “ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا” (انبیاء:۷۹) اور “ہم نے اپنے پاس سے علم سکھایا” (کہف:۶۵) کی روشنی میں، جوادی آملی کا موقف ہے کہ حقیقی علم کا منبع صرف اللہ ہے، اور یہ علم ولایت و خلافتِ الہٰی کے تحت عطا ہوتا ہے۔ امام معصومؑ، جو پیغمبرؐ کے وارث اور جانشین ہیں، وہی الہٰی علم رکھتے ہیں۔
“اگر پیغمبروں کے لیے خلافتِ الہٰی، علمِ لدنی کا تقاضا کرتی ہے تو امام کے لیے، جو اپنے زمانے کی حجتِ خدا ہے، یہ علم ضروری تر ہے” (تفسیری دروس، ج۲، ص۱۴۰)۔
۱-۳۔ آیتِ تطہیر: عصمت اور علم کا باہمی تعلق
آیتِ تطہیر ( إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرً) ؛ (“اللہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے ہر ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں پاک رکہے جیسا پاک رکہنے کا حق ہے”۔ الاحزاب:۳۳) کے بارے میں جوادی آملی فرماتے ہیں: “رجس (ناپاکی) ہر ظاہری و باطنی آلودگی کو شامل ہے۔ غیر لدنی علم شک اور خطا سے آلودہ ہوتا ہے، لہٰذا امام کا علم لدنی ہونا ضروری ہے” (تسنیم، ج۱۶، ص۴۱۰)۔
یعنی امامؑ نہ صرف گناہوں سے پاک ہیں بلکہ دین کی سمجھ میں کسی غلطی یا جہالت سے بھی محفوظ ہیں
3- دلائل روائی علم امام آیة الله جوادي كي نظر ميں
امام کے علم پر اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں واضح تاکید ملتی ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی نے ان احادیث کی تشریح میں درج ذیل نکات بیان کیے ہیں:
3-۱۔ علم امام کی تائید میں متعدد احادیث
امام علی (ع) کی مشہور حدیث:
“أنا مدینة العلم و علیٌّ بابها”؛ (علم کا شہر میں ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں)۔
آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق یہ حدیث اس حقیقت پر زور دیتی ہے کہ حقیقی علم صرف امامت کے گھرانے میں پایا جاتا ہے، جو خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
3-۲ وحی اور الہام کے ذریعے علم
امام علی (ع) کا ارشاد:”ما مِنّا إِلَّا عَالِمٌ بِأوَّلِهِ وَآخِرِهِ”؛ (ہم میں سے ہر ایک ابتدا سے انتہا تک کا عالم ہے)
جوادی آملی کے نزدیک یہ حدیث امام کے ہمہ گیری علم اور خدا سے براہ راست تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔
3-۳ غیب کا علم
امام علی (ع) کا فرمان:”إنّی أعلَمُ بِمَا فِي السَّمَاءِ وَمَا فِي الأَرْضِ”؛ (میں آسمان و زمین کی ہر چیز کا عالم ہوں)۔
جوادی آملی کے مطابق امام کا علم غیبی حقائق تک محیط ہے جو ان کے ولائی مقام کا عکاس ہے۔
4- آیت اللہ جوادی آملی کے فلسفی اور عرفانی تجزیے_
4-۱۔ ولایت تکوینی سے تعلق
ان کے نزدیک امام کا علم “ولایت تکوینی” (کائناتی اختیارات) کا مظہر ہے، جو عالم ہستی کی تدبیر میں کلیدی کردار رکھتا ہے۔
4-۲۔ عصمت کا ربط
جوادی آملی کے مطابق امام کا علم ان کی عصمت (خطا سے محفوظ ہونے) کا نتیجہ ہے، جس کی بدولت ان کا علم ہر قسم کی غلطی سے پاک ہے۔
سادہ الفاظ میں: آیت اللہ جوادی آملی کے نزدیک امام کا علم خدا کی طرف سے خاص عطا ہے جو احادیث میں بیان کردہ غیب، وحی اور ہمہ گیری صفات پر مبنی ہے، جبکہ یہ علم ولایت تکوینی اور عصمت کا لازمہ ہے۔
نتائج
آیت اللہ جوادی آملی قرآن، احادیث، فلسفے اور عرفانی بنیادوں پر امام کے علم کی حقیقت اور دائرہ کار کو جامع اور منظم طریقے سے واضح کرتے ہیں۔ وہ امام کے علم کو نہ صرف ایک الہامی، وسیع اور مشاہداتی علم قرار دیتے ہیں بلکہ اسے تکوینی حقیقت کے ساتھ امام کی ولایت کے مقام سے منسلک کرتے ہیں۔ ان کےنزدیک، امام کا علم اس قدر وسیع ہے کہ وہ کائنات کے تمام معاملات میں دخیل ہوتا ہے اور غیب و مستقبل کے علوم سے بھی آگاہ رہتا ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی امام کے علم اور عصمت کے باہمی تعلق پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام کا علم ہر قسم کی غلطی اور بھول سے پاک ہے۔ وہ اہل بیتؑ کی احادیث کی روشنی میں امام کے علم کو ایک فطری اور الہامی خصوصیت قرار دیتے ہیں جو ولایت تکوینی کے ساتھ مل کر امت کی ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ نظریات امام کے علم کو نہ صرف دینی حقیقت بلکہ فلسفی و عرفانی اصول کے طور پر اہم بناتے ہیں، جسے شیعہ فکر میں امامت کا ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔
منابع و مأخذ
۱. جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، ج۱۶، قم: اسراء پبلیکیشنز، ۱۳۹۲۔
۲. جوادی آملی، عبداللہ، فلسفی دروس، تہران: حکمت پبلیکیشنز، ۱۳۹۱۔
۳. جوادی آملی، عبداللہ، ولایت، قم: اسراء پبلیکیشنز، ۱۳۹۰۔
۴. جوادی آملی، عبداللہ، عصمت در فلسفہ اسلامی، تہران: حکمت پبلیکیشنز، ۱۳۹۳۔
۵. شریف، علی، الکافی، ج۱، ص۵۴۵، تہران: دار الکتب الاسلامیہ۔
۶. نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، خطبہ ۱۳ اور ۲۲۔
۷. کنز العمال، متقی ہندی، ج۱، ص۴۸۳۔